
صدر آصف علی زرداری کو شکاگو میں نیٹو کانفرنس میں شریک ہونے کی کیا ضرورت تھی؟ امریکا نے سلالہ چیک پوسٹ کے سانحے پر نہ تو معافی مانگی، نہ ڈرون حملے روکے اور نہ ہی عسکری امداد کی روکی ہوئی رقوم جاری کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ نہ صرف یہ، بلکہ یہ امریکا ہی تھا جس نے نیٹو سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان پر نیٹو رسد بحال کرنے کی شرط عائد کی۔ عجلت میں طلب کیے جانے والے ایک اجلاس میں کابینہ نے اعلان کیا کہ نیٹو رسد کھولنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے اور صدر شکاگو جاکر نیٹو سربراہ کانفرنس میں شرکت کریں گے۔
شکاگو میں ایک حیرت انگیز اعلان پاکستانی صدر کا منتظر تھا۔ صدر براک اوباما نے اعلان کیا کہ کراچی کی بندر گاہ پر پھنسے ہوئے نیٹو کے سامان کو جانے کی اجازت دیے جانے تک وہ پاکستانی ہم منصب سے علیحدگی میں ملاقات نہیں کریں گے۔ صدر زرداری اس شرط کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ امریکی صدر کا پاکستانی ہم منصب سے ملنے سے انکار صرف صدر کی نہیں بلکہ پوری قوم کی توہین ہے۔
امریکا نے پاکستان کی جس انداز سے توہین کی ہے، اسے کس طرح بیان کیا جاسکتا ہے؟
پاکستان میں سویلین حکومت، فوج، عدلیہ اور سیاسی جماعتوں کے درمیان جو اختلافات پائے جاتے ہیں، ان کے باعث امریکا اس حد تک جانے کی ہمت کر پایا۔ اگر تمام اداروں میں ہم آہنگی ہوتی تو امریکی صدر کے پاس یقیناً اپنے پاکستانی ہم منصب کی اس حد تک تذلیل کا آپشن نہ ہوتا اور وہ پاکستان کے حوالے سے اس حد تک جانے کو بہترین حکمت عملی قرار نہ دیتے۔
ایبٹ آباد آپریشن اور سلالہ چیک پوسٹ کے سانحات کے ذریعے امریکا نے دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ پاکستانی فورسز کسی بھی امریکی آپریشن کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں اور یہی سبب ہے کہ اب امریکا پاکستانی سرزمین پر کسی بھی آپریشن کی راہ میں کوئی رکاوٹ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔
امریکی حکام کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت کو غیر معمولی سطح پر امریکی امداد کی ضرورت ہے۔ اوباما انتظامیہ پاکستان کو مزید کچھ نہیں دے سکتی، اس لیے امداد کی بندش کے ذریعے پاکستان کو طرح طرح کے مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
حالات اور شواہد بتاتے ہیں کہ افغانستان میں سیاسی اور عسکری حکمتِ عملی تبدیل ہوچکی ہے۔ طالبان سے مذاکرات ناکام ہوچکے ہیں اور امریکی حکام اب طالبان یا حقانی نیٹ ورک سے بات چیت کو اولین ترجیح قرار نہیں دے رہے۔ افغانستان میں امریکی اور نیٹو فورسز کے کمانڈر نے شکاگو میں نیٹو سربراہ کانفرنس کو بتایا کہ ۲۰۱۳ء میں افغان فورسز کو ملک کا کنٹرول سونپنے کے بعد بھی نیٹو فورسز مدافعانہ کردار (Combat Role) ادا کرتی رہیں گی یعنی کہیں بھی کوئی حملہ ہوا تو جواب دیا جائے گا۔ ۲۰۱۴ء میں اتحادی افواج کے مکمل انخلا کے بعد بھی اسپیشل فورسز افغان سرزمین پر موجود رہیں گی تاکہ طالبان کو اقتدار میں آنے سے روکا جاسکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان میں مغرب کے حمایت یافتہ شمالی اتحاد اور پشتونوں کے درمیان جنگ چلتی ہی رہے گی۔ یہ حکمت عملی امریکا اور بھارت کے مشترکہ مفادات کو تحفظ دینے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ اس حکمت عملی کو ترتیب دینے میں بھارت میں سابق امریکی سفیر رابرٹ بلیک ول اور بھارتی نژاد امریکی صحافی فرید زکریا نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔
امریکا میں یہ سال انتخابات کا ہے۔ صدر اوباما کو خارجہ پالیسی کے میدان میں اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کر دکھانا ہے۔ پاکستان کے خلاف جانے کی حکمت عملی بھی اِس کا حصہ ہے۔ اس کے لیے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا ڈرامہ کافی نہیں۔ مزید ’’انقلابی‘‘ نوعیت کے اقدامات ناگزیر ہیں۔ اگر پاکستان کے خلاف اوباما ایک آدھ اور عسکری کامیابی حاصل کرپائیں تو انتخابات میں ان کی دوبارہ کامیابی کا امکان روشن تر ہو جائے گا۔ کچھ دن پہلے تک اوباما انتظامیہ کے ذمہ داران یہ سوچ رہے تھے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف کامیاب آپریشن سے اوباما کے دوبارہ انتخاب کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ مگر ایرانیوں سے جوابی حملے کا بھی خدشہ ہے اور اگر انہوں نے امریکیوں پر کاری وار کیا تو صدر اوباما کی انتخابی مہم داؤ پر بھی لگ سکتی ہے۔ ۲۰۱۱ء کے واقعات کو ذہن میں رکھا جائے تو امریکیوں کے لیے پاکستان خاصا نرم اور آسان ہدف ہے۔
پاکستان اور امریکا دونوں ہی نے اب تک عسکری محاذ آرائی کے ممکنہ نتائج کے بارے میں بظاہر کچھ نہیں سوچا ہے۔ پاکستان میں امریکا مخالف جذبات کی نوعیت اور شدت دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ امریکی فوجیوں نے کوئی کارروائی کی تو پاکستانی فوج پر جواب دینے کے حوالے سے شدید دباؤ ہوگا۔ اگر کوئی معمولی جھڑپ بھی ہوئی تو اس کا دائرہ وسیع ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ پاکستان کی اسٹریٹجک کمانڈ یہ سمجھتی ہے کہ کسی بھی امریکی حملے کا بنیادی مقصد جوہری اثاثوں پر قبضہ کرنا ہوسکتا ہے۔ ایسی کسی بھی صورت حال میں اسٹریٹجک کمانڈ جوہری اثاثوں کو ضائع کرنے پر استعمال کرنے کو ترجیح دینے پر مجبور ہوگی۔ صورت حال کا تقاضا ہے کہ پاکستان اپنے جوہری اثاثوں کے حوالے سے پالیسی واضح کرے اور عالمی برادری بھی دو (غیر مساوی) جوہری قوتوں کے درمیان کشیدگی کا نوٹس لے کر معاملات درست کرنے کی کوشش کرے۔ امریکا اور نیٹو کو کسی بھی تصادم سے بچنے کے لیے پاکستان کی تجاویز تسلیم کرنی چاہئیں اور پاکستان میں کسی بھی مقام پر پاکستانی حکام کی رضامندی کے بغیر کوئی بھی کارروائی کرنے کے خود ساختہ استحقاق کو ترک کردینا چاہیے۔
پاکستان کو افغانستان سے انخلا میں اتحادیوں (امریکا اور نیٹو) کی مدد کرنی چاہیے اور ٹرانزٹ کے لیے تمام محفوظ راستے کھولنے چاہئیں۔ امریکا نے پاکستان کی امداد بند کر رکھی ہے، اس حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ اتحادیوں کو انخلا کے لیے راہداری دینے پر مارکیٹ ریٹ سے وصولی کرے۔
پاکستان پر لازم نہیں کہ طالبان کو ایک ایسی مذاکراتی میز پر پیش کرے جس کا وجود ہی نہیں اور جب کبھی مذاکرات کی گنجائش پیدا ہو تب پاکستان کو چاہیے کہ افغانستان میں حقیقی امن کی بحالی یقینی بنانے کے لیے تمام ممکن اقدامات کرے۔ پاکستان کو چاہیے کہ طالبان کو اتحادیوں پر حملوں سے روکے تاکہ جواب میں تحریک طالبان پاکستان، پاکستانی شہریوں اور فوجیوں پر اتحادیوں کے حملے روکے جاسکیں۔
پاکستان کو امریکا کے بعد کے افغانستان کے لیے تیاری کرنا چاہیے۔ جلد یا بدیر افغانستان میں فوج نسلی اور لسانی خطوط پر منقسم ہوگی اور ایک بار پھر خرابیاں پیدا ہوں گی اور اگر کوئی خانہ جنگی چھڑی تو پاکستان بھی محفوظ نہ رہ سکے گا۔
افغانستان کی تعمیر نو میں پاکستان کو مرکزی کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس کے لیے اسلامی کانفرنس کی تنظیم ایک اچھا فورم ہے جس کے ذریعے افغان دھڑوں کو مذاکرات کی میز پر لایا جاسکتا ہے۔ افغانستان میں حقیقی امن یقینی بناکر ہی پاکستان اپنے استحکام کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ پاکستان کو ایران، وسط ایشیا کی ریاستوں، چین اور روس کے تعاون سے افغانستان میں ایک ایسی حکومت کے قیام کی راہ ہموار کرنی چاہیے جو ہم آہنگی کو فروغ دینے کی پوزیشن میں ہو۔
افغانستان کے لیے پاکستان کوئی بھی مثبت سیاسی کردار اسی وقت ادا کرسکتا ہے جب وہ خود سیاسی طور پر متحد اور منظم ہو۔ اگر امریکا پاکستان کی خود مختاری کے خلاف کوئی قدم اٹھاتا ہے تو ملک کے ہر گوشے میں اس کے خلاف جذبات کا پایا جانا لازم ہے۔ ہر پاکستانی کو کسی بھی نامناسب امریکی اقدام پر اہانت محسوس ہونی چاہیے۔ ہم ٹرانزٹ فیس کے عوض اپنا سب کچھ نہیں بیچ سکتے اور نہ ہی کوئی سپر پاور ہمیں ڈرا سکتی ہے۔ قومی اتحاد اور قومی وقار ہی میں ہماری قوت ہے۔
(مصنف اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مندوب ہیں)
(“Shame in Chicago”.. “Dawn”. May 27th, 2012)
Leave a Reply