دسیوں کروڑوں نوری سالوں کے پیمانے کے فاصلوں پر دیکھنے سے ہماری کائنات پوری طرح یک جنس (Homogeneous) اور ہر سمت یکساں (Isotropic) معلوم ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کائنات میں ایک بڑے پیمانے کا پھیلائو بھی پایا جاتا ہے۔ دور دراز کے کہکشائوں کے Spectrum مشاہدہ کر کے Astronomers نے پایا کہ کہکشائیں ہم سے اپنے فاصلوں کے تناسب کی تیزی کے ساتھ دور ہوتی جارہی ہیں یعنی زیادہ دور کی کہکشاں ہوں تو وہ زیادہ تیزی سے دور ہو رہی ہیں۔ اس پھیلائو کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ زمانہ قدیم میں کائنات کم سے کم تر حجم والی اور آج سے کہیں زیادہ کثیف تھی۔ آئنسٹائن کے ۱۹۱۵ء کے عام نظریہ اضافیت کے مطابق جب یہ فرض کیا جاتا ہے کہ کائنات متجانس یعنی یک جنس اور ہر سمت یکساں ہے اور مادے اور اشعاع کی موجودہ کثافتوں سے متصف ہے تو مساوات کا ایک حل دستیاب ہوتا ہے جو ایک ایسی پھیلتی ہوئی کائنات کا نقشہ پیش کرتا ہے جو ماضی میں ایک لامحدود کثافت والی کیفیت سے پھیلنا شروع ہوئی تھی۔ جہاں تک کائنات کے لاحق (Subsequent) ارتقا کا تعلق ہے‘ آئنسٹائن کا ثقلی نظریہ کم از کم دو طرح کے کائناتی ارتقا کی اجازت دیتا ہے۔ اگر یہ پھیلائو معامل وقت کے ساتھ مسلسل بڑھتا ہوا لیا جائے تو ایک ’’کھلی کائنات‘‘ بیان ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف اگر پھیلائو معامل ایک حد تک بڑھنے کے بعد پھر گھٹتا ہوا لیا جائے تو ایک ’’بند کائنات‘‘ حاصل ہوتی ہے۔ اس بات کا فیصلہ کہ ان دونوں امکانوں میں سے کون سا امکان غالب ہو گا آج کل کائنات میں پائی جانے والی مادے کی کثافت سے متعین ہوتا ہے۔ فی الوقت کائنات میں پائے جانے والے مشاہدہ شدہ مادۂ کثافت ایک ’’کھلی کائنات‘‘ کے حل کی تائید کرتی ہے۔ لیکن گمان غالب ہے کہ کائنات میں واقع نہ دکھائی دینے والی دھول کی کثیر مقدار ایسی بھی ہے جس کے باعث ’’بند کائنات‘‘ کا حل بھی خارج از امکان نہیں ہے‘ البتہ جہاں تک بیتے زمانوں کا تعلق ہے ان دو میں سے کسی بھی حل کو لینے سے کوئی زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ ان دو حلوں کو شکل ذیل سے دیکھا جاسکتا ہے۔ کائنات‘ مادے اور اشعاع (Radiation) سے بنی ہے۔ کائنات میں مادہ زیادہ تر کہکشائوں کی شکل میں ۳۰۔۱۰ گرام فی مکعب سینٹی میٹر (g/c.c.) کی کثافت سے پھیلا ہوا ہے۔ ایک لاکھ سے زیادہ کہکشائیں اب تک کیٹیلاگ کی جاچکی ہیں۔ جہاں تک اشعاعی توانائی کا تعلق ہے اسے آئنسٹائن کے فارمولے E=mc2 کے ذریعے مادے کے مساوی ظاہر کر سکتے ہیں۔ اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ فی الوقت کائنات میں برق مقناطیسی اشعاع کی مساوی مادہ کثافت g/cc ۳۳۔۱۰ ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ دورِ حاضر میں کائنات میں اشعاع کی توانائی کثافت‘ مادے کی توانائی کثافت کے مقابلے میں تقریباً ایک ہزار گنا کم ہے۔ لیکن ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔ محاسبہ بتاتا ہے کہ کائنات کی شروعات کے تحت اشعاع کثافت بمقابلہ مادہ کثافت کے کہیں زیادہ تھی۔ جب کائنات آج سے تقریبا ایک ہزار گنا زیادہ چھوٹی تھی تو اشعاع کثافت اور مادہ کثافت کی مقداریں تقریباً مساوی تھیں اور اس سے پہلے اشعاع کو مادے پر غلبہ حاصل تھا۔ اسی بات کا اظہار ذیل کی شکل سے کر سکتے ہیں۔
