
ماہرِ نفسیات نیتاشا بجلانی کا کہنا ہے کہ سائبر بُلینگ (ڈرانا دھمکانا) اور سیکسٹنگ (Sexting : یعنی فحش تصاویر ایک دوسرے کو میسج کرنا) سے نوجوانوں کی ذہنی صحت متاثر ہوسکتی ہے اور وہ ذہنی دبائو کا شکار ہوسکتے ہیں۔
برطانیہ کے شہر روہمپٹن کے پیروری اسپتال سے وابستہ ڈاکٹر بجلانی کا کہنا ہے کہ ان کو خدشہ ہے کہ آن لائن بُلینگ کی وجہ سے آنے والے سالوں میں نوجوانوں اور بالغوں میں خود کو نقصان پہنچانے کے رجحان میں اضافہ ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ بچے اکثر اپنے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کے بارے میں کسی کو بتاتے نہیں ہیں اور اس وجہ سے بعد کی زندگی میں وہ ذہنی امراض کا شکار ہوسکتے ہیں۔
بچوں کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرنے والے ایک خیراتی ادارے ’’این ایس پی سی سی‘‘ کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں بچوں کو فوراً مدد فراہم کی جانی چاہیے۔
ڈاکٹر بجلانی کا کہنا ہے کہ سیکسٹنگ کو کچھ لوگ پیار کے نئے طریقے کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن اس کے اور آن لائن بُلینگ کے دور رس اور تباہ کن نتائج ہوسکتے ہیں۔ ’’اس بارے میں توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کیسے نوجوانوں کو دوسروں کو اپنی قابلِ اعتراض تصاویر بھجوانے کے خطرات سے آگاہ کیا جائے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ سیکسٹنگ کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہمیں پتا نہیں ہے کہ اس کے دور رس نتائج کیا نکلیں گے۔
ڈاکٹر بجلانی کے بیانات اس حالیہ تحقیق پر مبنی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ ذہنی امراض سے متاثر بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۱۴ء میں ۱۷؍ہزار سے زیادہ بچوں کو نفسیاتی امراض کی وجہ سے اسپتالوں میں داخل کیا گیا، جو گزشتہ چار سالوں کے مقابلے میں سو گنا اضافہ ہے۔ ۱۵؍ہزار سے زیادہ نوجوان لڑکیوں کو خود کو نقصان پہنچانے کی وجہ سے اسپتالوں میں داخل کیا گیا جبکہ ۲۰۰۴ء میں ایسے واقعات کی تعداد تقریباً ۹ ہزار کے قریب تھی۔
برطانیہ کے ’’قومی شماریات‘‘ سے جاری کیے گئے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق ۱۶ سے ۲۴ سال کے ہر پانچ میں سے ایک نوجوان میں ذہنی دبائو، بے چینی یا اسٹریس کی علامات دیکھی گئی ہیں۔
ڈاکٹر بجلانی کا کہنا ہے کہ یہ وہ نوجوان ہیں جن کا شمار سوشل میڈیا کے پہلے صارفین میں ہوتا ہے۔
’’این ایس پی سی سی‘‘ سے وابستہ پیٹر وانلیس کا کہنا ہے کہ ’’نفسیاتی امراض سے متاثر بچوں کی بڑھتی تعداد چائلڈ لائن نامی ہاٹ لائن سے رابطہ کر رہی ہے اور یہ کافی پریشان کن ہے کہ ان کی مدد کے لیے کوئی مناسب سرکاری انتظامات نہیں ہیں‘‘۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ’’اگر ہم اس مسئلے کو نظر انداز کرتے رہے تو خدشہ ہے کہ آنے والی ایک پوری نسل اس سے متاثر ہو سکتی ہے‘‘۔
(بشکریہ: ’’بی بی سی اردو ڈاٹ کام‘‘۔ ۱۳؍مئی ۲۰۱۵ء)
Leave a Reply