
کسی بھی ملک یا سماج کی ترقی میں سائنس دانوں کا کردار کافی اہم ہوتا ہے۔ سائنس کی مدد سے بڑے مشکل کام آسان ہو جاتے ہیں اور عام شہریوں کی زندگی کا معیار بلند ہوتا ہے۔ جب کسی معاشرے میں غریب محنت و مشقت کے باوجود غریب ہو رہا ہو اور رئیس بغیر کچھ خاص کوشش کے اور مضبوط ہو رہا ہو تو اس میں بڑی سازش کار فرما ہوتی ہے۔ یہی مثال مختلف ممالک پر بھی صحیح ثابت ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں مغربی میڈیا کے ذریعہ کچھ ایسے حقائق سامنے آئے ہیں جن کے مطابق اسرائیل اور امریکا کی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعہ عراق میں بڑی تعداد میں سائنسدانوں کا قتل کیا جا رہا ہے۔ ایسی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ اسرائیل اور امریکا جو مسلم ممالک کی ترقی کو روکنا چاہتے ہیں وہ مصر، عراق اور ایران میں منظم طریقہ سے تمام بڑے سائنسدانوں کو قتل کرنے میں مصروف ہیں۔
لندن سے شائع ہونے والے اخبار ٹیلی گراف کی حالیہ رپورٹ کے مطابق امریکا میں بارک اوباما کے صدر منتخب ہونے اور ان کے ذریعہ ایران سمیت تمام مسلم ممالک کے ساتھ روابط کا ازسرِنو جائزہ لینے کا اشارہ دینے کے بعد اسرائیل نے یہ سمجھ لیا ہے کہ مستقبل قریب میں ایران کے خلاف کوئی بھی فوجی کارروائی ممکن نہیں ہے۔ اس لیے اُس نے ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کو کمزور کرنے کی غرض سے سائنس دانوں کے قتل کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ جب تک ایران کے خلاف فوجی کارروائی ممکن نہ ہو تب تک ایران کے ایٹمی پروگرام کی ترقی کی رفتار سست کرنا ہی سمجھ داری ہو گی۔ اہم سائنس دانوں کے قتل کے پروگرام کے تحت ان کی نشاندہی اور ان تک رسائی کر کے قتل کرنا شامل ہے۔ یہی طریقہ اس نے عراق سمیت ان تمام ممالک میں اپنایا ہے جو اسے اپنے وجود کے لیے مستقبل میں خطرہ محسوس ہوتے ہیں۔ ٹیلی گراف کے مطابق ۲۰۰۷ء میں ایران میں اصفہان یورینیم پلانٹ کے عظیم سائنسداں اردشیر حسن پور کی غیر معمولی حالات میں ہوئی موت کے پیچھے بھی اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد ہی تھی۔ اخبار نے امریکی ذرائع کے مطابق لکھا ہے کہ اسرائیل جنگ کے متبادل کے طور پر ایران کے مبینہ ہتھیاروں کے پروگرام میں خلل ڈالنے کے لیے تخریب کاری، تجارتی کمپنیوں اور دوہرے جاسوسوں کا استعمال کر رہا ہے۔
اطلاعات کے مطابق اسرائیل تقریباً ۱۰ برس سے جب اسے ایران کے ایٹمی ہتھیار بنانے کا شک ہوا ہے اس کے خلاف اسی قسم کی سازشی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ امریکی صحافی جیمس رائزن نے حال ہی میں لکھا ہے کہ سی آئی اے اور موساد نے ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے کئی تخریب کاری پروگرام بنائے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ایک امریکی خفیہ اطلاعات کی نجی کمپنی جس کے حکومت کے ساتھ مستحکم رشتے ہیں کی سینئر افسر ریوا بھلا نے بتایا ہے کہ اسرائیل کا مقصد ایران کے اہم سائنسدانوں کو ختم کرنا اور ایٹمی ایندھن کی سپلائی روکنا ہے۔ جیمس رائزن کے مطابق اسرائیل کی خفیہ ایجنسی نے اپنے جاسوسوں کے ذریعہ ایٹمی مراکز کو بجلی سپلائی میں رخنہ ڈال کر وہاں کے کمپیوٹر اور دوسرے حساس نظام کو متاثر کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے والے ایک ایرانی شہری علی اشتری جو کہ الیکٹرانک سامان کے تاجر ہیں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اسے موساد نے ۵۰ ہزار ڈالر دیئے تھے تاکہ وہ کچھ خاص افراد کو انٹرنیٹ کیبل اور سیٹلائیٹ فون مہیا کرے تاکہ وہ ایٹمی مراکز کے اطلاعاتی نظام کی خفیہ تفصیلات اسرائیل کو مہیا کر سکیں۔
