سعودی قیادت کو یہ اندازہ تھا کہ اس کی سرزمین کو نشانہ نہیں بنایا جاسکتا مگر یہ خام خیالی تھی۔ سعودی عرب میں تیل کے انفرا اسٹرکچر پر حملے کے حوالے سے سعودی قیادت نے جو ردعمل ظاہر کیا ہے، وہ اس بات کا غماز ہے کہ انہیں بھی اندازہ ہوچکا ہے کہ آئل انفرا اسٹرکچر کو کسی بھی وقت آسانی سے نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ سعودی عرب نے سلامتی پر اب تک غیر معمولی اخراجات برداشت کیے ہیں۔ سعودی عرب میں امریکی فوجی بھی موجود ہیں۔ اس کے باوجود سعودی قیادت اور معیشت کے تاج کے ہیروں کو ایک بڑی ضرب لگانے میں دشمن کامیاب رہے ہیں۔ نئے سعودی وزیرِ توانائی کو بنیادی چیلنج درپیش ہے کہ تیل کے انفرا اسٹرکچر کو جلد از جلد مکمل بحال کرکے استعداد کے مطابق پیداوار کے قابل بنانا۔ ساتھ ہی ساتھ سعودی فوج کی کمزوریوں پر متوجہ ہونا بھی لازم ہے۔
یمن کے حوثی باغیوں نے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملوں کا فوری طور پر کریڈٹ لیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان حملوں میں دس ڈرون استعمال کیے گئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ حملے سعودی عرب میں موجود بعض لوگوں کی مدد سے کیے گئے۔ ان کا اشارہ غالباً تیل کی دولت سے مالا مال مشرقی صوبے میں آباد شیعہ اقلیت کی طرف تھا۔ یمن کے حوثی باغی ’زیدی شیعہ‘ ہیں۔ ان حملوں کا کریڈٹ حوثی باغیوں نے لیا تو ہے مگر یہ حملے جس مہارت سے کیے گئے وہ حوثی باغیوں میں بظاہر نہیں پائی جاتی۔
ٹرمپ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ حملے براہِ راست ایران سے کیے گئے اور اِنہیں جنگ چھیڑنے کا ایسا عمل قرار دیا جانا چاہیے جس کی مثال نہیں ملتی۔ سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملوں میں میزائل اور ڈرون دونوں ہی بروئے کار لائے گئے۔ سعودی قیادت نے ایران پر حملوں کا براہِ راست الزام لگانے سے گریز کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہتھیار ایرانی ساختہ تھے تاہم حملے شمال کی طرف سے کیے گئے۔ سعودی عرب کی تیل کی صنعت سے شیعہ اچھی خاصی تعداد میں وابستہ ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان میں چند ایک نے دشمنوں کو آئل انفرا اسٹرکچر کے بارے میں بنیادی معلومات فراہم کی ہوں۔
اس میں اب کوئی شک نہیں رہا کہ ایران اور حوثی باغی حملوں میں ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کر رہے ہیں۔ ایران چاہتا ہے کہ کوئی بھی اُسے ملوث قرار نہ دے اور حوثی باغی چاہتے ہیں کہ دہشت گردانہ حملوں کا انہیں کریڈٹ دیا جائے۔ سعودی عرب چار سال سے یمن پر فضائی حملے کر رہا ہے۔ ایسے میں یمنی ان حملوں کو اپنے دفاع میں کیا گیا اقدام قرار دے کر مطمئن ہوسکتے ہیں۔
سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر کیا جانے والا یہ حملہ ان حملوں سے کہیں زیادہ خطرناک اور وسیع اثرات کا حامل ہے، جو عراق کے سابق صدر صدام حسین نے ۱۹۹۱ء میں اسکڈ میزائلوں سے کیا تھا یا پھر جس طور القاعدہ کو ۲۰۰۶ء میں نشانہ بنایا تھا۔ اب تک یہ واضح نہیں کہ سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر کیا جانے والا حملہ کتنے گہرے اثرات کا حامل ہے۔
امریکی حکام کہتے ہیں کہ سعودی قیادت کو ان حملوں سے غیر معمولی صدمہ پہنچا ہے اور نجی گفتگو میں اسے نائن الیون کی طرز کا حملہ قرار دیا جارہا ہے۔ سعودی عرب نے ۱۹۹۱ء کے بعد سے اب تک اپنے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے پر غیر معمولی اخراجات برداشت کیے ہیں۔ امریکا سے پیٹریاٹ میزائلوں کی ۶ بٹالینز سعودی سرزمین پر موجود ہیں۔ پرنس سلطان ایئر بیس پر پیٹریاٹ میزائل نصب ہیں۔ اس کے باوجود دشمن حملہ کرنے میں کامیاب رہا۔ یہ گویا ایئر ڈیفنس کے حوالے سے کیے جانے والے انتظامات کی ناکامی ہے۔ یہ ثابت ہوگیا کہ امریکی پیٹریاٹ میزائل غلط سمت نصب کیے گئے تھے۔
امریکا نے نائن الیون پر غیر معمولی ردعمل ظاہر کیا تھا۔ سعودیوں نے تیل کی تنصیبات پر حملوں کے حوالے سے ویسا ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اُن کے پاس سیریس آپشنز نہیں ہیں۔ سعودی قیادت چاہتی ہے کہ اس کی جنگ امریکا لڑے۔ سی آئی اے کے سابق سربراہ اور امریکا کے وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کا برسوں پہلے کہا گیا یہ جملہ آج بھی مزا دیتا ہے کہ ’’سعودی آخری امریکی کے ختم ہونے تک ایران سے لڑنا چاہتے ہیں!‘‘
یمن میں سعودی عرب کی جنگ اب تک ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوئی ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے خود کو حقیقی قوم پرست لیڈر کے طور پر پیش کرنے کے معاملے میں طاقت کا بے محابا استعمال کیا ہے۔ حوثی باغیوں کے خلاف کی جانے والی فضائی کارروائیوں میں یمن کا غیر معمولی جانی نقصان ہوا ہے اور خود سعودی عرب بھی دلدل میں دھنس گیا ہے۔ یمن میں اب دو واضح گروہ ابھر چکے ہیں۔ حوثیوں کے مقابل ابھرنے والے گروہ نے جنوب میں عدن کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ یہ گروہ علیحدگی پسند ہے۔ سعودی عرب کے اتحادی متحدہ عرب امارات نے اس جنگ میں عملی کردار ادا کرنا ترک کردیا ہے۔
تیل کی تنصیبات پر حملوں نے ولی عہد محمد بن سلمان کی ساکھ بھی داؤ پر لگادی ہے۔ یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ وہ ایران اور اُس کے یمنی حلیفوں حوثیوں سے ملک کو بچانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ دنیا میں تیسرا بڑا دفاعی بجٹ سعودی عرب کا ہے۔ ایسے میں یہ بات بہت حیرت انگیز اور شرم ناک ہے کہ ایک غریب پڑوسی ملک کی ملیشیا سے اپنی تیل کی تنصیبات کو محفوظ نہیں رکھا جاسکا۔
محمد بن سلمان کے سوتیلے بھائی ۵۹ سالہ عبدالعزیز بن سلمان حملوں کے بعد سے لائم لائٹ میں ہیں۔ وہ شاہی خاندان کے پہلے فرد ہیں جسے توانائی کا وزیر بنایا گیا ہے۔ عبدالعزیز بن سلمان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج تیل کی تنصیبات کو اُن کی استعداد کے مطابق بحال کرنا ہے۔ ۱۹۶۰ء سے اب تک تیل یا توانائی کا وزیر کوئی نہ کوئی ٹیکنو کریٹ رہا ہے۔
عبدالعزیز بن سلمان کو تیل کی صنعت کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہے۔ ۱۹۹۰ء سے اب تک وہ اس شعبے سے وابستہ رہے ہیں۔ انہوں نے تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کے اجلاسوں میں برسوں تک شرکت کی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ شاہ سلمان ولی عہد کے لاابالی پن سے بیزار ہوکر اب طاقت کا متوازی یا متبادل مرکز تیار کر رہے ہوں!
سعودی قیادت چاہتی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ تیل کی تنصیبات پر حملوں کے حوالے سے محض زبانی جمع خرچ سے کام نہ لے بلکہ ایران کے خلاف حقیقی نوعیت کے اقدامات کرے۔ اگر یہ اقدامات نہ کیے گئے تو مزید حملے ہوسکتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے سعودیوں کو مشورہ دیا ہے کہ ایرانیوں سے بات چیت کی جائے۔ یہ تجویز خاصی شک کی نظر سے دیکھی گئی ہے۔ فی الحال تو یہ تجویز بالائے طاق رکھ دی گئی ہے تاہم کچھ ہی مدت میں یہ تجویز پھر ابھر کر سامنے آسکتی ہے۔ یہاں یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ حوثی باغیوں نے ایران اور متحدہ عرب امارات میں متعدد ٹھکانوں پر حملوں کی دھمکی دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ابو ظہبی میں کئی مقامات کو نشانے پر لے رکھا ہے۔
یمن میں جاری جنگ کو ختم کرانے میں عالمی برادری کو اپنا کردار فعال طریقے سے ادا کرنا چاہیے۔ یمن میں جاری جنگ کو ایران اپنے لیے ایک جواز کے طور پر لیتا ہے۔ سعودی عرب کو اس جنگ کی دلدل سے جلد از جلد نکل جانا چاہیے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Saudi leaders thought the kingdom was safe – they were wrong”. (“Brookings Institute”. September 19, 2019). (“Brookings Institute”. September 19, 2019)
Leave a Reply