آج کے تعلیمی و ترقی کے دور میں سیاسی سیکولرازم اپنے گردو پیش سمیت پوری دنیا میں بحران کا شکار ہے۔ ان خیالات کا اظہار آلیویر رائے جو ایک تجزیہ کار ہیں اور فرانس کے متعلق گہری نگاہ رکھتے ہیں نے ’’سیکولر ریاست کے بحران‘‘ کے موضوع پر لکھے اپنے مضمون میں کیا۔ پھر بھی یہ ایک غیرنشان زدہ کردار یا آواز ہے جو یہ بتانے سے قاصر ہے کہ مغربی یورپ میں کیاہو رہا ہے۔
مغربی یورپ کا ہر ملک ایک سیکولر ریاست ہے لیکن ہر ایک کے نزدیک سیکولر ہونے کے اپنے معنی ہیں۔ انہوں نے یہاں تاریخی طور پر سیکولرازم کے دو تاریخی معیار بنا رکھے ہیں جس میں ایک کا بنیادی کردار اور ایک اس سے کم معیار کا کردار ہے۔ ان میں دوسرا معیار فرانس میںاپنا وجود رکھتا ہے، جس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کو روحانی طور پر مذہبی دائرے میں ہونے کی آزادی ہو اور مذہبی تنظیموں کو ریاست اپنے مفادات کے مطابق نگرانی میں رکھے۔ جبکہ مرکزی مغربی یورپ، جسے ہم جدید سیکولر بھی کہتے ہیں ان کے نزدیک مذہب کو لوگوں اور قوم کے فائدے کے لیے لیاجاتا ہے اور منظم کیا جاتا ہے (یہ صرف انفرادی معاملہ نہیں ہوتا)۔ اس کے سارے پہلو دیکھ کر ان معاملات کو چلایاجاتا ہے، حتیٰ کہ چرچ بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ اس میں تعلیمی، معاشی، سیاسی، ماحولیاتی اور سماجی بہبود وغیرہ تمام چیزوں کے فائدے کے لیے مذہب کا استعمال کیا جاتا ہے۔
مغربی یورپ اکثر تاریخی عوامی چرچوں اور سیاسی سیکولرسٹوں کے درمیان اکھاڑ پچھاڑ کامظاہرہ کرتا رہا، یہ عمل انیسویں بیسویں صدی کے دوران شروع ہوا اور اسمیں خاص طور پروٹسٹنٹ کی اکثریتی سوسائٹیوں نے کردار ادا کیا۔ ان میں کبھی کوئی زیادہ پیچیدہ مسئلہ نہیں ہوا اور یہ کام آپس میں بہت سمجھوتے کر کے وقوع پذیر ہوا۔ اس سمجھوتے ہی کی وجہ سے بہت سے چرچ قائم رہے اور ریاست کی مذہبی علامت کو ظاہر کرتے رہے، لیکن ان کے عوامی اور سیاسی کردار کو آہستہ آہستہ ختم کر دیا گیا۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے سے صدی کے آخر تک سیکولروں کی حمایت میں خاص طور پررائے بنانے کے لیے اور سیاسی کردار بڑھانے کے لیے پرزور تحریک چلتی رہی۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں مغربی یورپ میں اس کلچرل انقلاب کو قبول کر لیا گیا۔ مثال کے طور پر ہالینڈ میں ریاست کا باہمی انتظام جو کیتھولک اور پروٹسٹنٹ پرپھیلا ہوا تھا۔ انیسویں صدی میں ضم ہو گیا اور بیسویں صدی کے نصف تک بڑی تیزی سے زمین بوس ہو گیا اور باقاعدہ طور پر ۱۹۸۳ء میں اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ لیتھرین چرچ ۲۰۰۰ء میں سویڈن میں غیر فعال ہو گیا۔ یہی حال لندن میں ’’چرچ آف انگلینڈ‘‘ کے ساتھ ہوا۔ یہ ۱۹۹۰ء کے عشرے میں کونے سے لگ گیا۔ کیتھولک ممالک اٹلی، اسپین، پرتگال اور آئرلینڈ ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کے عشرے میں بڑی تیزی سے سیکولرازم کے آگے گھٹنے ٹیک چکے تھے۔
اب یہاں مذہبی تقریبات و خدمات، عیسائی عقیدے اور عبادات سیکولرازم کے پھیلنے یا نہ پھیلنے پراثرانداز نہیں ہو رہی ہیں، اب خواہ اس مذہب کوتبدیل کر کے کوئی اور مذہبی عبادات لے آئیں یا سیاسی ادارے یا حکومت اس کے لیے اصلاحات لے آئیں، مذہبی اداروں کو بانجھ کر دیاگیا ہے۔ اب یہاں سیاسی سیکولرازم کے کوئی مدمقابل نہیں ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو اب نئی آنے والی نسلیں اپنے مذہب سے بیگانہ اور سیکولرازم کے سیاسی پرچار سے دوچار ہو گئی ہیں۔ صرف مسلمان ہی وہ قوم ہیں جو اس سارے ماحول میں اپنی شناخت کسی نہ کسی طرح قائم رکھے ہوئے ہیں۔
اب سیکولرازم کے بحران پرایک لہر اٹھتی ہوئی پائی جارہی ہے۔ پائوٹال تحریک جو ۱۹۸۸ء سے ۱۹۸۹ء تک چلی، اس تحریک نے سیکولرازم کے بحران کے بارے میں دو نشانیاں ظاہر کردیں۔ اس نے قومی اور بین الاقوامی طور پر طوفان برپا کیا اور متحرک سیاسی ترقی کو متعارف کروایا جو کہ واپسی کا راستہ نہ رکھتی تھی اور اس نے مغربی یورپ کے سیکولرازم میں مسلمانوں کی موجودگی میں دو متضاد راستے ظاہر کیے۔ جن واقعات پر باقاعدہ احتجاجی ردعمل سامنے آیا وہ برطانیہ میں سلمان رشدی کی متنازع (گستاخانہ) کتاب اور فرانس میںایک اسکول کے سربراہ کی طرف سے تین مسلمان بچیوں کو اسکارف لینے کی بناء پر اسکول میں داخلے کی اجازت نہ دینا تھا۔ گستاخانہ عمل برطانیہ میں قابلِ گرفت نہیں تھے، اس لیے مسلمانوں کی مہم ناکام ہوگئی۔ دوسری طرف مختلف قسم کے جمہوری ماحول کے نتیجے میں مسلمانوں نے نئی راہ اپنائی۔ مسلم کونسل آف برطانیہ بنائی اور یہ اپنے ایجنڈے کو پورے کرنے میں بڑی کامیاب رہی۔ ۲۰۰۱ء میں اس نے بڑی کامیابی یہ حاصل کی کہ اس کونسل نے اپنے آپ کو علیحدہ مذہب اور شناخت کے طور پر حکومت، ذرائع ابلاغ، سول سوسائٹی کی حیثیت میں متعارف کروا لیا۔ اس کے علاوہ جن دو مقاصد میں مزید یہ کامیاب ہوئی وہ ریاست کی طرف سے مسلم اسکولوں کو فنڈنگ تھی، جس طرح عیسائیت اور یہودیوں کے اسکولوں کو امداد ملتی ہے۔
۲۰۰۱ء میں مذہب کے بارے میں سوال کو بھی مردم شماری میں داخل کروا لیا گیا۔ وزارتی اور سول سروسز میں بھی اپنے آپ کو خدمات سرانجام دینے کا اہل قرار دلوالیا گیا۔ یوں سمجھ لینا چاہیے کہ اس طرز سے نسل، ذات اور رنگ کے بجائے مسلمانوں نے پالیسیوں میں اپنے آپ کو متعارف کروا دیا۔ اب مسلم کونسل کی کوشش ہے کہ وہ ایک ایسا قانونی تحفظ حاصل کرلیں جس کے ذریعے وہ یورپی یونین میں مذہبی تفریق سے بچ سکیں اور اس میں ایک ایسا قانون بھی شامل ہو جو مذہبی منافرت اور مذہبی دل آزاری کو ممنوع قرار دے۔
۸۹۔۱۹۸۸ء میں اس راستے پر ہونے والی ترقی کا یہ عکس تھا۔ اس میں اقلیتی گروہ متحرک تھے اوران گروہوں نے مذہبی تناظر میں اپنے آپ کو آگے بڑھایا اور اپنے حق میں پالیسی بنوائی۔ اس مہم کے آغاز میں ملک کی اکثریت جس میں میڈیا، دانشور، سیاستدان اور عوامی رائے بنانے والے لوگ شامل تھے جو مسلمانوں کے خلاف تھے اور اس لٹریچر کے حق میں تھے جس نے طالبات کو اسکول میں اسکارف لینے کی اجازت نہیں دی تھی۔ مسلمان اس صورتحال میں بھی نہ تھے کہ وہ اس غالب رائے کو تشہیری یا تنظیمی سطح پر یا عالمی سطح پر مسلمانوں کو اپیل کر کے بدل سکتے۔ برطانیہ میں پہلے ہی وہ سلمان رشدی کے ناول کو بادل نخواستہ برداشت کر رہے تھے۔ یوں فروری ۲۰۰۴ء میں سر کے اسکارف پر پارلیمنٹ میں بِل منظور ہو گیا۔ اس کے کچھ سال بعد سیکولر سٹوں کا ہدف برقع اور نقاب تھے، لیکن عدالت نے اس کو رَد کر دیا اور یوں فرانسیسی مسلمان عورتوں کو ایک جیت ملی۔ جبکہ بعد میں یہ اپریل ۲۰۱۱ء میں عوامی جگہوں پر ممنوع قرار دے دیا گیا۔ جولائی ۲۰۰۱ء میں بلجیم نے اس کی پیروی کی اور اٹلی بھی اس عمل سے گزر رہا ہے۔ اس طرح کے خیالات مغربی یورپ کی مختلف سیاسی پارٹیوں اور حکومتوں میں گردش کر رہے تھے۔
اس مسلم دشمن اتحاد کی ایک اور مثال ۲۰۰۹ء میں سوئٹزرلینڈ میں ہونے والے اس ریفرنڈم کی بھی ہے جس میں انہوں نے مسجدوں کو شناخت بنانے کی ممانعت کردی۔ اس اسلام مخالف اتحاد کے لوگ اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں کہ ان کا کام انفرادیت کی سطح پر ہے۔ ان کا بنیادی کام عورتوں کے بنیادی حقوق کو اجاگر کرنا ہے۔ خاص کر ان میں جو یہ محسوس کریں کہ اسلام غیر ملکی ہے جن کو اسلام سے کوئی مسئلہ نہیں لیکن وہ مسلمانوں کو قبول کرنے پر راضی بھی نہیں ہیں۔ بظاہر ان کو اسلام سے کوئی خطرہ بھی نہیں، لیکن وہ اسلام کو مداخلت کار تصور کر رہے ہیں۔ چنانچہ وہ وقت سے پہلے ہی پیشن گوئی کر کے اس سے خوف کھا رہے ہیں کہ یہ اپنے اثرات بہت جلدی بڑھا لے گا، حالانکہ اس طرز کے خیالات رکھنے والے لوگوں میں بڑی تعداد ان کی بھی شامل ہے جو چرچ اور ریاست کے متعلق کوئی نقطۂ نظر نہیں رکھتے لیکن مسلمانوں کے متعلق تشدد پسندانہ ماحول بنا رہے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ موجودہ چیلنج سیکولرازم کے لیے مغربی یورپ میں بھی درپیش ہے۔ یہ اس طرز پر نہیں کہ جو ملٹی کلچر ازم سے نمو پذیر ہو بلکہ یہ مسلمانوں کی سادگی اور شرافت کی وہ پرانی کہانیاں ہیں اور یہ موجودہ ماحول میں نظر بھی آرہی ہیں جس کو اسلامو فوبیا کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ یہ زیادہ تر سیکولرازم کے لیے غیر متعلقہ سوال ہے۔
کثیر الثقافتی ڈھانچے میں سیکولرازم کا بحران زیادہ سمجھ میں آتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملٹی کلچرازم کے لیے کچھ لمحوں کے لیے چند وکالت کرنے والے مل سکتے ہیں لیکن یہ اصطلاح بری طرح ناکارہ ہو چکی ہے۔ اس خطے کے سینئر سیاستدانوں کے نزدیک یہ اصطلاح مردہ ہو گئی ہے۔ مسلمانوں نے اس تحریک کو بعد میں منتخب کیا، لیکن اس کے باوجود اس میں اپنی موجودگی کو رکھنے میں کامیاب ٹھہرے۔ جبکہ سیکولر اور عیسائی اس کو قائم نہ رکھ سکے۔ میرے نزدیک اس کو ملٹی کلچرل ازم کے بجائے اندرونی تبدیلی کہیں گے۔ ہم نہ صرف اندرونی تبدیلی کی آئے روز بات کر رہے ہیں بلکہ یہ ایک ادارے کی تزئین نو اور مخصوص ابھرتی ہوئی نشانی بن گئی ہے۔ اگر یہ ایشو مردہ ہو چکا ہے تو پھر ہمیں عوامی مذہب یا مسلمانوں اور اسلام کے نفوذ کے بارے میں ہونے والی گفتگوئوں کے بارے میں بحث کو چھوڑ دینا چاہیے۔ کرشماتی تبدیلی مغربی یورپ میں نہ تو تاریخی مذہب سے رابطہ رکھتی ہے اور نہ یہ تاریخی سیکولرازم سے، بلکہ اس کاانوکھا پن یہ ہے کہ اگر عیسائیت یا سیکولرازم پر نافذ کی جائے تو اس کا الٹا ردعمل ہوتا ہے اور نہ ہی یہ پنپ سکے گی، اس لیے میں اور بھی اعتراف کرتا ہوں کہ مغربی یورپ میں سنجیدہ ملٹی کلچرل ازم کا ماحول موجود ہے جو کہ مسلمانوں کے ساتھ افہام و تفہیم کے ساتھ ہی پنپ سکتا ہے نہ کہ ان کواپنے آپ سے علیحدہ کرکے۔
سیاسی سیکولرازم کا دھڑن تختہ ہو چکا ہے اور خاص طور پر تاریخی بہائو پر یہ نئے سے نئے سیکولرازم کے طور پر تشکیل پارہا ہے اور توقع کی جاسکتی ہے کہ مسلمان اس تغیر کے نتیجے میں ابھر جائیں۔ یہ بالکل سچ ہے کہ ریاست کے لیے ریڈیکل سیکولرازم کے نظریے کے طور پر چیلنج موجود ہے۔ بہت سارے سماجی اور سیاسی نظریات اس خیال کے لیے ہمدردی کا پہلو رکھتے ہیں۔ فرانس میں اس مثال کو دیکھا جائے۔
ملٹی کلچرل ازم کے لیے سیکولرازم کا بحران ایک حقیقی چیلنج ہے اور سیاسی سیکولر یہ سوچ رہے ہیںکہ اس کے پروگرام اور اس کے ادارے کی ساکھ کو کیسے بچایا جائے؟
(نوٹ: مضمون نگار فاردی اسٹڈی ایتھنسٹی اینڈ سٹیزن شپ، یونیورسٹی آف برسٹل برطانیہ کے ڈائریکٹر ہیں)
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۱۳؍ اکتوبر ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply