پاکستان اور سعودی عرب کے مابین کئی عشروں سے قریبی تعلقات ہیں۔ ان تعلقات کا دائرہ اثر عسکری اور سیاسی حکومتوں کے مابین بھی رہا ہے۔سعودی عرب نے پاکستان کو دل کھول کر معاشی مدد بھی فراہم کی ہے۔ دونوں ممالک نے دفاعی معاملات (defence matters) میں بھی ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔
۱۹۷۰ کے بعد سے سعودی عرب نے پاکستان کو خفیہ سطح پر ایسی مالی مدد بھی فراہم کی ہے، جس کا مقصد اہل حدیث اوردیوبند مدارس میں اسلام کاخالص/ متشدد/ غلوآمیز رُخ (puritanical version) پیش کرنا تھا جو اس روایتی تصور سے مختلف تھا جس پر پاکستان میں ایک عرصے سے عمل کیا جاتا رہا تھا۔ اس مالی مدد کا راست پتا چلانا آسان نہیں۔ اسکالر اور تجزیہ کار اس بارے میں بتاتے ہیں کہ مدارس مذکور کو یہ مالی مدد سعودی عرب میں موجود نجی ذرائع (private sources) سے فراہم کی جاتی ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے ان مدارس کو بھی معاشی مدد فراہم کی گئی ہے جنھوں نے ۱۹۸۰ء میں افغان مجاہدین کی تربیت کی۔ اس معاشی مدد سے افغان جہاد زیادہ عرصے تک چلنے میں کامیا ب رہا۔
پاکستانی مدارس کوفراہم کی جانے والی سعودی معاشی مدد کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان میں سعودی عرب کے ایران مخالف عزائم کو فروغ ملا جس کی وجہ سے اسلام کا وہ تصور فروغ پایا جسے سنی اسلام کہا جاتا ہے۔ آج جس کی پاکستان میں نہ صرف تدریس کی جاتی ہے بلکہ اس پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔
۱۹۷۹ء کے دو اہم تاریخی واقعات، یعنی ایران میں اسلامی انقلاب اور افغانستان میں روسی فوجوں کی چڑھائی نے پاکستان میں سعودی عرب کے اثرات کو مزید مضبوط کیا۔ ایرانی انقلاب نے پاکستان میں سعودی مقاصد کو نہ صرف بڑھاوا دیا بلکہ روس افغان جنگ نے ایک ایسا طریقہ کار متعارف کرایا، جس سے مدارس کو معاشی مدد فراہم کرنا سہل ہوا۔
سعودی پاکستان تعلقات پائیدار اور غیر مشروط ہیں۔ اپریل ۲۰۱۵ء میں ایک حیران کُن امر یہ سامنے آیا کہ سعودی عرب کی جانب سے جاری کردہ ڈیڑھ ارب ڈالر کے قرضوں کے بعد پاکستانی پارلیمان نے بھاری اکثریت سے ووٹ دیا کہ پاکستان کو یمن میں سعودی مداخلت کے معاملے میں غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ ریاض سمجھتا ہے کہ حوثیوں کو تہران سے مدد فراہم کی جارہی ہے۔ اس مداخلت پر پاکستان نے سعودی عرب اور ایران سے اپنے تعلقات متوازن رکھنے کوشش کی لیکن ریاض سے اپنی دوستی نبھائی۔
حالیہ مہینوں میں سعودی شہزادے محمد بن سلمان اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے موقع پرستانہ دوستی (opportunistic friendship) اختیار کی ہے۔ اس میں پاکستان کی مالی مشکلات (debt crises)، عمران خان کی مغربی امداد (Western aid) سے دور رہنے کی خواہش اور محمد بن سلمان کی اُن مشکلا ت کا بھی عمل دخل ہے، جو جمال خاشقجی کے قتل کے بعد مغربی ممالک کی جانب سے سامنے آئیں۔ فروری ۲۰۱۹ء میں سعودی شہزادے کی جانب سے پاکستان کے دورے میں دونوں ممالک مزید قریب ہوئے ہیں۔ اس دوران ۲۰؍ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ اس دورے میں وسائل کا بے دریغ استعمال کیا گیا اور عمران خان اور آرمی چیف کی جانب سے سعودی شہزادے کے لیے خصوصی استقبال کا انتظام کیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب، پاکستان کی مذہبی شناخت کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوا ہے تاکہ سعودی عرب کا عمل دخل نہ صرف پوری مسلم دنیا تک پھیل سکے بلکہ ایران کو بھی جواب دیا جاسکے۔ سعودی عرب اور ایران سے متوازن تعلقات رکھنے میں پاکستان مہارت رکھتا ہے۔ پاکستان آج بھی جانبدارانہ رویوں کے باوجود ایران اور سعودی عرب کے درمیان پُرپیچ تنازعات کو خوبی سے نبھارہا ہے۔
شاہ فیصل مسجد پاکستان کی سب سے بڑی مسجد ہے، جس کی تعمیر کے لیے سعودی عرب نے ۱۲۰؍ملین ڈالر کا عطیہ دیا تھا۔ شاہ فیصل مسجد کے طرزِ تعمیر کو پاکستان کی بہترین عمارتوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ اس مسجد کی تعمیر نے صدیوں پرانی تاریخی عمارتوں کو بھی بھلا دیا۔ پاکستان میں اس مسجد کی تعمیر بھی سعودی اثرات کی مظہر ہے۔
۱۹۷۰ء کے بعد سے پاکستان اور سعودی تعلقات میں سعودی عرب کی جانب سے جاری کردہ اربوں ڈالر کثیر مالی مدد کا پتا چلایا جاسکتا ہے۔ ۱۹۹۸ء میں جس وقت پاکستان نے جوہری بم کا تجربہ کیا اس کے بعد پاکستان کو مالی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان مشکل مالی حالات میں سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو تین سال کے لیے مفت تیل فراہم کیا گیا۔ ۱۹۸۰ء کی روس افغان جنگ میں سعودی عرب اور امریکا کی جانب سے جو مالی مدد فراہم کی گئی اس سے پاکستان نے مجاہدین کو مسلح کیا اور جنگی تربیت فراہم کی تاکہ وہ روس کا مقابلہ کرسکیں۔
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات سیاست دانوں ا ور ملٹری کی سطح پر بھی قائم رہے ہیں۔ ۱۹۷۴ء میں لاہور کے مقام پر وقوع پذیر ہونے والی ’’اسلامی سربراہی کانفرنس‘‘ میں شاہ فیصل کی خواہش پر ذوالفقار علی بھٹو کو شریک چیئر مین (Co-chairman) بنایا گیا۔ افغان جہاد میں سعودی عرب کی صدر ضیاالحق کو حمایت حاصل رہی۔ ۱۹۹۸ء میں جوہری بم کے تجربے کے بعد امریکا کی جانب سے مالی پابندیوں کی صورت میں وزیراعظم نواز شریف کو مدد فراہم کی گئی۔ سعودی حکومت نے پاکستان کے سیاست دانوں کو اپنے ہی ملک سے فرار ہونے پر پناہ گاہ فراہم کی۔ مثال کے طور پر نواز شریف کو اس وقت پناہ گاہ فراہم کی گئی جب ان کی حکومت کا تختہ ۱۹۹۹ء میں فوج نے الٹ دیا تھا۔
۲۰۱۷ء میں سعودی عرب کے وزیر دفاع اور محمد بن سلمان نے سابقہ آرمی چیف راحیل شریف کو ۲۰۱۵ء میں پہلا کمانڈر اِن چیف برائے ’’اسلامی بین الاقوامی فوجی اتحاد برائے انسدادِ دہشت گردی‘‘ مقرر کیا۔
مدارس
ولی نصر نے پاکستان کے مدارس اور فرقہ واریت و سنی انتہا پسندی و سعودی مالی امداد کے درمیان واضح ربط یہ بتایا ہے کہ ۱۹۷۵ء اور ۱۹۷۹ء کے درمیان جومدارس تعمیر ہوئے ان کو مالی مددسربراہانِ خلیج ِفارس نے فراہم کی تھی۔ گویا یہ افغان جہاد سے پہلے کی بات ہے۔ انھوں نے مزید کہا ہے کہ ۱۹۹۶ء میں پاکستان میں موجود منظورشدہ مدارس کی تعداد۲۵۰۰ تھی۔ ان تمام مدارس کومالی مدد بیرونِ پاکستان سے میسر آتی تھی۔ پاکستان کے مدارس کو فراہم کی جانے والی مالی مدد دراصل سعودی عرب کی اس خطے میں وہ پالیسی ہے، جسے ایران مخالف پالیسی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اس پالیسی کا ایجنڈا یہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان ممالک کی دانش ورانہ اور ثقافتی زندگی پر تسلط حاصل کیا جائے۔ ولی نصر کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اس تعلق سے تنہا نہ تھا بلکہ عراق کے بھی ایسے ہی عزائم تھے۔ پاکستان میں موجود شیعہ مدارس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھیں ایران سے مالی مدد میسر آتی ہے۔
ایک تخمینے کے مطابق ستر کی وسط دہائی میں اور نوے کی وسط دہائی میں پاکستان میں موجود مدارس کی تعداد تین گنا ہوگئی۔ ۱۱؍ستمبر کے بعد سے پاکستان کے مدارس پر عالمی سطح پرنگرانی کی جارہی ہے۔ ان مدارس کے بارے میں ہزاروں صفحات کی رپورٹیں تحریر کی جاچکی ہیں اور اسکالروں کی ایک تعداد ایسی بھی ہے، جو ان مدارس کی کثیر تعداد کے تعلق سے اعداد وشمار پر معترض ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان مدارس میں ملک کے پانچ فی صد طالب علم داخلہ لیتے ہیں۔
پاکستان میں مدارس کی تعداد میں ۲۰۰۰ء سے مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ایک امریکی سفارتی تار (US Consulate cable) کے مطابق جنوبی پنجاب میں انتہاپسندوں کو بھرتی کیا گیا۔ کشمیر کے مقام پر ۲۰۰۵ء میں زلزلہ آنے کی صورت میں جماعت الدعوۃ (لشکر طیبہ)، الخدمت فاؤنڈیشن اور سعودی عرب کی جانب سے جو امدادی رقم جمع کی گئی اسے جنوبی اور مغربی پنجاب میں موجود دیوبند اور اہلِ حدیث حلقوں میں تقسیم کیا گیا۔
ان تمام اقدامات سے اس تصوف کے میلان کے حامل اسلامی تصور (Sufi bent of Islam) کو تبدیل کیا گیا ہے، جو روایتی طور پر یہاں موجود تھا۔ اس کے برعکس دیوبند مدارس کی اساس کو اسلام کے احیا کی اُن کوششوں میں تلا ش کیا جاسکتا ہے جو ہندوستان میں انیسویں صدی میں سامنے آئیں۔ ان کوششوں میں صوفی اسلام کی مخالفت کی گئی۔ اس تصور ِ اسلام کی حمایت بریلوی روایت میں ملتی ہے۔
کچھ تخمینوں کے مطابق پاکستان میں ۸۰ فیصد دیوبند مدارس ہیں۔ پاکستان کی دو اہم اسلامی تنظیمیں ’’جمعیت علمائے اسلام‘‘ ا ور ’’جماعتِ اسلامی‘‘ دیوبند روایت کی حامی ہیں۔ اتر پردیش میں موجود مدرسہ دیوبند سے اس روایت کا آغاز ہوتا ہے، جس کی بنیاد ۱۸۶۶ء میں رکھی گئی تھی۔ طالبان کا شمار بھی دیوبند روایت کی تشدد آمیز شرح سے ہوتا ہے۔ ولی نصر کا کہنا ہے کہ مالی اوردانش ورانہ سطح پر سعودی عرب اس کا ذمے دار ہے کیوں کہ پوری مسلم دنیا میں دیوبندی انتہا پسندی اس کی وجہ سے ممکن ہوسکی ہے۔
۱۹۸۰ء کے بعد سے تعلیمی نصاب اور ملک کے قوانین پر سعودیت کا غلبہ دیکھا جاسکتا ہے۔
سیاست دانوں اور فوج کے قریبی تعلقات
وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں فروری ۱۹۷۴ء میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس وقت شاہ فیصل او آئی سی کے چیئر مین تھے۔ بھٹو کو شریک چیئر مین نامزد کیا گیا۔ اس کانفرنس کے لیے فروری کے مہینے کا انتخاب کیا گیا اور شاہ ایران نے اس میں شرکت سے انکار کیا۔ بھٹو سعودی عر ب کو خوش کرنا چاہتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ملک میں اسلام پسندوں کی جانب سے تواتر سے سیاسی دباؤ کا شکار تھے۔
ضیاالحق کا تصورِ اسلام جس کی حمایت جماعت اسلامی نے کی۔ ضیاالحق نے پبلک اسکولوں کے نصاب کو اسلامی بنایا۔ ملک کے قوانین میں تبدیلیاں کی گئیں۔ ناموس رسالت پر سزائے موت کی اجازت دی گئی۔ سنگسار اور ہاتھ کاٹنے جیسے قوانین منظور کیے گئے۔
پاکستان اور سعود ی عرب کی افواج کے درمیان تعلقات بھی مضبوط ہوئے۔ اس کی بنیاد پر قیاس کیاجاتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جوہری سطح پر تعلقات ہموار ہوئے لیکن دونوں ممالک اس سے انکاری ہیں۔
محمد بن سلمان اور عمران خان