سائنسدانوں کے قتل اور تخریب کاری کا سلسلہ ایران کے علاوہ عراق میں بھی جاری ہے۔ عراق میں امریکی افواج کے قبضہ کی وجہ سے اسرائیلی خفیہ اور دوسرے حکام کی رسائی بہت آسان ہے۔ اکتوبر ۲۰۰۸ء میں قاہرہ سے شائع ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے امریکا کے تعاون سے اپریل ۲۰۰۳ء سے اب تک عراق میں ۳۵۰ ایٹمی سائنسدانوں اور ۲۰۰ یونیورسٹی پروفیسروں کا قتل کیا ہے۔ قتل کی کوشش سے پہلے امریکی حکام نے انہیں عراق میں ہی امریکا کے لیے کام کرنے یا امریکا منتقل کرنے کی پیشکش کی لیکن جن سائنسدانوں نے اسے قبول نہیں کیا انہیں قتل کر دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق موساد نے انہیں قتل کرنے کے لیے ملک میں تشدد کا طریقہ اپنایا۔ عراق کے مختلف شہروں میں کرائے گئے بم دھماکوں کا اصل نشانہ سائنسدان تھے۔ ایک جائزے کے مطابق عرب خطے میں عراق میں سائنسدانوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔ ۱۹۹۰ء میں عراق کے ہتھیار پروگرام کے لیے کام کر رہے کناڈائی سائنسداں گیرالڈ بل کو مبینہ طور پر موساد کے ذریعہ برسلز میں قتل کرایا گیا تھا۔ اس سے پہلے اسرائیل اس سائنسدان کی خدمات حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اسرائیل نے نہ صرف دشمن ملکوں کے سائنسدانوں کا قتل کرایا ہے بلکہ مصر جیسے دوست ملک کے سائنسدانوں کو بھی نہیں بخشا۔ مصر کے صدر حسنی مبارک نے اسرائیل اور امریکا کی غیر معمولی خدمت اس وقت کی جب اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کرتے ہوئے سفارتی تعلقات قائم کیے۔ مبارک نے ہی پی ایل او اوراسرائیل کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کرایا تھا۔ حسنی مبارک نے اسرائیل اور عرب ممالک کو نزدیک لانے میں جو کام کیا ہے آج اسی کا نتیجہ ہے کہ غزہ میں فلسطینی مظلوم عوام کا اسرائیل قتل عام کرتا رہا اور عرب حکمراں مکمل خاموش رہے۔ مصر کے ایٹمی ماہر سائنسدان سمیرا موسیٰ کا قتل ۱۹۵۲ء میں، سمیر نجیب کا قتل ۱۹۶۷ء میں اور سید بدیر کا قتل ۱۹۸۹ء میں امریکا کے مختلف شہروں میں ہوا۔ ایک اور مصری ایٹمی سائنسدان یحییٰ المشاد جو عراق کے لیے کام کر رہا تھا ۱۹۸۰ء میں پیرس کے ایک ہوٹل میں موساد کے ذریعہ قتل کر دیا گیا تھا۔ موساد نے فضائی علوم میں پہلے عرب سائنسدان مصطفی مشرفہ کا بھی قتل کرایا تھا۔ انہیں عرب آنسٹائن کہا جاتا تھا۔ اسی طرح ایک فلسطینی ایٹمی سائنسدان نبیل احمد خلیفل کو الامیری پناہ گزیں کیمپ میں قتل کر دیا گیا۔ موساد نے ہی لبنان کے ڈاکٹر رسل حسن رسل کا قتل کیا تھا۔ یہ سب اطلاعات مغربی اور عرب ذرائع ابلاغ میں مختلف مواقع پر منظر عام پر آچکی ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے امریکا اور کئی دوسرے مغربی ممالک نے اسرائیل کے دبائو کی وجہ سے عرب ممالک کے طلباء کو حساس سائنسی مضامین والے کورسوں میں داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔
برطانیہ کی حکومت کی طرف سے حساس قسم کے کورسوں میں غیر ملکی طلباء کے داخلہ کی پالیسی پر نظرثانی کی جا رہی ہے۔ ۲۰۰۲ء میں امریکی پارلیمنٹ نے کچھ مخصوص کورسوں میں داخلے پر ۴ عرب ممالک سمیت ۷ ملکوں کے طلبا پر پابندی لگا دی تھی۔ اسرائیل امریکا اور یورپ مسلم ممالک کی ترقی کو روکنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں لیکن پھر بھی ایران نے ۳۰ برس سے جاری اقتصادی پابندیوں کے باوجود کئی جدید سائنسی میدانوں میں غیر معمولی ترقی کی ہے۔ اس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر کوئی قوم خدا اور خود پر یقین کر کے ترقی کی منازل طے کرنا چاہے تو اسے ضرور کامیابی ملتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ اکثر عرب ممالک اور تیسری دنیا کے ممالک اسرائیل، امریکا اور یورپی ممالک کی ترقی سے خوفزدہ ہو کر خود ذہنی غلامی تسلیم کر لیتے ہیں۔
اگر عرب ممالک قدرتی وسائل اور انسانی وسائل کو یکجا کر کے خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیں تو ایران ان کے لیے بہترین مثال بن سکتا ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ امریکا جیسا ’’سپرپاور‘‘ بھی ایران کے تعاون کے بغیر عراق سے خود کو آزاد نہیں کرا سکتا۔ امریکا کے نئے صدر بارک اوباما نے ایران سے بھی براہ راست بات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ ایران نے ۱۹۷۹ء کے اسلامی انقلاب سے آج تک امریکا سے متعلق ایک ہی پالیسی اختیار کر رکھی ہے کہ وہ امریکا سے اس وقت تعلقات استوار کرے گا جب وہ اپنی ’’سپرپاور‘‘ کی ذہنیت کو درکنار کر کے برابری کے اصولوں کی بنیاد پر اس سے بات کرے گا۔ اس طرح دیگر مسلم ممالک بھی اپنی کھوئی ہوئی عزت اور ترقی حاصل کر سکتے ہیں۔
(بحوالہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘نئی دہلی۔ ۱۶مارچ ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply