
کچھ عرصے سے اعلیٰ تعلیم کی نج کاری کی بات ہورہی ہے۔ جس کا آغاز آغاخان میڈیکل یونیورسٹی سے ہوا‘ پھر منیجمنٹ انسٹی ٹیوٹس کی نج کاری کا سلسلہ چلا‘ جو غیر معروف بیرونی جامعات سے منسلک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس کے بعد انفارمیشن ٹیکنالوجی کو فروغ حاصل ہوا جس کے نتیجے میں درجنوں ادارے قائم کیے گئے یا معرضِ وجود میں آئے جو یونیورسٹی کا درجہ دیے جانے کے دعویدار تھے۔
فی الوقت نجی شعبہ میں ۱۸ جامعات ہیں‘ اس کے علاوہ ۹ دیگر ڈگری دینے والے ادارے ہیں۔ جن میں سے ۲ خالصتاً میڈیکل یونیورسٹیز ہیں اور ۱۵ کا دعویٰ جنرل یونیورسٹیز (عام جامعات) ہونے کا ہے۔ جن میں ایک سے زیادہ فیکلٹیز قائم ہیں اور ایک انجینئرنگ یونیورسٹی ہے۔ عام طور سے نجی جامعات مارکیٹ سے متعلق صلاحیتوں کے حوالے سے نصابات پڑھاتی ہیں مثلاً بزنس ایڈمنسٹریشن‘ قانون اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی یہ کہا جاتا ہے کہ ۱۵ فیصد طلباء جو اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں‘ وہ نجی جامعات میں رجسٹرڈ ہیں جبکہ ۸۵ فیصد کا تعلق ۴۱ پبلک سیکٹر کی جامعات سے ہے۔
آنے والی تبدیلیوں کا ایک بڑا اشارہ حالیہ رپورٹ ہے‘ جو اعلیٰ تعلیم پر وفاقی حکومت کی ٹاسک فورس کی جانب سے شائع کی گئی ہے۔ ورلڈ بنک کے فنڈ سے قائم شدہ ٹاسک فورس کا زیادہ تر اعتماد ورلڈ بنک اور یونیسکو کی مشترکہ رپورٹ پر ہے۔ جو ترقی پذیر ممالک میں اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے ہے اور یہ اعتماد ایک دوسری رپورٹ پر بھی ہے‘ جو پاکستانی نژاد غیر ملکی تارکین وطن کے ایک گروہ نے تیار کی ہے‘ جو بوسٹن (Boston) گروپ کے نام سے معروف ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹاسک فورس کے دونوں Co-chairpersons کا تعلق نجی جامعات سے ہے یعنی شمس قاسم لاکھا جو کہ آغا خان یونیورسٹی سے ہیں اور سید بابر علی جن کا تعلق LUMS سے ہے۔ رپورٹ کا سارا جھکاؤ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی نج کاری اور نیم نج کاری کی طرف ہے۔ جس کا نتیجہ بعد میں ’’جامعات کی موت‘‘ کی صورت میں برآمد ہوگا۔ جیسا کہ صورت حال سے ظاہر ہے۔
رپورٹ کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کا تعلیمی شعبہ میں اصلاحات کا منصوبہ جو کہ ۲۰۰۱ء سے ۲۰۰۴ء تک پر محیط ہے‘ نجی شعبہ کی جامعات میں متناسب اندراج میں اضافے کا پروگرام رکھتا ہے یعنی یہ اضافہ حالیہ ۱۵ فیصد سے بڑھاکر ۲۰۰۴ء تک ۴۰ فیصد تک لے جانا چاہتا ہے۔ اور اس پروگرام کی تکمیل کے لیے یہ منصوبہ ایک لبرل پالیسی پر گامزن ہے تاکہ نجی شعبہ میں اعلیٰ تعلیم کے نئے اداروں کے قیام کی حوصلہ افزائی کرسکے۔