عمران خان نے ۲۰۱۸ء میں ’’سعودی انویسٹمنٹ کانفرنس‘‘ میں شرکت کی، جس میں بہت سے ملکوں نے خاشقجی کے قتل کے بعد شرکت سے انکار کردیا تھا۔ وہاں سے عمران خان چھ ارب ڈالر کی امداد لے کر لوٹے۔ فروری ۲۰۱۹ء میں یہ تعلقات اس وقت مزید گہرے ہوئے جب محمد بن سلمان نے پاکستان کا دورہ کیا۔ جہاز میں سوار شہزادہ سلمان کو خو ش آمدید کہنے کے لیے جیٹ جہازوں کو استقبال کے لیے ترتیب دیا گیا تھا، جہاں عمران خان اور آرمی چیف موجود تھے۔ عمران خان نے استقبال کی رسمیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس کار کو وزیراعظم ہاؤس چلا کر لائے جس میں محمد بن سلمان موجود تھے۔ یہ سلسلہ دن بھر چلتا رہا۔ محمد بن سلمان آٹھ قیمتی کاریں اور کسرت کا سامان اپنے ہمراہ لائے تھے۔ اس موقع پر راولپنڈی اور اسلام آباد میں تعطیل کا اعلان کیا گیا تھا۔ ایک ہزار تلاشی کے مرکز بنائے گئے تھے۔
محمد بن سلمان کے ہم راہ چالیس بڑے سعودی تاجرتھے جنھوں نے ۲۰؍ارب ڈالر کے معاہدے کیے۔ ان معاہدوں کا مقصد توانائی،تیل ریفائنری اور معدنیات کی ترقی تھا۔ ان معاہدوں کی اصل معلومات تاحال مخفی ہیں۔ صدرِ پاکستان نے محمد بن سلمان کو نشانِ پاکستان کا اعزاز پیش کیا۔ عمران خان نے شہزادہ سلمان کے لیے نہایت گرم جوشی کا رویہ اختیار کیا اور کہا کہ اگر وہ پاکستان کے انتخاب میں حصہ لیتے تو انھیں عمران خان سے زیادہ ووٹ ملتے۔ عمران خان نے کہا محمد بن سلمان پاکستان میں بہت مقبول ہیں۔ اگر سیکورٹی جیسے مسائل کا سامنا نہ ہوتا تو محمد بن سلمان دیکھتے کہ ان کے استقبال کی غرض سے ہزاروں افراد سڑکوں کے اطراف میں جمع ہوجاتے۔
پاکستان کے سعودی عرب سے قریب ہونے میں صدر ٹرمپ کے طوفانِ ٹویٹ کا بھی بڑا عمل دخل ہے، جس کی وجہ سے عمران نے مقبول وعدے کیے جیسے وہ مغرب پر انحصار نہیں کریں گے۔ عمران خان نے محمد بن سلمان کو خوش کرنے کے لیے وعدہ کیا کہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی ان صحافیوں ا ور کارکنان کی تفتیش کے کام کا آغاز کرچکی ہے جنھوں نے سوشل میڈیا پر خاشقجی کے قتل کے حوالے سے شہزادہ سلمان کے دورے پر احتجاج کیا۔
اس دورے میں عمران خان نے سعودی عرب میں قید پاکستانیوں کی رہائی پر زور دیا۔ محمد بن سلمان نے اس سے اتفاق کیا لیکن اگلے مہینے ہی دو پاکستانیوں کے سر قلم کیے گئے جن پر نشہ آور اشیا لے جانے کا الزام تھا۔ اس لیے آج بھی ان ممالک کے درمیان مضبوط دوستی کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
ََماحصَل (Conclusion)
یہ بات بالکل واضح ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے جاری کردہ مالی مدد نے پاکستان میں اپنے اثرات بڑھانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ان سعودی اثرات کو نمایاں طور پر مذہب اور ثقافت کے دائروں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں ثقافت کی تعریب کو یہاں کے بڑے شہروں میں کاروں کی کچھ نمبر پلیٹوں پر ’’الباکستان‘‘ کے عنوان سے دیکھا جاسکتا ہے۔
مضمون نگار بروکنگز انسٹی ٹیوشن (The Brookings Institution) سے وابستہ ہیں۔ جونز ہاپکنز (Johns Hopkins) میں بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر گلوبل پالیسی کے موضوع پر تدریسی فرائض انجام دیتی ہیں۔ اس سے پہلے یونیورسٹی آف میری لینڈ میں پبلک پالیسی پڑھاتی تھیں۔ ان کی تحقیق و تجزیے کا موضوع پاکستان اور عالمی حالات ہیں۔ ورلڈ بینک سے بطور مشیر وابستہ ہیں۔ ۲۰۱۸ء میں ان کی کتاب “Pakistan Under Siege: Extremism, Society, and the State” شائع ہوئی۔
“Saudi Arabia’s Hold on Pakistan”. “Foreign Policy”. (“Brookings, May 2019)
Leave a Reply