
آج ہم تقریباً دنیا کے آخری دور میں قدم رکھ چکے ہیں۔ اس دنیا کی زندگی کے آغاز میں جب کہ وہ ایک طفل کی مانند تھی رہنمائی کے لیے نبیوں کے سلسلے کا آغاز کیا گیا اور آج جب کہ ایک لاکھ ۲۴ہزار پیغمبروں کے سلسلے کو ختم کرتے ہوئے نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ کے ذریعہ اس سلسلے کااختتام کر دیا گیا اور آپؐ کو بھی اس دنیا سے رخصت ہوئے ۱۴ صدیوں سے زائد کا عرصہ بیت گیا۔ آغاز ہی میں فکر کو ضالحیت سے ہمکنار کیا گیا ، جس قدر اس کو ضرورت تھی اسی قدر پختگی عطا کی گئی ، تہذیب و تمدن سے نوازا گیا اور پھر رفتہ رفتہ وقت اور ضرورت کا لحاظ رکھتے ہوئے مزید رہنمائی دی جاتی رہی ۔ ایک طرف اسلام نے تہذیب و تمدن عطا کیا تو دوسری طرف عقل انسانی نے بھی اپنے جوہر دکھائے ۔ کبھی اسلام کی چہار دیواری میں رہ کر زندگیاں بسر کی گئیں تو کبھی اس سے دوری پیدا کرنا اپنی شان سمجھا گیا ۔ کبھی محدود عقل کو ٹھنڈے اور میٹھے دریائوں سے سیراب کیا گیا تو کبھی گندے نالوں اور جامد پانی کے ڈھیروں سے حیات جاوداں طلب کی گئی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سوائے چند کے زیادہ تر لوگ ادھر ادھر بھٹکتے رہے اور پھر بھٹکنے والوں کی تعداد میں آنے والی ہر نئی صبح اضافہ ہی ہوتا گیا اور آج یہ تعداد اپنے بام عروج پر ہے ۔ ان لوگوں نے گمراہیوں میں لت پت ہونے کے باوجود اس گندی دلدل ہی میں رہنا پسند کیا جس کو اگر ایک مرتبہ وہ اپنی آنکھ سے دیکھ لیتے تو شاید وہ اپنی ہلاکت پسند کرتے لیکن دوبارہ اس کا رخ نہ کرتے ، لیکن ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی جس کو وہ اپنی کم علمی اور کم فہمی کی بنا پر باندھے گھومتے رہے اور نظر کچھ نہ آیا۔ اس کے باوجود وہ سب کچھ دیکھ رہے تھے ، سب کچھ جانتے تھے اور ان کو کسی ایسے درس کی بھی ضرورت نہیںجس سے ان کی آنکھوں پر بندھی پٹی کھل جائے اور وجہ کچھ نہیں ! سوائے اس کے کہ وہ اس کے عادی ہو چکے تھے اور اپنی عادت کو بدلنا نہیں چاہتے تھے۔ آج بھی یہی حقیقت ہے اس گروہ کی جو اپنے آ پ کو تہذیب و تمدن کا علمبردار سمجھتا ہے اور اپنی فرعونیت کو چہار جانب پھیلانے کا خواہاں ہے ۔ اس کے برعکس اس گروہ کا بھی عجب حال ہے جو اپنی الگ پہچان ، الگ ضابطہ حیات رکھنے کے باوجود اس بات کا خواہاں ہے کہ اس جیسی چال ڈھال کو اپنا کراسی جیسا بن جائے جس کا تذکرہ اوپر آچکا ہے۔
آج جس تہذیب کا سکہ دنیا پر چھایا ہوا ہے اگر اس کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے ۔ کہ وہ خود ہی اس مقام تک نہیں پہنچ گئی ، بلکہ اس کے لیے منظم کوششیں کی گئیں، اپنی آرزوئوں اور تمنائوں کو دنیا پر مسلط کرنے کے لیے قربانیاں دی گئیں۔ اور اس کو ہمہ گیر بنانے کے لیے بھی معصوموں کے خون کی ندیاں بہائی گئیں تو کبھی نام نہاد انسانیت کے علمبرداروں نے انسانوں کو گھروں سے گھسیٹ کر ان میدانوں میں لاکر پھینک دیا جہاں وہ درندوں کا لقمہ بنیں ۔ نیز ان کو مادہ پرستانہ تہذیب کے رنگ میں رنگنے کی کوششیں کی گئیں جس کے پیچھے ان کا اصل مقصد خدا پرستانہ اصول واقدار اور تہذیب و ثقافت کو جڑ سے اکھاڑ کر نئے طرز فکر، نئے دل و دماغ اور نئے مقاصد کا فروغ تھا۔ انہوں نے دولت کے ایسے انبار لگائے اور ایسی سر سبز و شاداب وادیوں کی سیر کرائی جو حقیقت میں تو خواب ہی تھے مگر اس کو حقیقت میں بدلنے کے لے ’’معصوم انسانوں‘‘ کے ذہنوں کو بدل دیا، پھر خیر و شر میں سب سے بلند مقام دولت کو حاصل ہوا جس نے انسانیت کو بدترین درجہ کے گروہوں میں تبدیل کر دیا نتیجہ یہ ہوا کہ اشتراکیت مستحکم ہوئی اور اسلامی فکر کے علمبردار جو بہت کمزور ہو گئے تھے، احساس کمتری کا شکار ہو گئے ۔ اس کے مفکرین اور مصلحین نیز اس کے حکمرانوں کی ایک بڑی تعداد احساس کمتری کا شکار ہو کر یہ سمجھ بیٹھی کہ اسلام اب ماضی کا قصہ ہے ۔ اگر اس کی ضرورت ہے تو بس عبادات کی حد تک ، جہاں تک دنیاوی نظام کو چلانے کی بات ہے تو وہ انہی مغربی مفکرین کے پاس ہے جو آج دنیا کے امام بن گئے ہیں۔ جن کے ہاتھ میں دنیا کی باگ ڈور ہے ۔ اس احساس کمتری کی اصل وجہ قرآن و سنت کی تعلیمات سے دوری اور نا واقفیت تھی اور ہے ۔
ہم غور کریں تو معلوم ہو گاکہ صرف موجودہ حالات میں ہی نہیں بلکہ امت مسلمہ کے لیے ہر دور میں ایک ایسا گروہ نا گزیر رہا ہے جو نہ صرف اسلامی زندگی کے ہر میدان میں نمایاں خدمات انجام دے رہا ہو بلکہ عملی اور فکری لحاظ سے وہ اس قدر مضبوط ہو کہ اسلام کے خلاف اور اسلام کے نظام حیات سے ٹکرانے والی ہر فکر کا مؤثر اور مدلل جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جہاں غیر اسلامی فکر کے حاملین و مفکرین کے لیے یہ چیز معنی خیز نہیں ہوتی کہ اس فکر کے علمبردار ہونے کی حیثیت سے خود ان کا عقیدہ کس قدر مضبوط ہے اور عملی میدان میں ان کی زندگیاں کیا شہادت دے رہی ہیں، اس کے بر خلاف اسلامی فکر اور اس کے علمبرداروں کے لیے یہ چیز لازمی ہے کہ ان کے عمل اور ان کی فکر میں تضاد نہ پایا جائے ۔
اس اہم ترین نکتہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی فکر کے علمبرداروں کے لیے علمی ، فکری اور عملی میدان میں ربط و یکسانیت رکھنا نا گزیر ہے اور یہی وہ چیز ہے جو اسلام کی فکری تحقیقات کو دیگر نظریات سے الگ کر دیتی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ عمل کے لیے مضبوط فکر ضروری ہے اور فکر کے لیے علم کا ہونا لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتا ہے ۔ وہیں دوسری طرف محقق کا علم اور اس علم کی بنیاد پر اس کا عمل کس حد تک یکسانیت رکھتا ہے یہ بھی غور کرنے کے قابل ہے اور اسلام میں اس چیز کی ہی اہمیت ہے ۔ پھر دنیا بھی اسی نقطہ نظر سے دیکھتی اور پرکھتی ہے یہ ممکن ہے کہ کسی کا کل ، آج سے مختلف ہو یعنی ماضی اور حال میں تضاد ہو سکتا ہے اور ہم بھی ماضی کی بات نہیں کریں گے صرف حال اور مستقبل کی ہی بات کریں گے لیکن آج اگر علم اور عمل میں تضاد ہوتاہے تو یہ ایک مسلمان کے لیے بہتر علامت نہیں ہوگی ۔
