گزشتہ کچھ برسوں میں سعودی عرب اور بھارت ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے ہیں۔ دونوں ممالک میں سیاسی، سفارتی، عسکری، سیکورٹی اور تجارتی تعلقات قائم ہوئے اور پھر کبھی بھارت اور کبھی سعودی عرب کی قیادت ایک دوسرے کی مہمان بنی۔ چھ برسوں میں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی دو بار سعودی عرب کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔ مگر بین الاقوامی تعلقات میں ہمیشہ ’سب اچھا‘ کی رپورٹ نہیں ہوتی اور ہر ملک اپنے بہترین قومی مفاد کو مقدم رکھتا ہے۔ یہی کچھ ان دو دوست ممالک کے معاملے میں بھی ہوا ہے اور اب اس کی وجہ بنی ہے تیل کی قیمتیں۔
خبر یہ ہے کہ سعودی عرب اور بھارت میں خام تیل کی قیمت کے تعین پر آپس میں ٹھن گئی ہے۔
حال ہی میں بھارت کے تیل اور گیس کے وزیر دھرمندرا پردھان نے اپنے سعودی ہم منصب عبدالعزیز بن سلمان ال سعود کے اس بیان پر اعتراض کیا ہے، جس میں انھوں نے بھارت سے کہا کہ وہ خام تیل کی قیمتیں کم کریں۔
سعودی عرب نے بھارت کو ہدایت کی کہ وہ تیل کے ذخائر کو استعمال میں لائے، جو اس نے گزشتہ برس اس وقت خریدا تھا جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں انتہائی کم تھیں اور اس طرح سب حساب برابر ہو جائے گا۔
سعودی عرب کی طرف سے یہ بیان بھارت کو اس قدر ناگوار گزرا کہ وزیراعظم مودی کی کابینہ کے وزیر پٹرولیم دھرمندرا پردھان نے سعودی وزیر پیٹرولیم کے بیان کو ہی سفارتی آداب کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
انھوں نے واضح طور پر کہا کہ ’میں ایسے طریقہ کار سے اختلاف رکھتا ہوں۔ بھارت کی تیل کے ذخائر کو استعمال کرنے کے بارے میں ایک اپنی حکمت عملی ہے۔ ہم خود اپنے مفادات کا صیحح معنوں میں ادراک رکھتے ہیں‘۔
اس بحث سے قبل کہ یہ تنازع بھارت اور سعودی عرب کے تعلقات پر کس طرح اثر انداز ہو سکتا ہے، پہلے یہ جائزہ لیتے ہیں کہ بھارت میں تیل کا کتنا ذخیرہ موجود ہے اور اسے کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔
بھارت کے تیل کے ذخائر
گزشتہ ماہ بھارتی پارلیمان کے ایوان بالا، راجیہ سبھا، میں دھرمندرا پردھان نے اپنے ایک تحریری جواب میں کہا تھا کہ بھارت نے گزشتہ سال اپریل/مئی کے مہینوں میں سٹریٹجک پیٹرولیم ریزرو کا خوب فائدہ اٹھایا، جب کورونا وائرس کی وبا پھوٹی اور پھر اس کے نتیجے میں لاک ڈاؤن لگانا پڑا۔ ان کے مطابق بھارت کے اس بروقت اقدام کی وجہ سے اسٹریٹجک پیٹرولیم ریزرو مکمل بھر چکا ہے اور اس بروقت اقدام سے بھارت کو تقریباً ۵۰؍ارب کی بچت بھی ہوئی۔
بھارت میں اسٹریٹجک پیٹرولیم ریزرو لمیٹڈ بھارت کی حکومت کا ایک محکمہ ہے، جس کا کام تیل کے ذخائر میں اضافہ کرنا ہے۔ اس محکمے نے ابھی تک تین مختلف جگہوں پر ۵۰ لاکھ میٹرک ٹن سے زیادہ کے ذخائر رکھے ہوئے ہیں۔ ان تین جگہوں کی نگرانی اسٹریٹجک پیٹرولیم ریزرو کے پاس ہے۔ یہ ذخائر بھارت کی دس دن تک ضرورت پوری کر سکتے ہیں۔
بھارت کے وزیر تیل نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ نجی کمپنیوں کے پاس تیل کے ذخائر ۵ء۶۴ دن تک بھارت کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ یہی کچھ وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر بھارت مزید تیل درآمد نہیں کر رہا ہے۔ یوں بھارت کے تمام ذخائر ۷۴ دن تک بھارت کی ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں۔
دھرمندرا پردھان کے مطابق دوسرے مرحلے پر بھارت کے ان ذخائر میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔ ان کے مطابق چار ملین میٹرک ٹن کا اسٹریٹجک ذخیرہ اڑیسہ کے مقام چاندی خول اور ۲۵ لاکھ میٹرک ٹن کا ذخیرہ کرناٹکا کے مقام پادور میں تیار کیا جا رہا ہے۔ یہ نئے دو ذخائر بھارت کی ۱۲ دن تک تیل کی ضرورت پوری کر سکیں گے۔
بھارت میں تیل اتنا مہنگا کیوں؟
چار ماہ قبل تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک نے گزشتہ سال مارچ سے بین الاقوامی منڈیوں میں خام تیل کی تیزی سے گرتی قیمتوں پر قابو پانے کے لیے پیداوار میں کمی کر دی تھی۔
خود سعودی عرب نے بھی پیداوار کم کردی۔ اسی وجہ سے پیٹرول کی قیمت میں ایک بار پھر اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔
پیٹرول اور ڈیزل کی بڑھتی قیمتیں بھارت میں ایک متنازع مسئلہ بن چکی ہیں۔ بدھ کے روز سب سے مہنگا پیٹرول جبل پور میں دستیاب تھا اور اس کی قیمت ۵۷ء۹۸ روپے فی لیٹر تھی۔
بھارت میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کا انحصار بین الاقوامی مارکیٹ کی قیمتوں پر ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمت کم ہوتی ہے یا بڑھ جاتی ہے تو پھر بھارت میں بھی اسی طرح کا اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آنا چاہیے۔ لیکن پچھلے سال عام صارفین کو تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ نہیں پہنچا کیونکہ حکومت نے دو بار ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کیا۔
آئل اینڈ نیچرل گیس کارپوریشن لمیٹڈ (او این جی سی) کے سابق چیئرمین آر ایس شرما کہتے ہیں کہ جب یہ حکومت ۲۰۱۴ء میں برسراقتدار آئی تھی تو اس وقت سے تیل کی قیمت ۱۰۶ ڈالر فی بیرل تھی۔ تب سے قیمتوں میں کمی واقع ہوتی رہی ہے۔
ان کے مطابق ہمارے وزیراعظم نے یہ بھی مذاق کرتے ہوئے کہاکہ میں خوش قسمت ہوں کہ جب سے میں اقتدار میں آیا ہوں، تیل کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں۔ اس وقت پیٹرول کی قیمت ۷۲ روپے فی لیٹر تھی۔ حکومت نے بھارت میں قیمت کم نہیں ہونے دی۔ اس کے بجائے حکومت نے ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کیا۔
اب اس سال بین الاقوامی منڈی میں خام تیل کی قیمت ۷۱ ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہے اور اب یہ فی بیرل ۵ء۶۴ کے قریب ہے۔ جنوری میں سعودی عرب کا ایک انتہائی اہم خریدار ہونے کی وجہ سے بھارت کی حکومت نے سعودی عرب سے پیداوار بڑھانے کی درخواست کی تھی، لیکن اس کا سعودی عرب پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس وقت بھی دونوں ممالک کے مابین تناؤ کی فضا تھی۔
مارچ میں بھارت نے اوپیک ممالک اور سعودی عرب سے خام تیل کی پیداوار بڑھانے کا مطالبہ کیا۔ لیکن ایک بار پھر سعودی عرب نے نہیں سنا اور جب بھارت نے اس پر مایوسی کا اظہار کیا تو سعودی عرب کے وزیر نے کہا کہ بھارت کو سستے داموں پر خریدے گئے خام تیل کے اسٹریٹجک ذخائر کا استعمال کرنا چاہیے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بھارت سعودی وزیر کے بیان سے مایوس ہے تو یہ ٹھیک ہے کیونکہ جب بھی کوئی ملک اپنے اسٹریٹجک تیل کے ذخائر کو استعمال کرتا ہے تو یہ اس کا اپنا داخلی معاملہ ہوتا ہے۔ دوسری بات اسٹریٹجک ریزرو کے استعمال سے متعلق ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے، جس کا بھارت بھی ایک رکن ہے۔ اس معاہدے کے رکن ممالک اس تنظیم کے قواعد کے مطابق ایسے فیصلے خود کرنے کے مجاز ہیں۔
بھارت میں پٹرولیم اور گیس بہت کم مقدار میں دستیاب ہیں، لہٰذا وہ درآمد کی جاتی ہیں۔ ملک کو بیرون ملک سے پٹرولیم مصنوعات کی درآمد کے لیے گزشتہ سال اپنے اخراجات کا ۸۵ فیصد استعمال کرنا پڑا، جس پر ۱۲۰ بلین ڈالر کی لاگت آئی۔
بھارت کو اپنی بہت بڑی معیشت کی ترقی کے لیے بہت زیادہ خام تیل کی ضرورت ہے۔ کیونکہ بھارت میں تیل کو ایندھن کے طور پر بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔
اس وقت بھارت دنیا کے سب سے بڑے برآمد کنندگان سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک سے اپنا ۲۵ فیصد خام تیل درآمد کرتا ہے۔ امریکا اور روس بھی ان بڑے ممالک میں شامل ہیں جو بھارت کو بڑی مقدار میں خام تیل کی فراہمی کرتے ہیں۔
توانائی کی پالیسی
حکمراں جماعت بی جے پی کے ترجمان گوپال کرشنا اگروال کا مؤقف ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت خلیجی ممالک پر انحصار کم کرے اور ایران اور وینزویلا سے اپنی ضروریات پوری کرے۔ تاہم ان دونوں ممالک پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے بھارت نے تیل کی درآمد روک دی ہے۔ دونوں ممالک ایک وقت میں بھارت کو بھاری مقدار میں تیل فروخت کرتے تھے۔ سنگاپور میں بھارتی نژاد توانائی سے متعلق امور کی ماہر وندنا ہری نے مشورہ دیا ہے کہ بھارت طویل المدتی پالیسیوں پر توجہ دے اور صاف توانائی اور توانائی کے دیگر ذرائع کو بھی بروئے کار لائے۔
پٹرول اور ڈیزل کی نیپال سے بھارت کو اسمگلنگ بھی بھارت کے لیے پریشانی کا باعث بنتی ہے۔ بھارتی حکومت طویل المدتی حل کے لیے متعدد اسکیمیں شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی نے ۱۷ فروری کو تمل ناڈو میں اپنی ایک تقریر میں توانائی کے دیگر ذرائع کو بروئے کار لانے اور خام تیل پر انحصار کم کرنے پر بھی زور دیا۔
کچھ ماہرین تجویز دیتے ہیں کہ بھارت تیل کے اسٹرٹیجک ذخائر میں اضافہ کرے یعنی اسٹاک کو ۷۴ دن سے بڑھا کر ۹۰ دن کر دیا جائے۔
اگرچہ اسٹریٹیجک ریزرو ہنگامی وقت کے لیے ہوتا ہے، اگر تیل کی قیمت بین الاقوامی منڈی میں تباہی یا جنگ کی وجہ سے بہت بڑھ جائے تو ذخیرہ شدہ تیل استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت امریکا نے دنیا میں اس طرح کے سب سے بڑے ذخائر قائم کر رکھے ہیں۔
امریکا اور چین کے بعد بھارت سب سے زیادہ تیل درآمد کرتا ہے۔ لہٰذا ماہرین ریزرو میں اضافے پر زور دیتے ہیں۔
تیل کا ایک بڑا درآمد کنندہ ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر بھارت کی ایک اہمیت ہے۔ لیکن اگر سعودی عرب نے بھارت کی بات بالکل ہی نہیں مانی تو ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے دونوں ممالک کے درمیان حال ہی میں قائم ہونے والے قریبی تعلقات میں فرق پڑسکتا ہے۔
گزشتہ چھ برس میں وزیراعظم نریندر مودی دو بار سعودی عرب کا دورہ کر چکے ہیں، تب سے اب تک، تیل فروخت کرنے والے ملک کی حیثیت سے بھارت کی نظر میں سعودی عرب کی حیثیت ختم نہیں ہوئی ہے۔
سعودی عرب تیل کی برآمدات پر اپنی معیشت کا انحصار کم کرنے کے لیے بھارت میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کر رہا ہے۔ اس نے بھارت میں ۱۰۰؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ دسمبر میں سعودی عرب نے بھارت کو یقین دلایا کہ بھارت میں اس کی سرمایہ کاری کے منصوبے ابھی زیر غور ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک کے مابین عسکری اور سیکورٹی امور میں گہرا تعلق پیدا ہوا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی اشد ضرورت ہے۔
چین کے بعد بھارت سعودی عرب کا سب سے بڑا خریدار ہے اور عراق کے بعد سعودی عرب بھارت کو خام تیل کی فراہمی کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
سعودی عرب کی توانائی کی صنعت اور بھارت کی ٹیکنالوجی پر سبقت آنے والے کئی برسوں تک دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید تقویت دے گی اور یوں یہ دونوں اپنے اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک دوسرے کے مزید قریب آ جائیں گے۔
(بحوالہ: ’’بی بی سی اردو ڈاٹ کام‘‘۔ یکم اپریل ۲۰۲۱ء)
Leave a Reply