
سیاسی و سفارتی دانش مندی کا تقاضا ہے کہ جب ملک کو مختلف سَمتوں سے خطرات لاحق ہوں تو بہت سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے ہوتے ہیں، اور ان مفروضوں اور ترجیحات کو رد کرنا ہوتا ہے، جو کسی سازش کے تحت یا ایسے نظریات و سوچ کے نتیجے میں ابھارے جاتے ہیں جو ’قومی نظریۂ حیات‘ سے متصادم ہوتے ہیں، تو انہیں سمجھنا اور صحیح فیصلے کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ایسے فیصلے کرتے وقت قومی اَقدار اور روایات کو نگاہ میں رکھنا لازم ہے۔ جن مسائل سے آج ہمارا ملک دوچار ہے، اُن میں افغانستان میں قیامِ امن کا مسئلہ سب سے اہم ہے۔ کیونکہ افغانستان میں امن ہوگا تو پاکستان میں بھی امن ہوگا، لیکن بیرونی جارحیت کے سبب پچھلے ۳۸ برسوں سے افغان قوم نے اپنے نظریات‘ اَقدار اور روایات کے تحفظ کی جنگ لڑی ہے اوربے مثال قربانیاں دی ہیں۔ دو عالمی طاقتوں اور ان کے اتحادیوں کو شکست دی اور اپنے مؤقف پر ثابت قدم رہے ہیں۔ اس حقیقت کو میں بار بار دہراتا رہا ہوں تاکہ ہم افغانستان کی جنگِ آزادی کو غلط نہ سمجھ بیٹھیں۔ آج سے چودہ سال قبل ملا عمر مرحوم نے جس مؤقف کا اعلان کیا تھا‘ ان کے جانشین آج بھی اس پر قائم ہیں:
٭ ’’ہم نے اپنی آزادی کے حصول تک جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور ان شاء اللہ ہم فتح یاب ہوں گے۔ جب ہم آزادی حاصل کرلیں گے تو اپنے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے ایسے فیصلے کریں گے، جو تمام افغانوں کے لیے قابلِ قبول ہوں گے، اب ہم ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے۔‘‘
٭ اس بار ہم امریکا اور پاکستان کے دھوکے میں نہیں آئیں گے، جیسا انہوں نے ۹۰۔۱۹۸۹ء میں روس کی پسپائی کے بعد کیا تھا۔ مستحکم اور پُرامن افغانستان کی خاطر ہم شمالی اتحاد کے ساتھ مل کر قیامِ امن کی راہیں اُستوار کریں گے اور اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستی اور تعاون پر مبنی تعلقات قائم کریں گے۔
٭ امریکا کی جنگ میں پاکستان ہمارے دشمنوں کا شراکت دار ہے لیکن اس کے باوجود وہ ہمارا دشمن نہیں ہے۔ پاکستان ہمارے لیے بہت اہم ہے کیونکہ ہماری سلامتی کے تقاضے اور مفادات مشترک اور ہماری منزل ایک ہے۔
٭ ہمیں مستقبل میں ایک سخت جِدوجہد درپیش ہوگی لیکن ہم پُرامید ہیں کہ ہم اس سے بخیر و خوبی عہدہ برآ ہوں گے۔ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ ’’بالآخر تمہارے دشمن پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔‘‘
۱۹۹۰ء میں جب سوویت یونین کو شکست ہوئی اور مجاہدین کامیاب ہوئے تو انہیں اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کرنے دیا گیا۔ انہیں انتہا پسند کہہ کر اقتدار سے دور رکھا گیا، جس کے نتیجے میں خانہ جنگی شروع ہوگئی اور نتیجے میں نوجوان طالب علموں نے ملک کی قیادت سنبھال لی۔ ۲۰۰۱ء تک وہ افغانستان کے ۹۰ فیصد علاقوں پر قابض ہو چکے تھے لیکن امریکا نے نائن الیون کا بہانہ بنا کر طاقت کے زور پر افغانستان پر قبضہ کر لیا اور طالبان مخالف قوت ’’شمالی اتحاد کا سہارا لیا اور انہیں کابل کے تخت پر بٹھایا۔ اب امریکا اور پاکستان طالبان سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اس حکومت کو تسلیم کرلو جنہیں وہ غدار اور دشمن کا ایجنٹ سمجھتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کامیاب طالبان اس حکومت کو تسلیم کر لیں جسے انہوں نے ۲۰۰۱ء سے اب تک صرف کابل تک محدود رکھا ہے، اور جو امریکیوں کے افغانستان سے نکلتے ہی تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے گی۔ گزشتہ سال جولائی میں پاکستان نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھایا تو ملا عمر کی جگہ ملا منصور امیر مقرر ہوچکے تھے، انہوں نے بھی آج وہی فیصلہ کر لیا ہے جو ملا عمر نے کیا تھا کہ ’’جب تک قابض افواج افغانستان سے نکلنے کا حتمی وقت نہیں دیتیں اور عائد پابندیاں ختم نہیں کی جاتیں، مذاکرات ممکن نہیں ہیں۔‘‘
اگر ان کا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا جائے تو اس سال کے آخر تک افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا، بصورت دیگر ایسا ممکن نہیں ہے۔ لیکن پاکستان کی حکومت وقت کی اس نزاکت کو نہیں سمجھ رہی۔ وہ امریکا کی فرمانبرداری میں طالبان کو مذاکرات پر مجبور کرنا چاہتی ہے۔ پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے طالبان کو دھمکی دی ہے کہ اگر تم مذاکرات کی میز پر نہیں آئے تو تمہارے بال بچے جو پاکستان میں رہتے ہیں، وہ سخت مشکل میں پڑ جائیں گے۔ ۹۰ فیصد طالبان نے اس دھمکی کے بعد تین ہفتوں کے اندر اپنے بیوی بچوں کو پاکستان سے نکال لیا ہے اور تھوڑے افغانی ہی باقی رہ گئے ہیں۔ سرتاج عزیز صاحب کی حکمتِ عملی سے پاکستان کی طالبان پر دباؤ ڈالنے کی رہی سہی صلاحیت بھی ختم ہو گئی ہے۔ آج پاکستان بھی اتنا ہی بے بس ہے جتنا کہ امریکا اور نیٹو بے بس ہیں۔ پاکستان کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ وہی طالبان ہیں جنہوں نے ۲۰۰۱ء میں امریکا کے مطالبے پر اُسامہ کو اس کے حوالے نہیں کیا اور جنگ مول لے لی لیکن اپنا عہد اور وعدہ نبھایا۔ اپنے مہمان اسامہ بن لادن کو تحفظ دیا، اپنی اقدار کا سودا نہیں کیا۔
فاٹا اور قبائلی علاقوں سے ضربِ عضب نے طالبان کا سپورٹ بَیس ختم کر دیا تو انہوں نے کابل کے شمال میں نیا سپورٹ بیس بنا لیا ہے۔ اب طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان کا کردار اہم نہیں رہا بلکہ پاکستان کی وہ حیثیت ہی ختم ہو گئی ہے، جس کی بنا پر طالبان پاکستان کی باتیں مان لیا کرتے تھے۔ وہ مزید جنگ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں اور ہمیں نقصان ہوگا، اگر یہ جنگ جاری رہی تو ہماری مغربی سرحدیں غیر محفوظ رہیں گی اور ہماری دو لاکھ فوج واپس نہ آسکے گی۔ اس کے علاوہ وزیرستان سے جانے والے ساڑھے تین لاکھ مہاجرین، جو افغانستان میں موجود ہیں، ان کو بھارت اور دشمنوں کی لابی اپنی سازشوں کے لیے استعمال کررہی ہے۔ وہ ہمارے لیے ایک مستقل مصیبت بنے رہیں گے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت افغان طالبان کے مطالبات کو سمجھیں اور کوئی ایسا راستہ نکالیں جس سے مستقبل کی خونریزی سے بچا جاسکے۔ طالبان کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ غیروں نے ہم پر جنگ مسلط کی اور ہمیں برباد کیا‘ یہ جنگ ختم کرو‘ ہمیں موقع دو کہ ہم افغان آپس میں بیٹھ کر اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں اور اس متفقہ فیصلے کو آگے بڑھائیں، جو دسمبر ۲۰۱۲ء میں ہم نے پیرس میں کیا تھا۔ امن کے لیے واحد راستہ یہی ہے۔
اس وقت ہماری فوج سوات سے لے کر دِیر‘ باجوڑ‘ فاٹا‘ وزیرستان اور بلوچستان تک پھیلی ہوئی ہے۔ گویا ملک کے چالیس فیصد علاقے پر فوج کا کنٹرول ہے۔ حکومت نے ان علاقوں میں اپنی رِٹ قائم نہیں کی ہے۔ ایسے وقت میں، جب افغانستان میں امریکا اور نیٹو جنگ ہار چکے ہیں اور انہیں یہاں سے نکلنے کا راستہ درکار ہے تو پاکستان سے تقاضا کیا جا رہا ہے کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لے آئے، لیکن پاکستان کو بھی اپنی صلاحیتوں کے حوالے سے غلط فہمی ہے اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کو بھی غلط فہمی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جو کام ہم امریکا کے کہنے پر کر رہے ہیں، وہ قانونِ فطرت کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ چارملکی اتحاد جس میں چین، پاکستان، امریکا اور افغان حکومت شامل ہیں، اس میں سے تین نے یعنی امریکا‘ پاکستان اور افغان حکومت نے طالبان کے خلاف جنگ کی اور ہار گئے ہیں۔ قانونِ فطرت یہ ہے کہ جیتی ہوئی طاقت فیصلہ کرتی ہے۔ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغانیوں نے ہی کرنا ہے، جن کے بزرگوں نے ماضی میں سوویت یونین کو شکست دی اور اب امریکا اور نیٹو کو طالبان نے شکست سے دوچار کیا ہے۔ امریکا، نیٹو اور پاکستان تسلیم کر لیں کہ وہ اِس جنگ میں ہاری ہوئی طاقت ہیں اور انہیں افغانستان کے مستقبل کے فیصلے کرنے کا حق نہیں ہے۔ صرف معاونت، مدد اور افغانستان کی تعمیرِ نو کا حق حاصل ہے۔ اگر افغان طالبان ملک میں قیامِ امن کی راہوں کا تعین کریں گے، تب ہی پائیدار امن قائم ہو گا۔
Leave a Reply