ایک زمانے میں کلیسا سے بغاوت کے نتیجہ میں مذہب کو اور مذہب کی جائز پابندیوں کو بھی زندگی کے ہر میدان سے مکمل طور پر الگ کر دیاگیا، نتیجہ ایک ایسے سماج کا جنم ہوا جہاں زندگی کے کسی بھی مرحلہ میں کوئی قید نہیں تھی۔ اس سے نہ صرف خاندان تباہ ہوئے بلکہ تہذیب و تمدن کی بنیادیں تک تبدیل ہو گئیں۔ ’’روشن خیالی‘‘ کے ابتدائی دور سے لے کر اب تک اسلامی تعلیمات و عقائد اپنے آپ میں مکمل جاذبیت رکھنے کے باوجود اسلام اور اسلامی تعلیمات سے بغض رکھنے والوں کے لیے چیلنج رہے ہیں لہذا یہ قوتیں مختلف مفروضوں کے تحت حملے کرتی رہی ہیںاور آج بھی کر رہی ہیں افسوس کہ ان باہری حملوں سے جس قدر اسلام کو کسی بھی دور میں نقصان نہ پہنچا ہو گا اس سے کہیں زیادہ ’’روشن خیال‘‘ اور خود ساختہ مفکرین و مصلحین نے اسلام کو خوب خوب ضربیں لگائی اور لگائے چلے جا رہے ہیں اور ان کی معصومیت کی انتہا یہ ہے کہ وہ خود اس بات سے نا واقف ہیں!
اسلام جس نے علم کی دولت سے نوزا، غور وفکر کرنے کے لیے کہا، تحقیق و جستجو جس کی بنیاد ہے ، اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسان کے لیے جو بے شمار نعمتیں رکھی ہیں ان کے محصول کی دعوت دی ، ان سے فیض یاب ہونے کی تلقین کی ، جب تک مسلمانوں نے اس پر عمل کیا، دنیا کے امام کی حیثیت سے رہے اور جب ان چیزوں کو جس جس مرحلہ میںچھوڑ تے گئے اسی طرح مغلوب اور ناکام ہوتے گئے جب تک قرآن و سنت کو بنیاد بنا کر اسلامی فکر سے سیراب ہو کر مسائل کو حل کیا، تب تک مسائل بھی حل ہوتے رہے اور ہر طرح کا آرام و سکون بھی میسر آیا لیکن جیسے جیسے اسلامی فکر و عمل سے دوری ہوتی گئی ان کی ذہنی ساخت بھی کمزور ہوتی گئی۔ پھر ایک دور ایسا بھی آیاکہ علم و فکر اور عمل سے عاری مسلمان اسلامی تعلیمات سے عملی زندگی میں بھی دور ہوتے گئے ۔ ’’روشن خیالی‘‘ کے بہائو میں بہنا نہ صرف ان کی مجبوری بن گئی بلکہ ان کی پسند بھی بنتی چلی گئی ۔ اپنے مضبوط تناور درخت سے وہ ایک ایک پتے کی طرح ٹوٹتے اور بکھرتے چلے گئے۔ پانی کے تیز دھارے سے مقابلہ کرنا ان کے لیے خود کو موت کے گھاٹ اتارنے کے برابر ہو گیا اور دہکتی ہوئی آگ میں وہ اس قدر جھلس گئے کہ اپنی شناخت ہی کھو بیٹھے۔
ایسا نہیں ہے کہ اسلامی فکر رکھنے والے لوگ نا پید ہو گئے یا کسی بھی زمانے میںنایاب ہو گئے بلکہ سچ یہ ہے کہ جس زمانے میں بھی جس قدر ان کی تعداد رہی اس سے کہیں زیادہ ان کی کوششوں کے مثبت نتائج بر آمد ہوئے ۔ دراصل علم وہ ہے جو عمل میں تبدیل ہو کر دنیاکو فیض یاب کر سکے ۔ ان تینوں چیزوں میں جہاں اور جتنی کمی ہو گی اس سے نتائج بھی اتنے ہی کم حاصل ہو سکیں گے پانی کے تیز بہائو میں بہنا نہایت ہی آسان ہے لیکن اگر اس تیز بہائو کے رخ کو بدلنے کی جرات ہو تو پھر یہ بھی ممکن ہے کہ بدن میں درد ہو، ہاتھ پیر سوج جائیں، تیز بہائو میں بہتی ہوئی چیزوں سے ٹکرانے کے نتیجہ میں ہاتھ پائوں کی ہڈیاں ٹوٹیں اور وقتی طور پر کچھ اس سے بھی بڑی آزمائش کا سامنا کرنا پڑ جائے ۔ لیکن جو لوگ اس بہائو کا رخ بدلنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی ان کو پورا یقین بھی ہو کہ پانی کا بہائو ان کو بربادی و تباہی کی طرف بہت تیزی کے ساتھ لیے جا رہا ہے تو ایسے میں چھوٹی آزمائش برداشت کرنا شاید اس سے کہیں بہتر ہو کہ حالات کے دھارے پر بہہ جایا جائے ۔
اس طرح کی آزمائشوں کو برداشت کرنے سے پہلے ان راہوں کا صحیح فہم ہونا چاہیے جو بربادی سے بچا کر ہدایت و فلاح فراہم کرانے والی ہیں اگر یہ بصیرت نہ ہو تو دور ان سے ٹکرنے کے بارے میں سوچنا بھی اس سے کہیں زیادہ خوف ناک ہو جائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو یہ نعمت دی ہے کہ وہ علم و فہم کی بنا پر فیصلہ کریں۔ اور جہاں یہ علم نہیں ہوتا وہاں فیصلے بھی صحیح نہیں ہو پاتے یاجس درجہ کا علم ہوتا ہے اسی درجہ کے فیصلے لیے جاتے ہیں لہذا یہ بات پوری طرح عیاں ہو گئی ہے کہ باطل کے تیز بہائو کے رخ کو موڑنے والوں کے لیے خود علمی ، فکری اور عملی بنیادوں پر پختہ ہونا چاہیے۔ یہی پختگی ان کے کرداروں کو اس درجہ بلند کردیتی ہے جس کے بعد وہ بہ آسانی اس طوفان کے سامنے ڈٹ جانے کے لائق ہو جائیں نیز اس کے رخ کو موڑنے کے لیے کمر بستہ ہو جائیں۔
تمدن انسانی کے ہر دور میں دو ہی طرح کی کوششیں ہوتی نظر آتی ہیں ایک طرف گروہ انسانی شروفسادکے علمبردار کی حیثیت سے اٹھتا ہے تو دوسری طرف خیر و فلاح کا داعی بن کر ۔ کبھی وہ تخریب اور بگاڑ کے فاسد طوفان کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے تو کہیں امن وسکون کا پیکر بن کر ۔ کبھی ایک فرد اور کبھی ایک پورے کا پورا نبوہ ایک عارضی جنت کی تعمیر میں اپنی تمام تر صلاحتیں اور اپناسارا سرمایہ حیات کھپا دیتا ہے تو کچھ ایسے بلند حوصلہ بھی پیدا ہوتے ہیں جو نیکی، سچائی اور انصاف کا سکہ چلا کے دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔ اور یہی وہ ہستیاں ہوتی ہیں جن کے دم سے دنیا فیض یاب ہوتی ہے تمدن میں نکھار آتا ہے اللہ کی زمین پر اللہ کی بڑائی بیان کی جاتی ہے انسان اپنا ارتقاء کرتا ہے، یہاں تک کہ انسان فرشتوں سے اوپر اٹھ جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ جو رب العالمین ہے ایسے ہی انسان اور گروہ کو اپنے خاص فیض سے مالا مال کرتا ہے اور اپنے پسند یدہ بندوں میں شمار کرتے ہوئے دنیا و آخرت کی ساری نعمتیںنچھاور کر دیتا ہے ۔ اور یہ سب اسی صالح علم کی بنیاد پر قائم مثبت فکر سے لبریز پختہ افراد کے عمل کے نتیجہ میں رونما ہوتا ہے جس کی ہر زمانہ کو تلاش رہی ہے ۔
