
رواں ہفتے سعودی عرب کے نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان واشنگٹن کا دورہ کریں گے، جہاں وہ سینئر امریکی حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔صدر بائیڈن کے عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ کسی بھی سعودی حکومتی شخصیت کا پہلا دورہ ہے۔۳۳ سالہ شہزادہ خالد بن سلما ن ۲۰۱۷ تا ۲۰۱۹ء امریکا میں سعودی عرب کے سفیر رہ چکے ہیں۔پھر انھیں وزارتِ دفاع کے امور سنبھالنے کے لیے واپس بلا لیا گیا تھا۔اگر چہ دفاع کی وزارت محمد بن سلمان کے پاس ہے تاہم چوں کہ وہ عملاً ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں اس لیے وزارتِ دفاع کے امور شہزادہ خالد کے سپرد کیے گئے۔F-15کے ہواباز شہزادہ خالد یمن میں داعش کے خلاف کارروائیوں کا عملی تجربہ رکھتے ہیں،آج کل انھیں محمد بن سلمان کا سب سے قابل اعتماد ساتھی سمجھا جاتا ہے۔شاہی قوانین کی ایک شق کی وجہ سے وہ ولی عہد تو نہیں بن سکتے تاہم محمد بن سلمان کے بیٹوں کی کم عمری کی وجہ سے انھیں ولی عہد کے مضبوط امیدوار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
شہزادہ خالد نے دو سال تک امریکا میں سفارت کار کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، تاہم ان کے دورِ سفارت کا اختتام استنبول میں سعودی سفارت خانے میں واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جمال خاشقجی کے قتل کی وجہ سے اچھا نہ ہو سکا۔ جمال خاشقجی نے ترکی جانے سے پہلے واشنگٹن میں شہزادہ خالد سے ملاقات کی تھی۔اس سال منظر عام پرا ٓنے والی خفیہ رپورٹ کے مطابق محمد بن سلمان نے جمال قاشقجی کو زندہ گرفتار کرنے یا مار دینے کے لیے آپریشن کرنے کی منظوری دی تھی۔ ٹرمپ انتظامیہ کے برعکس صدر بائیڈن محمد بن سلمان کے بجائے شاہ سلمان سے رابطہ کرتے ہیں جو کہ بیما ر ہیں۔ جبکہ محمد بن سلمان کا رابطہ دفاعی سیکرٹری Lloyd Austinسے ہے۔
اسی طرح امریکا کی جانب سے خلیجی ممالک سے میزائل دفاعی نظام کی تعداد میں کمی لانے کی خبریں سامنے آئی تھیں جس کے بعد ہی شہزادہ خالد کے دورے کی خبریں سامنے آئی ہیں۔میزائل دفاعی نظام کی یہ اضافی تنصیبات ۲۰۱۹ء میں ایرانی ڈرون حملے کے بعد کی گئی تھیں۔ماہ اپریل میں ایران اور سعودی عرب نے باہمی تناؤ کو کم کرنے کے لیے براہ راست رابطوں کا آغاز کیا۔ان مذاکرات میں حوثی باغیوں کے معاملے پر بھی بات چیت ہوئی جو کہ یمن سے سعودی اہداف کو ایرانی اسلحے سے نشانہ بناتے ہیں۔
جب شہزادہ خالد کی امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ، پینٹاگون اور قومی سلامتی کونسل کے حکام سے ملاقاتیں ہو ں گی تو اطلاعات یہی ہیں کہ عراق، شام کی صورت حال، یمن جنگ اور اسرائیل فلسطین مسئلہ ہی ملاقات کا ایجنڈا ہوگا۔ اس بارے میں ابھی تک خبر نہیں کہ آیا وہ کابینہ ارکان کی سطح کے لوگوں سے بھی ملاقات کریں گے یا نہیں،جیسا کہ اسٹیٹ سیکریٹری انتھونی بلنکن۔ ’’وال اسٹریٹ جرنل ‘‘کے مطابق سعودی عرب کی طرف سے یہ کوششیں کی جارہی ہیں کہ قانون سازوں سے بھی ان کی ملاقات ہو جائے، تاہم ان کے دورے کے دوران کانگریس کے ارکان چھٹیوں پر ہوں گے اور ویسے بھی بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں کے پیش نظر کانگریس ارکان سعودیوں سے ملاقات کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔
ریاض کے لیے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ایران اور اور ایٹمی پروگرام معاہدے کی ممکنہ بحالی ہے۔اس کے علاوہ سعودی اس بات پر بھی نالاں ہیں کہ امریکا نے خطے میں اس کے بجائے متحدہ عرب امارات کو سب سے پہلے F-35 طیارے فروخت کرنے کی منظوری دی۔ اسی طرح سعودی اور اماراتی تعلقات میں ہونے والی دیگر پیش رفت بھی اس ہفتے ہونے والے واشنگٹن مذاکرات کا موضوع بنیں گی۔
ایک اور اہم بات یہ کہ گزشتہ برس ہونے والے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات اور بحرین کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی سہولت کاری کا کام بھی پس پردہ رہ کر سعودی عرب نے ہی کیا تھا۔اسی سہولت کاری کے تحت اسرائیلی مسافرطیاروں کو بحرینی اور اماراتی فضائی حدود کے استعمال کی اجازت ملی تھی۔اور سہولت کاری کا یہ اقدام جمال خاشقجی کے قتل کے واقعے کے بعد امریکا کی ناراضی سے بچنے کے لیے کیا گیا تھا۔ تاہم اس سب کے باوجود بھی سعودی عرب نے’’ابراہم معاہدے‘‘میں شامل ہونے سے انکار کر دیا، جس کی وجہ شاہ سلمان تھے جنھوں نے فلسطین اور یروشلم کے حوالے سے خدشات ظاہر کیے۔
ابھی حال ہی میں ’’اوپیک پلس‘‘کے جاری مذاکرات بھی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان اختلافات کی وجہ سے بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئے۔متحدہ عر ب امارات چاہتا تھا کہ کووڈ وبا کے بعد کی تیل کی طلب میں اضافے میں اس کی پیدواری صلاحیتوں میں اضافہ کو باقاعدہ طور پر تسلیم کیا جائے اور اسی کے حساب سے اس کا کوٹہ مختص کیا جائے۔جس پر سعودی عرب نے اختلاف کیا۔
اسی دن سعوی عرب نے اعلان کیا کہ خلیجی ممالک سے درآمد ہونے والی ان اشیا پر ترجیحی ٹیرف نافذالعمل نہیں ہو گا جس میں اسرائیلی اشیا شامل ہوں گی۔یہ فیصلہ نظریاتی نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد سعودی عرب کو خطے کا تجارتی حب بنانا ہے۔ اس فیصلے سے سب زیادہ متاثر متحدہ عرب امارات ہو گا کیوں کہ یہیں اسرائیل نے سب سے زیادہ سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ مختصر یہ کہ شہزادہ خالد کا یہ امریکی دورہ سعودی عرب امریکا تعلقات کے لیے خاص اہمیت کا حامل ہو گا۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“Saudi visit to Washington will have a Thorny agenda”. (“washingtoninstitute.org”.Jul 6, 2021)
Leave a Reply