
قرآن مجید فرقانِ حمید میں ارشاد ربانی ہوتا ہے کہ:
وَالضُّحٰیo وَالَّیْلِ اِذَا سَجٰیo مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰیo
جس کا ترجمہ ہے کہ: ’’آفتاب کی روشنی کی قسم۔ اور رات (کی تاریکی) کی جب وہ چھا جائے۔ (اے محمدؐ!) تمہارے پروردگار نے نہ تم کو چھوڑا اور نہ (تم سے) ناراض ہوا‘‘۔
مندرجہ بالا آیاتِ ربانی میں تفکر کا مقام ہے کہ اﷲ رب العزت نے آفتاب کی روشنی کی قسم اٹھائی ہے۔ آفتاب کی قسم اٹھانے سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ جس طرح آفتاب کے نکل آنے سے اس کی روشنی پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے اور وہ روشنی ہر ایک چیز پر غالب آجاتی ہے اسی طرح امام الانبیاء‘ آفتابِ نبوت‘ بدرالدجی‘ خیرالورٰی‘ سرور لولاک‘ رسالت مآب حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے دنیا میں تشریف لے آنے سے آپؐ کا حسن و جمال پوری دنیا کے حسن و جمال پر غالب آگیا ہے۔ سبحان اﷲ! اﷲ رب العزت کے بعد سراج المنیر سید الکونین حضرت محمدؐ سب سے زیادہ حسین و جمیل ہیں۔
امام غزالیؒ لکھتے ہیں کہ جتنے جسم کے اعضا اعتدال اور مناسب ہوں گے اتنا ہی جسم خوبصورت کہلائے گا‘ مثلاً آدمی کی ناک مناسب ہو‘ نہ زیادہ بڑی ہو اور نہ ہی زیادہ چھوٹی ہو‘ اور نہ زیادہ موٹی ہو اور نہ ہی زیادہ پتلی ہو‘ تو ناک خوبصورت کہلائے گی اور چہرہ تھوڑا خوبصورت ہو جائے گا۔ اگر اسی طرح چہرے کے تمام اعضا مناسب حالت میں ہوں اور جسم کے باقی تمام اعضا بھی مناسب حالت میں ہوں تو ایسا انسان خوبصورت کہلائے گا۔
یہ حسن و جمال کیا چیز ہے؟ اور حسن وجمال کس چیز کو کہتے ہیں؟ امام غزالی فرماتے ہیں کہ شکل و صورت دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک ظاہری صورت ہوتی ہے جو ہمیں نظر آجاتی ہے اور ایک باطنی صورت ہوتی ہے جو اہلِ باطن سمجھ سکتے ہیں۔ مسلمان جو صحابہ سے محبت رکھتے ہیں‘ جیسے ابو بکر صدیقؓ یا حضرت علیؓ سے‘ اس کی وجہ یہی ہے کہ ابو بکر صدیقؓ سچے تھے۔ اﷲ اور آنحضرتؐ سے محبت رکھتے تھے۔ اسی طرح حضرت علی بہت بہادر تھے۔ تو یہ سخاوت‘ محبت‘ شجاعت اور بہادری باطنی اوصاف کہلاتے ہیں۔ امامِ غزالیؒ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ مسلمان فقہاے دین اور اولیاء اﷲ سے بھی محبت رکھتے ہیں جیسا امام ابو حنیفہؒ‘ امام شافعیؒ، وغیرہ سے اور امام ابو حنیفہؒ یا امام شافعیؒ سے محبت رکھنے کی یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ بڑے متقی اور صاحبِ علم تھے اور اس کے ساتھ ساتھ سخاوت‘ صدق و وفا‘ خوف و رِجا اور زہد والے بھی تھے۔ یہی چیزیں باطنی اوصاف کہلاتی ہیں۔ حالانکہ مسلمانوں نے صحابہؓ اور بزرگانِ دین کو دیکھا بھی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود محبت رکھتے ہیں تو محبت رکھنے کی وجہ یہی ہے کہ ان کے اندر باطنی خوبصورتی بہت زیادہ تھی۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے لکھا ہے کہ حسن و جمال تناسب اور اعتدال کی ایک کیفیت کا نام ہے۔ اگر انسان میں ہے تو خوبصورت انسان ہے‘ نباتات میں ہے تو پھول ہے‘ عمارت میں ہے تو تاج محل ہے۔ پس ثابت ہوا کہ ایک ظاہری صورت ہوتی ہے اور ایک باطنی صورت ہوتی ہے۔ حضرت محمدؐ جہاں ظاہری حسن و جمال میں پوری دنیا سے اعلیٰ و ارفع اور اکمل و اجمل ہیں‘ اسی طرح باطنی حسن و جمال میں بھی پوری دنیا سے اعلیٰ و ارفع اور اکمل و اجمل ہیں۔
امام محمدؒ کوفہ سے بصرہ کی طرف جارہے تھے۔ آپ نے اپنی تمام کتب فقہ اونٹوں پر لادی ہوئی تھیں۔ راستے میں ایک یہودی ملا۔ اس نے امام محمدؒ کے شاگرد سے پوچھا کہ ان اونٹوں پر کیا ہے؟ شاگرد نے جواب دیا کہ ان اونٹوں پر فقہ کی کتابیں ہیں جو ہمارے امام صاحب نے قرآن و حدیث سے استنباط کر کے لکھی ہیں۔ یہودی نے کہا کہ تمہارے امام صاحب نے اتنی کتابیں اکیلے لکھی ہیں؟ شاگرد نے جواب دیا ہاں! ہمارے امام صاحب نے اتنی کتابیں اکیلے لکھی ہیں۔ یہودی نے کہا کہ ذرا اپنے امام صاحب کی زیارت تو کرائو۔ جب یہودی کو امام محمدؒ کی زیارت کرائی جاتی ہے تو وہ فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جاتا ہے۔ جب یہودی سے پوچھا گیا کہ صرف امام محمدؒ کی زیارت سے کیوں مسلمان ہو گئے‘ ان میں آخر تجھے کیا نظر آیا‘ تو یہودی نے جواب دیا کہ جب چھوٹے محمد اتے خوبصورت ہیں جن کو دیکھ کر اﷲ تعالیٰ یاد آجاتے ہیں تو بڑے محمدؐ کتنے خوبصورت ہوں گے۔ مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں کہ جس طرح اﷲ تعالیٰ وحدہ لاشریک ہے اسی طرح آنحضرتؐ کی انسانیت اعلیٰ و ہدایتِ کبریٰ بھی وحدہ لاشریک ہے کیونکہ آپؐ کی انسانیت اور ابدیت میں کوئی شریک نہیں اور نہ ہی آپؐ کے حسن و جمال میں کوئی شریک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں ہم دیکھتے ہیں کہ تمام انبیاؑ کا ذکر جہاں کہیں کیا گیا وہاں ان سب کو ان کے ناموں سے پکارا گیا ہے اور اگر بعض انبیاؑ کے لیے ’’عبد‘‘ کا لفظ استعمال ہوا بھی ہے تو اس کے ساتھ نام کی بھی تصریح کر دی گئی ہے‘ مثلاً سورۂ مریم میں حضرت زکریاؑ کے لیے ارشاد ہوتا ہے: ذکر رحمت ربک عبدہ زکریاo یعنی ’’(یہ) تمہارے پروردگار کی مہربانی کا بیان (ہے جو اس نے) اپنے بندے زکریا پر (کر دی تھی)‘‘۔
سورۂ ص میں حضرت دائودؑ کے لیے فرمایا:
واذکر عبدنا داؤد ذا الایدج
یعنی ’’اور ہمارے بندے دائود کو یاد کرو جو صاحبِ قوت تھے‘‘۔
سورۂ ص میں ایوبؑ کے لیے آیا ہے:
واذکر عبدنا ایوبم
ترجمہ: ’’اور ہمارے بندے ایوبؑ کو یاد کرو‘‘۔
حضرت محمدؐ کا اکثر مقامات پر اس طرح سے ذکر کیا گیا ہے کہ نہ تو آپؐ کا نام لیا گیا اور نہ آپؐ کو کسی دوسرے وصف سے نامزد کیا گیا بلکہ صرف ’’عبد‘‘ کے لفظ سے پروردگار نے آپؐ کو یاد فرمایا ہے:
سبحن الذین اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصا الذی برکنا حولہ لنریہ من ایتنا
ترجمہ: ’’وہ (ذات) پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجدِ حرام (یعنی خانہ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں‘ لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں‘‘۔
