
وزیرا عظم بنگلادیش اورقومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی نے ایک ملاقات کے دوران اسلامی ثقافتی مرکز کے تحت ۵۶۰ مساجد تعمیر کرنے کے منصوبے پر دستخط کر دیے ہیں، بنگلادیشی کرنسی کے مطابق ۹۰ کروڑ کے اس پروجیکٹ میں ۸۱ کروڑ ٹکا سعودیہ عرب ادا کرے گا، جبکہ بنگلادیش اس مد میں صرف ۸ کروڑ دے گا۔
بنگلا دیش میں دو لاکھ پچاس ہزار مساجد موجود ہیں اور یہ سب عام عوام یا پرائیویٹ سیکٹر نے ایک دوسرے کے تعاون سے مل کر بنائی ہیں، بنگلا دیشی عوام خواہ امیر ہوں یا غریب سب ہی مسجد کی تعمیر میں پیسے خرچ کرنے کو ایک اعزاز سمجھتے ہیں، ایسے ملک میں جہاں مساجد کی تعمیر کو عقیدہ سمجھا جائے، وہاں ۵۶۰ مساجد کی تعمیر کے منصوبے کو اکثریت نے خوش آمدید کہا اور اس پر وجیکٹ پر کوئی بھی سوال نہیں اٹھایا گیا، حقیقت میں ایک ایسے ملک جہاں اسلام زَد پر ہو اور اسلام پسند مشکلات میں، وہاں سکیولر حکومت کایہ فیصلہ ہر ذی روح کے ذہن کو آسودگی دیتا، لیکن اس کے برعکس سکیولر پارٹی کے ہی ایک نامور رہنما نے ماڈل مسجد پروجیکٹ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے ،کیااس منصوبے کے خلاف ان کا یہ بیا ن ان کی اسلا م سے بیزاری کو ظاہر نہیں کرتا اور کیا یہ ایک چونکا دینے والا بیان نہیں ہے کہ جس ملک کی اکثریت مسلمان ہے جو مساجد تعمیر کرنے کو عقیدہ مانتی ہے، اس ملک میں مساجد کی تعمیر پر تحفظات کا اظہار کیا جائے۔ ایک ایسا ملک جہاں آئینی مذہب اسلام ہے، وہاں اس طرح کا بیان دے کرسیکولر رہنماخود کو اسلام مخالف ثابت نہیں کر رہے ؟
اسلام جب عرب میں آیا اس وقت عرب کے حالات آج کے عربوں سے بہت مختلف تھے، اس دور میں بھی مساجد کی تعمیر عام مسلمان ہی کرتے تھے، جب اسلام تیزی سے دنیا میں پھیلا اس وقت کچھ مساجد مسلمان حکمرانوں نے بنائیں ان میں سے کچھ آج بھی مشہور ہیں۔ تیل کے ذخائر رکھنے والے مسلم ممالک جہاں حکمراں اور عوام کا مذہب ایک ہے، وہاں بھی جب حکمراں کوئی مسجد تعمیر کرتے ہیں تو وہ ہر پہلو سے اس کی تزئین و آرائش اور انتظام کا خیال رکھتے ہیں، اس وقت سعودی فرمانروا کے نام پر دو مساجد موجود ہیں جن کے انتظام اور نگرانی کی ذمہ داری بھی سعودی شاہ کی ہی ہوتی ہے۔
بنگلادیش کا سرکاری مذہب اسلام ہی ہے، اسی لیے مساجد کی تعمیر کے حوالے سے آئین میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے لیکن آج تک کبھی بھی کسی بنگلادیش کی حکومت نے مساجد کی تعمیر میں اس حد تک دلچسپی ظاہر نہیں کی ، اب جب کہ اقتدار ایک اسلام مخالف تنظیم کے ہاتھ میں ہے تو اس سے اچھا موقع کوئی نہیں کہ ماڈل مسجد پروجیکٹ کے ذریعے ’’پُرتشدد اسلام کی تبلیغ کرنے والوں کو پرامن اسلام پسنداکثریت سے دور کیا جاسکے، اگر ماڈل مسجد پروجیکٹ ایک مثبت، تعمیری پروجیکٹ ہی ہے تو پھر کم از کم سیکولر جماعتوں کو سیکولر رہتے ہوئے اس منصوبے کے لیے حکومت کی حمایت کرنی چاہیے نہ کہ مخالفت، کیونکہ سیکولر جماعتیں سیکولر کہلانا پسند کرتی ہیں، اسلام مخالف نہیں۔
یہ امر ایک حقیقت ہے کہ سیکولر جماعتیں ماڈل مسجد پروجیکٹ کی مخالفت سیاسی وجوہات کی بنا پر نہیں کررہی ہیں بلکہ اس کی وجوہات کچھ اور ہیں،یاد رہے کہ ۲۰۱۳ء اور ۲۰۱۴ء میں جب جنگی جرائم کے خلاف مقدما ت شر وع کیے گئے، سیکولر جماعتیں حکومت کے ساتھ تھیں ۔
بنگلادیش میں سیاسی ماحول تبدیل ہونا شروع ہوگیا ہے، حسینہ واجد کی اسلام مخالف پالیسیوں کی بدولت اس کی سیاسی حیثیت زوال پذیر ہے اور اس صورتحال میں حکومت اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ اگلا انتخاب جیتنے کے لیے اسلام ایک مضبوط کردار اد کرے گا۔ بنگلادیش کی حزب اقتدار آنے والے انتخاب میں اسلام پسندوں کو متحرک کررہی ہے اورسیکولر جماعتوں سے دوری اختیار کر رہی ہے۔ ۲۰۱۳ء اور ۲۰۱۴ء کے سیاسی ماحول میں عام بنگلادیشی عوام نے سیکولر جماعتوں کی اسلام کی مخالفت، قرآن اور دین کی مخالفت کو پسند نہیں کیا۔ نام نہاد سیکولر جماعتوں نے حکومت کے ماڈل مسجد پروجیکٹ پر سخت اعتراض اور غم و غصہ کااظہار کیا ،سیکولر جماعتوں نے پروجیکٹ کے بعد سے حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بنگلا دیشی حکومت کا جماعت کے ساتھ مساوات کا تعلق دوسری پارٹیوں کی طرح ان کے سیاست کابھی اختتام ہوگا ۔سیکولر جماعتوں کی تکلیف یہ بتاتی ہے کہ حکومت اب ان سے دوری اختیار کر رہی ہے۔ نامور سیکولر رہنما نے مزید کہا کہ اقلیت کا مطلب ہندو ہے اور اگلے انتخابات میں جماعت کو کوئی بھی مرکزی کردار دینے سے پہلے الیکشن کمیشن ہندوؤں کے حقوق کی حفاظت کو یقینی بنائے ۔
سیکولر رہنما صرف ہندؤں کا خیال رکھتے ہیں اور انہی کو قابل اعتماد سمجھتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ عام انتخابات میں جماعت کی شرکت کو مسترد کرتے ہیں اور اسے ۲۰ ملین ہندوؤں کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں، بنگلادیش کو بنانے کا مقصد ایک سیکولر ریاست کا قیام تھا جہاں تمام قومیتوں کے لیے یکساں حقوق کے وعدے کیے گئے تھے، پھر اس سیکولر ریاست میں اسلام کی مخالفت کیا معنی رکھتی ہے، بدقسمتی سے بنگلادیش کی سیکولر جماعتیں سیکولر نہیں بلکہ اسلام مخالف جماعتیں ہیں۔ سیکولرازم نہ کوئی مذہب ہے نہ ہی مذہب مخالف ہے اور نہ یہ اسلام مخالف ہے، یہ صرف کسی بھی مذہب میں پرتشدد طریقے کی نفی ہے۔
سعودی اسلام بھی اب وہابی ازم یا پر تشدد اسلام سے نکل کر لبرل اسلام کی سمت رواں دواں ہے، اس لیے اب سعودی رقوم بھی مساجد کے لیے کسی شدت پسندی کی علامت نہیں رہی ہیں، بنگلادیش میں اکثریت اسلام کو ایک پُرامن دین سمجھتی ہے اور مسجد کو عبادت کے لیے ایک مقدس اور پرامن جگہ کے طور پر استعمال کرتی ہے، جہاں وہ اپنی دنیاوی زندگی سے دور رہ کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں، ایسی مسلمان ریاست میں ماڈل مسجد پروجیکٹ کے خلاف یہ ہرزہ سرائی صرف اور صرف اسلام دشمنی اور اسلام مخالفت کو ظاہرکرتی ہے۔
(ترجمہ: سمیہ اختر)
Secular opposition to ‘Model Mosque Project’. (“Bangladesh News”. April 14, 2018)
Leave a Reply