خود اشعاع بھی کائنات میں دو طرح کا ہے۔ ایک وہ جو مختلف نجمی ماخذوں (Stellar Sources) سے اشعاع ہوتا ہے۔ دوسرا وہ جو ایک طرح کا Background Radiation کہلاتا ہے جو کائنات میں چاروں طرف پھیلا پایا جاتا ہے اور ہر سمت ایک جیسا رہتا ہے۔ یہ پس منظری اشعاع آسمان کے ان ماخذوں سے نہیں پیدا ہوتا جنہیں ہم آج کل آسمان میں دیکھتے ہیں بلکہ باور کیا جاتا ہے کہ یہ کائنات کی ابتدا کے وقت ہونے والے Big bang کے آثاروں میں سے ہے۔ یہ اشعاع ٹھنڈا ہوتے ہوتے آج کل محض ایک 2.7ok تپش والا کالا بدن اشعاع (Black body radiation) بن کر رہ گیا ہے۔ جیسے جیسے ہم ماضی میں جائیں ویسے ویسے کائنات گرم ہوتی چلی جائے گی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ توانائی کثافت کے بڑھنے کے ساتھ تپش بڑھ جاتی ہے۔ تین بڑے دھماکے کے 10-4 سیکنڈ بعد کائنات اور درجۂ حرارت 10-12ok تھا۔ جب کائنات آج سے دس ہزار گنا چھوٹی تھی تو اس کا درجۂ حرارت 30,000ok تھا۔ اس درجہ حرارت پر مادہ‘ پلازمہ کی حالت میں ہوتا ہے۔ اس سے قبل اشعاع سے مختلف کمیتوں والے جسیمات (Particles) اور مخالف جسیمات (Anti-particles) پیدا ہوتے ہیں اور ایک دوسرے میں ضم ہو کر فنا ہوتے (اور اس طرح واپس اشعاع میں تبدیل ہوتے) رہے تھی۔ تقریباً دس سال لاکھ سال میں کائنات ٹھنڈی ہو کر 1000ok تپش والی ہوئی اور آج جب کہ کائنات تقریباً دس ارب سال قدیم ہے تو اس کا پس منظری درجہ حرارت جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں فقط 2.7ok رہ گیا ہے۔ مادے کو بنیادی طور پر کواروں (Quarks) اور بلکیوں (Leptons) پر مشتمل سمجھا جاتا ہے۔ بنیادی جسیموں کے مابین جو قوتیں عمل پیرا ہوتی ہیں وہ مختلف طرح کے بوسیوں (Bosons) کے تبادلے سے پیدا ہوتی ہیں۔ کمزور نووی اور شدید تبادلاتِ فعل جو وزنی بوسیوں کے تبادلے کے سبب ہوتے ہیں چھوٹی مدی (Range) کے ہوتے ہیں۔ برقی مقناطیسی قوت جو صفر کمیت والے Photons کے تبادلے سے واقع ہوتی ہے Neutral جسیموں پر عمل نہیں کرتی اگرچہ کہ لامتناہی مدی کی ہوتی ہے۔ اس طرح کمزور نووی شدید یا برقی مقناطیسی تبادلاتِ فعل کے مقابلے میں کائنات کی بڑے پیمانے کی ساخت بنیادی طور پر نسبتاً کمزور لیکن لامتناہی مدی والے ثقلی تبادلاتِ فعل سے متعین ہوتی ہے جن کا بیان آئنسٹائن کے عام اضافیت کے نظریے کی مساوات سے ہوتا ہے۔ جہاں تک کائنات کے پھیلائو کی شرح کا تعلق ہے کائنات ایک ایسی شرح سے پھیلتی معلوم ہوتی ہے جو کائنات میں موجود مادے کی کشش ثقل کے مخالف عمل پر غالب آسکنے کے لیے بس کافی ہے‘ یعنی نہ زیادہ ہے نہ کم۔ کائنات کے محض اس مخصوص رفتار سے پھیلنے کی قابلیت قدرت کے کسی ہم راز کی طرف اشارہ کرتی معلوم ہوتی ہے۔ کائناتی ارتقا کی مختلف منزلوں کی اہم نشاندہی (Index) کائناتی درجۂ حرارت ہوتا ہے۔ کائناتی کلینڈر کو ہم ذیل کی شکلوں سے ظاہر کر سکتے ہیں۔
(بحوالہ: سائنس و ٹیکنالوجی ڈاٹ کام)
Leave a Reply