وسط ایشیا و بحیرۂ خزر میں تزویراتی کشمکش

گذشتہ مہینے ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے افغانستان‘ تاجکستان اور ترکمانستان کے دورہ کو سیاسی تجزیہ نگار اس طرح دیکھتے ہیں کہ یہ وسطی ایشیا میں ایران کے پاؤں جمانے کی کوششوں کا ایک حصہ اور امریکا کے خلاف ایران کی معراکہ آرائی اور پنجہ آزمائی میں زیادہ سے زیادہ حلیف اور ہمنوا بنانے کا ایک منصوبے ہے۔ چاہے یہ حلیف مشرق وسطیٰ میں ہوں‘ یا وسطی ایشیا میں۔ تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایران کی کوشش ہے ک ایک فارسی محورو محاذ تشکیل دیا جائے جو ایشیاء کے تمام فارسی بولنے والے ممالک کو باہم جوڑ سکے اور یہ وہی محور جس کی باتیں سوویت یونین کے بکھرنے اور متعدد آزاد مسلم جمہوریاؤں کے وجود میں آنے کے بعد گشت کررہی ہیں۔ مغربی ذرائع کاکہنا ہے کہ زبان اور تہذیبی عوامل اگرچہ ایسے ہیں کہ تہران ان ترقی پذیر ممالک تک پہنچنے کے لیے استعمال کرسکتا ہے اور اسے کام میں لاسکتا ہے‘ مگر موجودہ حالات میں اس کے پیش نظر شاید امن و امان کی کیفیت‘ عسکری امور اور اقتصادی مفادات و صورتحال ہی ہو۔ ان تین ایشیائی ملکوں کے دورے کے درمیان ان کے دیئے گئے بیانات سے بھی اسی کا اشارہ ملتا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات امن و سلامتی کے لیے مفید ہوں گے۔ اس لیے ایران کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ ان تعلقات کو پروان چڑھایا جائے اور مضبوط سے مضبوط تر کرتے ہوئے آگے بڑھایا جائے۔

پیٹرول کی دولت:

ایرانی صدر نے تینوں ملکوں کے دورے میں ان ممالک کے صدور کے ساتھ کامیاب وسنجیدہ مذاکرات کیے۔ خاص طور پر پیٹرول کی دولت سے مالا مال بحر قزوین کے ایندھن اور توانائی سے متعلق امور و معاملات پر کھل کر گفتگو کی اور اس سے متعلق کئی معاہدوں پر دستخط کیے۔ اس کا ایک مقصد یہ تھا کہ بحر قزوین کے کنارہ پر واقع ممالک مستقبل میں ایک بڑے معاہدہ کو حتمی شکل دے سکیں اور سمندر کی تہوں میں پائی جانے والی قدرتی گیس اور پیٹرول کی زبردست دولت کو باہم تقسیم کرنے کے لیے سمندری سرحدوں کا تعین کیا جاسکے۔ صدر احمدی نژاد نے صدر ترکمانستان کے ساتھ بات چیت میں ترکمانی گیس کی مقدار میں اضافہ کی خواہش کا بھی اظہار کیا‘ ۲۰۰۶ء میں اس کی مقدار ۸ ملیار میٹرک معکب ہے(ملیار:ایک ارب) ایران کی خواہش ہے کہ اسے آئندہ سال بڑھا کر ۱۴ ملیار میٹر مکعب کردیا جائے۔ ترکمانستان کے پیٹرول کو درآمد کرنے والے ممالک میں یوکرین اور روس کے بعد ایران تیسرا سب سے بڑا ملک ہے۔

گذشتہ سالوں میں بھی ایران ترکمانستان کے ساتھ زیر زمین پروجیکٹوں کے لیے کئی اقتصادی معاہدں پر دستخط کرچکا ہے(مثلا کوبیڈجی۔ کورٹ کوی) پائپ لائن کی تعمیر جس کی لاگت تقریباً ۲۰۰ ملین ڈالر ہے او ریہ ایران کے تعاون سے انجام دیا جارہا ہے۔ تہران اور عشق آباد کے درمیان تجارتی تبادلہ کی مقدار ۲۰۰۶ء میں ۹۰۰ ملین ڈالر تھی جو اس وقت بڑ ھ کر ۱۵ ملیار ڈالر ہوگئی ہے۔

تاجکستان اور افغانستان کے صدر کے ساتھ بات چیت میں ایرانی صدر نے اگرچہ پوری توجہ اقتصادی پہلوؤں پر مرکوز رکھی مگر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس دورہ کا مقصد وسط ایشیا تک ایران کی رسائی اور فارسی اثر و رسوخ کو وسعت دینا اور جغرافیائی نقطہ نظر سے اہمیت کا حامل اس علاقہ پر اپنی گرفت مضبوط کرنا ہے۔ جسے گرفت میں لینے کے لیے امریکا‘ روس اور چین میں سے ہر کوئی ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہے۔ اس خطہ میں زبردست توانائی کے وسائل اور قدرتی خزانے موجود ہیں جو بڑی طاقتوں کے منہ سے لعاب ٹپکانے اور اپنی طرف مائل کرنے کے لیے کافی ہے۔ اخبار الوطن العربی کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق احمدی نژاد نے اپنے دوروں کا انتخاب ایسے وقتوں میں کیا جو ایران کے ایٹمی پروگراموں سے متعلق سلامتی کونسل میں بحث کاوقت تھا۔ ایران کا اس سے ایک مقصد امریکا کو چیلنج کرنا اور واشنگٹن کو واضح پیغام دینا تھا کہ ایران اب دفاع کی پوزیشن میں ہی نہیں بلکہ حملہ آور بھی ہوسکتا ہے۔ اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ تاجکستان کے دارالسلطنت دوشنبہ کی زیارت ایسے وقت ہوئی ہے جبکہ اس سے دو ہفتہ پیشتر رمسفلیڈ اس شہر کا دورہ کرچکے ہیں اور امریکی طیاروں کے لیے ملک کی سرزمین اور اڈوں کے استعمال کی اجازت حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس ناکامی سے امریکی ادارے کافی پریشان اور مضطرب نظر آتے ہیں کہ وہ وسط ایشیا میں کرغستان کے علاوہ کسی اور فوجی اڈہ کو استعمال کرنے سے عاجز و بے بس ہیں۔

حملوں کا تسلسل:

شاید طاقت کے اسی احساس کی وجہ سے اور وسطی ایشیا کی تینوں جمہوریاؤں کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی بناء پر ایرانی صدر نے اسرائیل کی تائید کرنے والے مغربی ممالک پر زبردست تنقید کی ہے اور دوشنبہ سے جاری کیے گئے ان کے بیان میں ان ممالک پر سخت چوٹ کی ہے۔ اسی شہر سے ایرانی صدر نے فارسی بولنے والے تینو ں ممالک کے درمیان سہ فریقی ‘ثقافتی و تہذیبی لابی اور متحدہ محاذ و کنفیڈریشن تشکیل دینے کی آواز بلند کی ہے۔ اس فیڈریشن کا آغاز ایران‘ افغانستان اور تاجکستان کے مشترک ٹی وی چینل کے قیام اور متحدہ ثقافتی مرکز کے افتتاح سے ہوگا یہ ثقافتی مرکز اور ٹی وی اپنا سارا پروگرام صرف فارسی زبان میں نشر کرے گا۔ احمدی نژاد نے یہ تجویز دو شنبہ شہر میں منعقدہ ان تینوں ممالک کی چوٹی ملاقات کے دوران پیش کی ہے۔ اس سربراہ ملاقات اور تینوں صدور کی میٹنگ میں ایران و تاجکستان کے درمیان امداد باہمی کے پانچ معاہدوں پر دستخط کیے گئے ہیں‘ جس کا تعلق ثقافتی تہذیبی اور اقتصادی امور خاص طور پر مواصلات و توانائی کے شعبہ سے ہے جس کا مقصد چین کے ساتھ تاجکستان کی ۴۰۰ کلو میٹر تک پھیلی ہوئی طویل سرحدوں سے استفادہ کرنا ہے‘ کیونکہ چینی سرحد سے متصل اتنی طویل پٹی ان مسلم ممالک کے ذریعہ ایران و چین کے درمیان تجارتی لین دین کے لیے آسانی پیدا کرنے کے لیے کافی ہے ۔ جبکہ چین کی صدارت میں کام کرنے والی شنگھائے اقتصادی تنظیم کاتاجکستان رکن بھی ہے یہ تنظیم چین‘ ایران کے درمیان مزید سہولت پیدا کرسکتی ہے اسی لیے ایران اس پر اپنی پوری توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔

فارسی اثر و رسوخ:

وسطی ایشیا کی مسلم جمہوریاؤں پر ایران کی توجہ ۱۹۹۲ء سے مرکوز ہونی شروع ہوئی ہے۔ ان ممالک کے ساتھ تعلقات کی استواری و استحکام کے لیے و ہ تاریخی‘ ثقافتی ‘تہذیبی ‘ دینی اور نسلی روابط کو کام میں لارہا ہے اس کی کوشش ہے کہ وہ علاقائی قوت بن کر ابھرے‘ اس کے وزن کو تسلیم کیا جائے اور علاقہ کی سیاست میں وہ مثبت اور بھرپور رول ادا کرے اور جغرافیائی و علاقائی اعتبار سے اس کی ایسی پوزیشن ہو کہ مشرق وسطیٰ یا بحر قزوین کے حدود میں امریکا کا مقابلہ کرسکے۔

