
آج ہندوستان میں فرقہ پرستی کا زہریلا ناگ اپنا پھن اٹھائے مسلمانوں کو ڈسنے کے لیے بے قرار ہو چکا ہے۔ لیکن افسوس کہ یہاں نہ کوئی حکومت ہے، نہ کوئی فوجی دستہ، نہ کوئی پولیس اور نہ ہی عوام اتنے باشعور ہیں جو اس سانپ کے سر کو کچل دیں۔ حالانکہ مرکزی حکومت ہو یا ریاستی حکومتیں، انہیں یہ جاننا چاہیے کہ عوام خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان، ان کے اپنے ہیں اور تمام کے تحفظ کی ذمہ داری ان کی ذمہ داری ہے۔ روزانہ اخباروں میں یہ خبریں جلی حرفوں سے شائع ہو رہی ہیں کہ ہندوستان کے فلاں شہر میں ہندو مسلم فساد ہو گئے اور اس کے بعد یہ خبریں سنی جاتی ہیں کہ مسلمانوں کو نہ صرف قتل کیا گیا بلکہ چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے ان کی املاک کو بھی تباہ کیا گیا۔ ابھی حال ہی میں مہاراشٹر کے ضلع پر بھنی اور جلگاؤں کے گلی کوچوں میں اسی طرح کے مناظر دیکھے اور سنے گئے ہیں۔ یہاں صرف اتنا ہی لکھنا کافی ہو گا کہ پولیس اور حکومت کا وہی دیرینہ طریقہ ہے جو آج سے ساٹھ سال پہلے ہندوستان میں تھا۔ ملک کی آزادی کو ۶۰ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے مگر مسلمانوں کی حالت وہی ہے جو پہلے تھی بلکہ روز روز کے فسادات نے مزید خراب کر دی ہے۔ آنجہانی بھوپیش گپتا نے پارلیمنٹ میں اشکبار آنکھوں سے کہا تھا کہ ’’ہندوستان کی آزادی کے بعد دس بارہ برسوں یعنی ۱۹۶۲ء تک تقریباً ۴۵ ہزار فسادات ہوئے اور ۱۹۶۲ء سے لیکر ممبئی فسادات تک کم از کم ۱۰ ہزار فسادات اور ہوئے‘‘۔ ذرا آپ اندازا لگائیں کہ آزادی سے لے کر آج تک صرف ۲۲ ہزار دن ہوتے ہیں جب کہ فسادات کی تعداد ۵۵ ہزار سے زائد ہے، گویا ۲ دن میں ۵ فسادات اور تمام فسادات میں مسلمانوں کا ہی نقصان۔ اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ اس ملک کا مسلمان من حیث القوم شانتی اور امن سے ایک دن بھی نہیں گزار سکا۔ موت کے بھیانک بادل ان کے سروں پر آزادی کے وقت بھی منڈلاتے رہے تھے اور آج بھی وہی صورت حال ہے۔ آپ کو یاد ہو گا جب ۱۹۷۰ء میں گجرات میں بھیانک ہندو مسلم فساد ہوا تھا جس میں انسانیت لرز اٹھی تھی۔ اس وقت بھوپیش ایم پی جو سی پی آئی کے قد آور نیتا تھے انہوں نے ایک بار پارلیمنٹ میں چیخ چیخ کر ممبران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’کیا آپ جانتے ہیں۔ گجرات میں کیا ہوا اور کیا ہو رہا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آپ یقیناً نہیں جانتے ہوں گے، کیونکہ اس طرح کے حیوانیت سوز مناظر نہ تو فلموں میں دیکھے ہوں گے اور نہ ہی کتابوں میں پڑھے ہوں گے جو فرقہ پرستوں نے گجرات میں مسلمانوں بالخصوص مسلم عورتوں کے ساتھ کیا ہے۔ ہم اپنے دیش کی عورتوں پر فخر کرتے ہیں، انہیں ماتا کہہ کر پکارتے ہیں، لیکن آج ہمارا سر شرم سے جھک گیا۔ دنیا کی کوئی عورت ایسی نہیں ہو گی جو اس واقعے کو سن کر شرمسار نہ ہوئی ہو‘‘۔
واضح رہے کہ گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا تھا اور پولیس کی موجودگی میں مسلم عورتوں کو ان کے گھروں سے گھسیٹ گھسیٹ کر راستے پر لایا گیا تھا۔ حیوانوں نے صرف اتنے پر ہی بس نہیں کیا بلکہ مرد کہلانے والے نامردوں نے اُن کی چوٹیوں کو باندھ باندھ کر عریاں کیا اور اس کے بعد جو ہوا اسے رقم نہیں کیا جا سکتا۔ مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ گجراتی ہندو عورتیں سامنے کھڑی تالیاں بجاتی رہیں۔ یہ ہے ہمارے ملک کی تہذیب یا سنسکرتی۔ دور مت جایئے ابھی صرف دو تین سال پہلے گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ جو خونیں ڈرامہ کھیلا گیا، اس پر بھی مودی حکومت پر لگام لگانے کے بجائے جن سنگھ لیڈر سے تعلق رکھنے والے اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی اور وزیر داخلہ ایل کے ایڈوانی نے نہ صرف خاموش حمایت کی بلکہ حکومت کو سراہا بھی۔ وہ تو اچھا ہوا کہ اُس وقت صحافت کی دنیا میں راج دیپ سردیسائی جیسے جرنلسٹ موجود تھے جنہوں نے مودی حکومت کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ورنہ ان درندوں کے چہروں پر لگے خون کو کوئی کیسے دیکھ پاتا۔
عام فسادات کی طرح یہاں بھی مسلمانوں کو نقصان پہنچایا گیا، ان کی املاک کو تباہ کیا گیا لیکن یہاں جو ایک اور بات اور دیکھنے میں آئی، وہ یہ کہ یہاں پولیس نے کھل کر فرقہ پرستوں کا ساتھ دیا۔ اگر کسی مسلم نے اپنے بال بچوں کے ساتھ جان بچا کر ادھر ادھر بھاگ کر پناہ لینے کی کوشش کی تو گجرات کی پولیس شکاری کتوں کی طرح ان کا تعاقب کرتی تھی اور انہیں قید کر لیتی تھی۔ بالخصوص ہماری قوم کے نوجوانوں کو پکڑ کر اور ان پر جھوٹے الزامات لگا کر انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچاتی تھی۔ تکالیف جو دی جاتی تھیں وہ تو تھیں، ان پر مقدمے بھی اتنے سنگین ہوتے تھے کہ بڑے سے بڑا وکیل بھی ان کی وکالت سے ہٹنے پر مجبور ہو جاتا تھا اور اگر کوئی مسلم وکیل ان کے مقدمے کو لینا چاہے تو لے نہیں سکتا تھا کیونکہ انہیں بھی اندرونی طور پر یہ خوف ستاتا رہتا تھا کہ کہیں پولیس یا حکومت انہیں ہی پاکستانی ہونے یا SIMI (اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا) کا ممبر ہونے یا آئی ایس آئی کا ایجنٹ ہونے کا سرٹیفکیٹ نہ دے دے۔ یہ صورتحال ابھی جاری ہے۔
جہاں تک دہشت پسندی کا سوال ہے تو یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کے بارے میں ساری دنیا جانتی ہے کہ یہ طریقہ محض اسلام کو بدنام کرنے کے لیے اپنایا گیا ہے کہ ہر مسلمان دہشت گرد ہے۔ ابھی صرف دو تین سال قبل شیوسینا لیڈر بال ٹھاکرے نے کہا تھا کہ ہندوستان کی جیلوں میں جتنے مجرم بند ہیں، ان میں تعداد کے حساب سے اسی فیصد مسلمان ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ تمام مجرم دہشت پسند ہیں یا ان میں معمولی مجرم، چور، ڈاکو، پاکٹ مار بھی شامل ہوں گے۔ کسی نے بالکل صحیح کہا ہے کہ All Terrorist Are Criminal’ But All Criminals Are Notterrorist یعنی ہر دہشت پسند مجرم ہوتا ہے لیکن ہر مجرم دہشت پسند نہیں ہوتا۔ اس لیے مسلمانوں کو چھوٹی چھوٹی غلطیوں اور چہرے پر ڈاڑھی دیکھ کر انہیں ’سیمی‘ کا ایجنٹ یا ملک دشمن کہہ کر انہیں اذیت اور تکلیف پہنچانا حکومت کو زیب نہیں دیتا۔ اگر حکومت اس سے باز نہیں آئی تو اس سے پورے ملک کا نقصان ہو گا۔ خدشہ ہے کہ کہیں ’’شیر آیا، شیر آیا‘‘ والا قصہ سچ ثابت نہ ہو جائے۔ ابھی صرف تین دن قبل ہندی بلیٹنز کے سابق ایڈیٹر نند کشور نوٹیال نے مجھ سے پوچھا کہ مرزا صاحب روزانہ اخبار میں یہ آتا ہے کہ ’سیمی‘ کے ممبران ہندوستان میں کہیں نہ کہیں پکڑے جا رہے ہیں۔ ماجرا کیا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ ہماری حکومت کی نااہلی کا تماشا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’انقلاب‘‘ ممبئی۔ شمارہ: ۲۵ مئی ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply