
آج کل آزادیٔ رائے کے نام پر ایک مخصوص گروہ قراردادِ مقاصد کے خلاف جس طرح ہذیان اُگل رہا ہے، اُس سے جی متلانے لگتا ہے۔ اس مہم میں ٹیلی ویژن ٹاک شو سے لے کر کالم نویسی اور خبروں سے لے کر عوامی رائے عامہ کو اس طرح سے استعمال کیا جارہا ہے جیسے قراردادِ مقاصد یا تو متروک ہو گئی ہے، یا پھر یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ جیسے قائداعظم کے فرمودات کے خلاف قرارداد مقاصد کی شکل میں کوئی سازش کی گئی ہو، جس سے وطنِ عزیز میں ’’تنگ نظری‘‘ اور ’’انتہاپسندی‘‘ پھیل گئی ہے۔
میڈیا کی آزادی کا ایک بڑا مخمصہ یہ بھی ہے کہ پروپیگنڈے اور خبر میں امتیاز نہیں رہا اور نہ جھوٹ اور سچ میں کوئی فرق۔ میڈیا اب عوام کی عقل کا امتحان بن کر رہ گیا ہے۔ یعنی اس نے تو الاماشاء اللہ گمراہ کرنا ہے۔ قارئین میں عقل اور تجزیہ کی رمق موجود ہے تو خود چھان پھٹک کرتے پھریں۔ میڈیا کی ایسی کاوشوں کے پیچھے جو فکر کارفرما ہے، اُس کے مطابق عوام بیوقوف ہیں، ورنہ شاید اُس کی یہ ہمت نہ ہوتی کہ وہ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا کر پیش کرتا۔
مثلاً آج کل سیکولر عناصر حدود قوانین کو غیر مؤثر کرنے کے بعد قراردادِ مقاصد کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ ان کی تحریروں سے اُن کی جو حکمتِ عملی سامنے آرہی ہے، وہ کچھ یوں ہے:
٭ قائداعظم کو سیکولر ثابت کرو۔ اس کے لیے دلیل اور ثبوت کی ضرورت نہیں، بس بار بار اس ایک بات کو تسلسل کے ساتھ اور ہر سطح پر دہراتے رہو کہ وہ سیکولر تھے۔
٭ اُن کی گیارہ اگست ۱۹۴۷ء والی تقریر کو تاریخی سیاق و سباق سے علیحدہ کرکے اسے ایک سیکولر متن دو اور پھر کہو وہ تو سیکولر پاکستان چاہتے تھے۔
٭ قراردادِ مقاصد کو قائداعظم کی ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء والی تقریر کے خلاف ثابت کرو۔
٭ اخباری مذاکروں اور ٹی وی ٹاک شو کے ذریعے جن میں زیادہ تر سیکولر لوگ ہوں، اُن سے قرارداد مقاصد کے خلاف کہلوایا جائے، تاکہ ظاہر کیا جاسکے کہ لوگ متذکرہ قرارداد کے خلاف ہیں۔
٭ رائے عامہ کے خود ساختہ جائزوں (سروے) کے ذریعے سے ثابت کیا جائے کہ عوام تو قراردادِ مقاصد یعنی پاکستان کے اسلامی تشخص کے خلاف ہیں۔
کچھ عرصہ پیشتر روزنامہ ’’جنگ‘‘ نے ایک ایسا ہی رائے عامہ کا جائزہ پیش کیا۔ یہ جنگ کا ۱۳؍اگست ۲۰۱۰ء کا شمارہ ہے، جس کے صفحہ اول پر تین کالمی سرخی کے ساتھ یہ نوید سنائی گئی ہے کہ ’’ساٹھ فیصد نے قراردادِ مقاصد کو قائداعظم کی گیارہ اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر سے متصادم قرار دے دیا‘‘۔
روزنامہ ’’جنگ‘‘ کی یہ خبر اخبار کے اپنے دعوے کے مطابق رائے عامہ کے جائزے پر مبنی ہے، جس میں دانشور، بیورو کریٹ، وکلا اور صنعت کار شامل تھے۔ جن سے یہ پوچھا گیا کہ آیا قراردادِ مقاصد منظور کرنے کی ضرورت تھی اور آیا یہ قائداعظم کی گیارہ اگست والی تقریر سے متصادم ہے؟ میں اس خبر کا تراشہ بمعہ متن حوالہ جات دے رہا ہوں تاکہ ابہام نہ رہے:
میرے نزدیک چونکہ یہ ایک انہونی بات تھی لہٰذا میں نے سوچا، ہو سکتا ہے یہ جائزہ سیکولر حضرات کی آرا پر مبنی ہو جسے اکثریتی رائے بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ عموماً یہ سیکولر طریقہ کار رہا ہے۔ یا پھر ہو سکتا ہے کہ کوئی چال چلی جارہی ہو، جس میں دھوکا دہی سے لوگوں کے ذہنوں میں جھوٹ کو اُتارا جارہا ہو۔ آخرکار انڈیا کے حامی سیکولر حضرات حقائق کو توڑ مروڑ کر تاریخ پاکستان کو ازسرنو لکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے سب سے پہلے یہ مقدمہ قائم کرنے کی کوشش کی کہ ’’علامہ اقبال بھی سیکولر تھے اور جناح بھی سیکولر تھے‘‘۔
میں نے جب پوری خبر پڑھی تو مجھے یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ پورے متن میں سرخی کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ چونکہ عوامی جائزے کی تفصیلات اگلے شمارہ میں آنی تھیں لہٰذا اگلے دن یعنی ۱۴؍ اگست کو میں نے اسے بغور پڑھا۔ یہ آرا چار رنگین صفحات پر مشتمل تھیں۔
چونکہ شرکا میں صرف ایک مولوی صاحب تھے اور ایک برام ڈی آواری صاحب جو پارسی برادری سے ہیں، بقیہ میں چھ معروف اور سکہ بند سیکولر، جبکہ دیگر حضرات عدلیہ، جامعات، وکلا، تاجر و صنعتکار، نوکر شاہی اور مسلح افواج کے سابقین سے لیے گئے تھے۔ روزنامہ ’’جنگ‘‘ کا خیال تھا کہ نتائج اُن کی پسند کے مطابق ہوں گے مگر اُن کی بدقسمتی کہ ایسا نہ ہوا۔ یہاں تک کہ آواری صاحب (میں اُن کی عظمت کو سلام پیش کرتا ہوں) نے بھی اقلیتی فرد ہوتے ہوئے قراردادِ مقاصد کی اہمیت اور اُس کی حکمت کا اعتراف کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر اس جائزے میں علی احمد کرد، تاج محمد لنگاہ، منو بھائی، منیر ملک، اشرف ناصر اور معین الدین حیدر جیسے سیکولر حضرات کو شامل نہ کیا جاتا تو قراردادِ مقاصد کے مخالفین کی تعداد مزید سکڑ کر رہ جاتی۔
شرکا کی آرا کو پڑھنے کے بعد میرا شک سچ ثابت ہو گیا۔ روزنامہ ’’جنگ‘‘ والے شرکا سے وہ بات منسوب کر رہے تھے جو انہوں نے نہیں کہی تھی۔ یہ دن دہاڑے ایسی واردات کیوں کر رہے تھے؟ شاید اس لیے کہ وہ اس طرح ۱۴؍اگست کی نسبت سے اپنے سیکولر ایجنڈے کی تکمیل کر سکیں۔ یہ ایک بدترین جھوٹ اور مکاری تھی جو ’’جنگ‘‘ اپنے قارئین سے کر رہا تھا۔ مثلاً دیکھیے کہ اُس جائزے کے اصلی نتائج کیا صورت پیش کر رہے ہیں:
شرکاء کی کل تعداد: ۲۹
قرارداد مقاصد کے حامی: ۱۸ یعنی ۶۲ فیصد
مخالفین: ۷ یعنی ۲۵ فیصد
(ان میں ۶؍ افراد جانے پہچانے سیکولر ہیں)
جنہوں نے جواب نہیں دیا: ۳ یعنی ۱۰ ؍فیصد
غیر واضح جواب: ۲ یعنی ۴ فیصد
معلوم ہوا کہ شرکا کی واضح اکثریت یعنی ۶۲ فیصد قراردادِ مقاصد کے حق میں تھی۔ اس تعداد کو اگر ایک اور پہلو سے دیکھا جائے تو زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ مثلاً معین الدین حیدر اپنے رویے سے سیکولر بنے دکھائی دیتے ہیں، لیکن قراردادِ مقاصد کو مذہبی انتہا پسندی قرار دینے کے باوجود کہتے ہیں کہ ’’چونکہ ہمارے ملک میں مسلمان اکثریت میں ہیں، (اس لیے) کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بن سکتا‘‘۔
اب معین الدین حیدر صاحب سے یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ جناب آپ ایک طرف تو قرارداد مقاصد کی مخالفت اس لیے کرتے ہیں کہ اس میں وطن عزیز کے اسلامی تشخص کی بات کی گئی ہے، جس کی وجہ سے آپ کے خیال میں ملک میں انتہا پسندی پھیلی۔ مگر دوسری طرف آپ فرماتے ہیں کہ ہمارے ملک میں قانون سازی قرآن و سنت کے خلاف نہیں کی جاسکتی، اس طرح تو آپ کے اس موقف سے (خواہ قراردادِ مقاصد ہو یا نہ ہو) آپ کے اپنے ہی الفاظ میں ’’انتہا پسندی‘‘ پھیلے گی۔
یہ ایک حیلہ گر اور الجھے ہوئے ذہن کی کیفیت ہے، وگرنہ اگر آپ قرآن و سنت پر مبنی قانون سازی کے خلاف نہیں تو پھر منطقی اعتبار سے آپ قراردادِ مقاصد کے بھی خلاف نہیں ہوسکتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اسے قائداعظم کی گیارہ اگست والی تقریر سے براہِ راست متصادم قرار دینے سے اجتناب کرتے ہیں۔ اُن کے نزدیک مذہبی جماعتوں کو سیاست میں نہیں آنا چاہیے تھا۔ ضیاء الحق سرحدی نے قراردادِ مقاصد کی ضرورت کا اعتراف تو کیا، لیکن ساتھ ہی یہ کہہ دیا کہ اس میں مذہبی رواداری کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ ظاہر ہے یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جسے قراردادِ مقاصد کے متن سے آگاہی نہ ہو، لیکن پھر بھی وہ صاف الفاظ میں اسے قائد کی تقریر سے متصادم قرار نہیں دیتے۔ موصوف کی رائے کو قراردادِ مقاصد کے حق میں شامل کیا جاسکتا ہے، لیکن میں محتاط انداز اختیار کرتے ہوئے اسے ’’غیر واضح‘‘ قرار دوں گا۔
عقیل کریم ڈھیڈی سمجھتے ہیں کہ چونکہ پاکستان کا قیام برصغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ ریاست کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا، اس لیے قراردادِ مقاصد کا پیش کیا جانا غیر مناسب بات نہیں تھی، لیکن اُس کی بنیاد پر جو تبدیلیاں کی گئیں، وہ ’’شاید‘‘ اُس کی روح کے منافی تھیں۔ اُن کے نزدیک قائداعظم چاہتے تھے کہ تمام ادیان کے لوگ برابری کی بنیاد پر زندگی گزاریں۔
ڈھیڈی صاحب بھی قرارداد مقاصد کی مخالفت نہیں کر رہے، اور نہ قائد کی ۱۱؍ اگست والی تقریر کو اس سے متصادم قرار دے رے ہیں۔ یہ گومگو کی کیفیت ہے۔ میں اسے غیر واضح قرار دوں گا۔
اس عوامی جائزہ میں چند آرا ایسی بھی آئی ہیں، جن میں تازگی اور فکر کی روشنی ہے۔ مثلاً حفیظ لاکھو نے، جو وکیل ہیں، دلچسپ بات کی ہے۔ وہ قراردادِ مقاصد کی حمایت کرتے ہیں البتہ قائداعظم کی ۱۱؍ اگست والی تقریر کو اس سے متصادم قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس تقریر کی کوئی دستوری اہمیت نہیں، کیونکہ یہ ایک سیاسی تقریر تھی جسے پارلیمان کی منظوری حاصل نہیں تھی۔ حفیظ لاکھو صاحب کا یہ نکتہ بڑا اہم ہے جسے اب تک کسی نے پیش نہیں کیا تھا۔
قاضی انور سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے پاکستان کی بنیاد اسلام کو قرار دیتے ہوئے قائداعظم کی تقریر کو مسلمانوں کے جذبات سے متصادم بیان کیا۔ یہ بھی ایک انتہائی اہم نکتہ ہے، کیونکہ یہ قرارداد مقاصد کی اہمیت اور درستی کو تسلیم کرتا ہے، نہ کہ قائداعظم کی اُس واحد تقریر کو۔
دراصل روزنامہ ’’جنگ‘‘ کے سروے کا بنیادی مقصد یہ نظر آتا ہے کہ قائداعظم کی ۱۱؍ اگست والی تقریر کو برتری دی جائے اور اسے قراردادِ مقاصد کے ساتھ متصادم قرار دے کر آخرالذکر کو ختم کر دیا جائے۔ لیکن سروے میں یہ ہوتا نظر نہیں آتا۔ روزنامہ ’’جنگ‘‘ کا مقصد اُس وقت پورا ہوتا جب یہ حضرات قائداعظم کی تقریر کو قرارداد مقاصد سے متصادم قرار دیتے ہوئے موخرالذکر کو بُرا سمجھتے، جیسا کہ چھ معروف سیکولروں کا موقف اس جائزے میں ہے، لیکن ایسا ہوا نہیں۔ مثلاً جن لوگوں نے قائداعظم کی تقریر کو قرارداد مقاصد سے واضح الفاظ میں متصادم قرار دیا، بالخصوص حفیظ لاکھو اور قاضی انور صاحبان، وہ پُرزور الفاظ میں قراردادِ مقاصد کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے قائداعظم کی تقریر کو ثانوی مقام دیتے ہیں۔
یہ اشکال اُسی صورت میں پیدا ہوئیں کہ سروے مرتب کرنے والوں کے ذہن میں شرارت تھی۔ رائے عامہ کے اس جائزے میں قرارداد مقاصد کا خلاصہ تو نہیں دیا گیا لیکن قائداعظم کی گیارہ اگست والی تقریر کا ایک اقتباس ضرور دیا گیا ہے۔ اس سے بعض اذہان میں دونوں کا موازنہ کرتے ہوئے دشواری پیدا ہوئی۔ انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ دونوں کا متن دیا جاتا، تاکہ جواب دینے والا سوچ سمجھ کر جواب دے سکتا اور وہ صورت پیدا نہ ہوتی جو ضیاء الحق سرحدی اور عقیل کریم ڈھیڈی کے جوابات سے پیدا ہوئی۔
اس سب کے باوجود باقی سب حضرات نے قراردادِ مقاصد کو صحیح قدم سے تعبیر کیا اور ساتھ ہی قائداعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کے متن کو بھی اسلامی قرار دیا۔ یہی وطن عزیز میں اکثریتی مؤقف بنتا ہے کہ ان دونوں میں تناقص نہیں۔
ان سب پہلوئوں سے قطع نظر روزنامہ ’’جنگ‘‘ نے رائے عامہ کے جائزے میں وہ تمام اُصول پامال کیے جو دنیا بھر میں معروف ہیں اور جنہیں ایسے جائزوں میں پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ مثلاً :
٭ ایسے جائزے (سروے) اپنے چنیدہ افراد کی آرا پر مبنی نہیں ہوتے۔
٭ ایسے جائزوں میں بغیر کسی ترتیب کے بالعموم معاشرے کے افراد کی آرا معلوم کی جاتی ہیں تاکہ نتائج پہلے سے طے کردہ ایک خاص رجحان کی طرف مائل نہ دکھائی دیں۔ جائزہ مذکور جو کُل ۲۹؍افراد پر مشتمل ہے، اس میں جان بوجھ کر چھ ایسے سیکولر افراد کو شامل کرنا جو قراردادِ مقاصد کے ہمیشہ مخالف رہے ہیں۔
٭ جائزہ لینے والے اپنی پسند ناپسند کو ایک طرف رکھتے ہوئے، کسی خاص موضوع پر رائے عامہ کو معلوم کریں تاکہ اُس کی نوعیت معروضی رہے۔
اس کے برعکس روزنامہ ’’جنگ‘‘ نے نہ صرف ایسے جائزوں کے معروف اصولوں کو پامال کیا بلکہ خود اپنے ہی مرتب کردہ جائزے کے برعکس جھوٹی شرانگیز سرخی لگائی کہ ۶۰ فیصد نے قراردادِ مقاصد کو قائداعظم کی ۱۱؍ اگست والی تقریر سے متصادم قرار دے دیا، حالانکہ متذکرہ جائزے کے مطابق ایسا نہیں تھا۔ یعنی ۶۲ فیصد خواتین و حضرات قرارداد مقاصد کے حق میں تھے۔ ان میں اکثریت اُن لوگوں کی تھی جو قائداعظم کی ۱۱؍ اگست والی تقریر کو قراردادِ مقاصد سے متصادم نہیں سمجھتے تھے۔
یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے۔ اگر صحافت اور الیکٹرانک میڈیا کے یہی اطوار رہے تو خدانخواستہ ہم نہ صرف اپنے ملک میں شناخت کے بحران میں مبتلا ہو جائیں گے، بلکہ شاید اپنی آزادی کو تج دے بیٹھیں گے۔ یقینا ہمارے دشمن یہی چاہتے ہیں۔
(بحوالہ: کتاب ’’سیکولرازم، مباحث اور مغالطے‘‘)
Leave a Reply