سرجن ’’مازن قصاص‘‘ ایک مریض کی زخمی ٹانگ کا معائنہ کر رہے تھے، جس کو اسنائپر سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ حالانکہ مازن قصاص کو۱۲ گھنٹے کی ڈیوٹی دینے کے بعد اس وقت آرام کے لیے اپنے بستر پرہونا چاہیے تھا،لیکن وہ زخمیوں کے علاج کے لیے واپس اسپتال آگئے تھے۔یہ گزشتہ چار برس میں غزہ کا بدترین خونی دن تھا،اسپتال میں گنجائش سے کہیں زیادہ زخمی علاج کے لیے موجود تھے۔ انہوں نے ایک زخمی کی پٹی اتاری تو انتہائی بڑا اور گہرا زخم سامنے آگیا، یہ اسنائپر کی گولی کا زخم تھا۔ وہ نرس کو ہدایت دے کر آگے بڑھ گئے۔ مازن کا ۵۰ اور مریض بھی انتظار کررہے تھے۔ ’’گزشتہ روز جنگ کا بدترین دن تھا، مریضوں کا سارا رش ایک ہی وقت میں آگیا‘‘۔ ۱۴ مئی کو ہزاروں فلسطینیوں نے غزہ اور اسرائیل کی سرحد پر احتجاج میں حصہ لیا۔ یہ ’’گھر واپسی عظیم مارچ‘‘ کا چھٹا ہفتہ تھا، اس مارچ کا مقصد فلسطینیوں کی ان گھروں کو واپسی ہے جہاں وہ اسرائیل کے قیام سے قبل رہائش پذیر تھے۔ کشیدگی کے اس موقع پر ہی امریکی سفارتحانے کی بیت المقدس منتقلی کی شکل میں ایک اور تنازعے نے جنم لیا، جو فلسطینیوں کے مطابق ان کے ساتھ ایک اور ناانصافی ہے۔ غزہ اور اسرائیل کے درمیان سرحد کو کچھ جگہوں پر کنکریٹ کی دیوا رسے بند کیا گیا ہے، جبکہ دیواروں پر خودکار مشین گنز بھی نصب ہیں۔ سرحد کے دیگر حصوں کولوہے کی باڑ لگا کر بند کیاگیا ہے،چند مظاہرین اس باڑ کو ہی پار کرنے کی کوشش کرتے ہیں، زیادہ تر مظاہرین اس باڑ کے پاس کھلے میدان میں احتجاج کرتے ہیں۔ جہاں لاؤڈ اسپیکر پر نغمے بج رہے ہوتے ہیں اور دکانوں پر سینڈوچ کی فروخت جاری رہتی ہے، ایک شخص کا کہناتھا کہ ’’لوگ یہاں دوسرے لوگوں کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ مظاہرین مشرقی غزہ کے علاقے Malaka میں جمع ہوجاتے ہیں، وہ ٹائر جلاتے یا باڑ کاٹ کر اسے پار کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کے بعد مظاہرین میں سے بہت سارے اسٹر یچر پر واپس آتے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر آنسو گیس پھینکی جاتی ہے توغزہ کی طرف سے پتنگوں کے ذریعے پٹرول بم پھینکے جاتے ہیں، جس کا مقصد اسرائیلی کھیتوں کو آگ لگانا ہوتا ہے۔ اس دوران اسنائپر سے گولی چلنے کی آوازوں کے ساتھ ایمبولینس کا سائرن سنائی دیتا رہتا ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اگلی صبح تک مرنے والوں کی تعداد ۶۰ اور زخمیوں کی تعداد ۲۷۰۰ تک پہنچ چکی تھی۔
فلسطینیوں کے مارچ کے خلاف کارروائی نے اسرائیل کو بدنام کردیا ہے،بہت سے ممالک نے اسرائیل کو طاقت کے بے جا استعمال کا ذمہ دار قرار دیا۔اس احتجاج کے دوران کوئی اسرائیلی نہیں ماراگیا اور چندافراد ہی زخمی ہوئے۔ احتجاج کرنے والے بیشتر لوگ غیر مسلح تھے، کچھ مظاہرین کے پاس غلیل اور پٹرول بم تھے مگر۱۰۰ میٹر دور کھڑے اسرائیلی فوجیوں کو اس سے کوئی خطر ہ نہیں ہوتا۔ باڑ کے قریب نہ جانے والے مظاہرین بھی زخمی ہوئے، ایک لڑکا باڑ سے ۱۰۰ میٹر دور راستے پر چلتا ہوا گولی کا نشانہ بن گیا۔
اسرائیلی فوج کا بیان میں کہنا تھا کہ فلسطینیوں کے خلاف کارروائی اپنی سرحد کو محفوظ کرنے کے لیے جائز اور مناسب اقدام ہے۔سرحد پر موجود اہلکار پہلے مظاہرین کو آنسو گیس کے ذریعے منتشر کرتے ہیں،لیکن کھلے علاقے میں آنسو گیس غیر موثر ہوتی ہے۔ زیادہ تر زخمیوں کو ٹانگ پر گولی ماری گئی ہے،(یعنی قتل نہیں کیا) کچھ زخمی مناسب طبی سہولت نہ ملنے کی وجہ سے مارے گئے۔ اس دوران عسکریت پسندوں نے باڑ کے قریب دھماکا خیز مواد نصب کرنے کی کئی مرتبہ کوشش کی۔ حماس کاکہنا ہے کہ شہید ہونے والے اکثر فلسطینیوں کا تعلق حماس سے ہے۔
اسرائیل کوان چند مظاہرین سے پریشانی نہیں،لیکن اصل خطرہ یہ ہے کہ اگر۲۰ لاکھ افراد نے باڑ پار کرنے کی کوشش کی توان کو روکنے کے لیے پوری فوج بھی کم پڑے گی۔ اس لیے خوف کے ذریعے فلسطینیوں کوقابو کیا جائے،اور یقین دلایا جائے کہ یہ باڑ ناقابل عبور سرحد ہے۔دوسری جانب مظاہرین بالکل بے خوف ہوگئے ہیں، کچھ نوجوان مظاہرین نے حیرت انگیز بہادری کا مظاہرہ کیا اور وہ اتنا قریب چلے گئے کہ آج سے پہلے کبھی نہ گئے تھے۔
اگرچہ اسرائیلی فائرنگ سے خوف کی فضا قائم ہوئی مگر مختصر عرصے کے لیے،ہزاروں راؤنڈ فائر کرکے مجمے کو روکا تو جاسکتا ہے، مگراس سے اس تنازعے کے حل میں کوئی مدد نہیں ملے گی جس کی وجہ سے مظاہرین باڑ کے قریب جمع ہوئے۔ اگر غزہ کا محاصرہ جاری رہتا ہے تو مظاہرین ضرور دوبارہ یہ کوشش کریں گے۔ ۱۴ مئی کے پرتشدد واقعات کے بعد سے غزہ ’’وارزون‘‘ کے طور پر مشہور ہوگیا ہے۔ غزہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ۲۰ لاکھ لوگ محصور ہیں۔۲۰۰۷ء میں حماس کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اسرائیل اور مصر نے اس علاقے کا محاصرہ کررکھا ہے۔
فوری طبی امداد اور کچھ تاجروں کے اسرائیل آنے جانے کے لیے Erez کے مقام پر ایک کراسنگ کھلی ہے۔ زیادہ تر غزہ کے رہائشی مصر کی سرحد پر واقع رفاہ کراسنگ استعمال کرتے ہیں۔ مگر ۲۰۱۵ء کے بعد سے رفاہ کراسنگ کو صرف ۱۲۹ دن کھولا گیا ہے، یعنی پورے سال میں صرف ساڑھے پانچ ہفتے رفاہ کراسنگ کھولی گئی۔ اور یہاں سے صرف ۶۳ ہزار افراد ہی مصر جاسکے، اب زیادہ تر زیر زمین سرنگوں کو بند کردیا گیا ہے، غزہ میں ہر آدمی پھنس کر رہ گیا ہے۔