رپورٹ کے دوسرے حصہ اگرچہ بہت زیادہ واضح طریقہ سے نہیں بلکہ خفیہ طور سے ٹھیک اسی نتیجے تک پہنچاتے ہیں۔ اس میں سب سے بڑی تجویز یا سفارش : آزاد ڈھانچے کی ہے! رپورٹ کا واضح طریقے سے یہ کہنا ہے کہ ’’ٹیوشن فیس بڑھانے کے واسطے نظرِ ثانی کا عمل بہت دنوں سے باقی ہے اور اس میں سیاسی رد عمل کے خوف کی وجہ سے تاخیر کی جارہی ہے‘‘ رپورٹ مزید کہتی ہے کہ ’’ٹیوشن فیس کو دن بدن تعلیمی اخراجات سے ہم آہنگ ہونا چاہیے‘‘-
یہ نشاندہی کرتے ہوئے کہ فی سمسٹر یونیورسٹی کے طلباء کو اوسطاً ۵۵۰۰۰روپے دینے پڑتے ہیں۔ رپورٹ کہتی ہے کہ ’’ایک طالب علم کا بل اس کے تعلیمی پروگرام کے مکمل اخراجات نیز ادارتی رعایت جو اسے فراہم کی جاتی ہے کا آئینہ دار ہونا چاہیے‘‘۔
رپورٹ میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ ٹیوشن اور فیس کو تعلیم کے اونچے اخراجات کا نمایاں طور سے مظہر ہونا چاہیے۔ لیکن ایسے لوگوں کے لیے اسے رکاوٹ نہیں بننا چاہیے‘ جو تعلیم کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ نکتہ بھی شامل ہے کہ مالی مدد جو ضروریات پر مبنی ہو ‘ مالی وسائل سے محروم طلباء کو فراہم کی جانی چاہیے۔
بہرحال رپورٹ میں یہ بھی شامل ہے کہ ’’طلباء کی ضرویات کا تخمینہ لگانے میں بھی مشکلات درپیش ہیں‘ اس لیے کہ ذارئع آمدنی کا حساب (ریکارڈ) بہت ناقص ہے‘‘۔
آئندہ ہم کن حالات کا سامنا کرنے جارہے ہیں؟ کیا یونیورسٹی کی تعلیم ‘ پرائمری اور سیکنڈری کے نہج پر ہوگی۔ جہاں اشراف طبقوں کے نجی ادارے میدان میں چھائے ہوئے ہیں اور بتدریج تعلیم متوسط اور نچلے طبقے کی رسائی سے باہر ہوتی جارہی ہے؟ ہم اس صورت حال کو دیکھیں جو آج موجود ہے‘ پیسا رکھنے والے والدین پرائیویٹ اداروں میں پرائمری لیول تک کی تعلیم کے لیے ایک ہزار سے پانچ ہزار روپے ماہانہ معیاری تعلیم کی امید پر دیتے ہیں اور ۱۰ ہزار تک سیکنڈری لیول کی تعلیم پر ماہانہ خرچ کرتے ہیں۔ اسی طریقے سے معزز (Prestigious) نجی یونیورسٹیاں اور پیشہ ورانہ ادارے فی ماہ 25 ہزار روپے طلبہ سے وصول کرتے ہیں۔
بہرحال جامعات کی سطح پر فیس کا نظام اب بھی ۳۰۰ سے ۴۰۰ روپے کے درمیان ماہانہ ہے۔ جو عام لوگوں کی رسائی میں ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ تنخواہ دار ملازمین کے بچوں کو بھی پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے مواقع میسر آجاتے ہیں اور اس طرح معاشرہ میں ان کا مقام اونچا ہوتا ہے۔ ایک بڑی اکثریت ان پوسٹ گریجویٹوں میں خاص طور سے لڑکیاں ہیں‘ جو اساتذہ کی صفوں میں شامل ہوجاتی ہیں اور نجی اور پبلک اسکولوں میں تدریسی خدمات انجام دیتی ہیں۔ اس طریقے سے وہ خواندگی کو دوسروں تک عام کرنے میں معاون و مددگار ہوتی ہیں- لیکن کم فیس کے باوجود بھی جامعات کی سطح تک انرولمنٹ ۶ء۲ فیصد ہے۔
