جنوری کے آخر میں سعودی شاہ سلمان نے اپنے بیٹے محمد بن سلمان کے ہمراہ شاہ فیصل ائیر اکیڈمی کی ۵۰ویں سالگرہ منائی، اس موقع پر سعودی فضائیہ میں جدید ترین ایف۔۱۵ طیارے بھی شامل کیے گئے، یہ ایف۔۱۵ طیارے سعودی عرب اور بوئنگ کمپنی کے درمیان ہونے والے ۴ء۲۹؍ارب ڈالر کے ۲۰۱۱ء میں طے پانے والے معاہدے کا حصہ ہیں، اس معاہدے کے تحت بوئنگ کمپنی سعودی عرب کو ۸۴ نئے ایف۔۱۵ طیارے فراہم کرے گی جبکہ مزید ۶۸ ؍ایف۔۱۵ طیاروں کو اپ گریڈ کیا جائے گا۔ یہ کافی مہنگی خریداری تھی مگر سعودیوں نے اس پر بس نہیں کیا، سعودی عرب نے ۲۰۱۴ء میں امریکی اسلحہ کی خریداری کا ایک اور معاہدہ کیا، جس کی مالیت ۳۰؍ارب ڈالر ہے، اس کے علاوہ سعودی عرب نے مزید ۲۲؍ارب ڈالر مالیت کے اسلحے کی خریداری فرانس اور برطانیہ سے بھی کی ہے۔ اس اسلحہ کے ڈھیر کی ضرورت سعودی عرب کو یمن میں مداخلت کی بعد پیدا ہوئی، بھاری مقدار میں اسلحے کی خریداری کے بعد سعودی عرب دنیا میں اسلحہ خریدنے والا دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے۔
حال ہی میں انٹیلی جنس اسکواڈ یو ایس نے سعودی عرب اور امریکا کے دیرینہ تعلقات کے حوالے سے مباحثہ منعقد کرایا، جس میں دو گروہوں نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا، مباحثے کے آخر میں ۵۶ فیصد شرکاء کا خیال تھا کہ سعودی عرب کی امریکا کے تزویراتی اتحادی کی حیثیت برقرار رہنی چاہیے، یہ رائے بھاری اسلحے کی خریداری سے امریکیوں کو حاصل ہونے والی ملازمتوں کی بنیاد پر قائم کی گئی تھی، اس مباحثے میں زیادہ مناسب سوال یہ ہوسکتا تھا کہ کیا سعودی عرب امریکا کا اتحادی بننے کی اہلیت رکھتا ہے۔ چند سال قبل امریکا کی سعودی سلامتی کے حوالے سے کم ہوتی دلچسپی سے خوف زدہ ہوکر سعودی عرب نے نیا دفاعی ڈاکٹرین اپنایا، بش کی حکومت کے خاتمے کے بعد سعودی عرب نے ایران اور امریکا کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے سخت تحفظات کا اظہار کیا تھا، حقیقت یہ ہے کہ، مصر میں جنوری ۲۰۱۱ء کی بغاوت کے دوران سابق صدر اوباما نے حسنی مبارک کا ساتھ نہیں دیا تھا، سابق صدر اوباما نے شام کے تنازعہ میں میں براہ راست امریکی مداخلت کی مخالفت کی اور زور دیا کہ سعودی عرب کو اصل خطر ہ داخلی محاذ پر ہے، جس کے بعد سعودیوں کی نظر میں امریکا ناقابل اعتبار ہی نہیں بلکہ ایرا ن کے حق میں جھکاؤ رکھنے والا ملک بن گیا۔
اوباما کی ایران کے حق میں پالیسی خاص طور پر ایران سے نیوکلیائی معاہدے کے بعد سعودیہ اور اس کے اتحادی اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر امریکا خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو نہیں روکنا چاہتا تو یہ کام اپنی طاقت کے بل پر خود کرنا ہوگا، یہ کئی برس بعد سعودی عرب کی پالیسی میں ڈرامائی تبدیلی تھی، پہلے سعودیوں کو یقین تھا کہ وہ صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کی انتظامیہ کے وقت میں سعودی عرب کی سلامتی کے حوالے سے کیے جانے والے امریکی وعدوں پر اعتبار کر سکتے ہیں، پرانی امریکی پالیسی کا تعلق سعودی عرب کی تیل کی دولت سے تھا، سعودی عرب نے اپنی تیل کی پالیسی کو امریکیوں کے حق میں رکھا، جس سے مغربی سرما یا دارانہ نظام کو بہت فائدہ ہوا، اس زمانے میں بھی سعودی عرب نے اپنی سیکورٹی پر کافی خرچ کیا مگر وہ کوئی مضبوط فوجی طاقت نہیں بن سکا، سعودی لمبے عرصے تک مہنگے امریکی اسلحے کے خریدار رہے، سعودی عرب نے تیل کی سیاست کے ذریعے مخالفوں کو خلیج عرب سے دور رکھا اور اپنے ملک کا استحکام یقینی بنایا، سعودی عرب کی مغرب نواز پالیسی کو ہمیشہ کارآمد نہیں رہنا تھا، سعودی عرب کی قیادت کے لیے امریکا سے تعلقات رکھنا پیچیدہ عمل تھا، یہ اسی طرح تھا جیسے عراقی آمر صدام حسین کے سعودی عرب سے تعلقات تھے، جب تک صدام حسین ایران سے جنگ کرتا رہا سعودی عرب اس کی مدد کرتا رہا، لیکن جب صدام حسین نے کویت پر حملہ کیا اور سعودی عرب کو دھمکایا تو امریکا نے سعودیوں کی مدد کی۔
سعودی عرب کی پالیسی میں تبدیلی ۲۰۱۱ء کے بہار میں آئی جب سعودی عرب اور عرب امارات نے اپنے ۱۵۰۰؍فوجیوں کو بحرینی حکمراں خاندان کے مفادات کے تحفظ کے لیے بحرین بھیجا۔ اس وقت بحرین میں بڑھتا ہوا عدم استحکام اور کشیدگی ایران نواز قوتوں کے فائدے میں تھی اور سعودی عرب کو یقین تھا کہ بحرین میں گڑبڑ کے پیچھے ایرانیوں کا ہاتھ ہے۔ اس کے بعد سعودی عرب نے اسلحے کے انبار جمع کرنا شرع کیے اور نیا ڈاکٹرین اپنایا، جس کے تحت سعودی عرب کو خطے کے ممالک کی قیادت کے طور پر پیش کیا گیا، نئی پالیسی میں سب اہم بات امریکا پر سعودی عرب کا انحصار کم سے کم کرنا تھا، سعودی عرب کی نظر میں بحرین میں مداخلت بحرینی بادشاہ حمد بن عیسیٰ آل خلیفہ کا اقتدار قائم رکھنے اور بحرین کو ایران کے زیر اثر جانے سے بچانے کے لیے کی گئی، اس سے قبل سعودی عرب نے ایران کے خلاف لبنان میں اہم سفارتی کامیابی حاصل کی تھی، لبنان میں ایران اور اس کی اتحادی حزب اللہ ہمیشہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں سے مضبوط رہی ہے، لبنان میں مضبوط ہونے کی وجہ سے ہی ایران شام کے تنازعہ میں اہم کردار حاصل کر سکا تھا، سعودی عرب نے لبنان میں ایرانی اتحادیوں کو روکنے کے لیے اہم قدم اٹھایا، دسمبر ۲۰۱۳ء میں سعودی عرب نے لبنانی فوج کو جدید بنانے اور اسلحہ فراہم کرنے کے لیے ۳؍ارب ڈٖالر فراہم کرنے کا اعلان کیا، یہ لازمی طور پر لبنانی فوج کو حزب اللہ کے مقابلے کے لیے مضبوط بنا نے کی کوشش تھی، مگر ۲۰۱۶ء کے آغاز میں سعودی عرب کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب لبنان تہران میں سعودی سفارت خانے پر ہونے والے حملے کی مذمت بھی نہ کرسکا، ریاض کی بہترین کوششوں کے باوجود لبنان میں سعودی عرب کے اتحادی سیاستدان کمزور ثابت ہوئے، شام میں سعودی عرب اسد حکومت کی مخالفت میں قطر اور ترکی کی طرح سرگرم نہیں رہا، مگر سعودی عرب کی کوشش رہی کہ کسی طرح اسد حکومت کا خاتمہ ہوجائے۔
۲۰۱۲ء کے آغاز میں واشنگٹن میں سعودی سفیر شہزادہ بندر بن سلطان کی جانب سے کروشیا اور اردن کے راستے شام کے باغیوں کو پیسہ اور اسلحہ فراہم کرنے کی اطلاعات سامنے آچکی ہیں، اردنی اس پروگرام سے خوش نہیں تھے، یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ اس اسلحے اور پیسے کے ذریعے شام کے کس باغی گروہ کی مدد کی گئی اور یہ پروگرام کب ختم کیا گیا۔ ایران کی جارحانہ پالیسی کے خلاف خطے کے ممالک کی قیادت کرنے کا تاثر دینے کے باوجود سعودی عرب حالات کو اپنے حق میں سازگار کرنے میں ناکام رہا۔ موجودہ حالات میں لگتا ہے کہ شام میں اسد حکومت قائم رہی گی اور یہ تہران کی بہت بڑی اسٹریٹجک فتح ہوگی۔ مارچ ۲۰۱۵ء میں حوثی قبائلیوں کی جانب سے یمن کی حکومت پر قبضہ کرنے کے بعد سعودی عرب نے یمن پر حملہ کر دیا، سعودی عرب نے یمن کے معاملے کو بھی خطے میں جاری ایران کے ساتھ کشمکش کے تناظر میں دیکھا، ریاض اپنے پڑوس میں ایک نئی حزب اللہ کو قبول نہیں کر سکتا تھا، جس سے خطے میں مزید عدم استحکام پیدا ہوا، اور ایران کے اثر و رسوخ میں مزید اضافہ ہوجائے، اس لیے سعودی فضائیہ اپنے ایف۔۱۵ طیاروں کے ساتھ یمن جنگ میں شامل ہوگئی۔ ایک اندازے کے مطابق یمن جنگ کے اخراجات ۲۰۰؍ارب ڈالر ہیں جبکہ سعودی عرب نے اپنے جنگی اخراجات کی مالیت کم ظاہر کی ہے، یمن میں مداخلت کے نتیجے میں سعودی عرب کے خوف میں مزید اضافہ ہوگیا، حوثی باغی ایران کے مزید قریب ہوگئے، یمن تنازعے نے سعودی عرب کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا،یمن میں سعودی عرب کی کارکردگی سے کسی کو بھی حیرت نہیں ہوئی۔سعودی عرب کو حوثیوں کی جانب سے ۱۹۳۰ء سے مزاحمت کا سامنا ہے، ۲۰۱۵ء کے فوجی آپریشن سے قبل سعودی عرب ۲۰۰۹ء میں بھی حوثی باغیوں سے لڑنے کے لیے زمینی فوج یمن بھیج چکا تھا، یہ ایک مختصر تصادم تھا، جس میں شکست کے بعد سعودیوں کو یمن سے فوج واپس بلانا پڑی، مگر انہوں نے فیصلہ کیا کہ بعد میں اس شکست کا بدلہ لیا جائے گا، سعودی عرب کے اہم اتحادی عرب امارات کو ریاض کی طرح خلیج عرب کے مغربی حصے میں ایران کے اثر و رسوخ میں اضافہ پر شدید تشویش ہے، مگر عرب امارات نے یمن میں بھی سعودیوں کا ساتھ دیا کیونکہ ان کو خدشہ تھا کہ اتحادیوں کے بغیر سعودی جنگ ہار جائیں گے۔ یمن پر حملے سے ہونے والے انسانی جانوں کے نقصان کو سمجھنا بھی بہت اہم ہے، سعودی عرب خطے کے سب سے غریب ترین ملک پر ۲سال سے بغیر کسی تفریق کے اندھا دھند بمباری کر رہا ہے، اسی لیے دسمبر ۲۰۱۶ء میں اوباما انتظامیہ نے سعودی عرب کو مزید بم اور گولہ بارود فروخت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اس سے قبل بھی شہری ہلاکتوں پر اوباما انتظامیہ نے سعودی عرب کو کلسٹر بم کی فراہمی روک دی تھی مگر کانگریس نے اسلحہ کی فراہمی کو بحال کر دیا تھا، سعودی عرب نے یمن کی تعمیر نو کے لیے ۱۰؍ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے مگر یہ انسانی المیے کے مقابلے میں بہت معمولی رقم ہے، جس کا مکمل ذمہ دار ریاض ہے۔ اس ساری صورتحال میں میڈیا بھی یمن کے تنازعے کو بھول چکا ہے اور اس کی ساری توجہ شام کے انسانی المیے پر ہے۔
سعودی عرب کا خطے میں ایک فعال اور جارحانہ فوجی طاقت ہونے کا تاثر دینے کا تجربہ ناکام رہا، سعودی عرب کی مسلح افواج پیچیدہ ملٹری آپریشنز کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی ہیں، اسی لیے حال ہی میں جب سعودی عرب نے شام میں زمینی فوج تعینات کرنے کے لیے رضامندی کا اعلان کیا تو اسے ایک مذاق کے طور پر لیا گیا، سعودیوں کا علاقے میں سرگرم دیگر قوتوں سے کوئی مقابلہ نہیں، بیروت سے قاہرہ اور قاہرہ سے دوحہ تک، سعودی عرب کی خطے میں سیاسی ماحول کو حق میں کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں رہی ہیں، ہر موڑ پر ان کو مزاحمت اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انٹیلی جنس اسکواڈ یو ایس کے مباحثے میں شریک لوگوں کی رائے درست تھی مگر وجہ غلط تھی، سعودی عرب کو امریکا کا اتحادی اس لیے نہیں ہونا چاہیے کہ وہ زیادہ تیل پیدا کرتا ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی ہے اور سعودیہ سے تعلقات میں واشنگٹن کا فائدہ ہے، بلکہ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگر سعودی عرب کو اتحادی نہیں بنایا گیا اور اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا تو مشرق وسطیٰ میں مزید انتشار پھیل جائے گا، جس کی کسی کو ضرورت نہیں۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“Should the U.S. maintain its alliance with Saudi Arabia? Unfortunately, we’re stuck with them”. (“blogs.cfr.org”. February 27, 2017)
Leave a Reply