ایران اپنے ملک سے ترکمانستان‘ تاجکستان اور قرب و جوار کے دیگر ممالک تک مواصلات اور ریلوے لائن کا جال بچھانے پر شروع سے اپنی توجہ مرکوز کیے ہوا ہے‘ جس کا مقصد چین کو ایران کے راستہ سے خلیج کے سمندری راستوں سے جوڑنا اور خلیج کے آبی گزرگاہوں تک اس کی رسائی کو آسان بنانا ہے۔ اس کے علاوہ بھی ان ممالک کو باہم قریب کرنے کے لیے ایران کے پاس کئی ایک توانائی سے متعلق منصوبے ہیں‘جس پر وہ بڑی تیزی سے عمل پیرا ہے‘ جیسے ۱۹۹۴ء سے معرض التواء میں پڑا ہوا ایران و ترکمانستان کے درمیان قدرتی گیس پائپ لائن کا احیاء مگر تہران اس وقت اسے دوبارہ ازسرنو تیزی کے ساتھ شروع کرنے کا خواہشمند ہے۔ تہران اس بات سے بھی خوش نظر آتا ہے کہ ان ممالک میں اسے کئی شیعہ مساجد تعمیر کرنے میں کامیابی مل گئی ہے جس کے ذریعہ وہ وہاں کی شیعہ آبادی و عوام پر اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکتا ہے۔ اسی عوامی تائید کی بدولت ۱۹۹۲ء میں ایران اپنے دو ہمسایہ ملکوں تاجکستان و افغانستان کے ساتھ ایک متحدہ ثقافتی پلیٹ فارم پر جمع ہوا اور اب ایران اسے وسعت دے کر سیکورٹی اور عسکری میدانوں میں بھی متحدہ پلیٹ فارم تیار کرنا چاہتا ہے‘ مگر روس اس کے لیے رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ روس کی اس رکاوٹ ہی کی وجہ سے ایرانی سیاستدانوں نے اس مسئلہ کو فی الحال پس پشت ڈالتے ہوئے اپنی توجہ اس پر مرکوز کی ہے۔ بحرقزوین کے اطراف کی ترقی پذیر جمہوریاؤں اور ایران کے درمیان ایک مضبوط و مشترک نسلی‘ لسانی ‘ دینی اور تہذیبی رشتہ قائم ہوجائے اور ثقافتی‘ دینی تعلیمی اداروں کے قیام کے ذریعہ اسے پروان چڑھایا جائے اور روس کے ساتھ مل کر توانائی کی نقل و حمل کی راہ کھولی جائے اور مواصلات کے جال کو ترقی دی جائے۔ اس لیے وسط ایشیائی علاقہ پر امریکی تسلط و کنٹرول کے خلاف ایک مشترکہ حلیف کے طور پر وہ روس سے دوستی کرنا چاہتا ہے تاکہ سیاسی ماہرین کے مطابق اسے اس علاقہ میں قدم رکھنے کی جگہ اور پاؤں جمانے کا موقع مل جائے۔

آذربائیجان و ترکمانستان کے ساتھ اس کی مشترک سرحدی پٹی کے وجود اور جغرافیائی عوامل‘ افغانستان و تاجکستان کے ساتھ ثقافتی عوامل‘ قازقستان و ترکمانستان‘ آذربائیجان اور روس کے ساتھ بحر قزوین کی راہ میں اشترک کے عوامل اور اس جیسے بعض دیگر عوامل کی وجہ سے ایران اقتصادی مصالح و مفادات کے پیش نظر ان ممالک سے تعلقات بہتر بنانا چاہتا ہے اور اس فرقہ وارانہ نسل پرستانہ مشکلات سے اپنے آپ کو دور رکھنا چاہتا ہے‘ جس کا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے اور جس سے وسط ایشیائی ممالک کے بیشتر حکمران خائف نظر آتے ہیں۔ اسی لیے وہ ان ممالک کے ساتھ معاملات میں دینی محرکات و عوامل کو نظر انداز کردیتا ہے اور اسے بالکل نہیں چھیڑتا ہے اور اپنے آپ کو سیاسی یا اگر ممکن ہوسکا تو فوجی حلیف کے پہلے قدم کے طور پر تجارتی شریک کے طور پر پیش کرتا ہے۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کیا ایران سمجھتا ہے کہ وسطایشیائی ممالک کے پاس توانائی کا ایک وسیع میدان ہے جس کے ذریعے وہ امریکی پابندیوں سے بخوبی نکل سکتا اور اس کے گھیرے کو چاک کرسکتا ہے‘ خاص طو رپر جبکہ علاقہ کی اکثر حکومتیں ابھی نوخیز ہیں اور ان کے درمیان توانائی کے وسائل کے بارے میں سخت مسابقت اور چپقلش ہے اور یہ ممالک مفید و دست نگر بھی ہیں‘ جنہیں خلیج کے گرم پانی تک پہنچنے کے لیے بڑی گزرگاہ کے حصول میں ایران کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے بغیر انہیں یہ راہداری نہیں مل سکتی ہے۔