رفاہ سرحد بند ہے اوردوسری سرحد سے اسرائیل نے اشیا کی آمدورفت پر سخت پابندی لگا رکھی ہے۔ اسرائیل کی ’’کریم شلون مارکیٹ‘‘ میں غزہ کا سامان، پھل اور فرنیچر دہائیوں سے فروخت کیا جارہا تھا، یہ مارکیٹ اب بند پڑی ہے۔ جس کا نتیجہ غزہ میں خالی کارخانوں، زنگ آلود مشینوں اور بے روزگاری کی شکل میں نکلا۔ غزہ میں ہر پانچ میں سے دو نوجوان بے روز گار ہیں۔ کئی خاندان بنیادی اشیا بھی خریدنے کے قابل نہیں رہے ہیں، ان کا گزارا مکمل طور پر امداد پرہوتا ہے۔عدم توجہی اور اسرائیلی بمباری نے علاقے کا انفرااسٹرکچر تباہ کردیا ہے۔علاقے میں گندے پانی کو ٹھکانے لگانے کا کوئی بندوبست نہیں ہے،گندے پانی کو یاتو کھلے تالابوں میں جمع کیا جاتا ہے یا پھر بحیرہ روم میں پھینک دیاجاتا ہے،گندے اور سمندری پانی نے غزہ میں زیر زمین پانی کو خراب کردیا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں موجود زیادہ تر پانی انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے۔غزہ کے شہریوں کو دن میں صرف تین گھنٹے کے لیے بجلی میسر آتی ہے۔ بجلی آنے کے اوقات بھی عجیب ہیں، غزہ کے لوگ رات میں جاگ کر کپڑے دھونے او ر اپنے موبائل چارج کرنے کے عادی ہیں، جبکہ بچے موم بتی کی روشنی میں پڑھائی کرتے ہیں۔
ان حالات سے مایوس ہو کرمجاہد ابوشعیب گزشتہ ماہ احتجاج میں شامل ہوا۔وہ گزشتہ سال ماربل فیکٹری کی ملازمت سے فارغ کردیاگیاتھا۔مجاہد کے پاس اپنا خاندان کو آگے بڑھانے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔مجاہد کاکہنا تھا کہ میں اکتا گیاتھا اور ’’گھر واپسی مارچ‘‘ ایک نئی چیز تھی۔ مجاہد اسپتال میں زیر علاج ہے، گولی لگنے کے باعث اس کی ٹانگ سوج کر سیاہ پڑ چکی ہے،ڈاکٹروں کوخدشہ ہے کہ ٹانگ کاٹنی پڑ سکتی ہے،ایک بہتر اسپتال میں اس نقصان سے بچا جاسکتاتھا، لیکن مجاہد کو اسرائیل جا کرعلاج کرانے کی اجازت نہیں ہے۔غزہ میں رہنے والوں کی اکثریت پناہ گزینوں کی ہے، جو کئی نسلوں سے یہاں آباد ہیں اورمغربی کنارے میں رہنے والے فلسطینیوں سے غریب ہیں۔
غزہ، ماضی میں بھی شدید مصائب کا شکار رہا ہے۔ بیسوی صدی میں غزہ ترکی، برطانیہ اور مصر کے ہاتھ میں رہا، یہاں تک کی ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے قبضہ کرلیا۔۱۹۹۳ء میں اوسلو امن معاہدے کے بعد فلسطینی اتھارٹی نے جنم لیا،جس کو اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں میں محدود خودمختاری دی گئی۔اسرائیل نے غزہ سے فوجیوں کو واپس بلالیا،سوائے ان فوجی اڈوں اور علاقوں کے جنہیں استثنا دیاگیاتھا۔
