
افغانستان میں وہ ہوا جس کا سوچا بھی نہیں گیا تھا۔ یہ بات تو سبھی جانتے تھے کہ طالبان بالآخر کامیاب ہوں گے اور دارالحکومت کابل پہنچ کر حکومت کو چلتا کریں گے، مگر یہ سب کچھ اِتنی تیزی سے ہوگا یہ تو کسی نے بھی نہ سوچا تھا۔ امریکا کو جس انداز سے افغانستان چھوڑنا پڑا ہے وہ انتہائی شرم ناک اور عبرت ناک ہے۔ اشرف غنی نے جس انداز سے صدر کا منصب چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کی وہ کسی بھی اعتبار سے ایسی نہیں کہ بُھلائی جاسکے۔ اس معاملے کا انتہائی شرم ناک پہلو یہ ہے کہ اشرف غنی ڈالر کی شکل میں خطیر رقوم لے کر فرار ہوئے ہیں۔ یہ سب کرپشن کا پیسہ ہے۔ جو کچھ افغان عوام اور فوج کے نام پر دیا گیا تھا وہ حکومتی شخصیات نے آپس میں بانٹ لیا۔
طالبان کی آمد آندھی کی سی تھی۔ وہ آئے اور چھاگئے۔ اور کیوں نہ چھاتے کہ مزاحمت نام کی کوئی چیز ہوئی ہی نہیں۔ افغان سیکورٹی فورسز نے برائے نام بھی مزاحمت نہیں کی۔ متعدد شہروں میں فوجیوں نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالے اور ان کی صفوں میں شامل ہوگئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورا ملک طالبان کا ہوگیا۔ کیا واقعی طالبان اتنے طاقتور تھے کہ انہیں یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ملتا؟ طالبان کی طاقت ایک حقیقت ہے مگر اس سے بڑی حقیقت ہے باقی ملک کی کمزوری۔ حکومتی سیٹ اپ انتہائی کمزور ہوچکا تھا۔ کرپشن نے حکومت کی جڑیں کھوکھلی کردی تھیں۔ افغان حکومت کی کرپشن کے قصے ایک زمانے سے مغربی میڈیا میں شائع ہو رہے ہیں۔ کرپشن کس حد تک تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایے کہ امریکا نے دوعشروں کے دوران افغانستان کی نیشنل سیکورٹی فورسز کا معیار بلند کرنے کے لیے کم و بیش ۸۰؍ارب ڈالر خرچ کیے۔ اتنی بڑی فنڈنگ کہاں گئی کچھ پتا نہیں۔ افغان سیکورٹی فورسز میں تو ایسا کچھ تھا ہی نہیں کہ وہ طالبان کے سامنے ٹِک سکیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے کابل پر طالبان کی فتح سے پندرہ دن پہلے کہا تھا کہ طالبان کو نیشنل سیکورٹی فورسز کی طرف سے غیر معمولی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ اس کے پاس جدید ترین ہتھیار، طیارے اور ہیلی کاپٹر ہیں۔ گویا افغان فورسز فضائی کارروائیاں کرنے کی پوزیشن میں تھیں۔ تو پھر ایسا کیا ہوا کہ اُنہوں نے طالبان سے لڑنے پر ہتھیار ڈالنے اور ایک طرف ہٹ جانے کو ترجیح دی؟
افغانستان کے کیس میں یہ بات ایک بار پھر ثابت ہوگئی ہے کہ بدعنوانی انسان کے ضمیر کو سُلا دیتی ہے، روح کو چھلنی کردیتی ہے اور پھر اِتنی اخلاقی ہمت باقی نہیں رہتی کہ زمینی حقیقتوں کا سامنا کیا جائے۔ طالبان نے سخت نامساعد حالات میں زندگی بسر کی ہے۔ دو عشروں کے دوران انہیں مسلسل لڑنا پڑا ہے اور وہ بھی جدید ترین ہتھیاروں کے بغیر۔ ان کے پاس سپلائیز بھی کبھی مطلوبہ مقدار میں نہیں رہیں۔ پھر بھی وہ میدان میں ڈٹے رہے۔ مغرب کی ترقی یافتہ اقوام سے تعلق رکھنے والے فوجیوں کا طالبان نے جس پامردی سے سامنا کیا وہ انتہائی قابلِ رشک ہے۔ ایسے میں یہ توقع کیوںکر کی جاسکتی تھی کہ کرپشن کی دلدل میں گلے تک دھنسی ہوئی افغان نیشنل فورسز طالبان کے آگے ٹِک سکتیں۔ افغان سیکورٹی فورسز نے جو کیا وہ کسی بھی درجے میں حیرت انگیز نہ تھا۔ ہاں، اگر کوئی چیز واقعی حیرت انگیز ہے تو وہ ہے طالبان کی طرزِ فکر و عمل۔ طالبان نے غیر معمولی کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد بھی اپنے آپ کو قابو میں رکھا ہے اور کوئی بھی ایسی بات نہیں کی جس سے کسی کو کچھ غلط پیغام ملے، خدشات جنم لیں۔
مغربی میڈیا کے تمام بڑے آؤٹ لیٹس تیار تھے کہ طالبان کابل میں داخل ہوں اور وہ طالبان کے خلاف پروپیگنڈا شروع کریں۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی فوج کی طرح مغربی میڈیا کو بھی منہ کی کھانی پڑی۔ طالبان نے ایسا کچھ بھی نہ کیا کہ جسے بنیاد بناکر مغربی میڈیا میں اُن کے خلاف کوئی ایسی ویسی بات کی جاتی۔ طالبان نے کابل فتح کرنے کے بعد بھی ایسا کچھ نہیں کیا جو بالعموم فتح کے نشے میں چُور ہوکر کیا جاتا ہے۔ طالبان نے ۱۵؍اگست کو کابل پر اپنا تصرف قائم کرلیا اور صدر اشرف غنی کو مستعفی ہوکر فرار ہونا پڑا۔ ۱۶؍ اگست کو جو کچھ کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ہوا وہ اپنے آپ میں ایک تماشا تھا۔ افغانستان سے روانہ ہونے کے خواہش مند افراد نے کابل ایئر پورٹ پر دھاوا بول دیا۔ ایسا تو ہونا ہی تھا کیونکہ ایک طرف غیر ملکی تھے جو ملک کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے باعث شدید عدمِ تحفظ محسوس کر رہے تھے اور کسی نہ کسی طور ملک سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ دوسری طرف وہ افغان باشندے تھے جنہوں نے دو عشروں کے ساتھ امریکا اور اس کے حاشیہ برداروں کا ساتھ دیا تھا۔ یہ لوگ بہت حد تک جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے ہم وطنوں کے قتلِ عام میں سہولت کار کا کردار خاصی بے شرمی اور سَفّاکی سے ادا کیا تھا۔ یہ لوگ اس قدر بدحواس تھے کہ جب ایک بڑا امریکی فوجی طیارہ کابل ایئر پورٹ سے روانہ ہوا تو یہ اس کے بیرونی حصوں پر سوار ہوگئے اور پھر ان میں تین چار خاصی بلندی سے گر کر ہلاک ہوئے۔ کابل ایئر پورٹ پر ہجوم کو بے قابو ہوتے دیکھ کر وہاں تعینات امریکی فوجیوں نے فائر کھول دیا جس کی زد میں آکر پانچ افراد ہلاک ہوئے۔ یہ شدید بدحواسی بتاتی ہے کہ انہوں نے دو عشروں کے دوران اپنے ہم وطنوں سے کیا سلوک کیا تھا۔ سوال طالبان سے خوف کھانے کا نہیں تھا۔ جن لوگوں نے امریکا اور یورپ کی طاقتوں کا ساتھ دے کر ہم وطن خواتین، بچوں اور بزرگوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا اُن کے ورثاء بھلا کیوں انہیں چھوڑتے؟ جب تک کابل میں حکومت تھی تب تک بیرونی طاقتوں کے یہ سہولت کار محفوظ تھے اور کوئی بھی اُن پر ہاتھ اٹھانے کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتا تھا۔ جب حکومت گئی اور طالبان آگئے تو وہ لوگ بھی شیر ہوئے جو حالات کے ہاتھوں کونوں کُھدروں میں دُبکے ہوئے تھے۔
مغربی میڈیا کی بے بسی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ۱۶؍اگست کو اُن کے پاس کابل ایئر پورٹ پر پائی جانے والی افراتفری کے سوا دکھانے کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ چند فوٹیجز کو دن بھر دکھایا گیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ کابل میں تو قیامت برپا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کابل میں سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ حکومت ختم ہوگئی تھی مگر لوگ مطمئن تھے۔ سڑکوں پر ٹریفک معمول سے کہیں زیادہ تھی۔ حکومت کے ختم ہونے پر تو شدید خوف کا ماحول پایا جاتا ہے اور لوگ گھروں میں دُبک جاتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ برطانیہ کے ہیجان پرور اخبار ’’ڈیلی میل‘‘ نے اسکول کی چند طالبات کی تصویر شائع کی جو اسکارف لگائے ہوئے اسکول جارہی تھیں۔ کیپشن میں یہ بتایا گیا کہ طالبات نے طالبان کے خوف سے اسکارف لیا ہوا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں بچیاں گھر سے نکلتے وقت اسکارف لیتی ہی ہیں۔ بتانے کی بات یہ تھی کہ جس دن ملک کے دارالحکومت پر طالبان متصرف ہوئے اور حکومت ختم ہوئی اُس دن بھی شہر میں اس حد تک امن تھا کہ اسکول کھلے رہے اور لوگوں نے بچوں، بچیوں کو اسکول بھیجنے میں ذرا سا بھی خوف محسوس نہیں کیا۔ مغربی میڈیا نے کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق طالبان کی فتوحات کے حوالے سے معاملات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی مگر اس کوشش میں زیادہ کامیابی نہ مل سکی۔ سی این این کی ایک اینکر پرسن نے جب کابل کی سڑکوں پر لوگوں سے رائے لی تو اسکارف لگایا۔ اس پر بھی دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ کابل پر طالبان کے متصرف ہونے کے بعد خواتین نے اسکارف لینے میں عافیت جانی۔ بعد میں اِسی اینکر پرسن نے بتایا کہ اسکارف لینے کے لیے اُس پر طالبان کی طرف سے کوئی دباؤ نہ تھا۔ یہ اُس کا اپنا فیصلہ تھا۔
طالبان رہنما ذبیح اللہ مجاہد نے کابل کے میڈیا سینٹر میں پریس بریفنگ کے دوران فخر سے بتایا کہ کابل کی تسخیر کو تین دن ہوچکے ہیں اور اِس دوران پورے ملک میں ایک بھی قتل ہوا نہ کسی کو اغوا کیا گیا۔ یہ ہے صورتِ حال۔ اب ذرا سوچیے کہ مغربی میڈیا کیا دیکھیں اور کیا دکھائیں۔ طالبان کی آمد اور افغان حکومت کی تحلیل کے بعد کوئی ایک بھی ایسا واقعہ نہیں جسے بنیاد بناکر مغربی میڈیا آؤٹ لیٹس طالبان کو بدنام کرنے کی مہم پر نکل سکیں۔ یہ ہے طالبان کی اصل کامیابی۔
Leave a Reply