بحرقزوین کی چھپی دولت:

بہت سے ماہرین اقتصادیات زور دے کر کہہ رہے ہیں کہ بحر قزوین کا وہ علاقہ جہاں ایران اپنا وجود منوانا چاہتا ہے اور وہاں تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے وہ مستقبل کی بہت بڑی دولت ہے‘ کیونکہ یہ علاقہ بین الاقوامی قدرتی گیس کے محفوظ ذخیرہ کی بھاری مقدار سے مالا مال ہے‘ جبکہ ا س وقت بحر قزوین سے متصل ممالک کی گیس پیداوار کی مقدار سالانہ ۹۰ ملیار میٹرک مکعب ہے اکثر ماہرین کو یقین ہے کہ بحرقزوین میں گیس کا محفوظ ذخیرہ ایک ٹریلین میٹر معکب تک ہوسکتا ہے جو آئندہ ۷۰ سالوں تک استعمال کیا جاسکتا ہے۔

جہاں تک پیٹرول کی بات ہے تو امریکی تحقیقاتی ذائع کے مطابق بحرقزوین کی گہرائیوں میں پیٹرول کا چھپا خزانہ پورے خلیج کے پیٹرول کے محفوظ ذخیرہ کے برابر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بحرقزوین کے پیٹرول پر کنٹرول و تسلط دنیا کی آئندہ پچاس سالوں تک کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوگا‘ کیونکہ اس کے پیٹرول خزانہ کی مقدار ۲۰۰ ملیار فی میل ہے ایران اگر مشترک منڈی کے قیام کے منصوبہ میں کامیاب ہوجائے‘ جس میں ایران‘ روس‘ چین‘ تاجکستان‘ ترکمانستان‘ افغانستان‘ قزاقستان اور آذربائیجان سب شریک ہوں تو یہ ایک ایسی منڈی وجود میں آئے گی جس میں ۲۲ ملیار افراد کا احاطہ ہوگا اور اس کی مجموعی پیداوار ۲۰ ٹریلین ڈالر ہوگی۔ اس لیے اس منصوبہ کو ’’نیا ریشمی‘‘ راستہ کا نام دیا جارہا ہے اور ایران اس میں ایک محرک کا رول ادا کررہا ہے اور سطح زمین کے اوپر یا زیر زمین پیٹرول و گیس پائپ لائن اور مواصلات کا جال بچھا ہے اور شاید اسی وجہ سے ۱۵ مئی ۲۰۰۱ء میں ہندوستان و چین اور ایران و روس نے ایک ایشیاء ٹرانسپورٹ وفاق قائم کیا تھا تاکہ ایشیا اور یورپ کے درمیان ایسی تجارتی راہداری کھولی جائے جس سے آمدورفت کا خرچ ایک تہائی کم ہوجائے اور یہ شاید اس سیاسی و اقتصادی اور ممکن ہوسکے تو فوجی و سیکورٹی محور کے قیام کا پہلا قدم ہوگا جو ایران و روس و چین کے مابین ہوگا اور جس کے لیے بحر قزوین کے ساحل پر واقع دیگر مسلم ممالک پر کنٹرول حاصل کرنا ضروری ہوگا۔ اسی منصوبہ کو آگے بڑھاتے ہوئے ۲۰۰۲ء میں ’’شنگھائی تنظیم برائے اقتصادی تعاون‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں روس‘ چین‘ قازقستان‘ ترکمانستان‘ کرغستان‘ تاجکستان اور ازبکستان نے شرکت کی ۔ اس تنظیم کے ساتھ ایران کے بہت ہی خوشگوار تعلقات ہیں اور علیحدہ علیحدہ بھی ازبکستان کے علاوہ ان تمام ملکوں سے اس کی اچھی دوستی ہے۔

امریکی خارجہ سیاست کے زبردست ماہر ’’ہنری کسنجر‘‘ کا بحر قزوین کے اطراف اس نئے محور وسنگم کی تشکیل کے احتمال پر تبصرہ اس طرح تھا کہ یہ ایشیا کا ایسا نیا بلاک ہے جو فطری وسائل سے مالا مال اور ٹیکنالوجی کمی سے بے نیاز ہے۔ اس جیسے بلاک میں ایران کی شمولیت سے ایسا ماحول پیدا ہوگا جو نئی سرد جنگ کے لیے زمین ہموار کرنے والا اور سرد جنگ کے حالات پید اکرنے والا ہوگا۔

(بحوالہ نقوش ڈاٹ کام)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*