حرا پبلی کیشنز اردو بازار لاہور نے آغا قیصر کی مرتب کردہ ’’تاریخِ عالم‘‘ شائع کی ہے۔ اس میں طوفانِ نوح کے زمانے سے ۲۰۰۰ء تک کے واقعات کا تاریخ وار تذکرہ ہے انگریزی میں اس طرح مرتب کردہ کتابیں کافی ہیں اور جامع بھی ہیں لیکن حرا پبلی کیشنز کی کتاب مختصر ہے اور اس میں تمام اہم واقعات تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ اس کتاب کو دیکھ کر دل میں خیال آیا کہ مسلمانوں کے دورِ زوال اور یورپ کی نشاۃِ ثانیہ کے زمانے کا ایک تقابلی مطالعہ ہونا چاہیے۔ مجھے یاد ہے، مولانا مودودیؒ نے ایک جگہ لکھا تھا کہ جو شخص آج یورپ کی تاریخ سے ناواقف ہے وہ اسلامی تحریک کے کام کا نہیں اور مصیبت بھی یہی ہے کہ ہم اپنے دورِ زوال اور یورپ کی جدید تاریخ کا علم حاصل کیے بغیر اجتماعی سطح پر آگے بڑھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
مسلمانوں کے دورِ زوال کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ ’’علومِ نافعہ‘‘ اور فنونِ نافعہ‘‘ کی جگہ ایسے علم و فن نے لی تھی جن کا مقصد مقتدر اور دولت مند طبقہ کو خوش کرنا تھا ہمارے اطباء کو بچوں کی بیماریوں پر تشویش نہیں تھی۔ البتہ وہ امیروں کے لیے طاقت کے نسخے اور کشتے تیار کرنے میں پُرجوش تھے۔ ہمارے عالم فاضل عام آدمی کے لیے نہیں تھے، درباروں کے لیے تھے۔ جہاں وہ اپنے علمی کمالات بغیر نقطے کی تفسیر قرآن کی صورت میں پیش کرتے تھے یا ادق فلسفیانہ بحثوں پر اپنی علمی شان کا مظاہرہ کرتے تھے اور دوسروں پر اپنے علم کا رعب جمانے کا شوق تھا۔ علم سے خلقِ خدا کو فیض پہنچانا مقصود نہیں تھا۔ یہی حال شاعروں کا تھا کہ عوام کے جذبات کی اہمیت نہیں تھی اور بادشاہِ وقت ہی نہیں چھوٹے چھوٹے نوابوں کی شان میں بھی پُرشوکت الفاظ کے ساتھ طویل قصیدے لکھے جاتے تھے۔ کسی کو یہ فکر نہیں تھی کہ ملک میں کاشتکاری سے متعلقہ علم اور فن کو ترقی ہو، عام آدمیوں کی صحت اور ماحول کو صحت مند رکھنے کے سلسلے میں قوانین ہوں تاجر طبقہ کو معلومات فراہم کرنے کا انتظام ہو، تاکہ وہ برآمدات بڑھا سکیں۔ زمین میں چھپی ہوئی دولت کا سراغ لگانے کے لیے جنگلوں اور پہاڑوں میں خاک چھانی جائے سمندر کی تہہ میں جھانک کر دیکھا جائے کہ وہاں کیا ہے بلکہ سمندر کی پرتگیزیوں، ولندیزیوں، انگریزوں اور فرانسیسیوں کے حوالے کر دیا گیا۔
زوال پذیر معاشرے کی نشانی یہ ہے کہ اس میں انسانوں کے لیے منفعت بخش مادّی علوم کی قدر و قیمت نہیں رہی اور ذہنی و جسمانی عیاشیوں کے لیے بہت پیشے وجود میں آ جاتے ہیں اور ان پر قومی دولت کا ضیاع ہوتا ہے۔ زمانۂ زوال میں مذہبیات الہیات یا ان کی بحثوں رقص، موسیقی، شاعری قصہ گوئی اور آرٹ، کا زور ہوتا ہے۔ لوگوں میں مراثیوں، گویوں، بھانڈوں، رقاصوں، مسخروں کی مانگ ہوتی ہے۔ زیب و زینت اور آرائش و زیبائش کے فنون کا زور بندھتا ہے لیکن زراعت، تجارت اور سائنس اور مادی علوم کے شعبوں سے بے اعتنائی ہوتی ہے۔ اور یہ سرپرستی سے محروم رہتے ہیں۔ قوم میں آرٹ بڑھتا جاتا ہے۔ مادّی علوم ملیا میٹ ہوتے رہتے ہیں۔ یہی حال ہمارا تھا۔ اس کے برعکس یورپ نے اپنی نشاۃِ ثانیہ میں ان علوم پر توجہ دی جو انسانوں کے لیے نافع ہیں۔ انسانی زندگی کو نئی نئی آسائشیں اور سہولتیں فراہم کرتے ہیں اور مختلف ایجادات کے موجدین نے پیسوں کے لالچ سے بے نیاز ہو کر اپنا کام کیا جبکہ ہمارے سائنسدان کے پاس کیمیا کا علم تھا تو وہ سونا بنانے کے خبط کا شکار ہو گئے اور آج کل بھی آپ کو کہیں کہیں ایسے خبطی ضرور نظر آتے ہوں گے۔