اب آپ خود ملاحظہ کیجیے کہ اس وقت کیا ہوگا‘ جب جامعات کی فیسیں بڑھادی جائیں گی یا اس کو اتنا معقول کردیا جائے گا جو حقیقی تعلیمی اخراجات کے برابر ہوگا؟ حتیٰ کہ اگر پورا خرچ نہ بھی وصول کیا جائے جو کہ پرسمسٹر ۵۵۰۰۰ ہے اور صرف نصف خرچ وصول کیا جائے تو پھر بھی یہ طلباء کے لیے مشکل ہے اس لیے کہ اس طرح بھی انہیں ہر ماہ ۵۰۰۰ روپے سے زیادہ فیس ادا کرنا پڑے گی‘ جو کہ اوسط درجہ اور ملازم پیشہ والدین کے لیے بھاری رقم ہے۔ اس صورت حال سے نہ صرف یہ کہ غریبوں کو تعلیم نہیں ملے گی بلکہ اعلیٰ تعلیم کا اس ملک میں مکمل رُخ ہی بدل جائے گا۔ ملک کی نجی جامعات اور کالجز کی کارکردگی پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو واضح ہوجائے گا کہ یہ صرف ان اہم تعلیمی شعبوں پر توجہ دیتے ہیں جو ملازمت اور روزگار سے متعلق ہیں یا پھر یہ شعبے بازار سے متعلق صلاحیتوں کو پروان چڑھانے پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں مثلاً میڈیسن ‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ بزنس یا منیجمنٹ سائنسز وغیرہ۔ بہرحال یہ حکومتی جامعات ہیں جنہوں نے ’’غیر مفید‘‘ اور ’’فضول‘‘ شعبوں کو زندہ رکھا ہوا ہے مثلاً تاریخ‘ سیاسیات‘ ادبیات‘ لسانیات اور فلسفہ وغیرہ۔
اگر ایک طالب علم کو ہر ماہ ۵۰۰۰ سے ۱۰۰۰۰ تک کی رقم ادا کرنا پڑے گی‘ تو ان میں سے کتنے طلبہ ایسا شعبہ اختیار کریں گے- جس کا مارکیٹ سے متعلق صلاحیتوں سے کوئی تعلق نہیں ہو اور جو نوکریوں کے حصول میں بھی معاون نہیں ہو؟ ظاہر ہے کہ ان مضامین میں انرولمنٹ کی شرح گرنا ہی گرنا ہے اور جامعات بہت جلد مجبور ہوجائیں گی کہ وہ Basic Science کے شعبوں کو بند کر دیں مثلاً Physics‘ Chemistry‘ Zoology‘ Botany اور Maths نیز Humanities اور Social Science‘ اس کے بعد وہ انہی مضامین پر اپنی توجہ مرکوز کریں گی‘ جن کو اس زمانے میں بہت مقبولیت حاصل ہے مثلاً Computer Science‘ Business Management‘ Commerce ‘ Engineering ‘ Bio Technology وغیرہ وغیرہ۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس کا مطلب ’’یونیورسٹیز کی موت ہے‘‘- یونیورسٹی ایسا ادارہ ہے جس کا مقصد طلباء کو مختلف شعبوں میں خالص علم فراہم کرنا ہے تاکہ وہ دانشور‘ فلسفی‘ سائنسدان اور تحقیق کار پیدا کرسکیں۔
