
امریکی صدر کے منصب پر جوزف بائیڈن کے باضابطہ طور پر فائز کیے جانے سے قبل سعودی رہنما اپنے آپ کو موافق پوزیشن میں لانے کے لیے کوشاں ہیں۔ علاقے کی صورتِ حال اور ایرانی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ مشکلات سے دوچار معیشت بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔
ایک ایسے دن کہ جب سعودی عرب نے تیل کی پیداوار میں دس لاکھ بیرل یومیہ کی کٹوتی کا اعلان کرکے تیل کی عالمی منڈی کو ہلادیا اور اس اقدام کو خیر سگالی کا مظہر قرار دیا تب سعودی عرب کے حقیقی حکمران (ولی عہد محمد بن سلمان) نے ایک الگ نوعیت کے بحران کو ختم کرنے کی خاطر شیشوں سے آراستہ خوبصورت کنسرٹ ہال میں مرکزی نشست سنبھالی۔
سعودی ولی عہد نے قطر سے کشیدہ تعلقات کے تین سالہ دور میں تمام معاملات اپنے ہاتھ میں رکھے۔ امریکا کے نومنتخب صدر جو بائیڈن نے، جو امریکی صدر کے منصب پر باضابطہ طور پر فائز کیے ہی جانے والے ہیں، انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ سعودی عرب کو مسترد کرکے الگ تھلگ کردیں گے۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے جب یہ دیکھا کہ معیشت خرابی کا شکار ہے اور ایران کی طرف سے کوئی حوصلہ افزا اشارہ نہیں مل رہا تو انہوں نے بہتر یہی سمجھا کہ تنازع اور محاذ آرائی کی راہ ترک کرکے مصالحت اور مفاہمت کے راستے پر گامزن ہوا جائے۔
۵ جنوری ولی عہد محمد بن سلمان نے سعودی شہر العلٰی میں قطر کے حکمران کو گلے لگایا اور تنازع ختم کیا اور یوں خود کو امن کی راہ ہموار کرنے والے رہنما کے روپ میں پیش کیا۔ اس کے چند ہی گھنٹوں کے بعد سعودی عرب نے تیل کی یومیہ پیداوار میں دس لاکھ بیرل کٹوتی کا اعلان کیا تاکہ تیل برآمد کرنے والے دیگر ممالک کے لیے معاملات کچھ بہتر ہوسکیں۔ سعودی عرب کے وزیر توانائی کہتے ہیں کہ یہ حکم براہِ راست ولی عہد محمد بن سلمان کی طرف سے آیا اور اس کے نتیجے میں امریکا میں توانائی کے اداروں کے شیئرز کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔
ان اقدامات کے ذریعے ولی عہد محمد بن سلمان نے خود کو مفاہمت پر آمادہ رہنما کی حیثیت سے عوام کے سامنے پیش کیا ہے۔ سعودی ولی عہد نے ۲۰۱۵ء میں مملکت کے معاملات اپنے ہاتھ میں لیے تھے۔ تب سے اب تک تیل برآمد کرنے والے سب سے بڑے ملک نے بعض ایسی خطرناک مہمات شروع کی ہیں جن کی اس سے توقعات کم ہی وابستہ کی جاتی رہی ہیں۔ یمن میں جاری خانہ جنگی میں حصہ لینا، روس سے تیل کی قیمتوں کے معاملے میں سرد جنگ وغیرہ نمایاں معاملات ہیں۔
ایک خلیجی ریاست کے سفارت کار نے بتایا کہ ولی عہد محمد بن سلمان نے طاقت کے دو لیور ایک ساتھ کھینچے ہیں۔ ایک طرف تو انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ سے بہتر تعلقات سے زیادہ سے زیادہ فوائد کشید کرنے کی کوشش کی ہے۔ امریکی صدر کے داماد اور خصوصی مشیر جیرڈ کشنر کو بھی قطر سے تعلقات بہتر بنانے کی تقریب میں مدعو کیا گیا۔ اور دوسری طرف انہوں نے تعمیری سوچ کا حامل ہونے اور امن کو ترجیح دینے والا دکھائی دے کر جوزف بائیڈن کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ انہیں (محمد بن سلمان کو) نظر انداز کیا جاسکتا ہے نہ الگ تھلگ ہی رکھا جاسکتا ہے۔ واشنگٹن کے امریکن انٹر پرائز انسٹی ٹیوٹ کے ریزیڈنٹ اسکالر کیرن ینگ کا کہنا ہے کہ محمد بن سلمان نے خود کو قائدانہ کردار کے لیے تیار کیا ہے تاکہ امریکا میں نئی انتظامیہ سے زیادہ سے زیادہ سفارتی فوائد حاصل کیے جاسکیں۔ ساتھ ہی ساتھ محمد بن سلمان نے بظاہر یہ بات بھی محسوس کی ہے کہ پچھلے چار برس کے دوران انہوں نے خارجہ پالیسی کے شعبے میں کچھ زیادہ مہم جوئی کی ہے۔
صدر ٹرمپ نے سعودی عرب سے خاصی قربت اختیار کی تھی۔ امریکی صدر کی حیثیت سے پہلے غیر ملکی دورے میں وہ سعودی عرب گئے تھے۔ ایسا کرکے انہوں نے سعودی عرب کے کٹر مخالف ایران کو سخت پیغام دیا تھا۔ یوں انہوں نے ولی عہد محمد بن سلمان کو سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے مابعد اثرات سے محفوظ رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جمال خاشقجی کو ۲۰۱۸ء میں ترکی کے شہر استنبول کے سعودی قونصلیٹ میں قتل کردیا گیا تھا۔
ایسا نہیں ہے کہ صرف جو بائیڈن نئے لہجے میں بات کر رہے ہیں۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے بھی دوسرے معاملات پر زیادہ توجہ دینا شروع کردی ہے۔ سعودی معیشت میں تنوع پیدا کرنے اور تیل پر کلیدی انحصار کی پالیسی کو بڑے دھچکے لگے ہیں۔ کئی معاملات میں سعودی عرب کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا نے اندرون ملک بھی بہت سے چیلنج کھڑے کیے ہیں۔
۲۰۲۰ء کا بڑاحصہ انہوں نے عوام سے دور اپنے ’’برین چائلڈ‘‘ نیوم (بحیرہ احمر) میں گزارا۔ یہ شہر مستقبل کے حوالے سے ان کے بہت سے منصوبوں کا مرکز ہے۔ کورونا وائرس کی وبا کے دوران سعودی فرماں روا سلمان بن عبدالعزیز اور وزیر خزانہ محمد الجدان نے عوام کی ڈھارس بندھائی۔
۵ جنوری کی سعودی قطر سربراہ ملاقات میں شاہ سلمان شریک نہ ہوئے۔ ولی عہد محمد بن سلمان میرِ محفل تھے۔ جو کچھ وہاں تھا اس سے محمد بن سلمان کے ارادے صاف ظاہر ہوئے یعنی العلٰی کو عالمی سیاحتی مرکز میں تبدیل کرنا۔ مذاکرات کے بعد محمد بن سلمان نے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی کو ساتھ لیا اور دورے پر گئے۔ دونوں سفید لیکسس میں سوار تھے جسے محمد بن سلمان چلا رہے تھے۔ چند سال قبل تک اس کا تصور تک محال تھا۔ ولی عہد محمد بن سلمان کے مشیر قطر کو خاصی باقاعدگی سے مطعون کرتے رہتے تھے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی خلیج کی مالدار ریاست پر اپنے معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔ یہ الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہے کہ قطر انتہا پسندی کو ہوا دیتا رہا ہے، اپنے فعال اور با اثر ٹی وی چینلز کو پڑوسیوں کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے بروئے کار لاتا رہا ہے۔ قطر ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتا آیا ہے۔ گلف ریسرچ سینٹر کے سینیر ریسرچ فیلو اور سیاسی تجزیہ کار ہشام الغنم کہتے ہیں کہ خطے کی بدلتی ہوئی صورت حال اور ایران پر توجہ مرکوز رکھنے کی خواہش نے سعودی عرب کو قطر سے تعلقات بحال کرنے کی راہ دکھائی۔ جو بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق بین الاقوامی معاہدے سے دوبارہ وابستہ ہونے کے امکان کا جائزہ لیں گے۔ صدر ٹرمپ نے اس معاہدے سے امریکا کو باہر نکال لیا تھا۔ جو بائیڈن کی اس بات نے سعودی عرب کو پڑوسیوں سے متعلق اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرنے اور انہیں بہتر بنانے کی تحریک دی ہے۔ ہشام الغنم کہتے ہیں کہ سعودی عرب خلیجی ریاستوں کے درمیان پائے جانے والے تنازعات کا حصہ بننے کے بجائے اب ریفری یا مصالحت کار کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔
تیل کی یومیہ پیداوار میں کٹوتی کا فیصلہ علاقائی اور عالمی سطح پر سعودی عرب کی پالیسی میں تبدیلی کا ایک اور مظہر ہے۔ سعودی عرب کے وزیر توانائی اور ولی عہد محمد بن سلمان کے بڑے ’’نصف بھائی‘‘ عبدالعزیز بن سلمان کہتے ہیں کہ تیل کی یومیہ پیداوار میں کٹوتی کا فیصلہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ سعودی عرب تیل کی دنیا کا قائد ہے اور یہ کہ وہ عراق سمیت تیل کے گرے ہوئے نرخوں کے باعث نقصان سے دوچار علاقائی ممالک کا بھلا چاہتا ہے۔ اس سے شاہ سلمان اور محمد بن سلمان کے عہد میں سعودی عرب کی آئل پالیسی میں تبدیلی کا ثبوت ملتا ہے۔ سعودی عرب نے عشروں تک تیل کو بالائے سیاست رکھا ہے مگر اب شاہی محل زیادہ مداخلت پسند ہوگیا ہے اور ملک میں توانائی کا میکینزم خاصا سیاسی ہوگیا ہے۔
سعودی وزیر توانائی عبدالعزیز بن سلمان نے تیل کی یومیہ پیداوار میں کٹوتی کو تکنیکی نہیں بلکہ سیاست و خود مختاری کی علامت جیسا اقدام قرار دیا۔ بزنس کی معروف ویب سائٹ بلوم برگ نے بتایا ہے کہ اس سے سعودی معیشت کو تھوڑا بہت دھچکا ضرور لگے گا۔ یہ ایک فیصلہ سعودی عرب کی تیل کی آمدنی میں ۳؍ارب ڈالر ماہانہ کی کمی کا باعث بنے گا۔
تیل کی پیداوار میں دس لاکھ بیرل یومیہ کی کٹوتی کا عالمی منڈی پر فوری اثر مرتب ہوا۔ خام تیل کے نرخ دس ماہ کی بلند ترین سطح (۵۰ ڈالر فی بیرل) تک جاپہنچے۔ اس دوران سعودی عرب روس کو پیداوار بڑھانے کی تحریک دے رہا ہے۔ سعودی عرب اور روس کے درمیان تیل کے نرخوں کی جنگ ایک سال سے بھی زائد مدت تک چلی ہے۔ روس کے معاملے میں مفاہمت پر مبنی رویہ اپنانے سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب فی الحال کسی بھی قسم کی محاذ آرائی کے موڈ میں ہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Saudi Prince hits a new year reset by making allies not enemies”. (“bloomberg.org”. Jan. 8, 2021)
Leave a Reply