تیمور لنگ کے زمانے میں جرمنی کے گٹن برگ نے چھاپہ خانہ ایجاد کیا۔ ۱۴۴۳ء میں جب سید محمد جون پوری نے دعویٰ مہدویت کیا تو ولیم کنگسٹن نے چھاپہ خانے کی ایجاد کو اور ترقی دی۔ بابر بادشاہ کے زمانے میں مارٹن لوتھر نے پروٹسٹنٹ تحریک کی بنیاد رکھی جو مذہبی خیالات میں انقلاب کا سبب بنی، شہنشاہ اکبر کے زمانے میں ایسٹ انڈیا کمپنی بن چکی تھی جہانگیر کے زمانے میں لندن سے ہفت روزہ ویکلی نیوز جاری ہوا۔ شاہ جہاں کے زمانے میں ۱۶۳۱ء میں فرانسیسی اخبار جاری ہوا۔ شاہ جہاں ہی کے زمانے میں انگریزوں نے مدراس میں اپنی فیکٹری قائم کی۔ مسلمانوں کے مذہب کو سمجھنے کے لیے یورپ نے علمی کوششوں کا آغاز کیا۔ سیاحوں نے سفر نامے لکھے۔ شیر شاہ سوری کے زمانے میں قرآن مجید کا لاطینی زبان میں ترجمہ سوئٹزرلینڈ میں ہوا۔ شاہ جہاں کے زمانے میں ہی قرآن مجید کا فرانسیسی (۱۶۴۷ء) اور انگریزی ترجمہ (۱۶۴۹ء) میں ہوا۔ اورنگزیب کے زمانے میں لندن میں قرآن کا پہلا انگریزی ترجمہ شائع ہوا جب ہمارے پاس امام بخش ناسخ، فیض آباد میں پہلوانی اور شاعری پر داد تحسین حاصل کر رہے تھے۔ وہاں انقلاب فرانس آیا جس نے ایک نئی دنیا تشکیل دی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں کارل مارکس پیدا ہوا۔ سرسید کے زمانے میں کمیونسٹ مینی فیسٹو شائع ہو چکا تھا۔ جس نے بعد میں روس و چین کی عظیم طاقتوں کو جنم دیا۔ حضرت شاہ عبدالعزیزمحدث دہلویؒ کے دور میں جارج اسٹیفن نے ریلوے انجن ایجاد کیا۔ اس کے دوسرے سال کیمرے کی ایجاد ہوئی۔ جب مرزا غلام احمد قادیانی ہندوستان میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر رہے تھے، نیویارک میں بجلی کی ٹرام چلائی گئی۔ جب حالی مسدس حالی میں مسلمانوں کے زوال کا حل منظوم کر رہے تھے تو اسکاٹ لینڈ میں بائیسکل ایجاد کی گئی۔ سلطان حیدر علی کے زمانے میں ۱۷۶۱ء میں ٹیکسٹائل مشینری تیار کر لی گئی اور ہم قصیدے مثنویاں لکھ رہے تھے یا طبلے کی تھاپ اور کسی بائی جی کی آواز سے جی بہلا رہے تھے، فضول مذہبی مباحث کر رہے تھے۔ جن لوگوں کے ہاتھوں میں قومی خزانہ تھا انہیں یہ فکر نہیں تھی کہ ملک کی عام دیہی آبادی، زرعی طبقے، کاریگروں، تاجروں کے حالات بہتر بنانے اور انہیں سہولتیں فراہم کرنے کے لیے قومی خزانہ کی رقم خرچ کی جائے اور چونکہ مقتدر طبقہ کو اپنی تفریح طبع کے علوم و فنون درکار تھے۔ اس لیے سب کا رجحان انہی کے حصول کی طرف ہو گیا اور عام آدمی کے فائدے کے علم و فن زوال پذیر ہو گئے۔ جبکہ یورپ نے اس طرف توجہ دی اور نہ صرف اپنے بلکہ ساری انسانیت کے لیے نفع بخش چیزوں پر توجہ مرکوز کی۔ اسپرین کی ایجاد کو سو سال ہو چکے ہیں اور ان سو سالوں میں اس نے کتنے درد کے مارے لوگوں کا مداوا کیا ہے۔ اینٹی بائیوٹک نے بہت سے امراض کا خاتمہ کر دیا۔ لیکن اب یورپ علوم اور فنون نافعہ، کی بجائے علم و فن کو عیاشی کے لیے استعمال کرنے پر لگا ہوا ہے۔ وہ سائنس سے تباہ کن ہتھیار بنا رہا ہے اس لیے یہ تہذیب بھی زوال پذیر ہو گی کیونکہ خدا ایسی تہذیب کو باقی رکھتا ہے جو انسانوں کے لیے نفع مند ہو اور سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایک ایسی تہذیب پیدا کر سکیں گے؟۔
(بحوالہ: ’’پہلی بات‘‘ مصنف عبدالکریم عابد)
Leave a Reply