الحمدﷲ الذی انزل علی عبدہ الکتب ولم یجعل لہ عوجاo
ترجمہ: ’’سب تعریف اﷲ ہی کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر (یہ) کتاب نازل کی اور اس میں کسی طرح کی کجی (اور پیچیدگی) نہ رکھی‘‘۔
فاوحی الی عبدہ ما اوحیo
ترجمہ: ’’پھر اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندے کی طرف جو بھیجا سو بھیجا‘‘۔
اس خصوصیت و امتیاز سے اسی حقیقت کو واضح کرنا مقصودِ الٰہی تھا کہ آپؐ کے وجود گرامی کی عبدیت اور بندگی اس درجہ آخری و مرتبہ قصوی تک پہنچ چکی تھی کہ جو انسانیت کی انتہا تھی۔ اس لیے بغیر اضافت و نسبت کے صرف ’’عبد‘‘ کا لقب آپؐ کی پہچان کے لیے کافی تھا کیونکہ تمام کائنات میں آپؐ سا کوئی عبد نہیں۔ پس جس کی یگانگی و بے ہمتائی کا یہ مرتبہ ہو‘ اس کی یاد میں جتنی گھڑیاں بھی کٹ جائیں‘ اس کے عشق میں جتنے آنسو بھی ِبہہ جائیں‘ اس کی محبت میں جتنی آہیں بھی نکل جائیں اور اس کی مدح و ثنا میں جس قدر بھی زبانیں زمزمہ پیرا ہوں‘ کم ہیں۔
اب تفکر کیا جائے کہ اُس ’’عبد‘‘ کے حسن و جمال کا کیا عالم ہو گا جس کو اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں یاد فرماتا ہے تو ’’عبد‘‘ کہہ کر یاد فرماتا ہے۔
امام غزالی لکھتے ہیں کہ انسان کو جن جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ چیزیں اﷲ رب العزت نے انسان کو عطا کر دیں اور اگر اس سے زیادہ چیزیں انسان کے لیے ضروری ہوتیں تو وہ چیزیں بھی قدرت عطا کر دیتی اور کوئی ایسی چیز جو انسان کے لیے ضروری تھی اور قدرت نے اسے عطا نہ کی ہو تو یہ بخل ہو گا اور اﷲ تعالیٰ ان چیزوں سے پاک ہے۔ جو چیزیں ضروری تھیں وہ انسان کو سب کی سب مل گئی ہیں۔ اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ اﷲ رب العزت نے امام الانبیا حضرت محمدؐ کو ظاہری اور باطنی طور پر اتنا حسین و جمیل بنایا ہے کہ اس سے بڑھ کر بنانا ممکن ہی نہ تھا۔ اگر ممکن ہوتا تو قدرت جود و سخا اور لطف و عطا کا مزید مظاہرہ کرتی۔ اﷲ رب العزت نے امام الانبیا حضرت محمدؐ کو اتنا بلند تر درجہ عطا کر دیا ہے کہ اس سے بڑھ کر بلند تر درجہ ہے ہی نہیں۔ اگر اس سے بڑھ کر درجہ ہوتا تو اﷲ رب العزت وہ درجہ بھی اپنے محبوب حضرت محمدؐ کو عطا کر دیتے۔
حضرت محمدؐ سے محبت ایزدی کے پانچ بڑے درجے
۱۔ محبت کا پہلا درجہ یہ ہے کہ جب کسی چیز کو محبوب رکھا جاتا ہے تو جہاں محبوب رہتا ہے وہ بھی عزیز ہو جاتی ہے۔ قرآن مجید میں ارشادِ ربانی ہے:
لا اقسم بھٰذا البلدo وانت حل بھٰذا البلدo
ترجمہ: ’’ہمیں اس شہر (مکہ) کی قسم اور تم اسی شہر میں تو رہتے ہو‘‘۔ اﷲ رب العزت مکہ شہر کی قسم اٹھا رہے ہیں اور قسم اس لیے اٹھائی جارہی ہے کہ اس مقدس شہر میں اﷲ رب العزت کے محبوب نبی رہتے ہیں۔ جس جگہ نبیؐ کے شب و روز گزرے ہوں اگر اسی جگہ کی قسم اﷲ تعالیٰ نے اٹھائی ہو تو اس محبوب کے حسن و جمال اور حسن و کمال کا کیا عالم ہو گا؟
۲۔ محبت کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ اگر کسی کے ساتھ بہت ہی زیادہ محبت ہو تو پھر اس کا لباس تک بھی عزیز ہو جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: یایھا المزملo ترجمہ: ’’اے (محمدؐ) جو کپڑے میں لپٹ رہے ہو‘‘۔ یایھا المدثرo ترجمہ: ’’اے (محمدؐ) جو کپڑا لپیٹے پڑے ہو‘‘۔
جس نبیؐ کے کپڑوں کا بھی ذکر قرآن میں موجود ہے اُس کے حسن و جمال اور حسن و کمال کا کیا عالم ہو گا۔
۳۔ محبت کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ اگر محبوب کے ساتھ سچی اور پُرخلوص وابستگی ہو تو پھر اس کی جان بھی عزیز ہو جاتی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
لعمرک انھم لفی سکرتھم یعمھونo
ترجمہ: (اے محمدؐ) تمہاری جان کی قسم! وہ اپنی مستی میں مدہوش (ہو رہے) تھے۔
جس نبیؐ کی جان کی قسم اﷲ رب العزت نے اٹھائی ہو اس نبیؐ کے حسن و جمال اور حسن و کمال کا کیا عالم ہو گا؟
۴۔ محبت کا چوتھا درجہ یہ ہے کہ محبوب کے ساتھ بے انتہا محبت کی صورت میں من و تو کا امتیاز مٹ جاتا ہے اور اس کے ہر فعل اور خواہش کو عاشق کو اپنا فعل اور خواہش قرار دینے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہوتا ہے:
وما رمیت اذ رمیت ولکن اﷲ رمی
ترجمہ: ’’اور (اے محمدؐ) جس وقت تم نے کنکریاں پھینکی تھیں تو تم نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ اﷲ تعالیٰ نے پھینکی تھیں‘‘۔
جس نبیؐ کے فعل کو اﷲ رب العزت نے اپنا فعل قرار دے دیا ہو تو اس نبیؐ کے حسن و جمال اور حسن و کمال کا کیا عالم ہو گا؟
۵۔ محبت کا پانچواں اور آخری درجہ یہ ہے کہ محبوب کے ساتھ بے انتہا محبت کی صورت میں عاشق محبوب کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دے دیتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہوتا ہے:
من یطع الرسول فقد اطاع اﷲ
ترجمہ: ’’جس شخص نے رسولؐ کی فرمانبرداری کی بے شک اس نے اﷲ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی‘‘۔
جس نبیؐ کی اطاعت کو اﷲ رب العزت نے اپنی اطاعت قرار دے دیا ہو تو اس نبیؐ کے حسن و جمال اور حسن و کمال کا کیا عالم ہو گا؟
حضرت محمدؐ سے محبت کے مندرجہ بالا پانچ سب سے بڑے درجے بیان ہوئے ہیں اور اگر کوئی حضرت محمدؐ سے بے انتہا محبت کرنا چاہے تو زیادہ سے زیادہ پہلے تین درجے طے کر سکتا ہے اور آگے والے دو درجے طے کرنا اور ان درجوں پر پہنچنا ناممکن ہے‘ اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ نے چوتھا اور پانچواں درجہ اپنے اور اپنے محبوب کے درمیان رکھ لیا ہے تاکہ زمین و آسمان کی تمام مخلوق کو پتا چل جائے کہ جہاں امام الانبیا سید المرسلین خاتم النبیین بدرالدجی خیرالورٰی صاحب لولاک سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم سے اتنی زیادہ محبت کر رہا ہے کہ اس سے زیادہ محبت کا کوئی درجہ ہی نہیں اور اس سے بڑھ کر محبت ہو ہی نہیں سکتی اور یہی اﷲ رب العزت اور اس کے محبوب محمدؐ کے درمیان محبت کے دو درجے ہیں جہاں مخلوق کی رسائی ممکن ہی نہیں۔
