
ایشیائی اور یورپی بازار حصص میں ۷ نومبر کو شدید مندی کے بعد امریکا میں نیو یارک کے ڈاؤ جونز انڈیکس میں کاروبار کے آغاز پر ہی گراوٹ دیکھنے میں آئی۔ کاروبار کے آغاز پر ڈاؤجونز انڈیکس ایک مرتبہ تو آٹھ ہزار کی نفسیاتی حد سے بھی نیچے گرا لیکن پھر اس میں کچھ بہتری دیکھنے میں آئی۔ تاہم بہتری کے باوجود انڈیکس میں تین سو پوائنٹس سے زیادہ کی کمی ریکارڈ کی گئی۔
۷ نومبر کو لندن اسٹاک ایکسچینج کا فٹسی ہنڈریڈ انڈیکس پانچ برس میں پہلی مرتبہ چار ہزار کی حد سے گر گیا اور انڈیکس میں قریباً آٹھ فیصد یا ساڑھے تین سو پوائنٹس کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ پیرس اور جرمنی میں بھی بازار حصص میں بالترتیب قریباً سات اور آٹھ فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی۔
ایشیائی بازاروں میں ۷ نومبر کو کاروبار انتہائی نچلی سطح پر شروع ہوا اور جاپان کے نکئی انڈیکس میں ۹ اعشاریہ چھ فیصد کی کمی پر بند ہوا۔ جاپان کا نکئی انڈیکس اس روز ۱۹۸۷ء کے بعد ایک دن میں سب سے زیادہ گرا اور اسے انشورنس کمپنی یا ٹاٹو لائف کا دیوالیہ نکل گیا ہے۔ ممبئی بازار حصص میں ۹۳۷ پوائنٹس کی کمی ریکارڈ کی گئی جس سے بازار میں افراتفری کا ماحول ہے اور سرمایہ کاروں میں مایوسی کا عالم ہے۔
دنیا بھر کی حکومتوں کے کیے گئے اقدامات کے باوجود سرمایہ کار عالمی کساد بازاری کے خدشے کے پیش نظر اسٹاکس میں پیسا لگانے کے لیے تیار نہیں۔ شنکو سیکورٹیز کے یوٹاکا کے مطابق نیویارک اور ٹوکیو میں حصص کی فروخت روکنا ناممکن ہے کیونکہ سرمایہ کار خوف زدہ ہیں۔ ہانگ کانگ کا ہینگ سینگ انڈیکس تین سال کی کم ترین سطح پر آ چکا ہے جب کہ جمعہ کو فلپائن کا انڈیکس آٹھ اعشاریہ تین اور شنگھائی کا تین اعشاریہ آٹھ فیصد کم رہا۔ دوسری طرف انڈونیشیا کی مارکیٹ میں حصص کے کاروبار کو روک دیا گیا تاکہ اس میں مزید کمی نہ آئے۔
ادھر عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے ایک ہنگامی طریقہ کار وضع کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت موجودہ مالی بحران سے متاثر ہونے والے ملکوں کو سرمایہ فراہم کیا جائے گا۔
آئی ایم ایف کے سربراہ ڈومینیک اسٹراس کان کا کہنا ہے کہ اس طریقہ کار کے ذریعہ ان ملکوں کی ہنگامی بنیادوں پر مدد ممکن ہو سکے گی جن کو مالیاتی دشواریوں کا سامنا ہو گا۔ اسٹراس کان نے کہا کہ دنیا کساد بازاری کے دہانے پر کھڑی ہے تاہم انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ اس سے ابھی بھی نکلا جا سکتا ہے۔
لاس اینجلس کی پیڈن اینڈریگل کے کرس اورنڈرف کا کہنا ہے ہم بنیادی مسائل سے آگے ہیں اور یہ جو ہو رہا ہے یہ افراتفری ہے۔
(بحوالہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۱۶ نومبر۲۰۰۸ء)
Leave a Reply