ہم دیکھتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے تاریخ کی رگوں میں صالح و پائیدار روایات کاخون دوڑایا ہے وہی ہیںجنہوں نے آسمان تہذیب پر اخلاقی اقدار کے تارے جگمگائے، وہی ہیں جنہوں نے حوصلوں کو بلندیاں عطا کیں اور امیدوں اور ارمانوں کو واضح شکل عطا کی، ایسے ہی لوگوں نے قربانی اور جدو جہد کے نہ صرف درس دیئے بلکہ اپنی عملی زندگیاں بھی بطور نمونہ پیش کر دیں اور قیامت تک کے لیے تاریخ میں ایسے ریکارڈ محفوظ کر دیئے جن سے روح و عمل کے سوتے بہتے ہوں اور دنیاان سے خوب خوب سیراب ہو۔ یہ ہیں وہ لوگ کہ جب ظلم و تشدد کرنے والوں نے ان کو چہار جانب سے کبھی فکری میدان میں تو کبھی عملی میدان میں گھیر لیا تو انہوں نے ہمت نہ ہاری جس مقام پر وہ کھڑے تھے اس سے پستی کی جانب نہ جا گرے ، بلکہ ان کا بھر پور مقابلہ کیا۔ ظالم جو دوسروں پر ظلم توڑنے کے باوجود درحقیقت خود اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے، نہ صرف ان کو بلکہ جہاں تک ان کی آواز پہنچی نوع انسانی کو شجاعت کا ایسا نمونہ پیش کیا ہ فکر وعمل کی رکی ہوئی ندیوں کو نئے سرے سے بہنا سکھادیا، تمدن کے یخ بستہ سمندر میں پھر سے حرارت پیدا کر دی ، تغیر کی رو اٹھا کر سنگین نظام اور آہنی ماحول کو الٹ کر رکھ دیا یہ وہی تھے جو کل بزدل تھے مگر آج میدان فکر و عمل کی اگلی صفوں میں کھڑے ہو گئے ۔
آئیے ایک لمحہ کے لیے ٹھہریں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہماری بات کس جانب رواں دواں ہے اور ہمیں مطلوب کیا ہے ؟ تو معلوم ہوا ہم کسی ایسی عمارت کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں جو علم کی وسیع وادیوں میں سے گزرتے ہوئے فکر کی ایسی عمارت کی تعمیر کرے جو عمل کی بھٹی میں خوب تپ کر اپنی پوری آن بان کے ساتھ دنیا کے سامنے ظاہر ہو۔ اس کے دروازے اتنے بلند ہوں کہ اس میں بلند سے بلند تر چیز بھی داخل ہو جائے اور اس کی وسعت اس قدر ہو کہ اس میں اگر ایک جم غفیر بیک وقت داخل ہونا چاہے تو داخل ہو سکے یعنی وہ نہ پست ہو اور نہ محدود۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کی بنیادیں اتنی گہری و مضبوط ہوں کہ تیز آندھی و طوفان تک اس کو ہلا نہ سکیں اور اس کی بلندی اس قدر ہو کہ آسمانوں سے کلام کر سکے اور ساتھ ہی وہ اس قدر خوبصورت ہو کہ اس کی جانب اٹھنے والی ہر آنکھ اس کے نشیب و فراز سے واقف ہونے کے لیے بے چین ہواٹھے اور انتہا یہ ہو کہ یہ صرف تمنا ہی بن کر نہ رہ جائے بلکہ اس کی گہرائیوں میں اتر کر اسی کا ہو جائے اور پھر وہ اس قدر مضبوط ہو کہ دوام اس کا مقدر ٹھہرے۔
آئیے!اب ہم کسی عمارت کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس میں کون کون سے اجزاء شامل ہوتے ہیں، ان کے کام اوران کی حیات کتنی ہوتی ہے ۔ کون سے اجزا دیرپا ہوتے ہیں تو کون سے وقتی ۔ ہم جانتے ہیں اور اچھی طرح سے جانتے ہیں، کوئی بھی عمارت بنیاد کے بغیر (اصولوں کے بنا) قائم نہیں ہو سکتی۔ اس میں مضبوط اور بلند ستون (پختہ فکر و عمل کے حامل قائد و مفکر ) ہوا کرتے ہیں جو اس عمارت کے ایک بڑے بوجھ کو اٹھانے کی سکت رکھتے ہیں ، اگر وہ نہ ہوں تو تیز آندھی وطوفان اور زمین میں اٹھنے والے زلزلوں سے تو کیا ہوا کے ایک ہلکے جھونکے سے بھی عمارت کسی بھی لمحے ڈھے سکتی ہے ۔ ستون بوجھ کو مختلف سمتوں میں تقسیم کرتے ہیں تاکہ عمارت کے دیگر حصے بھی اس بوجھ کو برداشت کرنے کے لائق ہو جائیں۔ عمارت میں دیواریں (افراد) ہوتی ہیں ، جو اس کی باہری حملوں سے اجتماعی طور پر حفاظت کرتی ہیں، جب کہ وہ ایک دوسرے سے اچھی طرح سے جڑی ہوئی ہوں اور ان میں دراڑ نہ پائی جاتی ہو۔ دیواریں اینٹوں یا پتھروں (افراد) سے مل کر بنتی ہیں، جن کی اجتماعی شکل میںتو بے انتہا اہمیت ہوتی ہے لیکن اگر ان میں سے ایک دو یا چند اینٹیں الگ ہو جائیں جب کہ ان کو کوئی ہٹا دے (بد ظن کر دے یا ان کی فکر و عمل میں تضاد پیدا ہو جائے) یا وہ خود ہی اس قدر کمزور ہو چکی ہوں کہ ان کو ہٹا کر دوسری مضبوط اینٹوں کو لگانا ضروری ہو جائے تو ایسی صورت میں عمارت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پھر اس پر رنگ و روغن (وقتی تبدیلیاں) بھی ہوتا ہے جو بہت وقتی ہو تا ہے اور کچھ عرصے کے بعد اس کے رنگ میں بد صورتی پید اہو جانے کے نتیجہ میں اس کو دوسرے رنگ سے تبدیل کر دیا جا تا ہے ۔ تاکہ اس کی کوبصورتی میں فرق نہ واقع ہو۔ ہر عمارت میں چھت (طریقہ کار ) ایک لازمی جز ہوتی ہے جس سے اس کی شکل واضح ہوتی ہے نیز ا س کی خوبی یہ ہے کہ وہ عمارت کی تکمیل کرتی ہے ۔
اس طرح معلوم ہوا کہ عمارت خصوصاً دو ہی چیزوں پر منحصر ہے ۔ ایک اس کی بنیاد تو دوسرے اس کے مضبوط ترین ستون بنیاد اسلام کے اصول ہیں تو ستون اس کے مضبوط ترین قائد و مفکر جو عمارت میں دیگر چیزوں کو منضبط کرتے ہوئے اس کو شکل و مضبوطی بخشتے ہیں۔ ایک اینٹ اگر مختصر وقت میں پک کر بنتی ہے تو اس کے بر خلاف ایک بڑی اور وسیع عمارت کے ستون کو تیار کرنے میں کئی گنا وقت درکار ہوتا ہے۔ اینٹ کی بنیاد نہیں ہوا کرتی، اس کو جس جگہ مناسب سمجھیں نصب کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن ایک ستون بغیر بنیاد کے ہو ہی نہیں سکتا، پھر اس کی ایک جگہ متعین ہوتی ہے ۔ نیز چند ستونوں کے اطراف اگر اینٹوں کو اکھٹا کر کے دیواریں کھڑی کر دی جائیں تو یہ ستون اس لائق ہو سکتے ہیں کہ ان کے ذریعہ عمارت تعمیر ہو جائے ۔ آج وہ فکر و عمل سے مزین ستون درکار ہیں کہ جو عمارت کو زندگی بخشنے والے ہوں۔
اس سلسلے میں قرآن کے مزاج کو اگر ہم سمجھنے کی کوشش کریں تو صرف ایک ہی آیت میں اس پورے کلام کانچوڑ واضح ہو جائے گا ’’بھلا سوچو، جو شخص منھ اوندھائے چل رہا ہو وہ زیادہ صحیح راہ پانے والا ہے یا وہ جو سر اٹھائے سیدھا ایک ہموار سڑک پر چل رہا ہو۔‘‘(الملک: ۲۲) معلوم ہوا کہ جہاں ایک طرف علم والے اور جاہل یکساں نہیں ہو سکتے۔ وہیں آنکھوں والے اور اندھے برابر نہیں۔ پس اسلام ہماری اس حال میں حوصلہ افزائی نہیں کرتا اور یہ ممکن بھی نہیں کہ ہم ایک طرف تو علم و فکر سے عاری ہوں اور وہیں ہم ہی اللہ کی نصرت بھی حاصل کرنے والوں میں شامل ہو جائیں۔ علم کے بغیر ہماری وہ عمارت تعمیر ہو ہی نہیں سکتی جس کے ہم خواہاں ہیں اور پھر علم کے ساتھ ایسی بصیرت بھی درکار ہے ۔ جس کے ذریعہ قرآن و سنت میں واضح احکام نہ ہونے کے باوجود اس عمل کو انجام دے دیا جائے۔ جس سے اللہ اور اس کا رسولﷺ راضی ہو اور اس کے بندے اس بہتے ہوئے دریا سے سیراب ہو سکیں جو آج سوکھنے کی انتہائی منزل پر آکھڑا ہوا ہے کہ اس کی اگر آج فکر نہ کی گئی تو بعید نہیں، کل وہ پوری طرح سے سوکھ جائے اور انسانیت پانی کی ایک ایک بوند کی متلاشی ہو، جس سے حیات جاوداں کو باقی رکھا جا سکے، مگر وہ بھی نہ ملے ۔ لیکن اس سے مایوس بھی ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ ’’تم نے سستی کرو اور نہ غمگین ہو تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔ (آل عمران: ۱۳۹)
اگر اس طویل گفتگو سے اب تک کوئی نتیجہ اخذ کر لیا گیا ہو تو پھر مزید دیر کرنے کی ضرورت نہیں۔ اپنے مقام سے اٹھ کر اس بلند و بالا مقام کے حصول میں جت جانا چاہیے جس کی پکار فضائوں میں چہار جانب سے آرہی ہے ۔ لیکن اس پکار سے وہی کان متوجہ ہو سکتے ہیں جن میں ابھی سننے کی سکت باقی ہو اور جو ابھی پوری طرح بہرے نہ ہوئے ہوں!! آج کے اس فکری طوفان کا مقابلہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اس میدان کارزار میں اپنے آپ کو تیار کر رہے ہیں یا کرنے کا عزم و حوصلہ رکھتے ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم علمی، فکری اور عملی میدان میں اسلامی نقطہ نظر سے عبور حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ فکر کا مقابلہ فکر اور عمل کا مقابلہ عمل ہی کر سکتا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ ہمارے اہلِ فکر، تہذیب حاضر کی مرعوبیت کا بوجھ اپنے سروں سے اتار پھینکیں اور آج کے مادہ پرستانہ دور میں اسلامی فکر کا علم لے کر غیر اسلامی تہذیب و تمدن کا مقابلہ کریں۔ اللہ کے رسول کی زندگی کو تاریخ کے صفحات سے نکال کر نئے سرے سے اپنی عملی زندگی کے فکر وعمل سے پیش کریں ۔ اور راہ نجات دکھانے والی وہ سب سے نمایاں طاقت بن کر اٹھیں کہ وہی اس دور کا مستقبل و مقدر قرار پائیں۔
حدیث کا مفہوم:
حضرت معاذؓ بن جبل کو یمن کا گورنر بناتے وقت حضورﷺ نے آپ سے دریافت کیا: میرا ارادہ ہے کہ تمہیں اہل یمن پر حاکم بنا کر بھیجوں، وہاں تمہیں گونا گوں مسائل سے سابقہ پڑے گا۔ بتائو جب تمہارے پاس کوئی جھگڑا آئے گا۔ تو کس طرح فیصلہ کرو گے ؟ حضرت معاذؓ نے عرض کیا، کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا حضورﷺ نے پوچھا ، اگر تمہیں کتاب اللہ میں کوئی نص صریح فیصلے کے لیے نہ ملے تو پھر کیا کرو گے؟
عرض کیا: سنت رسول ﷺ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ حضورﷺ نے فرمایا: اگر سنت بنویﷺ میں تمہیں کوئی چیز نہ ملے ؟ عرض کیا: پھر اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور ذرا بھی کوتاہی نہ کروں گا۔ حضرت معاذؓ کے جوابات سن کر حضورﷺ بہت خوش ہوئے۔ (مشکوۃ المصابیح)
(بحوالہ: سہ روزہ’’دعوت‘‘ نئی دہلی۔ شمارہ: ۱۳ ستمبر ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply