
سعودی عرب کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ شہزادہ بندر بن سلطان کو بظاہر امریکا کے دباؤ پر برطرف کردیا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا اس بات پر سخت ناخوش تھا کہ شہزادہ بندر بن سلطان نے شام میں بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کی حکمتِ عملی تیار کی تھی۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ شام میں حکومت کی تبدیلی سعودی حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ہے۔ کیونکہ شہزادہ بندر بن سلطان کی برطرفی کے باوجود وہ اِسی راہ پر گامزن ہے۔
ریاض نے اس بار بھی وہی کیا ہے جو وہ ایسے مواقع پر کرتا آیا ہے۔ بندر بن سلطان کو ہٹانے کے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کوئی حقیقی سبب بیان کرنے کے بجائے محض اتنا کہہ دینے پر اکتفا کیا گیا ہے کہ اسپائی چیف نے منصب چھوڑنے کی خواہش ظاہر کی تھی اور یہ کہ ان کی جگہ ان کے نائب یوسف الادریسی کو عارضی طور پر انٹیلی جنس چیف مقرر کیا جارہا ہے۔ سیاسی اور سفارتی امور کے ایک سعودی تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ امریکا شام میں حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے بندر بن سلطان کی کوششوں سے سخت ناراض تھا۔ اس نے گزشتہ دسمبر میں سعودی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ بندر بن سلطان کو برطرف کردیا جائے۔
شواہد بتاتے ہیں کہ بندر بن سلطان نے شام میں حکومت کے خلاف لڑنے والوں کو اسلحہ دینے اور منظم کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ تین سال کی لڑائی کے بعد باغی اب تک حکومت کا تختہ الٹنے کی پوزیشن میں نہیں آسکے ہیں۔
بندر بن سلطان شامی باغیوں کو ایسے ہتھیار دینا چاہتے تھے جن کی مدد سے وہ طاقت کا توازن اپنے حق میں کرنے اور فوج پر بالادستی پانے میں کامیاب ہوسکیں۔ امریکا کو یہ بات قطعی پسند نہ تھی۔ اب تک شامی افواج زمینی لڑائی میں ہر مورچے پر باغیوں کے خلاف بالا دست رہی ہیں۔ بیشتر باغی گروپوں کے پاس جدید اسلحے کی شدید کمی ہے۔
شہزادہ بندر بن سلطان طویل عرصے تک واشنگٹن میں سفیر کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ اس دوران انہوں نے سابق امریکی صدور جارج ہربرٹ بش اور ان کے بیٹے جارج واکر بش سے بہتر تعلقات استوار رکھے۔ اِنہی تعلقات کی بنیاد پر انہیں ’’بندر بش‘‘ کہا جاتا ہے۔ صدر براک اوباما کی قیادت میں کام کرنے والی ڈیموکریٹ انتظامیہ پر بندر بن سلطان شدید نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔ گزشتہ اگست میں جب شامی افواج کی طرف سے کیمیائی ہتھیار بڑے پیمانے پر استعمال کیے جانے کے بعد امریکا نے شامی حکومت کے خلاف کارروائی کے اعلان کے باوجود کوئی اقدام کرنے سے گریز کیا، تو بندر بن سلطان نے مغربی سفارت کاروں کے سامنے امریکا کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ایک مغربی سفارت کار کے مطابق بندر بن سلطان نے یہ بھی کہا کہ سعودی عرب اب امریکا کو اپنا مرکزی اتحادی نہیں سمجھتا بلکہ فرانس اور دیگر قوتوں سے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کو ترجیح دے گا۔
بندر بن سلطان کو ۲۰۱۲ء میں سعودی انٹیلی جنس کا چیف مقرر کیا گیا تھا۔ انہوں نے گزشتہ دسمبر میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن پر زور دیا تھا کہ وہ شام کی بشار الاسد انتظامیہ کی حمایت ترک کر دیں، مگر یہ کوشش ناکام ثابت ہوئی تھی۔ اس واقعہ کو سعودی انٹیلی جنس چیف کی حیثیت سے ان کی آخری پبلک اسائنمنٹ تصور کیا جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بندر بن سلطان نے شام کے معاملے میں انقلاب پسند اسلام نوازوں کی بھرپور حمایت کا اظہار کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں سعودی حکومت کو جہادیوں سے لاحق خطرات بڑھ گئے ہیں۔
انٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز میں علاقائی سلامتی کے سینئر فیلو ایمل ہوکائم کہتے ہیں: ’’شام کے حوالے سے بندر بن سلطان کا جارحانہ رویہ اس امر کا غماز ہے کہ سعودی انٹیلی جنس چیف کی حیثیت سے انہوں نے اس معاملے میں جو اہداف مقرر کیے تھے، ان میں اور دیگر اقدامات میں بہت فرق تھا۔ کسی ایسی حکومت کو گرانا بظاہر سعودی حکومت کے بس کی بات نہ تھی، جسے ایران اور روس کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہو۔ سعودی عرب کو اپنے اہداف کے حصول میں اس لیے بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے کہ ایک طرف تو مغربی دوست کھل کر اس کا ساتھ نہیں دے پائے ہیں اور علاقائی سطح پر بھی اس کے ہم خیال ممالک (ترکی اور قطر) اپنا کردار عمدگی سے ادا کرنے کے قابل نہیں ہوسکے۔ کئی عرب ممالک نے شام میں فوج سے لڑنے والے باغیوں کو اسلحہ بھی دیا ہے اور جہادی بھی۔ مگر باغیوں کے تمام گروپ چونکہ غیرمنظم ہیں، اس لیے ان سے معاملات طے کرنا بہت مشکل ہے۔ دوسری طرف بشار انتظامیہ کو ایران کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے اور باغیوں کی لڑائی میں اسے لبنان کی حزب اللہ ملیشیا سے بھرپور مدد بھی ملتی رہی ہے‘‘۔
سفارت کاروں نے بتایا ہے کہ بندر بن سلطان کو شام کے معاملات سے فروری میں الگ کردیا گیا تھا۔ یہ معاملات وزیر داخلہ شہزادہ محمد بن نائف کے حوالے کر دیے گئے تھے، جو سعودی عرب میں القاعدہ کے اثرات ختم کرنے کے حوالے سے سخت اور انتہائی غیر لچکدار پالیسی کے حامی رہے ہیں۔ جب شام کے حوالے سے تمام معاملات سے بندر بن سلطان کو الگ کردیا گیا، تب یہ اعلان بھی کیا گیا کہ سعودی عرب کے جو باشندے بیرون ملک کسی بھی لڑائی میں حصہ لیں گے، اُن سے سختی سے نمٹا جائے گا اور انہیں بیس سال تک قید بھگتنی پڑے گی۔
ایمل ہوکائم کہتے ہیں کہ شام کی لڑائی میں سعودی باشندوں کا شریک ہونا سعودی حکومت کے لیے شدید پریشانی کا باعث بنا ہے۔ اس کے لیے لازم ہوگیا تھا کہ شام کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرتی۔ مگر ماہرین کہتے ہیں کہ بندر بن سلطان کے جانے سے شام کے معاملے میں سعودی پالیسی تبدیل نہیں ہوئی۔ معروف عرب کالم نگار جمال خشوگی نے لکھا ہے کہ سعودی حکومت اب بھی چاہتی ہے کہ شام میں بشارالاسد کی حکومت برقرار نہ رہے۔ اس حکومت کا تختہ الٹنا اس کی ترجیحات میں سے ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بندر بن سلطان شام کے بارے میں جو سوچ رکھتے تھے، وہ ذاتی پسند کا معاملہ تھا۔ شام کے معاملے میں بندر بن سلطان کی سوچ وہی تھی، جو سرکاری پالیسی تھی۔ بندر بن سلطان نے وہی کیا جو شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے کہا۔
(“Saudi spy chief ousted under US pressure”… Daily “Dawn” Karachi. April 18, 2014)
Leave a Reply