
معاملہ صرف اردو ہی کا نہیں، دنیا کی ہر زبان جتنی سادہ اور سہل ہو، کانوں کو اُتنی ہی بھلی لگتی ہے۔ بے ساختہ زبان پر آجانے والے فقروں کے آگے نہایت عالمانہ اور گاڑھے الفاظ ماند پڑ جاتے ہیں۔ بولی جائے یا لکھی جائے، سہل سہل سی زبان جادو کا اثر رکھتی ہے۔ جس لب و لہجے میں کوئی پھیر نہ ہو، وہ اپنے سچے ہونے کی گواہی دیتا ہے۔ روز مرّہ کی گفتگو میں کوئی چاہے بھی تو چال بازی نہیں کر سکتا۔ ایک عجیب بات ہے کہ لوگ بولتے ہیں تو بات میں سادگی اختیار کرتے ہیں لیکن لکھتے ہیں تو اسی سیدھی سی بات کو الجھا دیتے ہیں۔ خدا جانے کہاں کہاں سے ایسے ایسے لفظ لاتے ہیں جو عام زندگی میں بھولے سے بھی استعمال نہیں کرتے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ آسان زبان لکھنا بہت مشکل کام ہے۔ اچھی سہل عبارت میں چلتے چلتے کوئی الجھا ہوا اجنبی لفظ آجائے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے زور کی ٹھوکر لگی ہو۔
پچھلے برس کی بات ہے، برطانیہ میں ایک اردو ناول کی رسمِ اجرا ادا کی گئی۔ ناول کے مصنف کے بارے میں بتایا گیا کہ سادہ اور سہل اردو لکھتے ہیں۔ یہ بات سن کر ناول پڑھنے کا میرا اشتیاق بڑھا اور اسی شام پڑھنا شروع کیا۔ ابھی دوسرے ہی صفحے پر تھا کہ اچانک ایک جگہ لڑکھڑا گیا۔ عبارت میں ایک لفظ لکھا تھا ’نعمتِ غیر مترقّبہ‘۔ اس وقت بڑی حیا آئی جب اپنی ہی زبان پڑھتے ہوئے مجھے لغت دیکھنی پڑی۔ مسئلہ صرف معنی ہی کا نہیں، تلفّظ کا بھی تھا۔ دکھ اُس وقت ہوا جب دیکھا کہ اردو لغت میں یہ لفظ سرے سے غائب ہے۔ آخر فارسی لغت دیکھی جہاں مشکل سے لفظ مترقّب ملا جس کا مطلب تھا، وہ جس کا انتظار کیا گیا یا امید رکھی گئی۔ تب کہیں جاکر یہ بھید کھلا کہ جو نعمت بیٹھے بٹھائے ہاتھ آجائے اس کو نعمت غیر مترقّبہ کہتے ہیں۔ اس طرح کی ترکیبیں زبان کے حسن ہی کو نہیں، خود زبان کو مار ڈالتی ہیں۔
مجھے ایک بار دلّی میں اردو بولنے والوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرنے کا موقع ملا، جس میں عام طور پر کہا جا رہا تھا کہ ہندوستان میں اردو کا حال اچھا نہیں۔ میں نے کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی زبان پھلے پھولے تو ترکیب آسان ہے۔ نہایت سادہ، سہل، سلجھی ہوئی اور دل پر اثر کرنے والی اردو بولیے، ایسی ہی زبان کو فروغ دیجیے۔ یہ اس زبان کا حُسن ہے کہ پھر ملک میں یہی انداز رواج پائے گا اور ہر ایک کی زبان پر یہی سہل اور سادہ اردو ہو گی۔ ویسے بھی اتنے بڑے اور پھیلے ہوئے ملک کے گوشے گوشے میں چلانے کے لیے جو فلم بنائی جاتی ہے، اس کو بنانے والے اسی سادہ اور سہل زبان کو اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ اسے جو بھی نام دیں۔ سچ تو یہ ہے کہ عام بول چال ہو رہی ہو تو ہندوستان کی بولی کوئی اور نہیں، اردو ہے۔
