
ان دنوں سعودی معاشرے میں شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی طرف سے کابینہ میں کی گئی تبدیلیاں اور بارہ نئے وزرا کو شامل کیے جانے کا اقدام، مختلف محکموں کی نظامتوں کے نئے سربراہوں کا تقرر اور سعودی شہریوں کے ریلیف کی خاطر کیے گئے اقدامات پر گفتگو جاری ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ شاہ کے یہ اقدامات مرحوم شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی طرف سے شروع کیے گئے اصلاحاتی اقدامات کو آگے بڑھانے اور تیزی کے ساتھ نتیجہ خیز بنانے کی کاوش ہے۔
خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے کابینہ میں اتھل پتھل کے اس اقدام میں جو چیز بطور خاص سب کے لیے مرکزِ نگاہ بنی ہے، وہ نوجوان چہروں کو کابینہ میں لیا جانا ہے۔ ان نئے چہروں کو حکومت کا مستقبل کہا گیا ہے۔
کابینہ میں ان نئے چہروں کو شامل کر کے ملکی تعمیر و ترقی میں ایک بامعنی کردار ادا کرنے کے لیے ان پر بھروسا اور اعتماد کیا گیا ہے کیونکہ آج کی دنیا جس تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے، ہم اس سے پیچھے رہ جانے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہمارے پاس مالی وسائل موجود ہیں اور انسانی سرمایہ اور وسائل سے بھی ہم لیس ہیں۔ ان وسائل کے ساتھ بہتر طرزِ حکمرانی اور معیارِ تعلیم کی بدولت ہم اپنی مملکت کو ترقی کی بلندیوں کی طرف تیزی سے لے جا سکتے ہیں۔
ایک صبر آزما ٹاسک
اس ناتے دیکھا جائے تو ان نئے مقرر کیے گئے وزرا اور دوسرے عہدے داروں پر بھاری ذمہ داری عائد ہو گئی ہے۔ ان تقرریوں کے حوالے سے ابتدائی سحر انگیزی کے بعد نئے وزرا اور عہدیداروں کے لیے احباب، رشتہ داروں کی طرف سے گلاب لفظوں اور مبارکبادوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اب ضرورت ہے کہ انہیں اس صبر آزما ذمہ داری اور مشکل ٹاسک کی اہمیت کی طرف متوجہ کیا جائے۔ جو بات ان نئے عہدیداروں کو ذہن میں رکھنا چاہیے، وہ یہ ہے کہ ان کے ذمہ بہت اہم ٹاسک ہے۔ خصوصاً عوام کے حوالے سے وزرا کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے۔
تعلیم، صحت اور سماجی بہبود کے شعبوں میں بطور خاص جدت کے ساتھ شہری ضرورتوں اور چیلنجوں کو دیکھنے اور ان کا حل پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ یہ سب کچھ راتوں رات ممکن نہیں ہے۔ اس کے لیے تحقیق، گہری وابستگی اور ٹیم ورک کی ضرورت ہے تاکہ ایک تبدیلی ہو۔ اس حوالے سے وزرا کی ذمہ داری ہے کہ قائدانہ مثال بنیں اور اپنی ذمہ داریوں کے دوران اپنی اناوں کو گھر چھوڑ کر آئیں۔ انہیں بڑے خشوع و خضوع سے یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ان کاموں کو پہلے سے نہیں سمجھتے تھے۔ اس لیے انہیں اب دوسروں کی بات سننے کے فن کو اختیار کرنا ہو گا۔
اس موقع پر میں اپنے وزرا کو یہ یاد دلانا چاہوں گا کہ اپنی ذمہ داریوں کے دوران کمزوریوں کو مضبوطی میں تبدیل کریں اور خطرات کو مواقع میں ڈھالنے کا عزم کیے رہیں۔ وزرا کو چاہیے کہ وہ لکیر کے فقیر بنے رہنے کے بجائے ’’آوٹ آف باکس‘‘ سوچنے کا ڈھنگ اپنائیں اور چیلنجوں کا مقابلہ کریں۔ انہیں اس مقصد کے لیے بہترین لوگوں کو اپنے ساتھ رکھنا ہو گا اور مشاورتی بورڈ بنانا ہوں گے۔ ایسے مشاورتی بورڈ جن میں صرف سینئر اور ایک نمبر لوگ شامل ہوں۔
اَقدار اور دیانتداری
وزرا اپنے محکموں اور کارپوریشنوں کے انتظامی سربراہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ بہترین مثالیں قائم کرنے والے بنیں۔ بہترین اقدار اور دیانتداری کو بروئے کار لائیں کیونکہ قیادت کا مقصد ہی خدمت ہوتا ہے نہ کہ مقام اور منصب، کوئی وجہ نہیں کہ وزرا صبح آٹھ بجے اپنے دفاتر میں نہ پہنچ سکیں۔
اس حوالے سے ان کے سامنے پہلے سے کافی مثالیں موجود ہیں، جن کی پیروی کی جانی چاہیے۔ ان مثالوں میں سنگاپور کے لی کوان ییو اور ملائیشیا کے مہاتیر محمد کی مثالیں اہم ہیں۔ وہ کس قدر منکسر المزاج تھے اور انہوں نے کس طرح اپنے ملک و قوم کو ترقی دی۔ شاہ سلمان نے ترقی و خوشحالی کا وعدہ کیا ہے، خود شاہ سلمان نظم و نسق اور سادگی کو پسند کرنے والے قائد کے طور پر ایک رول ماڈل ہیں۔ وزرا کو چاہیے کہ انہیں اور سعودی شہریوں کو مایوس نہ کریں۔
(بحوالہ: ’’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘‘۔ فروری ۲۰۱۵ء)
Leave a Reply