
ان کا طویل ٹائٹل ان کی شخصیت کے بارے میں بہت کچھ بیان کرتا ہے۔ وہ سعودی عرب کے ولی عہد، ملک کے چیف انسپکٹر، اول نائب وزیر اعظم اور وزیر دفاع تھے۔ ان کی تدفین میں شریک ہونے والی شخصیات سے بھی یہی بات مترشح ہوئی کہ ان کا منصب بہت بلند تھا۔ بہت سی دوسری حکومتی شخصیات کے ساتھ ساتھ شام کے صدر بشارالاسد کے ایک چچا اور ایران کے وزیر خارجہ بھی تدفین میں شریک تھے۔ تدفین کے بعد تعزیت کے لیے امریکا کے نائب صدر جوزف بائیڈن بھی آئے۔
تدفین میں اعلیٰ غیر ملکی شخصیات کی موجودگی ثابت کرتی ہے کہ سعودی ولی عہد سلطان بن عبدالعزیز غیر معمولی اثر و رسوخ کے حامل تھے۔ وہ دنیا کے امیر ترین افراد میں شمار کیے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے سعودی فوج کو ۱۹۶۲ء سے اب تک غیر معمولی منظم رکھا ہے۔ سعودی عرب کے بانی عبدالعزیز بن سعود کی ۱۹۵۳ء میں وفات کے بعد ان کے پانچ بیٹوں کے ہاتھ میں سعودی عرب کا اقتدار رہا ہے۔ اب اس ترتیب کو عالمی حالات کے ساتھ ساتھ عرب دنیا میں اٹھنے والی عوامی بیداری کی لہر سے خطرہ ہے۔
۲۱ اکتوبر کو سعودی عرب کے ولی عہد سلطان بن عبدالعزیز کے ۸۶ سال کی عمر میں انتقال سے ایک بار پھر یہ بات واضح ہوگئی کہ سب سے زیادہ تیل برآمد کرنے والا ملک چند بوڑھے شہزادوں کا ایسا گروپ چلا رہا ہے، جو جدید دور کے تقاضوں کے بارے میں کم ہی کچھ جانتا ہے۔ خود شاہ عبداللہ بھی ۸۸ سال کے ہیں اور کمر کے آپریشنوں کے باعث مزید کمزور ہوگئے ہیں۔ ۱۹۷۵ء سے سعودی وزارتِ داخلہ کو خاصے سخت رویے کے ساتھ چلانے والے شہزادہ نائف (ولی عہد) کے ہاتھ میں سلطنت کے بیشتر امور ہیں۔
شہزادہ نائف پولیس چیف ہیں۔ ان کی عمر ۷۸ سال ہے۔ انہیں ذیابیطس ہے، جوڑوں میں درد رہتا ہے اور غصے کے بھی تیز ہیں۔ ۲۰۰۳ء میں سعودی عرب میں القاعدہ اور اس سے ہم آہنگ جہادی گروپوں سے سختی سے نمٹنے میں شہزادہ نائف کامیاب رہے ہیں۔ شہزادہ نائف خواتین کی سرگرمیوں کو محدود کرنے اور اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگائے رکھنے کی خواہش مند اسٹیبلشمنٹ سے بھی پوری طرح ہم آہنگ ہیں۔ سعودی دارالحکومت ریاض میں افلاس سے متعلق ایک دستاویزی فلم بنانے کی پاداش میں وسط اکتوبر سے تین نوجوان سعودی فلم سازوں جیل میں پڑے ہیں۔
شہزادہ نائف ایران کے حوالے سے بھی خاصا مخاصمانہ رویہ رکھتے ہیں۔ ایرانی کی انقلابی قیادت کے عزائم کے بارے میں شکوک و شبہات سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ سال رواں کے وسط میں سعودی عرب نے بحرین میں کیوں مداخلت کی جہاں دو تہائی آبادی شیعہ ہے۔ بحرین میں سعودی عرب کی عسکری مداخلت سے ایک طرف تو ایران کو پیغام مل گیا ہوگا اور دوسری طرف یہ خود سعودی شیعہ آبادی کے لیے بھی انتباہ ہوگا جو مجموعی آبادی کا دس فیصد ہے۔ بحرین میں جو کچھ ہوا اس کے نتیجے میں وہاں محاذ آرائی شدت اختیار کرگئی اور اب مستقبل قریب میں مفاہمت کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ یہ چھوٹی سی ریاست ممکنہ طور پر اپنے مالدار اور طاقتور پڑوسی (سعودی عرب) پر منحصر رہے گی۔
چند سفارت کار کہتے ہیں کہ شہزادہ نائف دوسرے سعودی شہزادوں کے برعکس زیادہ محنتی ہیں اور بیرونی دورے کم کرتے ہیں۔ ان سفارت کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ شہزادہ نائف کے مزاج کی سختی کا کچھ زیادہ ہی ڈھول پیٹا گیا ہے۔ سعودی فیشن کے مطابق انہوں نے وزارت داخلہ کو قریبی رشتہ داروں سے بھر دیا ہے جن میں تین تو ان کے اپنے بیٹے ہیں۔ ان کے بیٹے محمد بن نائف نے اسلامی شدت پسندوں کو کچلنے کے لیے گاجر اور چھڑی والی پالیسی اپنائی۔ محمد بن نائف نائب وزیر داخلہ ہیں۔ وہ حال ہی میں دنیا سے رخصت ہونے والے ولی عہد سلطان بن عبدالعزیز کے داماد ہیں۔ باور کیا جاتا ہے کہ جب بادشاہت شاہ عبدالعزیز کے بیٹوں سے نکل کر پوتوں میں منتقل ہوگی تو محمد بن نائف بھی ولی عہد ہوں گے۔
ایسا وقت جلد ہی آسکتا ہے۔ عبدالعزیز بن سعود کے ۳۵ بیٹوں میں سے چند ہی بچے ہیں۔ ریاض کے گورنر شہزادہ سلمان اور نائب وزیر دفاع عبدالرحمٰن میں بھی ولی عہد بننے کی صلاحیت ہے۔ شاہ عبداللہ نے اب ولی عہد کے انتخاب کا معاملہ فرمان کے ذریعے شہزادوں کی ایک کونسل کے سپرد کردیا ہے۔ فی الحال تو اس کونسل کی جانب سے شہزادہ نائف کی ولی عہدی کی توثیق ہی ممکن دکھائی دیتی ہے۔ کونسل تیسری نسل کے شہزادوں پر مشتمل ہے۔ ایسے میں کسی جواں سال ولی عہد کا انتخاب زیادہ دور کی بات نہیں لگتی۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’دی اکنامسٹ‘‘ لندن۔۲۹ اکتوبر ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply