
انسانی تخلیقی صلاحیتوں میں سب سے زیادہ اہم صلاحیت خط کی ایجاد تھی‘ جس کے ذریعہ تہذیب و تمدن کے معیار میں تاریخ ساز ترقی ہوئی۔ فرد اور سوسائٹی کے ربطِ باہمی اور تبادلۂ خیالات نے انسانی رشتوں اور ان کی ایجادات اور انکشافات نے روحانی اور مادی ترقی میں نمایاں رول ادا کیا۔ قدیم تہذیبوں کی نشاندہی کرنے میں کتبات نے بے حد مدد کی۔ دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں مصر‘ میسوپوٹامیا (عراق) اور ہندوستان کی وادی سندھ کی تہذیبوں کا شمار ہوتا ہے‘ جہاں پُرشکوہ عمارتوں اور قدیم شہروں کے باقیات دریافت ہوئے ہیں‘ جن کی تہذیبی اور تمدنی ترقی کو سمجھنے میں ہجری کتبات‘ مٹی اور تانبے کی مہروں اور مٹی کے ظروف پر کندہ یا منقش تحریروں نے ماہرین قدیم آثار کی رہنمائی کی ہے۔ مصری کتبات تصویروں اور علامتوں سے لکھے گئے ہیں‘ جسے ایجپٹی لاجسٹ (Egyptologist) پکٹو گرافی (Pictographgy) سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ تحریر اہرامِ مصر کے پتھروں پر منقش اور کندہ ہیں۔ ممی کے تابوت اور دفن شدہ ظروف اور اشیا پر کثرت سے ملی ہیں‘ جن سے ہزاروں سال قبل کے تاریخی واقعات‘ حالات اور شخصیات‘ خاص طور پر فرعون مصر کی تہذیبی ترقی‘ عیش و طرب کے لوازمات‘ جسمانی زیورات اور سجاوٹی اشیا کی دریافت ہوئی ہے۔
اسی طرح کی تحریریں میسوپوٹامیا کے تاریخی مقامات نینوا‘ بابل اور نمرود وغیرہ جو موجودہ عراق میں واقع ہیں‘ کثرت سے دریافت ہوئی ہیں۔ ان تہذیبوں کے برصغیر کی وادیٔ سندھ کی تہذیبوں سے تمدنی اور تجارتی تعلقات تھے‘ جس کا ثبوت موہن جو دڑو‘ ہڑپا‘ لوتھل‘ کالی بنگا اور دھولا ویرا مقامات سے دریافت مہروں اور یمن‘ عمان اور بحرین میں پائی گئی تحریری مہروں سے ملتا ہے۔
میسوپوٹامیا‘ مصری اور عراقی کتبات کو ماہرین آثار اور ایپی گرافسٹ نے پڑھ لیا ہے‘ جس سے پانچ چھ ہزار سال قبل کی تاریخ مرتب کی گئی ہے‘ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ وادیٔ سندھ کی مہروں اور ظروف پر پائی جانے والی تحریروں کو یقین کے ساتھ آج تک نہیں پڑھا جاسکا ہے‘ جس سے ہماری تاریخ کے بہت سارے اہم گوشے آج بھی تاریک ہیں۔
مندرجہ بالا پکٹو گرافی اوپر نیچے اور دائیں بائیں سے پڑھی جاسکتی ہیں۔ ۱۹۶۷ء میں کالی بنگا کی کھدائی میں مجھے ایک ایسا ٹھیکرا یا مٹی کے برتن کا ٹکڑا ملا تھا‘ جسے میں نے غائر مطالعہ کے بعد ثابت کیا کہ وہ تحریر داہنے سے بائیں لکھی گئی تھی۔ اس کے قطعی ثبوت کے لیے سکندر لودی کی بنوائی ہوئی جامع مسجد لودی گارڈن نئی دہلی کے طاق پر ایک مسلسل کتبے کو پیش کیا‘ جسے پروفیسر بی‘ بی لعل‘ سابق ڈائریکٹر جنرل آرکیالاجکل سروے آف انڈیا نے تسلیم کیا اور انٹی کیوٹی (Antiquity) کے ایک اہم شمارے میں اس کی اشاعت کرائی۔ اس تحریر کو پورے طور پر پڑھنے کی میری کوشش اب بھی جاری ہے‘ لیکن جب تک ایک ساتھ دو زبانوں کے کتبے نہ ملیں‘ جس میں سے ایک تحریر ایسی ہو جسے اتفاقِ رائے سے پڑھا جاسکے‘ یہ کام ممکن نہیں۔ ہندوستانی براہمی تحریر بھی اس وقت تک قطعیت کے ساتھ نہیں پڑھی جاسکی تھی‘ جب تک کہ دو زبانوں والا کتبہ دریافت نہیں ہوا تھا‘ یعنی براہمی کے ساتھ یونانی تحریر بھی تھی۔ وادیٔ سندھ کی تہذیب کے انتہائی اہم عناصر اسلامی تہذیب کے شناختی پہلو سے حیرت انگیز مماثلت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر مسلمان عالم اور مجتہد داڑھی رکھتے ہیں مگر لبیں تراشتے ہیں‘ مونچھیں نہیں رکھتے‘ سر پر پٹی باندھتے ہیں‘ تعویز بازو اور گلے پر باندھتے ہیں اور آدھی آستین کی عبا پہنتے ہیں اور ان پر بیشتر تین پنکھڑیوں والے پھول ریشم سے کڑھے ہوتے ہیں۔ مسلمان اپنے مُردوں کو شمال و جنوب دفن کرتے ہیں اور سر شمال کی جانب ہوتے ہیں۔ یہ ساری رسوم کی جھلکیاں وادی کی تہذیب کے باقیات میں بھی مشترک ہیں۔ مثال کے طور پر موہن جو دڑو کے پجاری (Priest) کے مجسمے میں واضح طور پر موجود ہیں۔ چنہو دارو (Chanhudaro) میں ایسے مجسمے بھی ملے ہیں جو عبادت میں مصروف شخص کی طرح رکوع کے عالم میں ہیں‘ یہ اور اس طرح کے دیگر مماثل تہذیبی عناصر پر میری تحقیق جاری ہے۔
مجھے بے حد خوشی ہے کہ سید احمد نہ صرف ایک ماہر خطاط ہیں جنہیں میں جواہر رقم کے لقب سے یاد کرتا ہوں‘ بلکہ انہوں نے دنیا کے قدیم کتبات اور خط کے نمونوں کے بارے میں بہت ساری کتابیں پڑھیں اور ان کے باہمی ربط کے بارے میں بھی اپنی رائے ظاہر کی۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ میں یا دیگر ایپی گرافسٹ (Epigraphist) ان کی رائے سے پورے طور پر متفق ہوں لیکن ان جیسے مشرقی تعلیم یافتہ خطاط کی علمی کوشش قابلِ ستائش ہے۔
سید احمد کی زیرِ اشاعت کتاب ’’خط کی کہانی تصویروں کی زبانی‘‘ اس لحاظ سے بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ ان سے قبل اسلامی خطاط اور خوشنویسوں نے جو رسائل اور کتابیں اس موضوع پر لکھی ہیں ان میں قبل از اسلام کے عہد کے کتبات اور خطاطی کے نمونوں کی طرف توجہ نہیں دی گئی‘ کسی نے ایران کے کوہِ بے ستون کے کتبات کا ذکر کیا یا ان کے عکس شائع کیے۔ اس لحاظ سے سید احمد خطاط اپنے عہد کے پہلے فنکار ہیں‘ جنہوں نے اردو زبان میں ایک تحقیقی اور مثالی کتاب لکھی جس سے آنے والی نسلیں بھی خاطر خواہ استفادہ کرتی رہیں گی۔
میرا مقصد ان کی کتاب پر تنقیدی مضمون لکھنے کا نہیں ہے۔ پھر بھی چند لفظوں میں کوشش کی ہے کہ کتاب کی چند اہم خصوصیات پر روشنی ڈالی جائے۔ ایک اہم بات تو یہ ہے کہ مولف نے دنیا کے کم و بیش سبھی رسم الخط کے بارے میں اپنے مطالعہ کے اعتبار سے اپنی رائے دی ہے اور اس کے حروفِ تہجی کی مثالیں تصویروں اور خط کے ذریعہ پیش کی ہیں‘ جس سے خط کے ارتقا کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ قدیم تہذیبوں کے تحریری باقیات اور کتبات کے نادر نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان قدیم تہذیبوں کی قوموں اور قبیلوں کے بارے میں بھی اطلاع فراہم ہوتی ہے۔ مولف نے یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح قومیں ایک خطہ سے دوسرے خطہ میں پہنچ کر رسم خط پر اثر انداز ہوئیں اور ایک نئے رسم الخط کی بانی ہوئیں۔ یہ امر بھی قابلِ داد ہے کہ تجارتی شاہراہوں کا رسم الخط کے لین دین میں کیا رول رہا ہے۔ مولف نے نقشہ کے ذریعہ اس کی وضاحت کی ہے اور جگہ جگہ تاریخوں اور سنین کے حوالے بھی دیے ہیں۔ مولف نے بڑی تلاش اور فکر کے ساتھ اس کا بھی ذکر کیا ہے کہ قدیم کتبات کس طرح چٹانوں‘ مٹی اور پتھر کی تختیوں‘ جانوروں کی ہڈیوں اور کھال پر لکھے ہوئے دریافت ہوئے ہیں۔
اسلامی خطاطی کے قدیم ترین نمونوں کو بڑی تلاش اور کاوشوں سے اکٹھا کیا گیا ہے‘ اور اسے سلسلہ وار مرتب کر کے اس کے ارتقائی پہلوئوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ بالخصوص کھال اور پوستِ آہو پر لکھے ہوئے قرآن کریم‘ مکتوبات اور فرامین رسالت‘ جن کی مختصر تاریخ بھی لکھی گئی ہے اور عکس بھی فراہم کیے گئے ہیں‘ اس لحاظ سے اس کتاب کی دستاویزی اہمیت میں تاریخی اضافہ کیا گیا ہے جو اس سے قبل خاص طور پر اردو زبان پر جتنی کتابیں یا رسالے برصغیر میں لکھے گئے ہیں۔ ہاں انگریزی‘ فرانسیسی اور جرمن زبانوں میں اس نوعیت کی کئی اہم کتابیں شائع ہو چکی ہیں‘ جن میں سے کچھ ایسی بھی ہیں جن سے مولف نے خاطر خواہ استفادہ کیا ہے۔ کتاب میں حواشی یا حوالہ جات بھی عالمانہ طور پر فراہم کیے گئے ہیں‘ جن سے آئندہ مزید تحقیقی کاموں میں مدد ملے گی۔
اسلامی خطاطی میں خطِ کوفی کو اولیت رہی ہے اور بیشتر زاویاتی انداز میں کشیدہ خطوط پر مبنی ہیں‘ جن میں زیر زبر یا پیش وغیرہ کی علامتیں نہیں ہیں اور بعد کی صدیوں میں گلکاری اور تزئین کاری بھی شامل کر لی گئی۔
قرآن کریم کے وہ نسخے جو تاشقند کے میوزیم میں اور رامپور رضا لائبریری میں محفوظ ہیں جو بالترتیب حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے خط میں بتائے جاتے ہیں‘ قدیم کوفی کے اولین نمونے معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ جو بیروت‘ استنبول اور نجف میں محفوظ ہیں‘ وہ بھی اپنی نوعیت کے اہم تاریخی نسخے ہیں۔ جن کا ذکر مولف نے اپنی کتاب میں اجمالی طور پر کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بنو امیہ اور مملوک سلطانوں کے بغدادی‘ مصری اور کوفی کتبات کی اچھی مثالیں پیش کی گئی ہیں۔
سید احمد نے زیادہ تر پارچمنٹ اور کاغذی نسخوں پر توجہ کی ہے اور کتبات کے نمونے بھی پیش کیے ہیں مگر اسلامی عمارتی خطاطی بجائے خود ایک اہم اور دلچسپ مضمون ہے جس پر میں نے ایک کتاب کا مسودہ تیار کیا ہے‘ جسے شائع کرنے کا ارادہ ہے۔ برصغیر میں سب سے قدیم کوفی کتبہ بھنبھور (سندھ) کی کھدائی میں جامع مسجد کے باقیات میں ملا ہے۔ اس پر عمارت کی تاریخ ۱۰۹ھ یعنی ۷۲۷ء کندہ ہے‘ جس سے پتا چلتا ہے کہ محمد بن قاسم کی سندھ کی فتح کے بعد جامع مسجد کی تعمیر عمل میں آئی تھی۔ ڈاکٹر ایف اے خان نے اپنی رپورٹ میں کتبہ کا عکس شائع کیا ہے۔
اسی عہد کے کتبات کی نشاندہی ڈاکٹر عبداﷲ چغتائی نے مہاراشٹر میں سو پارہ اور گجرات کے نوساری مقام پر کی ہے۔ موجودہ ہندوستان کے ضلع کَچھ (گجرات) میں بھدریشور کے مقام پر واقع ابراہیم ابن عبداﷲ المعروف بہ لعل شہباز کے مقبرہ پر انتہائی اہم کتبہ ڈاکٹر ضیاء الدین عبدالحئی ویسائی نے دریافت کیا اور ایپی گرافیا انڈیکا کے (Epigraphia Indica Arabic and Persian Supplement 1965) شمارے میں شائع کیا ہے۔ اس کتبہ کی گُل کار کوفی تحریر اس لحاظ سے بھی بہت اہم ہے کہ وہ مقبرہ کی عمارت پر آج بھی محفوظ ہے۔ کتبہ کی تاریخ ۵۵۴ھ یعنی ۶۰۔۱۱۵۹ء ہے۔ جبکہ اس وقت کمار پال چالوکیہ خاندان کا راجہ حکمراں تھا۔ یہ کتبہ عربی کوفی میں سب سے قدیم کتبہ ہے جو اپنی جگہ پر آٹھ سو اڑتیس سال سے موجود ہے۔