ہماری بی بی سی ہندی سروس کی ایک ساتھی ایک روز بتا رہی تھیں کہ انہوں نے ایک ڈرامہ لکھا ہے۔ میں نے پوچھا ’ہندی میں؟‘ کہنے لگیں کہ نہیں، عام بول چال میں۔ میں نے کہا کہ خاتون، اسی کو عام بولی میں اردو کہتے ہیں۔ میں خاتون کو شرمندہ نہیں کر رہا تھا۔ اس وقت مجھے یہ احساس ستا رہا تھا کہ خود ہم لوگ اردو میں ایسی ایسی فارسی اور عربی ترکیبیں استعمال کرتے ہیں کہ اچھی بھلی زبان کو جنّاتی بنا دیتے ہیں۔ اوپر سے اس کو عالمانہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ کتنے ہی اعلیٰ اردو دانوں کے نام لیے جاسکتے ہیں جنہوں نے سادہ نثر لکھی اور اسی سادگی کی داد بھی پائی۔
سہل اور سادہ زبان سے کیا مراد ہے؟ زبان جو یوں برتی گئی ہو کہ وہ اپنی اصل کے مطابق ہو، سیدھی براہ راست ہو، کسی فرضی یا بناوٹی انداز سے اس کی شکل نہ بگڑی ہو۔ صاف ہو اور کھلی ہو، جسے سمجھنے کے لیے بڑی توجہ نہ دینی پڑے۔ یہی بولنے اور لکھنے والوں کا معیار ٹھہرے۔ سادہ زبان سننے میں سہل ہو۔ اس میں روانی ہو۔ خصوصاً نثر میں بہاؤ ہو۔ (ہم تن بدن کہتے ہیں، بدن تن نہیں کہتے حالانکہ مطلب وہی ہے)۔ اگر بات سادہ ہے تو اس میں الجھاؤ نہیں ہوگا۔ اسے سمجھنے کے لیے ہمیں ذہن پر بوجھ نہیں ڈالنا پڑے گا۔ سادہ زبان کبھی بکھری ہوئی نہیں ہو گی، اسے سننے یا پڑھنے والا اس پر شک نہیں کرے گا۔ سیدھی اور سادہ بات میں کوئی پھیر نہیں ہوتا، ایسی بات دل کو لگتی ہے۔ کہنے والا جو کچھ کہہ رہا ہے، سننے یا پڑھنے والا بالکل وہی سمجھ رہا ہے۔
آج کی تحریروں یا بات چیت میں بے احتیاطی داخل ہو گئی ہے۔ ہم بات کو بڑھا چڑھا کر کہنے لگے ہیں۔ ہماری بات پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے اور ہماری دلیل منطقی نہیں رہی ہے۔ ہم لفظوں کے استعمال میں کفایت نہیں برتتے۔ جہاں کہیں لمبے لمبے جملے لکھے ہوں، سمجھیے کہ لفظوں میں فضول خرچی کی گئی ہے۔
سادہ زبان کا حُسن اِختصار میں ہے۔ چھوٹے جملے ہی سادگی کی دلیل ہیں۔ لفظوں کا چناؤ اور ان کو ان کے جائز مقام پر جگہ دینا زبان کی خوبی سمجھی جاتی ہے۔ بارہا لفظوں کا یا تو غلط استعمال ہوتا ہے یا وہ بہت زیادہ اور کثرت سے برتے جاتے ہیں۔ زبان میں لفظوں کی تکرار کانوں پر گراں گزرتی ہے لیکن عام رجحان یہ ہے کہ ایک ہی لفظ ایک ہی جملے میں دو دو اور تین تین بار شامل کر دیتے ہیں جس کی بڑی مثال ’’حوالے سے‘‘ ہے۔ پاکستان میں تحریر میں کم، لیکن بات چیت میں ’’حوالے سے، حوالے سے‘‘ کو اتنی بار دہرایا جاتا ہے کہ ذہن الجھنے لگتا ہے لیکن اب حال یہ ہے کہ نہ کہنے والے کو اس کا احساس رہا ہے اور نہ سننے والے کو۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بھونڈی ترکیب جن عام لفظوں کی جگہ رائج ہے، وہ سیدھے سادے لفظ ہیں: بارے میں، متعلق، سلسلے میں، تعلق سے۔ مگر یہ سب ترک کر کے ان کی جگہ ’حوالے سے‘ کی بھرمار کر دی گئی ہے۔
زبان کوئی بھی ہو، احترام مانگتی ہے۔ اس میں سادہ پن ہوگا تو شوق سے سنی جائے گی، شوق سے پڑھی جائے گی، پُراثر ہوگی اور اتنے ہی چاؤ سے رواج پا کر روزمرہ گفتگو کا حصہ بن جائے گی، آزما کر دیکھیے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’جنگ‘‘ کراچی۔ ۲۱ مارچ ۲۰۱۴ء)
Leave a Reply