جامعات‘ ٹریننگ اسکول یا ٹیکنیکل اسکول میں بدل جائیں گی اور دانشور پیدا کرنے کے بجائے کمپیوٹر آپریٹر‘ بزنس ایگزیکٹو اور اکاؤنٹنٹ پیدا کریں گی- اس طرح کی صورت حال ہم لوگوں کے لیے حیران کن اس لیے نہیں ہے کہ ہم جامعہ کراچی میں کئی سالوں سے اعلیٰ سطح کے اساتذہ سے یہ تبصرے سنتے آرہے ہیں کہ ’’غیر مفید شعبوں‘‘ مثلاً فلسفہ ‘ اردو اور فارسی کے شعبوںکو بند کردیا جانا چاہیے۔ اسی قسم کی کارروائی ابھی حال ہی میں پشاور یونیورسٹی میں کی گئی ہے‘ جب Social Sciences وہاں مختلف سرکاری کالجوں میں پڑھانا بند کردیا گیا۔
قطع نظر ان واضح اثرات سے جو جامعات پر پڑے ہیں‘ یہ فیصلہ ہمارے معاشرے کو بھی بری طرح مجروح کرے گا‘ بالخصوص طالبات کو جو فی الوقت یونیورسٹی اسٹوڈنٹس کا ۷۰ فیصد ہیں- بہرحال اگر فیس میں اضافہ ہوتا ہے‘ تو کتنے والدین اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلانا پسند کریں گے؟ اگر بیٹوں اور بیٹیوں میں انتخاب کا مسئلہ انہیں درپیش آیا تو ہمیشہ بچیوں ہی کو تعلیم سے محروم رکھا جائے گا۔ اس لیے جیسا کہ دلیل دی جاتی ہے بیٹا اپنی تعلیم کو نوکری حاصل کرنے میں استعمال کرے گا اور بیٹی کی تو شادی ہوجائے گی اور وہ گھر چھوڑ کر چلی جائے گی۔ لہٰذا کیوں‘ بیٹی کی تعلیم پرپیسے ضائع کیے جائیں؟ مزید برآں والدین یہی سوچیں گے کہ یہ پیسے بچیوں کے جہیز اکٹھے کرنے پر خرچ کیے جائیں‘ بجائے اس کے کہ اس کو ڈگریاں دلانے پر لہٰذا حالیہ دنوں میں تعلیم نسواں کو فروغ دینے میں جو کامیابیاں ملی ہیں‘ وہ تقریباً صفر ہوجائیں گی-
اگر کسی بھی وجہ سے تعلیم نسواں محدود ہوگئی‘ تو اس سے کچھ دوسرے نتائج سامنے آئیں گے جو فی الوقت دکھائی نہیں دے رہے- سرکاری و نجی دونوں اسکولوں میں اساتذہ کی بڑی اکثریت خواتین پر مشتمل ہے‘ جو Basic Sciences اور آرٹس میں سندیافتہ ہیں- جامعات کی یہ تعلیم یافتہ لڑکیاں معاشرے کی اہم ضرورت یعنی تعلیمی اداروں میں افرادی قوت کو پورا کر رہی ہیں- اگر یہ سرچشمہ خشک ہوگیا‘ تو اسکولوں کو اسٹاف کہاں سے ملے گا؟ ظاہر ہے کہ یہ متوسط طبقہ ہی ہے جو ان اسکولوں میں معقول فیس پر تعلیم حاصل کررہا ہے اور اس صورت میں ان اسکولوں کو نسبتاً کم تنخواہوں پر اساتذہ نہیں ملیں گی-
یونیورسٹی میں فیسوں کے بڑھنے سے‘ تمام اداروں میں ہر سطح پر فیس میں اضافہ ہوجاتا ہے- سب سے پہلے‘ تو ان کالجز کی فیسوں میں ہی اضافہ ہوجاتا ہے جو ان یونیورسٹیوں سے وابستہ ہیں- بہت سارے کالجز تو disaffiliate ہوجائیں گے (یہ Process شروع ہوچکا ہے) اور جلد ہی بہت کم سرکاری کالجز رہ جائیں گے- پھر یہ ہوگا کہ تمام سطحوں پر اساتذہ اونچی تنخواہوں کا مطالبہ کریں گے- درحقیقت Task force کی ایک سفارش یہ ہے کہ اساتذہ کا تقرر مستقل بنیادوں پر نہ کیا جائے بلکہ مختصر المیعاد (tenure appointments) ہو‘ اور ان کے وظائف National Pay Scale سے علیحدہ ہوں- ’’جسکی بنیاد ان کی کارکردگی اور Market Forces پر مبنی ہو‘‘-
اس کا مطلب یہ ہے کہ جامعات کی سطح پر بہت بڑے پیمانے پر اساتذہ کی کمی واقع ہوگی‘ اور اس کے نتیجے میں تعلیم یافتہ لوگوں کی بے روزگاری میں اضافہ ہوگا- اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ بہت بڑی بڑی تنخواہوں والے اساتذہ جو وائس چانسلر یا CEO کی good books میں ہیں یا پھر وہ نامزد لوگ جو بورڈ آف گورنرز میں شامل ہیں‘ انہی چند لوگوں کو اچھی مراعات حاصل ہوں گی- ہر سطح پر اساتذہ کی نمائندگی کو کم کردیا جائے گا‘ سینیٹ اور سینڈیکیٹ ختم ہوجائیں گے اور academic council نمائندے کے طورپر صرف دو اساتذہ کو رکھے گی اور وہ بھی منتخب ہونے کے بجائے نامزد ہوں گے-
اس طرح اساتذہ کو جنس بازار بنادیا جائے گا- ’’اہم مضامین‘‘ مثلاً کمپیوٹر سائنس وغیرہ کے اساتذہ بہت اونچی تنخواہ یعنی ۶ ہندسوں پر مشتمل تنخواہ کا مطالبہ کریں گے‘ جبکہ کم تر اہمیت کے حامل مضامین مثلاً اردو ادب یا اسلامی تاریخ پڑھانے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار اساتذہ کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ گزارہ بھر تنخواہ کو قبول کرلیں‘ کیونکہ اساتذہ کی قدر و قیمت اس رقم سے وابستہ ہوگی‘ جو وہ تحقیق کے حوالے سے لاسکتا ہے اور اس حوالے سے تجارت و صنعت سے اس کی کتنی مناسبت ہے- اس صورتحال کے پیش نظر یہ خطرہ لاحق ہے کہ تحقیق کا رخ بھی تجارتی مفادات ہی متعین کریں گے- بجائے اس کے کہ خالص علمی تحقیق کا رجحان عام ہو‘ ایسے مضامین پر تحقیق کو ترجیح دی جائے گی جن کی تجارتی اہمیت زیادہ ہے-
کسی ادارے کے ساتھ ایسی صورت میں وفاداری خطرے میں ہوگی- وہ استاد جسے یہ یقین نہیں ہوگا کہ وہ آئندہ سال بھی اس ادارے میں پڑھائے گا یا رہے گا اسے صرف اپنے پیسے سے مطلب ہوگا اور وہ اپنے متعلق کبھی یہ نہیں سوچے گا کہ وہ یونیورسٹی برادری کا کوئی رکن ہے- جامعات کی ادارتی ترقی میں اس کے کیا اثرات رونما ہوں گے؟ یا طلباء اساتذہ تعلقات پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
ہمیں ان سوالات پر غور کرنے کی ضرورت ہے-قبل اس کے کہ ہم اس باڈی کی سفارشات پر عمل کریں‘ جس کا بنیادی مقصد اعلیٰ تعلیم کو قابل فروخت چیز بنانا معلوم ہوتا ہے- تبدیلی ہمیشہ خوش آئند بات ہے اور کسی کو بھی تبدیلی کی مخالفت برائے مخالفت نہیں کرنا چاہئے-
بہرحال! قبل اس کے کہ ہم کوئی تبدیلی لائیں یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنی معاشی و اقتصادی صورتحال کو اپنے ذہن میں پیش نظر رکھیں اور کسی بیرونی نمونے پر عمل کرنے کے حوالے سے عجلت پسندی سے کام نہ لیں- خواہ یہ ظاہری صورت میں بہت ہی بھلا اور پرکشش ہی کیوں نہ معلوم ہو-
(بحوالہ: ڈان میگزین)
Leave a Reply