ہندوستان میں عمارتی خطاطی کی مزین کوفی مثال سلطان التمش کی توسیع کردہ قبۃ الاسلام مسجد مہر ولی دہلی‘ اور اڑھائی دن کی مسجد اجمیر میں محفوظ ہے جس کی مثال دنیاے اسلام کی دوسری کسی عمارت میں نظر نہیں آتی‘ نہ صرف یہ کہ یہ سجیلی خطاطی ہے بلکہ ان کے حروف کی جسامت اور اقلیدسی تشکیل بے مثال ہے۔ اس طرح کی خطاطی مراقش میں زیادہ مستعمل تھی لہٰذا مغربی کوفی کہلاتی ہے۔ اس خط میں منوگرام جیسی گرہ بندی بھی انتہائی دلکش ہے۔
اس طرح کی دلکش کوفی ذکی الدین عمر الکاز رونی کے لوحِ مزار پر جو جامع مسجد کھنبات گجرات میں واقع ہے‘ دیکھی جاسکتی ہے۔ کازرونی سلطان محمد بن تغلق کے عہد میں گجرات کا گورنر تھا۔ اس کے انتقال کی تاریخ ۹ صفر ۷۳۴ھ یعنی ۲۲ اکتوبر ۱۳۳۳ء سنگِ مرمر کی تختی پر کندہ ہے۔ خط کوفی کی سولہویں صدی اور اٹھارہویں صدی خوبصورت مثالیں ہیں۔ ہمایوں کے مقبرہ میں واقع روشن کوکہ کی قبر پر اور حضرت قطب الدین بختیار کاکی کی درگاہ میں واقع ایک سنگِ مرمر کی قبر پر موجود ہے‘ جس کے بارے میں کسی نے توجہ نہیں کی ہے۔
خطِ نسخ کے موجد عظیم شخصیت ابنِ مقلہ کے نمونے سید احمد نے مثالی طور پر پیش کیے ہیں۔ ابنِ مقلہ کے ہاتھ کا قرآن کا قدیم ترین قلمی نسخہ رامپور رضا لائبریری میں موجود ہے‘ جس کا عکس اس کتاب میں موجود ہے۔ ابن مقلہ بغداد کے تین خلیفہ کا وزیر رہ چکا تھا اور درباری سازش کا شکار ہو کر اپنے دونوں ہاتھ گنوا بیٹھا اور آخر قید خانے میں انتقال کیا۔
خواجہ جمال الدین یاقوت المستعصمی بغداد کے خلیفہ کا ملازم تھا۔ اسے خط نسخ‘ ثلث اور اور ریحان میں کمال حاصل تھا۔ اس کی خطاطی کے نمونے دنیا کے عظیم کتب خانوں اور میوزیم میں محفوظ ہیں۔ اس کی تحریریں لاجورد اور دیگر قیمتی جواہرات کے رنگ سے مزین ہیں۔ اس کی ایک اچھی مثال قرآن کریم کی شکل میں ہزار دواری میوزیم مرشد آباد میں محفوظ ہے اور لال قلعہ دہلی کے میوزیم میں بھی اس کے ثلث اور ریحان کے دلکش نمونے موجود ہیں۔ عمارتی خطاطی میں گولکنڈہ اور حیدرآباد کی قطب شاہی عمارتوں میں لاجواب ثلث رسم الخط کے بے مثال نمونے ہیں۔ مغلوں کے عہد میں اس خط کا ماہر عبدالحق شیرازی تھا‘ جس نے اکبرِ اعظم کے مقبرہ اور تاج محل کے کتبات تحریر کیے اور اسے امانت خان کا لقب دے کر آگرہ کے شاہی کتب خانے کا کتاب دار مقرر کیا گیا تھا۔ امانت خان کے خط سے ملتے جلتے خط میں الٰہی بخش مرجان رقم کشمیری کے کتبے رضا لائبریری میں محفوظ ہیں۔
مختلف زمانوں اور مختلف زبانوں میں خط اور فن تحریر کی تاریخیں لکھی جاچکی ہیں‘ لیکن اردو میں ایسی خوبصورت اور مصور تاریخیں کم ہی لکھی گئی ہیں‘ جیسی ’’خط کی کہانی تصویروں کی زبانی‘‘ ہے۔ یہاں خطوط اور فنِ تحریر کے ایجاد کے واقعات نہایت صاف و سادہ انداز میں پیش کر دیے گئے ہیں۔ البتہ تصویروں کے ذریعہ ہر دور کے خطوط کو قارئین کے سامنے پیش کر کے ان کی ابتدائی حالتوں کو مجسم دکھایا گیا ہے۔
(بحوالہ ’’خط کی کہانی، تصویروں کی زبانی‘‘۔ رامپور رضا لائبریری۔ رامپور)
Leave a Reply