اسے آپ گوانتا ناموبے مخالف مہم کا نام دیں۔ عراق میں امریکی کافروں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے سعودی نوجوان پکڑے گئے ہیں لیکن انھیں کیوبا میں واقع گوانتا ناموبے جیسے تاریک عقوبت خانے میں بھیجنے کے بجائے سعودی دارالحکومت ریاض سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر واقع ایک انتہائی آرام دہ کوٹھی میں بھیج دیا گیا۔ تکنیکی مفہوم میں تو یہ ایک قید خانہ ہے لیکن جہاں انھیں نہ نارنجی رنگ کا لباس پہننے پر مجبور کیا گیا اور نہ ہی اُن کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ انھیں گوشۂ تنہائی میں محصور نہیں کیا گیا بلکہ انھیں کوٹھی کے وسیع اور ہرے بھرے احاطے میں گھومنے پھرنے، والی بال، ٹیبل ٹینس، ویڈیو گیمز وغیرہ کھیلنے کی مکمل آزادی ہے۔ بھلا ہو نگہداشتی مراکز کا جو گزشتہ ۳ برسوں سے اصلاح قبول کرنے والے دماغوں کی اصلاح کا تجربہ گاہ رہے ہیں بالخصوص ان لوگوں کی سوچ کی اصلاح کا جو اسامہ بن لادن کے انتہا پسند اسلام کے زیرِ اثر رہے ہیں۔ یہاں جہادیوں کو لا کر قید کی پوری مدت میں ایسے سوالات اُن کے سامنے اٹھائے جاتے ہیں جن سے وہ اپنے افکار و خیالات پر نظرثانی کے لیے آمادہ ہوں۔ (تقریباً ۱۸۷۵ جہادیوں میں سے ۲۰ فیصد نے اس طرح کے سوال و جواب کے سیشن میں شرکت سے انکار کر دیا)۔ اس پروگرام کو اسلامی دانشوروں، ماہرینِ نفسیات اور ماہرِ سماجیات کی ایک ٹیم نے تیار کیا ہے تاکہ جہادیوں کو اُن کی غلطیاں اس طرح واضح کی جائیں کہ وہ انھیں قبول کر لیں اور سعودی معاشرہ کے ایک مفید رکن بن سکیں جو اِن دنوں دہشت گردی کے واقعات سے زخم خوردہ ہے۔ گزشتہ ۴ برسوں میں اس ملک میں دہشت گردانہ حملوں کے نتیجے میں ۱۴۴ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ اُن قیدیوں کے ساتھ جرائم پیشہ افراد جیسا سلوک نہیں کیا جاتا ہے۔ یہ مراکز قیدیوں کی انتہا پسندی کو دور کرنے کی یا اسے مزید مضبوط نہ ہونے دینے کی تدابیر کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ یہ دوسرے جہادیوں کے لیے رول ماڈل ثابت ہوں۔ اگرچہ کوٹھی کے احاطے کی نگرانی پولیس اچھی طرح کرتی ہے لیکن یہاں جو سہولیات قیدیوں کو میسر ہیں، اُن کی وجہ سے ان پر کسی کالج کیمپس یا کنٹری کلب (Country Club) کا گمان ہوتا ہے۔ قیدی حضرات اپنے دن ہنر سیکھنے، نفسیاتی مشاورت اور کلاس روم لیکچرز میں گزارتے ہیں اور یہ ساری سرگرمیاں دینی علماء و دانشوروں کی نگرانی میں انجام پاتی ہیں جن کا تعلق وزارتِ اُمور دینی سے ہوتا ہے جس میں سینٹر کے ڈائریکٹر شیخ احمد حامد جیلان بھی شامل ہیں۔ وہ قیدیوں کو جہاد سے متعلق قرآنی آیات سے گزارتے ہو جو دینی احکامات کا بارودخانہ ہیں، یہ سوال ابھرنے کا موقع دیتے ہیں کہ سعودی حکومت عراق میں جنگ سے روکتی ہے جبکہ یہ ایک بار اسامہ بن لادن جیسے نوجوان سعودیوں کو روس کے خلاف افغانستان میں لڑنے کے لیے بھیجتی رہی ہے۔ پھر جیلان اس بنیادی فرق کی وضاحت یوں کرتے ہیں کہ سوویت یونین سے لڑنے میں سعودی عرب اور مسلم دنیا کا مفاد تھا جبکہ عراق میں امریکا سے جنگ کرنے میں ایسا نہیں ہے۔ جیلان کا کہنا ہے کہ ’’ہم القاعدہ کی فکر سے متعلق تمام سوالات کا جواب قرآن اور اسلام کے پیغام کے حوالے سے دیتے ہیں۔ ہم گفتگو کرتے ہیں اور وہ مطمئن ہوتے ہیں‘‘۔ وہ لوگ جو اصلاح کی راہ پر لگ چکے ہیں اُن میں سے ایک ۲۸ سالہ عبداﷲ شریف ہے جو ۲۰۰۳ء میں اپنے چار ساتھیوں کے ساتھ عراق گیا اِس اُمید کے ساتھ کہ وہ امریکی حملہ آوروں کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو جائیں گے۔ اصلاحی مرکز میں چاول، گوشت اور پیپسی وغیرہ پر مشتمل کھانے سے فارغ ہونے کے بعد اس نے پوری تفصیل بتائی کہ کس طرح اس کے جہادی ساتھی جنگ کی ابتدا میں کردستان میں امریکی ہوائی حملے میں مارے گئے۔ اسے ۸ ماہ بعد امریکی افواج نے موصل میں گرفتار کر لیا اور پھر سعودی حکام کے حوالے کر دیا۔ شریف نے کہا کہ اُس وقت میرے یہ خیالات تھے۔ پھر اس نے بتایا کہ یہ اسامہ بن لادن کی تعلیمات کا اثر تھا جسے وہ اُس وقت اپنا ہیرو مانتا تھا۔ لیکن اس نے بہت غلطیاں کی تھیں مثلاً سعودی عرب کو نشانہ بنانے جیسی غلطی۔ اب اس سابق جہادی کا ارادہ اسلام کا مطالعہ کرنے کا ہے اور اس اصلاحی مرکز سے رہا ہونے کے بعد وہ کار مرمت کرنے کی ایک دکان کھولنا چاہتا ہے۔ جب شریف کو رہائی کے لیے مناسب جانا جائے گا تو اسے گھر بھیج دیا جائے گا۔ ۷۰۰ کی یا ایسی ہی کچھ تعداد میں دوسروں کو اس مرکز سے رہا کر دیا گیا ہے لیکن اُن کی نگہداشت مستقل کی جاتی ہے۔ سابقہ قیدیوں کو ماہانہ ۷۰۰ ڈالر وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات انھیں ایک کار بھی دی جاتی ہے۔ خاندان کے افراد کی فہرست تیار کی گئی ہے جو ایسے افراد کی نگہداشت کریں گے۔ ان افراد کو اپنا خاندان شروع کرنے کی شدید ترغیب دی جاتی ہے۔ بچے ہونے کے بعد ان کی یہ فکر ختم ہو جاتی ہے اور جہاد میں دوبارہ شامل ہونے کا جذبہ ماند پڑ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پروگرام کے تحت ایک سابق قیدی کو اس کی شادی کے لیے ۲۰ ہزار ڈالر سے زیادہ رقم دی جاتی ہے۔ سعودی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ پروگرام بہت ہی زیادہ کامیاب ہے۔ اسی وجہ سے دوسرے عرب ممالک کے سکیورٹی افسران سعودی اصلاحی مراکز کا دورہ کرتے ہیں تاکہ معلوم کریں کہ آیا یہ پروگرام ان کے یہاں مفید اور کارآمد ہو سکتا ہے۔ محافظین کی موجودگی میں قیدی کہتے ہیں کہ وہ معمول کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں لیکن شاید زیادہ بڑی علامت ٹیبل ٹینس کا کھیل ہے جو ایک قیدی اور امریکی رپورٹر کے درمیان جاری ہے۔ جب کوئی وزیٹر اپنے طاقتور فورہینڈ شارٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاص طور سے حیران کن کھیل کھیلتا ہے تو تماشائیوں کے قہقہوں سے شام کی فضا پُر ہو جاتی ہے۔
(بشکریہ: ’’ٹائم‘‘ میگزین۔ شمارہ: ۱۹ نومبر ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply