
جیسا کہ کفر میں اکبر اور اصغر ہوتا ہے اُسی طرح شرک میں بھی اکبر اور اصغر ہوتا ہے۔ شرک اکبر تو معروف ہے، جیسا کہ ابن قیمؒ نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا جائے۔ اس سے اسی طرح محبت کی جائے جیسی کہ اللہ تعالیٰ سے کرنی چاہیے۔ یہ وہ شرک ہے جس میں مشرکین کے معبودوں کو اللہ کے ساتھ شریک کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے جب وہ آگ میں جائیں گے تو اپنے معبودوں سے کہیں گے: ’’خدا کی قسم! ہم تو صریح گمراہی میں مبتلا تھے، جب کہ تم کو رب العالمین کی برابری کا درجہ دے رہے تھے‘‘۔ (الشعراء: ۹۷۔۹۸)
یہ ایسا شرک ہے جس کی مغفرت توبہ کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا، اس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں، وہ جس کے لیے چاہتا ہے، معاف کر دیتا ہے‘‘۔ (النساء: ۸۴)
یہ اس وجہ سے کہ جب جاہلیت اور شرک اور وہ چیز جسے قرآن نے معیوب قرار دیا ہے، لوگوں کو اچھی طرح معلوم نہ ہو تو ان کے اس میں پڑنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ وہ اس کا اقرار بھی کریں گے، اس کی طرف لوگوں کو دعوت بھی دیں گے اور اس کی تصویب و تحسین بھی کریں گے۔ ایسا کرتے ہوئے انہیں احساس بھی نہیں ہوگا کہ یہی وہ شرک ہے جس میں اہل جاہلیت مبتلا تھے اور یہ کہ ہمارا یہ عمل اسی طرح کی چیز ہے یا اس سے بُرا ہے، یا بُرائی میں اس سے کم ہے۔ اس طرح لوگوں کے دل سے اسلام کی ایک ایک کڑی گرتی جائے گی۔ معروف منکر بن جائے گا اور منکر معروف۔ بدعت سنت بن جائے گی اور سنت بدعت۔ ایک آدمی کو ایمان پر رہنے اور توحیدِ خالص اختیار کرنے کی وجہ سے کافر قرار دیا جائے گا اور دوسرے کو خالص اتباعِ رسول کرنے اور خواہشات و شہوات کو ترک کرنے کی وجہ سے بدعتی قرار دیا جائے گا۔ اور جس کو اللہ تعالیٰ نے بصیرت اور دل زندہ دیا ہوگا وہ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھے گا۔ (واللّٰہ المسثعان)
علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں:
اور رہا شرکِ اصغر تواس کی مثال معمولی ریا، مخلوق کے لیے تصنع اور غیراللہ کی قَسم ہے، جیسا کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی وہ مشرک ہوگیا‘‘۔ (احمد، ترمذی، حاکم)
اور کسی آدمی کا کسی سے یہ کہنا کہ مَاشَائَ اللّٰہُ وَشِئْتَ۔ یعنی ’جو اللہ چاہے اور تُو چاہے‘۔ یا یہ کہ ہٰذَا بِاللّٰہِ وَبِکَ ’یہ کام آپ کر سکتے ہیں یا پھر اللہ تعالیٰ ہی کر سکتا ہے‘۔ یا یہ کہ أنَا بِاللّٰہِ وَبِکَ ’میں اللہ کی اور تیری پناہ میں آتا ہوں‘۔ اور یہ کہ أَنَا مُتَوَکِّلٌ عَلَی اللّٰہِ وَعَلَیْکَ ’میں اللہ پر اور آپ پر توکل کرتا ہوں‘۔
یہ کبھی کبھی شرکِ اکبر ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ کہنے والے کی حالت اور اس کے ارادے کے لحاظ سے لگایا جائے گا۔ نبیﷺ سے یہ بات صحت کے ساتھ ثابت ہے کہ آپﷺ نے ایک آدمی سے… جس نے آپﷺ سے کہا تھا: مَاشَائَ اللّٰہُ وَشِئْتَ [جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں] فرمایا تھا: أَجَعَلْتَنٍیُ للّٰہِ نِدَّا؟ قُلُ مَاشَائَ اللّٰہُ وَحْدَہٗ ’کیا تم نے مجھے اللہ کے ساتھ شریک بنایا؟ یہ کہو کہ جو اللہ وحدہٗ چاہے‘۔
یہ لفظ دوسرے الفاظ سے ہلکا تھا مگر اس کے باوجود آپﷺ نے اس شخص کی بات کا نوٹس لیا۔
شرک کی قِسموں میں ایک قِسم یہ ہے کہ مرید اپنے شیخ کے سامنے سجدہ کرے۔ یہ ساجد اور مسجود دونوں کی طرف سے شرک ہے۔
اس کی ایک قسم شیخ کی طرف توبہ کرنا ہے۔ یہ بہت بڑا شرک ہے۔ توبہ صرف اور صرف اللہ کے لیے ہے۔ جیسے نماز، روزہ، حج اور قربانی وغیرہ۔ یہ خالص اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔
مسند میں ہے کہ رسول اللہﷺ کے پاس ایک قیدی لایا گیا۔ اس نے کہا: اے اللہ میں تیری طرف توبہ کرتا ہوں، محمد کے سامنے نہیں کرتا۔
نبیﷺ نے فرمایا: عَرَفَ الْحَقَّ لَٔاہِْلِہٖ ’اس نے حق دار کا حق پہچان لیا ہے‘۔
چنانچہ توبہ ایک عبادت ہے اور وہ اللہ کے سوا کسی کے لیے جائز نہیں ہے۔ جیسے سجدہ اور روزے وغیرہ۔
شرک کی ایک قسم یہ ہے کہ غیر اللہ کی نذر مانی جائے۔ یہ بھی شرک ہے اور یہ غیراللہ کی قَسم سے زیادہ بُری چیز ہے۔
شرک کی اَقسام میں غیراللہ کا خوف کھانا، غیراللہ پر توکل کرنا، غیراللہ کے لیے انابت اور خضوع اختیار کرنا اور اس کے سامنے عاجزی دکھانا ہے۔ اللہ کے علاوہ کسی کے ہاں رزق تلاش کرنا اور اس کے علاوہ کسی کی عطا پر اس کی حمد بیان کرنا اور اس حمد کے ساتھ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرنے سے مستغنی سمجھنا اور جو کچھ اس کو نہیں دیا گیا اور اس کے لیے مقدر نہیں کیا گیا اس کے بارے میں اللہ سے ناراض ہونا اور اس پر بُرا بھلا کہنا۔ اس کی نعمتوں کو کسی اور کی طرف منسوب کر دینا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ کائنات میں کوئی چیز ایسی بھی ہو سکتی ہے کہ جس کو اللہ نے نہ چاہا ہو۔ یہ سب بھی شرک کی اَقسام ہیں۔
نِفاقِ اکبر اور نِفاقِ اصغر
جس طرح شرک اور کفر میں اکبر اور اصغر موجود ہے، اسی طرح نِفاق بھی اکبر اور اصغر ہوتا ہے۔ نِفاقِ اکبر عقیدے کا نِفاق ہے اور یہ جہنم کے نچلے طبقے میں ہمیشہ رہنے کا مؤجب ہوگا۔ یہ وہ نِفاق ہے جس میں آدمی کے دل میں کفر ہوتا ہے اور بظاہر اسلام کا اعلان۔ یہ وہی نفاق ہے جو نبیﷺ کے دَور میں موجود تھا۔ قرآن کریم ایسی آیات سے بھرا پڑا ہے جن میں ان کے راز کے پردوں کو چاک کیا گیا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مسلمان بندوں کے لیے ان کے معاملات نمایاں کر کے رکھ دیے ہیں، تاکہ وہ ان سے محتاط رہیں اور مسلمان اپنی استطاعت کی حد تک ان کے اخلاق سے دور رہیں۔
رہا نِفاقِ اصغر، تو وہ عمل اور کردار کا نِفاق ہے۔ وہ یہ کہ آدمی دل میں درست عقیدہ رکھے مگر اعمال، اخلاق اور کردار میں منافقین کے طریقے پر چلے۔ اس سے صحیح احادیث میں محتاط رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔
جیسے یہ متفق علیہ حدیث کہ ’’چار خصلتیں ہیں جو اگر کسی میں پائی گئیں تو وہ پورا منافق ہوگا اور اگر کسی میں ان میں سے ایک پائی گئی تو اس میں منافقت کی ایک خصلت موجود ہوگی، جب تک کہ اسے چھوڑ نہ دے: بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، امانت سپرد کی جائے تو خیانت کرے اور لڑے تو گالیاں بکے‘‘۔ (متفق علیہ)
منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے اور اگر اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے‘‘۔ (متفق علیہ)
اور مسلم کی ایک روایت میں یہ اضافی بات بھی ہے کہ اگرچہ وہ نماز پڑھے اور روزے رکھے اور یہ گمان کرے کہ وہ مسلمان ہے۔ (مسلم)
یہ اور اس طرح کی دوسری احادیث ہی تھیں جن کی وجہ سے صحابہ کو اپنے بارے میں یہ خوف رہتاتھا کہ کہیں وہ منافق تو نہیں ہوئے۔ یہاں تک کہ حضرت حسنؓ نے کہا کہ ’’ان احادیث سے کوئی مسلمان خوفزدہ ہوئے بغیرنہیں رہا اور کوئی منافق خوف زدہ نہیںہوا‘‘۔
اور حضرت عمرؓ جیسا خلیفۂ راشد حضرت حذیفہؓ سے… جنہیں رسول اللہﷺ نے منافقین کے بارے میں بتا دیا تھا… کہا کرتے تھے: کیا میں ان لوگوں میں شامل ہوں؟!
حضرت عمرؓ کی عادت تھی کہ وہ لوگوں کو منافق علیم سے محتاط رہنے کی تاکید کیا کرتے تھے۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ ایک منافق ’علیم‘ کیسے ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا: وہ زبان کا علیم اور دل کا کورا ہوتا ہے۔
کسی نے کہا: ’’اے اللہ! میں تجھ سے نِفاق کے خشوع کی پناہ مانگتا ہوں۔ سائل نے پوچھا: نِفاق کا خشوع کیا ہوتا ہے؟ اس نے کہا: وہ یہ ہے کہ جسم پر خشوع نظر آئے مگر دل میں خشوع نہ ہو۔
گناہِ کبیرہ
کفر و شرک و نِفاق اور ان کی تمام قسموں کے بعد معاصی کی باری آتی ہے۔ معصیت کے دو مرتبے ہیں: ایک کبائر اور دوسرے صغائر۔ کبائر وہ بڑے گناہ ہوتے ہیں جو زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ جن کے مرتکب پر اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے، وہ اس کی لعنت اور جہنم کی آگ کا مستحق بنتا ہے۔ اور بعض اوقات ان کی وجہ سے دنیا میں حد بھی لازم ہوتی ہے۔
گناہِ کبیرہ کی تعریف کرنے میں علما کے درمیان بہت اختلاف ہوا ہے۔ سب سے زیادہ آرا جس تعریف کے بارے میں ہیں، وہ یہ ہے کہ وہ گناہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کوئی حد مقرر کی ہو یا اس کے لیے آخرت میں کسی وعیدِ شدید کا اعلان کیا ہو، جیسے آگ میں ڈالا جانا، جنت سے محروم ہو جانا، یا اللہ کے غضب یا اس کے عذاب کا مستحق ہونا۔ یہ ساری باتیں کسی گناہ کے بڑے ہونے کی دلالت کرتی ہیں۔
اس کے علاوہ بعض نصوص نے ان میں سے چند کبائر کا ذکر کیا ہے، جن کی متعین تعریف بیان کی ہے۔ جیسے اَلسَّبُعُ الْمُوُبِقَاتُ (یعنی سات مہلکات): شرک کرنا، اللہ کی حرام کردہ جان کو ناحق قتل کرنا، جادو کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، پاکیزہ اور بے خبر مؤمنات پر الزام لگانا، یَوْمُ الزَّحْفِ (میدان جنگ) میں دشمن سے منہ موڑنا۔ اسی طرح کا معاملہ ان گناہوں کا بھی ہے جو صحیح احادیث میں وارد ہوئے ہیں، جیسے والدین کی نافرمانی، قطع رحمی، جھوٹی گواہی، یَمِیْنُ غُمُوُسِ (یعنی جھوٹی قسم)، شراب نوشی، زنا، قومِ لوطؑ کا عمل، خودکشی، راہزنی، غصب، مال غنیمت میں خیانت، رشوت، چغلی کھانا۔
بنیادی فرائض کا ترک بھی ان میں شامل ہے۔ جیسے نماز، زکوٰۃ، روزۂ رمضان، اور استطاعت کی صورت میں حج وغیرہ۔
احادیث سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ فی نفسہٖ کبائر میں بھی فرق ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے صحیح حدیث میں یہ بات آئی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں اکبر الکبائر کے بارے میں نہ بتائوں؟‘‘۔
پھر آپﷺ نے لوگوں کو شرک کے بعد والدین کی نافرمانی اور جھوٹی گواہی کے گناہ گنتی کرکے بتا دیے۔ اسی طرح آپﷺ سے یہ بھی صحت کے ساتھ ثابت ہے کہ: ’’سب سے بڑا گناہِ کبیرہ یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین پر لعن طعن کرے۔ لوگوں نے پوچھا: کوئی شخص اپنے والدین پر لعن طعن کیسے کرے گا؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’ایک آدمی کسی کے ماں باپ کو گالی دے تو وہ جواباً اس کے ماں باپ کو گالی دے گا‘‘۔ (متفق علیہ)
یعنی جب یہ دوسروں کو گالیاں دیتا ہے تو گویا وہ اپنے ماں باپ کو گالیاں دیتا ہے۔ کیونکہ یہ اس بات کا ذریعہ بنتا ہے کہ وہ اس کو جواب دے بلکہ کبھی تو اس کو اینٹ کا جواب پتھر سے ملتا ہے۔ یعنی یہ دوسرے کے صرف باپ کو گالی دیتا ہے اور وہ جواب میں اس کے باپ کو بھی گالی دیتا ہے اور اس کے ساتھ اس کی ماں کو بھی نشانہ بنا دیتا ہے۔
اس حدیث نے اپنے والدین کو گالیاں دینے کا سبب بننے کو اکبر الکبائر میں شمار کیا ہے۔ یعنی یہ صرف حرام نہیں ہے اور نہ صرف کبیرہ گناہ ہے بلکہ اکبر الکبائر (بڑوں میں سے بھی بڑا گناہ) ہے۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جو شخص براہ راست اپنے والدین کو گالیاں دیتا ہے، اس کا گناہ کتنا بڑا ہوگا۔ اور پھر اس سے زیادہ یہ کہ آدمی اپنے والدین کو ایذا پہنچائے یا انہیں مارے پیٹے۔ اور پھر خصوصاً اس شخص کی کیا حالت ہوگی جو اپنے والدین کی زندگی کو اپنی جفاکاری اور نافرمانی سے جہنم زار بنا دے۔
شریعت نے اس حوالے سے گناہوں کے درمیان فرق کیا ہے کہ کون سے گناہ ہیں جن پر آدمی کسی کمزوری کی وجہ سے آمادہ ہوتا ہے اور کون سے گناہ ایسے ہیں جو سرکشی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ پہلے کی مثال زنا ہے اور دوسرے کی مثال سود ہے۔ سود کو اللہ کے ہاں سب سے زیادہ سخت گناہ قرار دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ قرآن نے جو بات سود کے بارے میں فرمائی ہے، وہ سود کے علاوہ کسی اور گناہ کے بارے میں نہیں فرمائی: ’’جو کچھ تمہارا سُود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا تو آگاہ ہو جائو کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے‘‘۔ (البقرۃ: ۲۷۸۔۲۷۹)
رسول اللہﷺ نے سُود کھانے والے، کھلانے والے، اس کے موکل، اس کے وکیل اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے۔ آپﷺ فرماتے ہیں: ’’سُود کا ایک درہم جسے آدمی جان بوجھ کر کھائے تو یہ ۳۶ بار زنا سے زیادہ بڑا گناہ ہے‘‘۔ (امام احمد، طبرانی)
اس کے علاوہ سُود کے ستر، یا تہتر درجے قرار دیے گئے ہیں۔ جن میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں کو بیوی بنائے‘‘۔ (طبرانی، حاکم، ابن ماجہ)
قلبی گناہِ کبیرہ
کبائر اعمال ظاہر ہی پر موقوف نہیں ہیں، جیسا کہ کبھی کبھی گمان کر لیا جاتا ہے، بلکہ قلبی کیفیات والے کبائر زیادہ بڑے اور خطرناک گناہ ہوتے ہیں۔
آدم و ابلیس کے گناہ میں فرق
قرآن کے بیان کے مطابق حضرت آدمؑ کی پیدائش اور ان کی جنت میں سکونت کے بعد جو پہلا گناہ ان سے سرزَد ہوا وہ یہ تھا کہ حضرت آدمؑ اور ان کی بیوی نے اسی درخت کا پھل کھایا جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو روکا تھا… یہ وہ گناہ تھا جو ظاہری اور جسمانی اعمال کے ساتھ تعلق رکھتا تھا۔ اس کی طرف ان کے مائل ہونے کی وجہ ان کا نِسیان اور عزم کی کمزوری بتائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ہم نے اس سے پہلے آدم کو ایک حکم دیا تھا، مگر وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں عزم نہ پایا‘‘۔ (طٰہٰ: ۱۱۵)
ابلیس لعین نے اس ضعف اور نِسیان کا فائدہ اٹھایا۔ اس نے حضرت آدمؑ اور ان کی بیوی کے لیے اسی درخت سے کھانا مزین کر دیا اور انہیں دھوکے سے ورغلایا۔ اس نے اپنی دھوکا بازی کو جھوٹی قَسموں سے مؤکَّد کیا یہاں تک کہ وہ دونوں اللہ کے حکم کی نافرمانی میں مبتلا ہو گئے۔
مگر فوراً ہی حضرت آدمؑ اور ان کی بیوی میں ایمان کا جذبہ جاگ اٹھا اور انہیں شدت سے یہ احساس ہوا کہ انہوں نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی ہے۔ چنانچہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی: ’’آدمی نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور راہِ راست سے بھٹک گیا۔ پھر اس کے رب نے اسے برگزیدہ کیا اور اس کی توبہ قبول کرلی اور اسے ہدایت بخشی‘‘۔ (طٰہٰ: ۱۲۱۔۱۲۲)
’’دونوں بول اٹھے: اے ربّ! ہم نے اپنے اوپر ستم کیا، اب اگر تُو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقینا ہم تباہ ہو جائیں گے‘‘۔(الاعراف: ۲۳)
’’اس وقت آدم نے اپنے ربّ سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی، جس کو اس کے ربّ نے قبول کرلیا، کیوں کہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے‘‘۔
یہ تھی حضرت آدمؑ اور ان کی اہلیہ کی خَطا۔ دوسری طرف ابلیس کا گناہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ملائکہ کے ساتھ حکم دیا کہ وہ حضرت آدمؑ کو سجدہ کرے، عزت افزائی کے لیے یا اس مخلوق کو سلام پیش کرنے کے لیے، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں سے پیدا فرمایا ہے اور اس میں اپنی روح پھونک دی ہے۔ ’’تمام فرشتوں نے سجدہ کیا، سوائے ابلیس کے، کہ اس نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ نہ دیا؟ اس نے کہا: میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں اُس بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے پیدا کیا ہے۔ رب نے فرمایا: اچھا! تو نکل جا یہاں سے، کیوں کہ تُو مردود ہے، اور اب روزِ جزا تک تجھ پر لعنت ہے‘‘۔ (الحجر: ۳۰۔۳۵)
یہ اللہ کے حکم سے انکار اور استکبار کی معصیت تھی۔ جیسا کہ سورۂ بقرہ میں آیا ہے: ’’سب جھک گئے، مگر ابلیس نے انکار کیا وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہوگیا‘‘۔ (البقرۃ: ۳۴)
اس کے غرور و تکبر کی بڑی نشانی یہ ہے کہ اس نے بڑی بے شرمی کے ساتھ اپنے رب سے کہا: ’’میں اس سے بہتر ہوں، تُو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اِسے مٹی سے‘‘۔ (الاعراف: ۱۲)
ان دونوں معصیتوں میں فرق تھا۔ حضرت آدمؑ کی معصیت ظاہری اور جسمانی تھی، اس لیے انہوں نے جلد ہی اس سے توبہ کرلی۔ مگر ابلیس کی معصیت قلبی اور باطنی تھی۔ یہی وہ خطرناکی تھی جس نے اسے بدترین انجام سے دوچار کردیا ۔ وَالْعِیَاذُ بِاللّٰہِ تَعَالیٰ۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان قلبی معصیتوں کے بارے میں زیادہ سخت وعید اور ان سے محتاط رہنے کی زیادہ تاکید آئی ہے جن کا شمار کبائر اور مہلک گناہوں میں ہوتا ہے۔ اکثر اوقات یہی قلبی و باطنی بیماریاں ہوتی ہیں جو ظاہری کبائر کے ارتکاب، مامورات کو ترک کرنے اور ممنوعات کو اختیار کرلینے کا اصل اور بنیادی محرک بن جاتے ہیں۔
تکبر کی ہلاکت خیزی
جیسا کہ ہم نے آدمؑ و ابلیس کے قصے میں دیکھا کہ ابلیس کو تکبر نے کس طرح اللہ کے حکم کی نافرمانی پر آمادہ کیا اور اس نے کہا: ’’میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں اس بشر کو سجدہ کروں جسے تُو نے سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے پیدا کیا ہے‘‘۔ (الحجر:۳۳)
اور: أَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ۔۔۔ (میں اس سے بہتر ہوں۔۔۔۔ سورۃ ص:۷۶)
اسی وجہ سے کبر و غرور اور دوسرے کو حقیر جاننے پر بڑی سخت وعید آئی ہے۔ یہاں تک کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں ذرّہ برابر تکبر ہوگا‘‘۔ (مسلم)
اور ایک حدیث قدسی ہے: ’’عزت میری پوشاک اور تکبر میری چادر ہے، جو مجھ سے (ان کے بارے میں) نزاع کرے گا اسے میں عذاب میں مبتلا کروں گا‘‘۔ (مسلم)
ایک اور حدیث میں ہے: ’’آدمی کے لیے اتنا شر بہت ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے‘‘۔ (مسلم)
اور: ’’جس نے تکبر کے ساتھ اپنا کپڑا (زمین پر) گھسیٹا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نہیں دیکھے گا‘‘۔ (متفق علیہ۔ بخاری)
قرآن کریم نے کئی آیات میں تکبر اور متکبرین کی مذمت کی ہے اور یہ بات واضح کی ہے کہ وہ تکبر ہی تھا جس نے بہت سے لوگوں کو رسولوں پر ایمان لانے سے روکا اور انہیں جہنم تک پہنچا دیا: ’’انہوں نے سراسر ظلم اور غرور کی راہ سے ان نشانیوں کاانکار کیا‘‘۔ (النمل: ۱۴)
’’اب جہنم کے دروازوں میں گھس جائو، وہیں تم کو ہمیشہ رہنا ہے۔ پس حقیقت یہ ہے کہ بڑا ہی بُرا ٹھکانا ہے متکبروں کا‘‘۔ (النحل: ۲۹)
’’وہ ان لوگوں کو ہر گز پسند نہیں کرتا جو غرورِ نفس میں مبتلا ہوں‘‘۔ (النحل: ۲۳)
’’اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر متکبر و جبار کے دل پر ٹھپہ لگا دیتا ہے‘‘۔ (المومن: ۳۵)
’’میں اپنی نشانیوں سے ان لوگوں کی نگاہیں پھیر دوں گا جو ناحق طور پر زمین میں بڑے بنتے ہیں‘‘۔ (الاعراف:۱۴۶)
بغض و حسد
حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کے قصے میں (جسے قرآن کریم نے ہمارے سامنے حقانیت کے ساتھ بیان کر دیا ہے) ہم دیکھتے ہیں کہ وہ حسد کا جذبہ تھا جو بُرے بھائی کے لیے اپنے اچھے بھائی کو قتل کرنے کا محرک بنا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور انہیں آدمؑ کے دو بیٹوں کا قصہ بھی بے کم و کاست سُنا دو، جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی نہ کی گئی۔ اس نے کہا: میں تجھے مار ڈالوں گا، اس نے جواب دیا: اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں قبول کرتا ہے۔ اگر تُو مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہ اٹھائوں گا۔ میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا اور اپنا گناہ تُو ہی سمیٹ لے اور دوزخی بن کر رہے۔ ظالموں کے ظلم کا یہی ٹھیک بدلہ ہے‘‘۔ (المائدہ: ۲۷۔۳۱)
آخرکار اس کے نفس نے اپنے بھائی کا قتل اس کے لیے آسان کر دیا اور وہ اسے مار کران لوگوں میں شامل ہو گیا جو نقصان اٹھانے والے ہیں۔ پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کھودنے لگا، تاکہ اسے بتائے کہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے۔ یہ دیکھ کر وہ بولا: افسوس مجھ پر! میں اس کوے جیسا بھی نہ ہو سکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپانے کی تدبیر نکال لیتا۔ اس کے بعد وہ اپنے کیے پر بہت پچھتایا۔
قرآن نے حکم دیا ہے کہ حسد کے شر سے پناہ مانگیں: ’’اور حسد کرنے والے کے حسد سے، جب وہ حسد کرنے لگے‘‘۔ (الفلق: ۵)
اسی طرح حسد کے ساتھ یہودیوں کو متصف کیا ہے، فرمایا: ’’کیا یہ دوسروں سے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے اُنہیں اپنے فضل سے نواز دیا؟‘‘ (النساء: ۵۴)
حسد کو اسلام پر ایمان لانے کے عمل میں رکاوٹوں اور اس کے خلاف چالوں کے اسباب میں سے اہم سبب قرار دیا ہے: ’’اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر پھر کفر کی طرف پلٹا لے جائیں۔ اگرچہ حق ان پر ظاہر ہو چکا ہے‘‘۔ (البقرۃ: ۱۰۹)
رسول کریمﷺ بغض و حسد کو قوموں کی بیماریوں میں سے ایک خطرناک بیماری شمار کرتے ہیں، جو دین پر بہت زیادہ اثراندازہو جاتی ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تمہاری طرف قوموں کی بیماری سرایت کر جائے گی: یعنی بغض و حسد۔ یاد رکھو کہ بغض مونڈنے والا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ بالوں کو مونڈ دیتا ہے، بلکہ دین کو مونڈ دیتا ہے (یعنی اس کو ختم کر کے رکھ دیتا ہے)‘‘۔
ایک اور حدیث میں ہے: ’’ایک بندے کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہو سکتے‘‘۔ (نسائی، مسند احمد)
اور فرمایا: ’’لوگ ہمیشہ بھلائی پر رہیں گے، جب تک کہ وہ آپس میں حسد نہ کریں‘‘۔ (طبرانی)
☼☼☼
Leave a Reply