
افریقی ملک سوڈان میں پانچ دہائیوں تک اسلامی تحریک کی قیادت کرنے والی عظیم شخصیت بھی ہم سے جدا ہوگئی۔ شیخ حسن عبداللہ ترابی کی وفات اُمتِ مسلمہ کے لیے کسی سانحہ سے کم نہیں، لیکن اس عظیم سانحہ پر نوحہ کناں ہونے کے بجائے ہم وہی کلمات کہیں گے جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہوں:
انّا لِلّٰہ وانّا الیہ راجعون
شیخ حسن ترابی وہ نابغہ روزگار شخصیت تھے جنہیں گزشتہ صدی کے نصف اخیر میں علم، فکر اور سیاست میں امام کا درجہ حاصل رہا۔ ترابی نے ایک سیاسی کارکن سے وزیرِ مملکت تک کا سفر نہایت جدوجہد سے طے کیا۔ اس سفر میں انہیں طرح طرح کی صعوبتوں کا سامنا رہا، لیکن وہ صاحبِ عزیمت و استقامت تھے، ہر امتحان کے آگے ڈٹ گئے اور زمانہ گواہ ہے کہ ہمیشہ سرخرو ہو کر نکلے۔
شیخ ترابی سوڈان کے ایک دین دار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق قبیلہ بدیریہ سے تھا اور ان کے والد صوفی بزرگ ہونے کے ساتھ ساتھ عالم و قاضی بھی تھے۔ شیخ ترابی کے بچپن میں ہی ماں کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا اور اس حادثے نے ان کی شخصیت پر گہرے نقوش چھوڑے تھے۔ تعلیم کی ابتدا حفظِ قرآن کریم سے کی۔ اس کے بعد عربی زبان اور دینی علوم کی تحصیل شروع کی۔ مروجہ دینی تعلیم کے بعد وہ عصری تعلیم کی جانب متوجہ ہوئے اور ۱۹۵۱ء سے ۱۹۵۵ء تک جامعہ خرطوم میں ’قانون‘ کی تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۵۷ء میں آکسفرڈ یونیورسٹی سے ماسٹرز اور ۱۹۶۴ء میں پیرس کی سوربون یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ علم کی راہ میں اس طویل مسافرت نے جہاں انہیں اپنے شعبے میں کمال حاصل کرنے میں مدد دی، وہیں دنیا بھر کی تہذیب و ثقافت سے بھی روشناس ہونے کا موقع فراہم کیا۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں عربی، انگلش، فرانسیسی اور جرمن زبانوں پر مکمل عبور حاصل تھا۔
شیخ ترابی یکم فروری ۱۹۳۲ء کو پیدا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سوڈان پر برطانوی سامراج نے پنجے گاڑ رکھے تھے۔ ۱۹۳۸ء میں جب وہ محض چھ برس کے تھے، اُن کے ملک سوڈان میں سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہوا اور ہندوستان میں ۱۹۳۷ء کے انتخابات میں ’کانگریس‘ کی فتح سے متاثر ہو کر گورڈن میموریل کالج (جامعہ خرطوم) کے فُضَلا نے ’فضلا کانگریس‘ کی بنیاد رکھی جو سوڈانی تحریکِ آزادی کی جانب پہلا قدم تھا۔ یہی وہ بیج تھا جس سے آگے چل کر ’برطانوی سامراج سے آزادی کی تحریک‘ تناور درخت بنی اور یکم جنوری ۱۹۵۶ء میں سوڈان آزاد ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر اُبھرا۔ غرض شیخ ترابی کا بچپن اور جوانی وطنِ عزیر کی تحریکِ آزادی کو دیکھتے گزری جس نے ان کی شخصیت پر گہرے اثرات چھوڑے۔ آزادی کے تھوڑے ہی عرصے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ چلے گئے اور تقریباً آٹھ برس بعد وطن واپسی پر ’اسلامی دستور محاذ‘ نامی جماعت سے منسلک ہوگئے جو سوڈان کی پہلی اسلامی جماعت اور اِخوان المسلمون کی فکر کی حامل تھی۔ یہیں سے شیخ ترابی کی سیاسی زندگی کا آغاز ہوا۔
’اسلامی دستور محاذ‘ کو اگلے پانچ برسوں میں ملک بھر میں کافی پذیرائی ملی جس میں شیخ ترابی کا کردار کلیدی رہا۔ یہی وجہ تھی کہ ۱۹۶۴ء میں وہ اس جماعت کے سیکرٹری جنرل بنا دیے گئے۔ یہ وہ دور تھا جب سوڈان میں سیکولر جمہوری جماعتوں کا زور تھا اور انہیں مقامی صوفیوں کی بھی حمایت حاصل تھی۔ ’اسلامی دستور محاذ‘ کو حکومت میں موجود مضبوط حیثیت رکھنے والے سیکولر طبقے اور عوامی مقبولیت رکھنے والے صوفیوں کا سامنا تھا۔ ان مشکل سیاسی حالات میں شیخ ترابی نے کمال حکمت و بصیرت سے اپنے کام کو آگے بڑھایا، لیکن ۱۹۶۹ء میں کرنل جعفر نمیری نے بغاوت کرکے جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹ دیا اور ’اسلامی دستور محاذ‘ کے ارکان کو بھی گرفتار کرلیا۔ شیخ ترابی نے سات برس جیل میں گزارے۔ ۱۹۷۷ء میں تحریکِ اسلامی کی نمیری سے مصالحت کے نتیجے میں انہیں رہائی ملی۔
نمیری نے ۱۹۷۹ء میں شیخ ترابی کو ملک کا اٹارنی جنرل مقرر کیا، جس پر وہ ۱۹۸۲ء تک فائز رہے۔ ۱۹۸۳ء میں شیخ حسن ترابی کی کوشش سے نمیری حکومت نے ملک میں نفاذِ شریعت کا اعلان کیا۔ اِس اقدام پر عوام سڑکوں پر نکل آئے، کیونکہ بعض دانشوروں کو حدود کے نفاذ پر خدشات تھے۔ اس تحریک نے زور پکڑا تو نمیری نے ۱۹۸۴ء میں ملک میں ہنگامی حالت نافذ کرکے پارلیمان کو تحلیل کردیا اور حکومت میں شامل اپنی حلیف جماعت ’اسلامی دستور محاذ‘ کو بھی چلتا کیا۔ ۱۹۸۵ء میں نمیری نے ’اسلامی دستور محاذ‘ کی عوامی مقبولیت اور ووٹ بینک سے خوف زدہ ہو کر اس کی قیادت کے خلاف بغاوت کے مقدمات قائم کردیے۔ اس پر عوام نے سڑکوں پر آ کر نمیری کا تختہ الٹ دیا اور وہ اپنے بیرونِ ملک سفر سے وطن واپس نہ لوٹ سکا۔
۱۹۸۶ء کے انتخابات سے پہلے شیخ حسن ترابی نے اپنی جماعت ’عوامی اسلامی محاذ‘ کی بنیاد رکھی، لیکن ان کی جماعت کو پڑھے لکھے طبقے میں مقبولیت کے باوجود انتخابات میں صرف دس فیصد ووٹ ملے اور وہ پارلیمان کی تیسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ ’عوامی اسلامی محاذ‘ اس دوران فوج میں اپنا اثر و رسوخ بڑھاتی رہی۔ اس کے ارکان خصوصاً شیخ ترابی کی دعوت کا انداز ایسا مؤثر تھا کہ ہر ایک کو اپنے مؤقف پر قائل کرلیتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ شیخ ترابی کی تعلیمات سے متاثر کرنل عمر البشیر نے ۱۹۸۹ء میں وزیراعظم صادق مہدی کا تختہ اُلٹ دیا اور خود ملک کا صدر بن گیا۔ اس نے شیخ ترابی کو نائب وزیراعظم اور وزیرِ خارجہ مقرر کیا، لیکن عمر البشیر کی انقلابی کونسل نے جلد ہی ملک کی تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کردی جن میں ’عوامی اسلامی محاذ‘ بھی شامل تھی اور شیخ ترابی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو گرفتار کرلیا۔
شیخ حسن ترابی ان سیاسی تجربات اور خیانتوں سے بدظن ہوچکے تھے، اس لیے انہوں نے اُمتِ مسلمہ کے لیے عالمی سطح پر خدمت انجام دینے کا فیصلہ کیا۔ ۱۹۹۱ء میں ’عرب اسلامی عوامی کانگریس‘ نامی تنظیم کی بنیاد رکھی جس میں ۴۵ عرب اور اسلامی ممالک کے نمائندوں کو شامل کیا، اور خود اس کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ اس تنظیم کے تحت انہوں نے خطے میں مغرب کی مداخلت کے خلاف ہر سطح پر آواز بلند کی، جس کے نتیجے میں نہ صرف یورپ و امریکا، بلکہ بعض عرب ممالک بھی ان سے ناراض ہوگئے۔ ۱۹۹۶ء میں وہ اسپیکر پارلیمان منتخب ہوئے۔
۱۹۹۹ء میں شیخ حسن ترابی اور عمر البشیر کی حکومت کے درمیان موجود اختلافات سنگین نوعیت اختیار کرگئے۔ انہیں حکومتی اقدامات کے باعث ملک میں بڑھتے انتشار، آمرانہ سوچ اور عوام کی آزادی سلب کیے جانے پر شدید تحفظات تھے۔ اسی بنا پر انہوں نے عمر البشیر کی جماعت ’نیشنل کانگریس‘ سے الگ ہو کر اپنی جماعت ’سوڈانی عوامی کانگریس‘ کی بنیاد رکھی اور عمر البشیر کے سب سے بڑے مخالف و ناقد کے طور پر سامنے آئے۔ ان کی آواز پر ملک کی نامور انقلابی شخصیات اور اعلیٰ حکومتی عہدیداران نے لبیک کہتے ہوئے سرکاری مناصب سے علیحدگی اختیار کرلی۔ ۲۰۰۲ء میں حکومت نے عوام کو بھڑکانے کے الزام میں انہیں گرفتار کرلیا۔ تھوڑے عرصے بعد ان کی رہائی عمل میں آئی۔ حکومتی پالیسیوں پر تنقید کے باعث مارچ ۲۰۰۴ء میں انہیں حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ رہائی کے بعد ان کا زیادہ تر وقت ’عرب اسلامی عوامی کانگریس‘ کے تحت خدمات انجام دیتے گزرا۔
شیح حسن عبداللہ ترابی اُمتِ مسلمہ کے نامور اسلام پسند رہنماؤں میں سے تھے۔ وہ بہ یک وقت عالِم، قانون دان، مفکر، داعی اور سیاست دان تھے۔ ان کی خطابت اور مدلل گفتگو کا شہرہ عالَمِ عرب سے نکل کے مغرب میں بھی تھا۔ وہ بنیادی طور پر اِخوان المسلمون کی سوچ اور فکر سے متاثر سے تھے، لیکن عملاً سیاست میں ان کی اپنی ہی روش تھی جس کے باعث انہیں تنقید کا سامنا بھی رہا۔ اسی طرح کئی دینی مسائل میں ان کی رائے جمہور علماء سے ہٹ کر تھی جس کے باعث عالم عرب کے علمی حلقوں میں ان پر ردّ بھی کیا جاتا رہا، لیکن اس سب کے باوجود دنیا نے ان کی عبقری شخصیت کو نہ صرف تسلیم کیا، بلکہ ان کے انتقال پر اپنے غم اور نیک تاثرات کا اظہار بھی کیا۔
شیخ حسن ترابی ۵ مارچ ۲۰۱۶ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے انتقال پر اِخوان المسلمون، تحریک النہضہ تیونس اور اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) سمیت اکثر اسلامی جماعتوں نے تعزیتی بیانات جاری کیے۔ اسی طرح شیخ یوسف القرضاوی سمیت کئی نامور علماء نے بھی ان کی وفات پر تعزیتی بیانات دیے۔ انہوں نے اپنی علمی وراثت میں کئی کتابیں چھوڑی ہیں۔
(بشکریہ: ’’جسارت سنڈے میگزین‘‘ کراچی۔ ۱۳؍مارچ ۲۰۱۶ء)
Leave a Reply