۲۰۰۰ء میں دوسرے انتفادہ کے دوران شدید خونی لڑائی کے بعد اس معاہدے کو برقرار رکھنا مشکل ہوگیا۔۲۰۰۵ء میں سخت گیر اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون نے غزہ کو مکمل طور پر خالی کردیا،دن بدن فلسطینی اتھارٹی کا کنٹرول بڑھتاگیا مگر زیادہ عرصے کے لیے نہیں۔الفتح پارٹی کے بانی اور فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ یاسر عرفات نے غزہ کو اپنا مرکز بنایا۔ اسرائیل کے انخلا اور ۲۰۰۴ء میں یاسر عرفات کی موت نے غزہ پرحماس کے قبضے کو آسان بنادیا۔جنوری۲۰۰۶ء میں فلسطین میں نئی پارلیمان کے لیے انتخابات ہوئے،جس کے نتیجے میں حماس نے حیران کن فتح حاصل کی۔فلسطینیوں نے الفتح کی سابق حکومت کے خلاف غصے کا اظہار کیاتھا۔ جس کے بعد فلسطینی تحریک دو حصوں میں تقسیم ہوگئی،الفتح نے اتحادی حکومت کا حصہ بننے سے انکار کردیا،مہینوں تک دونوں جماعتوں میں تصادم جاری رہا۔ بآلاخرجون۲۰۰۷ء میں ایک ہفتے کی شدید جنگ کے بعد حماس نے غزہ کا انتظام سنبھال لیا۔لیکن پھر غزہ کا محاصرہ کرلیاگیا۔
۲۰۰۷ء سے اسرائیل غزہ میں حماس اور دیگر مسلح گروپوں سے تین جنگیں لڑ چکا ہے۔آخری خونریز جنگ ۲۰۱۴ء کی گرمیوں میں ہوئی، جو ۵۱ دن تک جاری رہی، جس میں شدید اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں ۲۰۰۰ ہزار سے زائد افراد مارے گئے اور ایک لاکھ بے گھر ہوگئے،مرنے والوں کی اکثریت عام شہریوں کی تھی۔حماس نے جنگ کے اختتام پر فتح کا جشن منایا کیوں کہ وہ اپنا دفاع کرنے میں کامیاب رہی تھی۔ جس کے بعد اسرائیل کا خوف یقین میں بدل گیا کہ فلسطینیوں کو مغربی کنارے میں ایک ریاست دے دی تووہ اس کو تل ابیب پر راکٹ حملوں کے لیے استعمال کریں گے۔ اخوان المسلمون کی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والے مصری صدر ابولفتح السیسی کا شمار بھی حماس کے دشمنوں میں ہوتا ہے۔ کیوں کہ حماس نے اخوان المسلمون کی ذیلی تنظیم کے طور پر جنم لیاتھا۔ صدر سیسی حماس پر سنعا میں جہادیوں کی مد د کرنے کا الزام لگاتے ہیں،ان کے دعوے میں کچھ سچائی بھی ہے۔ حماس نے مصری عسکریت پسندوں کو غزہ میں داخل ہونے اور پناہ حاصل کرنے کی اجازت دی ہے۔
غزہ مشرق وسطیٰ میں تنازعات کو بڑھانے کا سبب بن رہا ہے۔ قطر طویل عرصے سے حماس کے قریب ہے اور غزہ کی مدد کرتا رہا ہے۔قطر نے۲۰۱۴ء کی جنگ کے بعد سڑکوں اور گھروں کی تعمیر کے لیے ایک ارب ڈالر کی امداد دی۔ لیکن اسلام پسندوں کی حمایت کی سزا کے طور پرقطر کو چار عرب ریاستوں کی جانب سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ قطرکے پڑوسی ملک عرب امارات نے غزہ میں اس کی جگہ لینے کی کوشش کی، جس کے بعدقطر نے دوبارہ سے اسلام پسندوں کی حمایت شروع کردی ہے، جس میں حماس بھی شامل ہے۔
غزہ کے رہائشی زیادہ تر اپنی مصیبت کا ذمہ دار دیگر فلسطینیوں کو قرار دیتے ہیں،حماس اور الفتح کے درمیان چھ معاہدے محض ردی کا ڈھیر ثابت ہوئے۔گزشتہ برس مغربی کنارے میں موجودفلسطینی صدر محمود عباس نے غزہ پر پابندیاں لگاتے ہوئے دواؤں کی ترسیل کے ساتھ بجلی کی رقم کی ادائیگی روک دی۔گزشتہ اکتوبر میں حماس اور الفتح کے درمیان قاہرہ میں ایک اور معاہدے پر دستخط ہوئے، جس میں غزہ کا انتظام فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے پر اتفاق کیاگیا۔حماس اسکول اور صفائی کا انتظام حوالے کرنے پر خوش تھی کہ کسی کو تو خراب حالات کا ذمہ دار ٹہرایا جاسکے گا، لیکن اس نے سیکیورٹی فورسز کا انتظام حوالے کرنے سے انکار کردیا اور ہتھیاروں میں صرف راکٹ حوالے کرنے کی حامی بھری تھی۔معاہدے کے موثر ہونے کے بعد فلسطینی اتھارٹی کے اہلکاروں نے Erez میں حماس کی چوکی کاانتظام سنبھال لیا اور حماس کے لوگ قریبی علاقے میں منتقل ہوگئے۔لیکن باہر سے آنے والوں کے لیے اب بھی حماس سے اجازت لینا اور اس کی خفیہ پولیس کے عجیب سوالات کا جواب دینا ضروری تھا۔
اسرائیلی عام طور پر اصرار کرتے ہیں کہ ۲۰۰۵ء میں غزہ خالی کرنے کے بعد سے وہاں کے خراب حالات ان کا مسئلہ نہیں ہیں۔پریشانی ضرور ہے مگر بہت کم ہی اس کا اسرائیلیوں کی روز مرہ کی زندگی پر کوئی اثر پڑتا ہے۔ اسرائیلی موقف جھوٹ پر مبنی ہے۔ اسرائیل اب بھی غزہ میں پوری طرح متحرک ہے۔غزہ کا ساحل اور غزہ کی فضا اب بھی اسرائیلی فوجیوں کے قبضے میں ہے۔اسرائیل ہی فیصلہ کرتا ہے کہ اس کے ماہی گیر سمندر میں کہاں تک جاسکتے ہیں، غزہ کے رہائشی کن علاقوں میں تھری جی سروس استعمال کرسکتے ہیں۔ اسرائیل غزہ کے آبادی رجسٹر کی نگرانی کرتا ہے،جس میں غزہ میں پیدا ہونے والے ہر بچے کی معلومات ہوتی ہیں۔ غزہ سے سمندر میں پھینکا جانے والا گندا پانی اسرائیلی سرحدوں پر صاف کیا جاتا ہے۔ کئی برسوں سے اسرائیلی حکام حالات کو بہتر کرنے کے لیے طریقے پیش کرتے رہے ہیں،انہوں نے انفرا اسٹرکچر کے منصوبوں کی تجویز پیش کی اور ہزاروں مزدوروں کو اسرائیل آکر کام کرنے کی پیشکش کی، مگر کوئی بھی سنجیدہ نہیں ہوا۔ اسرائیلی پارلیمان میں غزہ کی حمایت بہت کم ہے،خاص کر نیتن یاہو کی دائیں بازوں کی حکومت میں تو نہ ہونے کے برابرہے۔غزہ کا محاصرہ ختم کرنے سے حالات بہتر ہوسکتے ہیں مگر ریاست سے محروم غزہ کے رہائشیوں کا غصہ کم نہیں ہوگا۔حماس طاقت کے ذریعے حالات تبدیل نہیں کرسکتی،اس کے ہتھیار مشرق وسطی کی سب سے طاقتور فوج کے لیے خطرہ نہیں۔حماس کو خوف ہے کہ ہتھیارکھونے کا مطلب اپنی شناخت کھونا ہوگا،کچھ حکام مذاق میں کہتے ہیں کہ حماس ڈاڑھی والی فتح میں تبدیل ہوچکی ہے۔ بہت سارے غزہ کے رہائشیوں کو شکایت ہے کہ حماس نے لڑائی کرنا چھوڑ دیا ہے۔اب زیادہ تر وقت ہتھیاروں کا استعمال نہیں کیاجاتا۔
احتجاج کے دوران شہید بچے کی ماں کاکہناتھا کہ’’حما س مزاحمت کی بات تو کرتی ہے، لیکن اسرائیل سے لڑتے صرف ہاتھوں میں پتھر لیے یہ نوجوان ہیں‘‘۔ حالیہ مہینوں میں حماس نے پر امن مزاحمت کی حمایت کی ہے،سیاسی تشدد کی شناخت رکھنے والے گروپ کی جانب سے یہ ایک بڑا قدم تھا۔مسلح مزاحمت کا عزم حماس کے چارٹر میں تحریری شکل میں موجود ہے۔اس موقف نے حماس کو عجیب صورتحال میں پھنسادیا۔ مقامی کارکن تو احتجاج کی خواہش رکھتا ہے،اس لیے حماس نے فوری طور پر اس خواہش کو اپنایا، اس نے احتجاج کی حمایت میں پیغامات بھیجے اور بسوں کے ذریعے مظاہرین کو سرحد پر پہنچا یا۔حماس کے رہنما یحییٰ سنوار کا کہنا ہے کہ’’جنگلی شیر کو ۱۱ برس تک قید اور بھوکا رکھا گیا مگر اب وہ آزاد ہے‘‘۔ اس سے قبل انہوں نے اسرائیل کو تنبیہ کی کہ’’ہم سرحد کو روند ڈالیں گے، اور ان کی لاشوں سے دل نکال لیں گے‘‘۔ تازہ ترین خونریزی کے بعد حماس کے رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ وہ شیر کا کنٹرول کھو دیں گے۔ اسلامک جہاد کے تحت چلنے والے ایک ریڈیو اسٹیشن کے میزبان نے اپنے کمانڈرز سے سخت جوابی کارروائی کی اپیل کی۔اس دوران اسرائیل نے فضائی حملے بھی کیے،ایک فوجی ترجمان نے دھمکی بھی دی کہ اگر احتجاج جاری رہا تو مزید حملے کیے جائیں گے، اسرائیل نے غزہ کے گرد کارروائی کے لیے تعینات فوجی اہلکاروں کی تعداد کو دو گناکردیا، ایسے میں جنگ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، جس کو برداشت کرنے کی صلاحیت غزہ میں نہیں ہے۔شدید خونریزی کے بعد حماس پیچھے ہٹ گئی،شدید تصادم کے اگلے دن مئی۱۵ کو احتجاج کا اختتام ہوگیا۔
’’یوم نکبہ‘‘(۷۰ برس قبل فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر بے دخلی کا دن)کے موقع پرچند سو افراد نے احتجاج میں شرکت کی اور کچھ ہی لوگوں نے باڑ تک جانے کی کوشش کی۔ایک شخص نے عام استعمال کا چاقو اٹھا کر اسرائیلی فوجی کو لڑنے کا چیلنج دیا،ایک اور شخص نے استعمال شدہ ٹن پیک کا لاؤڈ اسپیکر بنالیا اور عبرانی زبان کا مذاق اڑانے لگا،حقیقت میں یکجہتی کا جذبہ ختم ہوچکا تھا۔
مصطفی مرتضیٰ اسپتال میں زیر علاج ہے،اس کے کمرے میں کافی رش ہے،انہوں نے مایوس ہوکر احتجاج میں شرکت کی، جس دوران گولی ان کی ٹانگ پر لگی،ان کا زخم معمولی نوعیت کا ہے۔لیکن وہ خوف زدہ ہے کہ ٹانگ ٹھیک ہونے میں ہفتوں لگیں گے اور اس دوران وہ پولٹری فارم کی نوکری سے فارغ ہوسکتا ہے،جیسا کے پولٹری فارم کے مالک نے ان کو مختصر مدت کے لیے فارغ کرنے کی بات کی تھی۔ان کے پاس کچھ نہیں سوائے تاریک مستقبل کے،مصطفی اور ان جیسے دیگر لوگوں کے پاس ایسا کچھ نہیں کہ وہ ان مظاہروں سے دور رہیں۔مصطفی کاکہناتھاکہ’’میں واپس آؤ ں گا اور دوبارہ احتجاج کروں گا، یہ ایک چیلنج ہے،ایک نوجوان کے طور پر میں اور کیا خواہش رکھ سکتا ہوں‘‘۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“Siege mentality deadly protests on Gaza’s border with Israel”. (“The Economist”. May 17, 2018)
Leave a Reply