قرآن مجید میں ارشادِ ربانی ہوتا ہے کہ
واذ اخذاﷲ میثاق النبیین لما اتیتکم من کتب وحکمۃ ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتومنن بہ ولتنصرنہ قال ء اقررتم واخذتم علی ذلکم اصری‘ قالو اقررنا‘ قال فاشھدوا وانا معکم من الشٰھدینo فمن تولی بعد ذلک فاولئک ھم الفٰسقونo
ترجمہ: ’’اور جب اﷲ تعالیٰ نے انبیا سے عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور دانائی عطا کروں پھر تمہارے پاس کوئی رسول آئے جو تمہاری کتاب کی تصدیق کرے تو تمہیں ضرور اس پر ایمان لانا ہو گا اور ضرور اس کی مدد کرنی ہو گی اور (عہد لینے کے بعد) پوچھا کہ بھلا تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا ذمہ لیا (یعنی مجھے ضامن ٹھہرایا)۔ انہوں نے کہا (ہاں) ہم نے اقرار کیا۔ (اﷲ نے) فرمایا کہ تم (اس عہد و پیماں کے) گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں تو جو اس کے بعد پھر جائے وہ فاسق ہیں‘‘۔
مندرجہ بالا آیاتِ ربانی سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ اﷲ رب العزت نے ازل میں تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا سے اس بات کا عہد بھی لیا تھا کہ جب میں تمہاری زندگی میں اپنے محبوب نبی حضرت محمدؐ کو بھیج دوں تو تمہارا فرض ہو گا کہ اس پر ایمان لائو اور اس کی مدد بھی کرو۔ تمام انبیا نے وعدہ کیا کہ ہم آنحضرتؐ پر ایمان لائیں گے اور مدد بھی کریں گے۔ تو جس نبیؐ پر ایمان لانا اور جس نبیؐ کی مدد کرنے کا وعدہ اﷲ رب العزت نے ازل میں تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا سے لے لیا ہو تو اس نبیؐ کے حسن و جمال اور حسن و کمال کا اندازہ کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اسی لیے امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ جس طرح اﷲ کو اﷲ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا‘ اسی طرح رسول اکرمؐ کو سوائے رسولؐ کے اور کوئی نہیں جان سکتا۔ مولانا ابوالکلام آزاد فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں جتنے بھی انبیا کے واقعات بیان ہوئے ہیں ان انبیا کے جو جو کمالات اور خوبیاں بیان ہوئی ہیں وہ تمام کے تمام کمالات اور خوبیاں امام الانبیا سید المرسلین خاتم النبیین آفتابِ نبوت بدرالدجٰی خیرالورٰی‘ شاہ لولاک‘ شارع اسلام‘ داعی حق‘ سرورِ کائنات‘ محسنِ کائنات‘ رسالت مآب محبوب دو عالم حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم میں جمع ہو گئی ہیں۔ اسی طرح ہم یہاں پر بھی کہتے ہیں کہ اﷲ رب العزت نے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا کے حسن و جمال اور حسن و کمال کو امام الانبیا سید المرسلین خاتم النبیین آفتاب نبوت بدرالدجٰی خیرالورٰی صاحب لولاک سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقدس وجود میں جمع کر دیا تھا۔
(بشکریہ: سہ ماہی ’’پیغام آشنا‘‘۔ اسلام آباد۔ جنوری تا مارچ ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply