
با لاآخر وہ موقع بھی آگیا جس کا سعودی ولی عہد شاہ محمد بن سلمان کو طویل عرصے سے انتظار تھا۔ریاستی انتظام کے تحت چلنے والی تیل کی سب سے بڑی کمپنی ’’آرامکو‘‘ نے عوام کے لیے اپنے حصص کو پیش کردیا ہے۔اگرچہ عوم کی جانب سے اس پیشکش کواس طرح نہیں سراہا گیا جیسا کہ امید کی جا رہی تھی۔
فی الوقت آرامکو کو صرف مقامی اسٹاک ایکسچینج کمپنی تداول میں رجسٹرڈ کیا جائے گا۔شیئرز کو مقامی مارکیٹ تک محدود رکھنے کی وجہ شاہی خاندان میں اختلاف ہے، اسی وجہ سے اس عمل کو موٗخر کیا گیا تھا۔سعودی عرب کی اس اہم ترین کمپنی کی شیئرز کو بین الاقوامی اسٹاک مارکیٹ تک رسائی نہ دینے کی ایک وجہ اسکروٹنی کا سخت نظام اور سعودی عرب کا کئی دہائیوں سے جاری اپنی قومی شناخت پر افتخار اور قومیانے کا عمل ہے۔
تاہم اس محدود پیشکش کے آغاز سے محمد بن سلمان کی مستقبل کی ترجیحات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ محمد بن سلمان کی خواہش ہے وژن ۲۰۳۰ء کی تکمیل کے لیے عوامی سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جائے۔کثیر جہتی معاشی منصوبے اور اپنے ارادے پر استقامت اس بات کی علامت ہے محمد بن سلمان مروجہ روایات کے بر عکس کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں۔تزویراتی سطح پر اس منصوبے کی اہمیت اس لیے بھی اہم ہے کہ ستمبر ۲۰۱۹ء میں آرامکو پر حملے کے بعد سعودی بیانیہ کا سامنے آنا ضروری ہوگیا تھا۔ایران کی جارحانہ پالیسیاں اوررویے نے اس صورتحال کو مزید مشکل بنادیا تھا۔ریاض، اب سنجیدگی سے ان چیلنجز سے نمٹنے کی تیاری کررہا ہے۔
ستمبرسے پیشترریاض میں کچھ افراد کا خیال تھا کہ پاسدارانِ انقلاب براہ راست اس اہم ترین سعودی آئل ریفائنری پر حملہ یا بلا واستہ اس کام میں معاونت کر سکتے ہیں۔ اسی طرح کا الزام سعودی عرب خود، امریکا اور ای تھری بھی ایران پر لگا چکے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی موجودہ حکومت میں سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔سعودی قیادت کی خواہش ہے کہ وہ امریکا کی تخفیف اسلحہ کی پالیسیوں کی افادیت اور اثرات میں پر اعتماد کر سکیں۔ لیکن یہ حقیقت یہ دونوں فریقین کے لیے حیران کن ہو نا چاہیے کہ مذکورہ تخفیف کی پالیسی سے تخفیف اسلحہ تو نہ ہو سکا البتہ امریکا نے پس پردہ رہ کر سعودی عرب کو بہت سارے اقدامات کے لیے تیار کیا۔
اگرچہ سعودی عرب نے کبھی بھی ازخود ایران سے کشیدگی اور تناء و کو نہیں بڑھایا۔ریاض نے حکمت عملی اور صبر و تحمل کے ساتھ اپنے بیانیہ کو پیش کیا تاہم، امریکا کی جانب سے ایران پر معاشی پابندیوں میں اضافے کی حمایت کی تا کہ تہران کو مذاکرات کی میز پر لایا جا سکے۔ستمبر حملے نے اس خطرے کو اور زیادہ واضح کر دیا کہ ایران کے معاملے میں بہت زیادہ امریکی مداخلت معاملے کو مزید پیچیدہ اور مشکل بنانے کا باعث بن سکتی ہے۔ریاض میں موجود کچھ سرکاری حلقوں کا خیا ل ہے کہ چونکہ ٹرمپ پہلے ہی نئے الیکشن کے حوالے سے مصروف ہے اور ممکنہ طور پر سعودی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنی پوزیشن کی بہتری کے لیے ایران سے متعلق معاہدے کو منقطع یا منسوخ کر سکتا ہے۔اس پوری صورتحال میں ریاض کی خواہش ہے مزیدحملوں سے بچا جا سکے۔
سعودی عرب کی اب خواہش ہے کہ ایران کے ساتھ تناؤ اور کشیدگی میں کمی لائی جائے۔ریاض نے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے ذریعے تہران کو امن اور مصالحت کا پیغام بھیجا ہے۔ اندیشہ ہے مذاکراتی اور مصالحتی عمل کے دوران دوسرا حملہ نہ ہو جائے۔سعودی عرب اب زیادہ محتاط اور ذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ کر رہا ہے۔قطر کے ساتھ ۲۰۱۷ء سے کشیدہ تعلقات کو بہتر کرنے کا خواہاں ہے۔ اس سے پیشتر سعودی عرب نے ایران کے حمایت یافتہ یمن کے حوثی باغیوں سے براہ راست مذاکرات سے انکار کر دیا تھا۔ ان حوثی باغیوں کو خدشہ تھا کہ آرامکو حملے کے نتیجے میں انہیں بین الاقوامی مزاحمت اور ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جائے گا۔سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات کے تعاون سے جنوبی یمن کے عبوری کونسل اور عبد منصور ہادی کی حکومت کے درمیان مصالحت میں متحرک کردار اد کیا ہے تاکہ وقتی طور پر ہی صحیح لیکن یمن میں خانہ جنگی سے بچا جا سکے۔
۲۰۱۸ سے اس غلط روایات کا آغازہوا جب سابق وزیر مملکت مسیب الا یبن نے دوباہ سعودی حکومت میں جمال خاشقجی کی قتل کے بعد کلیدی عہدہ حاصل کر لیا، گزشتہ دو مہینے میں اس عمل میں تیزی آئی ہے۔
تاہم سعودی عرب کی جانب سے کیے جانے والے اکثر اقدامات تدبیری سے زیادہ تذویراتی نوعیت کے ہیں۔مغرب کو چاہیے خلیجی طاقتوں کو آگے لائے تاکہ دیرپا اور مستحکم عمل کے ذریعے کشیدہ تعلقات میں بہتری لائی جا سکے۔
سعودی عرب نے اب تک باضابطہ طور پر فرانس کے صدر عمانویل میکرون کی ایران کے ساتھ جوہری توانائی معاہدے کی تجدید کے حوالے سے بات چیت سے انکار نہیں کیا۔اسی مہینے سعودی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ ہم فرانس کے ساتھ تذویراتی سطح پر اشتراک عمل کے فریم ورک پر کام کر رہے ہیں۔
محمد بن سلمان براہ راست ماکروں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ ماکروں اقدامات کے کچھ موانعات اپنی جگہ موجود ہیں:
اول یہ کہ اس سارے عمل میں اگر چہ جرمنی اور کچھ اور مغربی ممالک کی حمایت شامل ہے لیکن اس مرحلے پر یہ بہت ہی ذاتی اور انفرادی نوعیت اور مخصوص ترجیحات کا حامل ہے، اور جس قدر سفارتی سطح پر کوششوں کی ضرورت ہے اس میں بھی کمی ہے۔دوسرا یہ کہ اب تک یہ بھی نہیں معلوم کہ اس سارے عمل میں امریکا کی کتنی اور کیسی حمایت حمایت حاصل ہو گی۔سب سے اہم یہ کہ ایران ایسے کسی بھی مذاکراتی عمل کا حصہ بننے کو تیار نہیں ہوگا جس میں اس کی حیثیت کمزور ہو اور جس سے سعودی عرب کو کسی بھی قسم کا فائدہ حاصل ہو۔
ریاض اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ بات چیت اور مذاکرات ہی کے ذریعے علاقائی طاقتیں آگے بڑھ سکتی ہیں۔انہیں خطے کی بدلتی صورتحال کا ادراک ہونا چاہیے۔ تاہم، وقت، تناظر اور حالات ہی سعودی عرب کی مستقبل کی حیثیت کو متعین کرے گا۔انہی وجوہات کی بناء پر سعودی عرب اس وقت خطے کی دفاعی صورتحال کے حوالے سے کسی بات چیت کے لیے تیار نہیں۔اگر مغرب فرانس کی قیادت میں مزید مستقل نوعیت کے نتائج کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے تدبیری نوعیت سے آگے دیکھتے ہوئے خطے کے ان اہم مسائل پر توجہ دے جس کا تعلق براہ راست یا بالواستہ ایران اور سعودی عرب سے ہے۔مغرب کو خطے کی سیاسی اور جغرافیائی صوتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ایک متوازن اور پائیدار حل کے لیے کوششیں کرنی چاہیے جو کہ پہلے سے زیادہ حقیقت پر مبنی ہو تا کہ اس کے ذریعے مستقبل میں ایران کے کردار کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر ٹھوس بات چیت اور اقدامات کیے جا سکے۔
(ترجمعہ: محمودالحق صدیقی)
“Saudi Arabia’s frozen-conflict tactics”. (“ecfr.eu”. November 7, 2019)
Leave a Reply