مضمون نگار ولی نصر کا تعلق شیعہ خاندان سے ہے۔ ان کے والد حسین نصر ایک ایرانی دانشور ہیں اور اسلامی فلسفے و سائنس پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ولی نصر نے جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کی تحریک پر بھی خامہ فرسائی کی جسے مثبت یا غیرجانبدار کہنا بہت مشکل ہے۔ ولی نصر کی تحریر بھی ’’نیوزویک‘‘ کے مدیر فرید زکریا کی طرح امریکا کے فائدے میں جاتی ہے۔ ولی نصر اس رپورٹ میں بظاہر تو شیعہ برادری کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں لیکن بباطن وہ امریکا کی حمایت کر رہے ہیں اور عراق میں شیعہ سنی دشمنی کو ایک ایسی حقیقت بنا کر پیش کر رہے ہیں جس کا اِزالہ ممکن نہیں۔ یہ اُمتِ مسلمہ کو عراقی شیعہ و ایران کے اتحاد کے بھیانک نتائج سے ڈراتے ہیں۔ لیکن حماس و ایران یا حماس و حزب اﷲ کے اتحاد کا ذکر یا چرچہ کرنے کو اس لیے خلافِ مصلحت جانتے ہیں کہ اس سے امت میں اتحاد کے رجحان کو فروغ ملے گا۔ حالانکہ فلسطین کے مسئلہ پر شیعہ و سنی اتحاد سے امریکا و اسرائیل کو جو ضرب لگی ہے‘ اس سے ان دونوں کا جانبر ہونا بہت مشکل نظر آتا ہے۔ (ادارہ)
سمرہ کی سنہری مسجد میں بم دھماکا امریکا‘عراق اور پورے مشرقِ وسطیٰ کے لیے ایک ناگوار پیش رفت ہے۔ خصوصاً ایسے وقت جبکہ یہ دکھائی دے رہا ہے کہ مسلمان پورے خطے میں ایسے اختلافات کو بھلا کر ڈنمارک کے خاکے کے خلاف متحد ہو کر سراپا احتجاج ہیں۔ سمرہ کے حملے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں فرقہ واریت امن کی راہ میں زبردست رکاوٹ ہے۔ یہ امریکا کی نااہلی کو بھی ظاہر کرتی ہے کہ وہ عراق میں شیعہ و سنی مفادات میں توازن پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ روضہ شیعہ مسلمانوں کی بہت بڑی جاے عقیدت ہے۔ ان کا ایمان ہے کہ امام غَیبت میں ہیں جو انصاف کے قیام کے لیے پھر سے ظہور فرمائیں گے۔ لہٰذا اس کی تباہی شیعہ عقائد پر براہِ راست حملہ ہے۔ یہ واقعہ اس غم و غصے کی بھی علامت ہے جو سنیوں کے اندر شیعوں کے خلاف ہے کیونکہ شیعہ امریکی حملے کے بعد سے عراق میں برسرِ اقتدار آگئے ہیں لیکن یہ شاید ایک وارننگ ہو۔ امریکا کے لیے سنی شدت پسندی کے حوالے سے جو مشرقِ وسطیٰ میں سر اٹھا رہی ہے۔ عراق جنگ کے بعد کی مزاحمت جنگجوئوں میں شوق پیدا کر سکتی ہے کہ وہ پورے عرب سے سمٹ کر امریکا کے خلاف جہاد کے لیے اکٹھے ہو جائیں۔ سمرہ میں روضے میں دھماکا اس خیال کو مضبوط کرتا ہے کہ موت کی اس مہم میں جو روح پوشیدہ ہے وہ شیعوں کے خلاف صدیوں پرانی سنیوں کی دشمنی ہے۔ ایک مکمل فرقہ وارانہ خانہ جنگی سے یقینا عراق کسی لائق نہیں ہو سکے گا۔ ان سب کے باوجود امریکا اس حقیقت کو ماننے سے انکار کر رہا ہے کہ عراق کی سیاست میں شیعہ سنی اختلافات کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ سنی انتظامیہ کا اسرار رہا ہے کہ مزاحمت کی بڑی وجہ بیرونی مداخلت کار یعنی وفادار ہیں۔ چونکہ حملے مہینوں اور سالوں جاری رہے لہٰذا واشنگٹن کو فرقہ واریت سے متعلق حقائق کو تسلیم کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ لیکن اس کے باوجود اس کا مطالبہ رہا کہ عراقی اپنے اختلافات ختم کر دیں اور ایک ساتھ ہو جائیں۔ گزشتہ روز عراق میں امریکی سفیر زلمے خلیل زاد نے شیعہ اکثریت والی پارٹی کو جس نے جنوری کے پارلیمانی انتخاب میں فتح حاصل کی ہے‘ کو اعلانیہ دھمکایا ہے کہ جب تک یہ قومی اتحاد والی حکومت قائم نہیں کرتی‘ جس میں سنیوں کو شامل ہونا چاہیے‘ اس وقت تک اسے امریکا کی مالی امداد کے حوالے سے غیریقینیت کا سامنا رہے گا۔ اس نے یہ بھی بیان دیا کہ وہ سیاستدان جن کا تعلق شیعہ عسکری قوت سے ہے‘ انہیں وزارتِ داخلہ اور دفاع حوالے نہیں کیا جانا چاہیے۔ شیعوں کو اس طرح کی دھمکیاں بہت ناگوار معلوم ہوئی ہیں۔ صرف اس لیے نہیں کہ وہ اپنی عسکری قوت کو کار بم دھماکوں سے تحفظ کا ذریعہ جانتے ہیں بلکہ اس لیے بھی کہ قومی اتحاد کی امریکا کی جانب سے حمایت کو شیعہ سنیوں کو اپنے حق میں رام کرنے اور ان کی جانب سے مزاحمت کی تحریک کو تقویت بخشنے کی چال سمجھتے ہیں۔ شیعہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ امریکی پالیسی پر سعودی عرب اور اردن کے غیرضروری اثرات ہیں جو امریکا کو عراق میں سنی حکومت کے قیام کے لیے بہت زیادہ زور دیتے رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے بہت سارے شیعہ امریکی پالیسی کو دوسری دغا بازی سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس لیے کہ ۱۹۹۱ء میں جب شیعہ صدام کے خلاف اٹھے تھے تو امریکا نے صدام کی جانب سے شیعوں پر توڑے جانے والے زبردست مظالم سے چشم پوشی برتی تھی۔ اس کے بعد سے عراق میں امریکا کو شیعہ حمایت کی ضمانت نہ مل سکی۔ سمرہ کے دھماکے کی وجہ سے مرجع اعلیٰ آیت اﷲ علی سیستانی یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اگر ریاست انہیں تحفظ فراہم نہیں کر سکتی ہے تو مومنین الٰہی طاقت کے سہارے خود اپنا تحفظ کرنے پر مجبور ہوں گے۔ آیت اﷲ جو گزشتہ ۳ برسوں سے ہر کار بم دھماکے اور قتل کے واقعہ کے بعد صبر کرنے اور پُرامن رہنے کی تلقین کرتے رہے ہیں‘ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدِ برداشت کو پہنچ چکے ہیں اور یہی حال ان کے پیروکاروں کا ہوا ہے۔ پُرامن احتجاج کی ان کی تلقین صدا بصحرا ثابت ہوئی اور سنی مساجد پر شیعوں کی جانب سے حملے ہوئے۔ یہاں تک کہ ایک سنی امام جاں بحق بھی ہوا۔ امریکا کی سنیوں کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش سے ہمارے علاقائی عزائم کو نقصان پہنچے گا۔ وائٹ ہائوس کی تشویش عراقی شیعہ اور ایران کے اتحاد کے حوالے سے بجا ہے۔ امریکا کا مذکورہ عزم عراقی شیعوں کو ایرانی اثرات سے باہر نکالنا ہے۔ کسی بھی صورتِ حال میں یہ کام آسان نہ ہو گا لیکن یہ اس وقت بالکل ہی ناممکن ہو گا جب عراقی شیعہ امریکا پر اپنے مفادات کے تحفظ کے حوالے سے اعتماد نہ کرتے ہوں۔ سمرہ بم دھماکے کے بعد کے حالات میں شیعوں کو سنیوں کے ساتھ مصالحت کرنے کی امریکی پالیسی کا الٹا ردِعمل ہو گا۔ امریکا عراق میں فاتحین اور مفتوحین کا انتخاب کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار نہیں پاتا ہے بلکہ روز بروز اس کے لیے یہ کام مہنگا اور مشکل بھی ہوتا جارہا ہے۔
(بشکریہ: ’’دی نیویارک ٹائمز‘‘ / ’’ڈیلی ٹائمز‘‘۔ ۲۴ فروری ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply