سعودی خارجہ پالیسی جارحیت کی راہ پر

سفارت کاری کے میدان میں سعودی عرب سے کسی بھی نوع کی تیزی کی توقع نہیں رکھی جاتی مگر ۱۸؍اکتوبر کو سعودی حکومت نے سفارتی معاملات میں جس انداز کا flip-flop کیا، وہ بہت حد تک حیرت انگیز تھا۔ اس دن صبح اقوام متحدہ میں سعودی سفیر عبداللہ المعلمی نے بتایا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں دو سال کے لیے سعودی عرب کا غیر دائمی رکن کی حیثیت سے انتخاب ملک کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ہے۔ سلامتی کونسل میں پہلی بار غیر دائمی رکن کی حیثیت سے منتخب ہونا سعودی عرب کے لیے غیر معمولی اہمیت کا حامل موقع تھا۔ اس پر سعودی جتنی بھی خوشی مناتے، کم تھی۔

مگر پھر چند ہی گھنٹوں کے اندر دارالحکومت ریاض سے پیغام آیا کہ سلامتی کونسل کی غیر دائمی رکنیت ملنے پر خوشی نہ منائی جائے۔ اقوام متحدہ کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ کسی رکن کو سلامتی کونسل کی دو سالہ غیر دائمی رکنیت دی جائے اور وہ قبول کرنے سے انکار کردے۔ سعودی عرب نے ایسا ہی کیا۔ سعودی حکومت کا موقف یہ تھا کہ سلامتی کونسل اقوام متحدہ میں حقیقی امن یقینی بنانے میں یکسر ناکام ہوگئی تھی۔ فلسطین کے مسئلے اور شام کے بحران کا خاص طور پر ذکر کیا گیا۔ اور یہ کہ جب تک سلامتی کونسل میں اصلاحات متعارف نہیں کرائی جاتیں، غیر دائمی رکنیت لینے سے انکار کیا جاتا رہے گا۔

اس بات کو سمجھنا بہت مشکل ہے کہ سعودی عرب جس ادارے کی اصلاح چاہتا ہے، اس میں شمولیت سے انکار کرکے کس طور اپنی بات منوا سکتا ہے یا اپنا موقف پیش کرسکتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی ناقابل فہم ہے کہ جب سلامتی کونسل کی غیر دائمی رکنیت لینے سے انکار ہی کرنا تھا تو سعودی حکام نے کئی ماہ تک اس کے حصول کے لیے لابنگ کیوں کی تھی؟ اس قدر جاں فشانی سے متحرک رہنے کی ضرورت کیا تھی؟ گزشتہ برس نیو یارک میں کم و بیش ایک درجن سعودی سفارت کاروں نے متوقع اضافی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی خصوصی تربیت حاصل کی تھی۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ سعودی عرب کے رویے میں اچانک رونما ہونے والی تبدیلی کے اسباب کہیں اور ہیں، مثلاً واشنگٹن میں۔ سعودی فرماں روا عبداللہ بن عبدالعزیز کی عمر ۸۹ سال ہے مگر اس عمر میں بھی وہ کبھی کبھی امریکا جیسے پرانے اتحادی کے معاملے میں اچانک مشتعل ہو اٹھتے ہیں۔ ۲۰۰۱ء میں انہوں نے اس وقت کے امریکی صدر جارج واکر بش کے نام ایک تند و تیز لہجے کا خط لکھا تھا جس میں فلسطین کا تنازع حل کرنے میں امریکی ناکامی پر شدید ناراضی کا اظہار کیا گیا تھا۔ اس خط کے وائٹ ہاؤس پہنچنے کے چند دنوں ہی میں نائن الیون کا سانحہ رونما ہوا جس سے پیدا ہونے والی صورت حال نے یہ خط نگل لیا۔ سعودی عرب اب بھی امریکا کو ناقابل اعتبار اتحادی سمجھتا ہے اور اس حوالے سے اس کے اشتعال میں چند ماہ کے دوران تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

جولائی میں مصری فوج کی جانب سے اخوان المسلمون کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کی سعودی عرب نے کھل کر حمایت کی تھی۔ توقع تو یہ تھی کہ امریکا بھی اس اقدام کی حمایت کرے گا مگر ایسا نہیں ہوا۔ امریکا نے مصر میں منتخب حکومت کا تختہ الٹے جانے کی حمایت سے گریز کیا اور مصر کی امداد میں بھی کٹوتی کردی۔ دوسری بات یہ ہوئی کہ امریکا نے ایران سے تعلقات بہتر بنانے کی طرف سفر شروع کردیا۔ ایران کو سعودی عرب خطے میں اپنا سخت ترین حریف تصور کرتا ہے۔ سعودیوں کو خدشہ ہے کہ ایران کے خلاف محاذ بنائے رکھنے سے متعلق عشروں کی محنت اب رائیگاں نہ چلی جائے۔

سعودی عرب کو سب سے زیادہ غصہ اس بات پر ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے خود امریکیوں کی متعین کردہ ریڈ لائن عبور کرنے پر بھی امریکا نے شام کی بشارالاسد انتظامیہ کو سبق نہیں سکھایا۔ امریکا کی طرف سے فیصلہ کن کارروائی نہ کیے جانے کے باعث شام میں باغیوں کو ایک طرف بشارالاسد انتظامیہ کا بوریا بستر لپیٹنے میں اور دوسری طرف خطے میں ایران کا اثر و رسوخ کم کرنے میں خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی۔ سعودی عرب جسے امریکیوں کی بزدلی سمجھتا ہے، اس سے اسلامی شدت پسندوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ القاعدہ نے برملا کہا ہے کہ مغرب پر کسی بھی حالت میں بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ اب خدشہ یہ ہے کہ سعودی عرب کی سرزمین پر تربیت پانے والے شامی باغیوں کی صفوں میں شدت پسند داخل ہوکر انہیں اقلیت میں تبدیل کرکے غیر موثر کردیں گے۔

۲۱؍اکتوبر کو پیرس اور اس کے اگلے ہی دن شام میں اپوزیشن کی حمایت کرنے والے گیارہ ممالک کے گروپ ’’فرینڈز آف سیریا‘‘ کے اجلاس ہوئے، جن میں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ سعود اور ان کے امریکی ہم منصب جان کیری نے شرکت کی۔ سعودی عرب اور امریکا کے وزرائے خارجہ نے مل کر اس امر کو یقینی بنانے کا لائحہ عمل طے کیا کہ ساری کی ساری امداد شام میں سب سے کم شدت پسند اپوزیشن گروپ کو ملے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ ان اجلاسوں میں امریکی وزیر خارجہ نے اس امر پر زور دیا کہ سعودی عرب کو سلامتی کونسل کی غیر دائمی رکنیت قبول نہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

معاملات محض دو ایک ملاقاتوں اور چند میٹھی باتیں کرنے سے درست نہیں ہو جائیں گے۔ طویل مدت تک سعودی عرب کے انٹیلی جنس چیف کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے شہزادہ ترکی الفیصل نے واشنگٹن میں اوباما انتظامیہ پر واضح کردیا ہے کہ امریکا سے مختلف معاملات میں ڈیلنگ سے سعودی عرب خوش نہیں اور یہ محسوس کرتا ہے کہ معاملات مایوس کن ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سعودی عرب کسی بھی معاملے میں محض حالات کے جبر کے تحت کام نہیں کرتا۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ سلامتی کونسل کی غیر دائمی رکنیت ٹھکراکر سعودی عرب دراصل ایک طرف تو یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اسے اہم امور میں خاموش رہنا پسند نہیں اور دوسری طرف وہ اپنا علاقائی کردار مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ سعودی عرب محض مایوسی کے عالم میں اپنے ہاتھ جھٹک رہا ہے بلکہ دراصل وہ اس بات کی توقع بھی رکھتا ہے کہ فلسطین اور شام کے مسئلے پر سلامتی کونسل سے مستقبل میں بھی اس کا ٹاکرہ ہوتا رہے گا۔ سعودی عرب کی اندرونی کہانیوں کو کسی نہ کسی طرح بیان کرنے کے دعویدار مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں جارحانہ خارجہ پالیسی اپنانے کی خواہش بری طرح پروان چڑھ رہی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شام میں بشار انتظامیہ کا تختہ الٹنے کی راہ پر سعودی عرب تنہا ہی گامزن ہوجائے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب بے حد مالدار ہے مگر عسکری طور پر وہ بے حد کمزور ہے۔ اسے دوستوں کی ضرورت ہے، بالخصوص ایک ایسی دنیا میں جہاں تیل کی قیمتیں گر رہی ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ حالات کو تیزی سے بدلتا ہوا دیکھ کر سعودی عرب نے اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کا سوچا ہو۔ سعودی عرب نے بین الاقوامی اداروں میں ہمیشہ پچھلے دروازے کی سفارت کاری کا آپشن اپنایا ہے۔ سلامتی کونسل کی غیر دائمی رکنیت قبول کرنے کی صورت میں سعودی عرب اور امریکا کے اختلافات کھل کر سامنے بھی آسکتے تھے۔ فلسطین، شام اور ایران کے معاملے میں دونوں ممالک کے درمیان خاصے اختلافات پنپ چکے ہیں۔ سلامتی کونسل میں دونوں کے درمیان مناقشے سے معاملات مزید بگڑتے۔ ایسی صورت میں ریاض کے لیے واشنگٹن سے دوستی کی پرانی سطح برقرار رکھنا دشوار ہو جاتا۔

سلامتی کونسل کی غیر دائمی رکنیت ٹھکرانے کا ایک بنیادی سبب یہ بھی تھا کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے ۲۱؍اکتوبر کو انسانی حقوق کے ناقص ریکارڈ پر سعودی حکومت کو سرزنش کی تھی۔ ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹس میں کہا ہے کہ سعودی عرب کی حکومت نے اب تک انسانی حقوق کا ریکارڈ درست کرنے پر توجہ نہیں دی ہے۔ ایک طرف منحرفین کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا سلسلہ ختم نہیں کیا گیا اور دوسری طرف اقلیتوں اور خواتین سے امتیازی سلوک جاری ہے۔

(“Saudi Diplomacy: Pique Your Partners”… “The Economist”. Oct. 26, 2013)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*