پاکستان بھارت عالمی معاہدہ کے تتمہ جات

Under the treaty, the water of six river - Beas, Ravi, Sutlej, Indus, Chenab and Jhelum - was to be shared between India and Pakistan. (Shutterstock/Representative image)

کراچی ۱۹ ستمبر ۱۹۶۰ء پاکستان اور بھارت کے درمیان نہری سمجھوتہ کے ساتھ اے سی ایچ تک تتمہ جات شامل کیے گئے ہیں، جن میں معاہدہ پر عملدرآمد کی وضاحت درج ہے۔ یہ تتمہ جات معاہدہ کی دفعات کے متعلق پیدا ہونے والے اختلافی مسئلوں کو طے کرنے کے لیے ثالث اور فنی ماہر مقرر کرنے، مشرقی اور مغربی دریاؤں کے پانی کی تقسیم اور متبادل تعمیرات کے بارے میں ہیں۔

ثالث کا تقرر (تتمہ جی)

متنازع امور طے کرنے کے لیے ثالثی کا جو طریقہ طے پایا ہے اس کی خاص خاص باتیں حسب ذیل ہیں:

اگر معاہدہ کی دفعہ ۹ کے تحت ثالثی کی عدالت قائم کرنے کی ضرورت پیش آئی تو اس کا طریقہ حسب ذیل ہوگا:

ثالثی کی کارروائی شروع کرنے کے لیے دونوں فریق ایک خاص معاہدہ کریں گے جس میں تصفیہ طلب مسائل، عدالت کی ہیئت، عدالت کو اس کے طریقہ کار کے بارے میں ہدایت اور فریقین کے درمیان دوسرے طے شدہ مسئلوں کی تفصیل درج ہوگی۔ معاہدے کی دفعہ نمبر۹ (۵) (ب یا ج) کے تحت کسی ایک فریق کی دوسرے سے درخواست کے تحت یہ کارروائی شروع کی جاسکے گی۔ اس درخواست میں بتایا جائے گا کہ ثالثی کے ذریعے حل طلب مسئلہ یا دعویٰ کیا ہے، کس قسم کی امداد مطلوب ہے اور کارروائی کا مطالبہ کرنے والا فریق پیراگراف نمبر۶ کے تحت کون کون ثالث مقرر کرنا چاہتا ہے۔ جس تاریخ کو متذکرہ بالا خاص معاہدہ عمل میں آئے یا جس تاریخ کو دوسرے فریق کو فریقِ اول کی طرف سے اس سلسلہ میں درخواست موصول ہوگی وہی ثالثی کی کارروائی شروع ہونے کی تاریخ تصور کی جائے گی اگر دونوں فریقوں کے درمیان اس سلسلے میں کوئی بات طے نہ ہوئی تو ثالثی کی عدالت سات ثالثوں پر مشتمل ہوگی، جو حسب ذیل طریقوں سے مقرر کیے جائیں گے:

دو دو ثالث دونوں فریقوں کی طرف سے مقرر کیے جائیں گے، تین ثالث جو امپائر کہلائیں گے حسب ذیل کٹیگری سے مقرر کیے جائیں گے، ایسے افراد جو اپنی صلاحیت اور شہرت کے اعتبار سے عدالت ثالثی کے چیئرمین مقرر ہوسکتے ہیں۔ ایسے افراد انجینئر یا وکیل بھی ہوسکتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ انجینئر بین الاقوامی قانون کے ماہر فریقین اس کی کوشش کریں گے کہ موخر الذکر ثالثوں کی ایک مستقل کمیٹی مقرر کرلیں، ایسی کمیٹی چار چار افراد پر مشتمل ہوگی۔ دونوں فریقوں کے سمجھوتے سے اور کمیٹی میں شامل ہونے والے متعلقہ افراد کی منظوری کے بعد یہ کمیٹی قائم کی جائے گی۔ اس کمیٹی سے کسی ممبر کو دونوں میں سے کسی فریق کی درخواست پر سبکدوش کیا جاسکے گا لیکن ثالثی کی کارروائی کے دوران ایسا کرنا ممکن نہیں ہوگا، اگر کمیٹی کا کوئی ممبر فوت ہوجائے، استعفیٰ دے دے یا الگ کردیا جائے تو دونوں فریقوں کے اتفاق رائے سے اس کا جانشین مقرر کیا جائے گا۔ ثالثی کی کارروائی کی تحریک کرنے والا فریق اپنی درخواست کے ساتھ ہی اپنی طرف سے دو ثالث مقرر کردے گا اور درخواست موصول ہونے کے ۳۰ دن کے اندر دوسرا فریق اپنی طرف سے دو ثالث مقرر کرنے کا اعلان کردے گا۔ امپائر مقرر کرنے کا طریقہ یہ ہوگا۔ ہر امپائر اپنی متعین کردہ کمیٹی سے مقرر کیا جائے گا بشرطیکہ کمیٹی میں کم ازکم تین آدمیوں کے نام ہوں، اگر ایسی کوئی کمیٹی قائم نہیں کی گئی ہے یا اس میں ممبروں کی تعداد تین سے کم ہے یا ان میں سے کوئی ممبر ثالثی کی عدالت میں شریک ہونے پر آمادہ نہیں ہوتا تو بانی امپائر مقرر کرنے کے لیے یہ طریقہ کار اختیار کیا جائے گا۔

آپس کا سمجھوتہ، اگر سمجھوتہ نہ ہوسکے تو اس کے لیے ایک یا زیادہ افراد سے مدد لینے پر اتفاق رائے لیکن اگر ثالثی کی کارروائی شروع ہونے کے بعد ساٹھ دن تک یا ابتدائی کارروائی مکمل ہونے کے تیس دن بعد تک ایک یا اس سے زیادہ امپائروں کی تقرری باقی ہو تو دونوں فریق قرعہ اندازی کے ذریعے طے شدہ فہرست سے ایسے شخص کا انتخاب کریں گے جو امپائر مقرر کرنے میں ان کی مدد کرے گا۔ اگر کوئی فریق قرعہ اندازی میں حصہ نہ لے تو دوسرا فریق عالمی بینک کے صدر سے قرعہ نکالنے کے لیے کسی شخص کو نامزد کرنے کی درخواست کرسکتا ہے، اس طرح نامزد کردہ شخص فریقوں کو اس کی اطلاع دے گا اور ان کو قرعہ اندازی کے موقع پر موجود رہنے کی دعوت دے گا، جب تین امپائر مقرر ہوجائیں گے اور وہ اپنی تقرری کو منظور کرلیں گے تو دونوں فریقوں کے مقرر کردہ دو دو ثالث اور ان تین امپائروں پر مشتمل عدالت ثالثی مکمل ہوجائیں گی اور یہ عدالت اسی وقت کام کرنے کی مجاز ہوگی جب تینوں امپائر اور کم ازکم دو ثالث موجود ہوں، عدالت میں دونوں فریق کی نمائندگی ان کا ایجنٹ کرے گا، جو کسی وکیل کی خدمات بھی حاصل کرسکتا ہے ثالثی کی عدالت کے پہلے اجلاس کے لیے تاریخ اور مقام کا فیصلہ عدالت کا چیئرمین کرے گا۔ عدالت کے پہلے اجلاس میں اس کا سیکرٹریٹ کا قیام اور خازن کا تقرر عمل میں آئے گا۔ اسی اجلاس میں عدالت کے اخراجات کا تخمینہ لگایا جائے گا اور دونوں فریقوں سے کہا جائے گا کہ وہ تخمینی اخراجات کی نصف رقم خازن کے پاس جمع کرادیں۔ عدالت اپنے طریقہ کار اور اختیارات وغیرہ طے کرے گی اور مدت بھی مقرر کرے گی کہ جس کے اندر ہر فریق کو اپنے دلائل مکمل کرنے ہوں گے۔ عدالت کے تمام فیصلے اکثریت کے ووٹ سے طے ہوں گے اور اگر ووٹوں کی تعداد برابر ہوگی تو چیئرمین کو کاسٹنگ ووٹ دینے کا حق ہوگا۔ عدالت کی کارروائی انگریزی میں ہوگی، ہر فریق پیش ہونے والی دستاویزوں کی دو تصدیق شدہ نقلیں داخل کرے گا جو عدالت فریق کو مہیا کرے گی۔ چیئرمین مذاکرات کا نگراں ہوگا، عدالت کی کارروائی پبلک نہیں ہوگی اس کے لیے دونوں فریقوں کی رضامندی اور چیئرمین کی منظوری درکار ہوگی۔ چیئرمین کے مقرر کیے ہوئے سیکرٹری عدالت کی کارروائی کا ریکارڈ تیار کریں گے۔ اس کارروائی پر چیئرمین کے دستخط ہوں گے اور صرف اسی کو مستند تصور کیا جائے گا۔ عدالت کو اختیار ہوگا کہ وہ فریقوں کے ایجنڈوں سے تمام ضروری کاغذات اور متعلقہ شہادتیں طلب کرے۔ انکار کی صورت میں عدالت اس کو ریکارڈ کرلے گا۔ فریقوں کے ایجنٹ اور وکیل جب بحث اور شہادتیں مکمل کرلیں گے تو عدالت بحث ختم کرنے کا اعلان کردے گی۔ لیکن اس کو اختیار ہوگا کہ فیصلہ سنانے سے پہلے کسی وقت بھی دوبارہ بحث شروع کرا دے، متنازعہ امور بشمول مالی معاوضہ کے متعلق عدالت کا فیصلہ تحریری ہوگا۔ فیصلے کے ساتھ اس کے اسباب و وجوہ کی وضاحت بھی کی جائے گی۔ عدالت کے چار یا اس زیادہ ممبروں کے دستخط سے دیے ہوئے فیصلہ کو عدالت کا فیصلہ تصور کیا جائے گا۔ عدالت فیصلے کی ایک ایک نقل دونوں فریقوں کو مہیا کرے گی اور متنازعہ مسئلے پر دونوں فریق عدالتِ ثالثی کے فیصلہ کے پابند ہوں گے۔ کسی فریق کی درخواست پر فیصلہ سنانے کے تین ماہ کے اندر فیصلے کی وضاحت اور تشریح کے لیے عدالت کا دوبارہ اجلاس ہوسکتا ہے۔

غیر جانبدار ماہر کا تقرر (تتمہ ایف)

جن مسئلوں کے بارے میں فنی ماہروں سے رجوع کیا جائے گا، ان میں حسب ذیل مسئلے شامل ہیں۔

(۱) دریائے راوی سے نیز دریائے ستلج اور دریائے راوی کے بعض مقامات سے پاکستان جو پانی استعمال کرے گا اس کا تعین۔

(۲) دریائے سندھ، جہلم یا چناب کے سندھ کے طاس کے نکاسی کی سرحد کا تعین۔

(۳) تعمیرات کی اسکیموں کے متعلق بعض امور۔

(۴) نکاسی کی نہروں یا کسی نہر میں پانی ڈالنے یا نہروں یا کسی نہر کی تعمیر یا نئی شکل دینے کے بارے میں۔

(۵) معاہدے کی دفعات کے تحت پیدا شدہ مسائل کہ آیا کس فریق کی کارروائی کا مادھوپور اور لاہور کے درمیان دریائے راوی یا ہریکے اور سلیمانکی کے درمیان دریائے ستلج کا ان کی قدرتی گزرگاہوں سے رخ موڑنے کے اثرات پیدا ہونے کا امکان ہے۔

(۶) معاہدے کی بعض دفعات کے سلسلے میں پیدا ہونے والے مسائل کے متعلق حقائق کا تعین۔

(۷) اس امر کا تعین کرنا کہ فریق نے جو معلومات طلب کی ہیں آیا وہ معاہدے کی متعلقہ دفعہ کے دائرہ سے باہر ہے۔

(۸) مغربی دریاؤں کے بارے میں پیدا ہونے والے بعض مسائل کا تعین۔

(۹) پانی کے محفوظ ذخیرے سے پانی چھوڑنے کے پروگرام کا تعین۔

(۱۰) اس امر کا فیصلہ کرنا کہ کیا دریائے جہلم کے ان معاون نالوں سے بھارت کا زرعی استعمال کے لیے پانی لینا معاہدہ کی متعلقہ دفعہ سے مطابقت رکھتا ہے جن سے پاکستان زرعی استعمال کے لیے پانی لے رہا ہو، جس کا پانی پاکستان پن بجلی کے لیے استعمال کرتا ہو۔

(۱۱) اس امر کا فیصلہ کرنا کہ کیا بھارت نے جو پلانٹ نصب کیے ہیں وہ متعلقہ دفعہ میں مہیا کردہ طریقے سے چلائے جارہے ہیں۔

(۱۲) یہ تعین کرنا کہ آیا مغربی دریاؤں سے نکلنے والی آبپاشی کی نہر پر پن بجلی کا کوئی نیا پلانٹ متعلقہ تتمہ کی متعلقہ دفعات کے مطابق ہے یا نہیں۔

(۱۳) یہ فیصلہ کرنا کہ کیا پانی کی تذخیر کا کام جس پر تاریخ نفاذ سے عمل ہورہا تھا بنیادی طور پر متعلقہ تتمہ کی متعلقہ دفعات کے مطابق ہے یا نہیں۔
(۱۴) اس امر کا تعین کرنا کہ کیا متعلقہ جھیل میں تذخیر آب کا کوئی حصہ ایسی تعمیرات کا نتیجہ ہے جو تاریخ نفاذ کے بعد عمل میں لائی گئی ہوں۔

(۱۵) کیا دریائے جہلم پر سیلاب کی روک تھام کی تعمیرات متعلقہ تتمہ کی متعلقہ دفعہ کے مطابق ہے یا نہیں۔

(۱۶) دریائے جہلم کے اس معاون نالہ پر جس سے پاکستان زرعی استعمال کے لیے پانی لے رہا ہو، جس پر پاکستان کا پن بجلی کا کوئی پلانٹ چل رہا ہو، پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے بنائی جانے والی تعمیرات متعلقہ تتمہ کی متعلقہ دفعہ کے مطابق ہے یا نہیں۔

(۱۷) تتمہ ای کے بعض پیروں کے بارے میں پیدا ہونے والے مسائل۔

(۱۸) کیا تاریخ نفاذ کے بعد بھارت نے پانی کی تذخیر کے لیے جو تعمیرات بنائی ہیں انہیں بروئے کار لانا متعلقہ تتمہ، متعلقہ دفعات کے مطابق ہے یا نہیں۔

(۱۹) کیا پانی کا ذخیرہ کرنے کی اہلیت جو تجویز کے مطابق بھارت پیدا کرے گا، تذخیر کی اس اہلیت سے تجاوز کرتی ہے یا نہیں۔ جو تہہ نشیں مادوں کی وجہ سے ضائع ہوچکی ہے۔

(۲۰) جب متعلقہ تتمہ کی دفعہ کے مطابق پانی کی زائد فراہمی دستیاب ہوگی تو متعلقہ تتمہ میں اس کے متعلقہ دفعات میں کی جانے والی ترامیم کا تعین کرنا۔

(۲۱) مادھو پور بیاس لنک کے ہیڈ سے نالہ چکی کے دریائے بیاس سے مقام اتصال تک پانی پہنچانے کے سلسلے میں جو نقصان ہو اس کے اعداد و شمار پر نظرثانی کرنا۔

(۲۲) اگر مالی معاوضہ کے بارے میں کوئی دعویٰ کیا جائے گا تو اس سلسلے میں غیر جانبدار فنی ماہر سے اس وقت تک رجوع نہیں کیا جائے گا جب تک کہ دو کمشنر اس پر متفق نہیں ہوں گے، کہ مذکورہ دعوے کے بارے میں فنی ماہر سے رجوع کیا جائے۔

(۲۳) ہر کمشنر لاگتوں کے تعین کے بارے میں پیدا شدہ کسی بھی معاملہ میں فنی ماہر سے رجوع کرسکے گا۔

تقرر و طریقہ کار

غیر جانبدار فنی ماہر اعلیٰ قابلیت کا انجینئر ہوگا۔ اور درخواست موصول ہونے پر متعلقہ پیرا کے مطابق اسے مقرر کیا جائے گا اور اس کے تقرر کی مدت کی شرائط مندرجہ ذیل طریقے سے مقرر کی جائیں گی۔

(الف) عبوری عرصے کے لیے عالمی بنک

(ب) عبوری عرصے کے اختتام پر بھارت اور پاکستان کی حکومتیں مشترکہ طور پر یا اگر مذکورہ بالا کے مطابق درخواست موصول ہونے پر ایک ماہ کے اندر اندر تقرر عمل میں نہیں لایا جائے گا۔ تو پھر ایسا شخص یا باڈی تقرر عمل میں لائے گا جس کے بارے میں سالانہ بنیاد پر دونوں حکومتوں کے درمیان پہلے سے سمجھوتہ ہوچکا ہو یا ایسے سمجھوتے کی عدم موجودگی میں بینک اس بارے میں کارروائی کرے گا یہ تقرر فریقین کے مشورے سے شروع ہوگا عالمی بینک ہر تقرر کا اعلان کرے گا اگر کوئی اختلاف پیدا ہو جائے اور اس اختلاف کو معاہدے کی دفعات کے تحت طے کرنا ہوتو ذیل طریقہ کار عمل میں لایا جائے گا۔

(الف) وہ کمشنر جس کی رائے یہ ہوکہ اختلافی مسئلہ دفعات کے دائرہ میں آتا ہے، دوسرے کمشنر کو اپنے فیصلے سے آگاہ کرے گا اور اس سے غیر جانبدار ماہر مقرر کرنے کے لیے کہے گا۔ اس قسم کی اطلاع میں ان پیروں کی وضاحت کی ہوگی جن کے دائرے میں اختلافی مسئلہ یا اختلافی مسائل کے بارے میں ایک بیان بھی شامل ہوگا۔

(ب) دوسرے کمشنر کو اطلاع موصول ہونے کی تاریخ سے دو ہفتے کے اندر اندردونوں کمشنر اختلافی مسئلہ یا مسئلوں کے بارے میں ایک مشترکہ بیان تیار کرنے کی کوشش کریں گے۔

(ج) دو ہفتے ختم ہونے کے بعد پہلا کمشنر مناسب اتھارٹی سے ایک غیر جانبدار ماہر مقرر کرنے کے لیے کہے گا اس درخواست کی ایک نقل دوسرے کمشنر کو بھیجی جائے گی مذکورہ درخواست کے ساتھ مشترکہ بیان بھی منسلک ہوگا اور اگر ایسا نہ ہو تو ہر کمشنر تقرر عمل میں لانے والی اتھارٹی کو علیحدہ علیحدہ بیان ارسال کرے گا۔ ایسا کرتے وقت ہر کمشنر کو بیان کی ایک کاپی دوسرے کمشنر کو بھیجنا ہوگی۔

غیرجانبدار ماہر ہر اختلافی مسئلے کے بارے میں جو طریقہ کار خود معین کرے گا۔

(الف) ہر پارٹی کے دلائل سنے گا۔

(ب) وہ معاہدہ کی دفعات کی روشنی میں فیصلہ کرے گا اس کے علاوہ وہ کمیشن کی طرف سے پیش کردہ مصالحت کو مدنظر رکھے گا، جب تک دونوں پارٹیاں درخواست نہیں کریں گی وہ مالی معاوضہ کے متعلق کسی مسئلے پر کارروائی نہیں کرے گا۔ اگر کمیشن اس امر پر متفق نہ ہوسکے کہ کوئی خاص اختلافی مسئلہ اس تتمہ کے حصہ اول کے دائرے میں آتا ہے تو غیر جانبدار ماہر فریقین کے دلائل سننے کے بعد یہ فیصلہ کرے گا کہ زیربحث مسئلہ مذکورہ حصے کے دائرے میں آتا ہے یا نہیں۔ اگر وہ یہ فیصلہ کرے کہ مسئلہ مذکورہ حصے میں پڑتا ہے تو وہ اس مسئلہ کے حقائق کی روشنی میں فیصلہ کرے گا۔ اور اگر اس کا فیصلہ یہ ہو کہ مسئلہ زیر بحث مذکورہ حصے کے دائرہ میں نہیں آتا تو وہ کمیشن کو مطلع کرے گا کہ اس کی رائے میں زیر بحث مسئلہ تنازع تصور کیا جائے گا۔ اگر غیر جانبدار ماہر یہ فیصلہ کرے کہ مسئلہ جزوی طور پر مذکورہ حصے کے دائرہ میں آتا ہے تو وہ اپنی صوابدید سے مذکورہ حصے پر فیصلہ دے گا اور کمیشن کو مطلع کردے گا کہ اس کی رائے میں مسئلہ کا جو حصہ مذکورہ دائرہ میں نہیں آتا ہے اسے تصور کیا جائے۔

(ج) وہ کمیشن کو مطلع کرے گا کہ اس کی رائے میں سارے مسئلے کو تنازعہ تصور کیا جائے، دونوں حکومتیں غیر جانبدار ماہر کو اس کے فرائض کی انجام دہی کے لیے مطلوبہ سہولتیں مہیا کرنے پر متفق ہیں۔ غیر جانبدار ماہر اس اختلافی مسئلہ یا مسئلوں کے بارے میں جو اس کی طرف بھیجے جائیں گے جتنی جلد ممکن ہوا فیصلہ دے گا۔ اور فیصلے کی وجوہ بیان کرے گا۔ فیصلے کی نقول جس پر ماہر کے باقاعدہ دستخط ہوں گے ہر کمشنر اور بینک کو بھیجا جائے گا۔ہر فریق اپنے اخراجات خود برداشت کرے گا، غیر جانبدار ماہر کے اخراجات اور معاوضہ پر اس تتمہ کے مندرجات کے مطابق انجام کار وہ فریق برداشت کرے گا جس کے خلاف فیصلہ دیا جائے گا۔ ماہر اپنے فیصلے میں اخراجات اور معاوضے کے بارے میں یہ وضاحت کرے گا کہ ہر پارٹی کو کس قدر اخراجات برداشت کرنے پڑیں گے۔

قطعی فیصلہ

غیر جانبدار ماہر کا ان امور کے متعلقہ فیصلہ جو اس کے دائرہ اختیار میں آتا ہو قطعی ہوگا۔ اور فریقین کے لیے اس کی پابندی لازمی ہوگی۔ کمیشن کی رپورٹ پر غیر جانبدار ماہر ایسے اقدامات پر غور کرنے کے لیے فریقین سے کہے گا جو اس کی رائے میں اختلاف کو طے کرنے یا اس کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کے لیے مناسب ہوں گے۔ غیر جانبدار ماہر کے فیصلے سے اگر کوئی ایسا مسئلہ بشمول مالی معاوضہ کا دعویٰ پیدا ہوجائے جس کا فیصلہ کرنا غیر جانبدار ماہر کے دائرہ اختیار میں نہ ہو تو یہ مسئلہ تتمہ کی متعلقہ دیگر دفعات کے تحت طے کیا جائے گا۔

اخراجات

معاہدے کے نافذ العمل ہونے پر تیس دن کے اندر اندر بھارت اور پاکستان عالمی بنک کو پانچ پانچ ہزار امریکی پونڈ ادا کریں گے، جو امانت کے طور پر بنک کے پاس رہیں گے۔ غیر جانبدار ماہر کا معاوضہ اور اخراجات اور ہر ایسی مدد جس کی اسے ضرورت ہو گی عالمی بینک ان رقوم سے ادا کرے گا جو اس کے پاس اس سلسلے میں ہوں گی۔ معاوضہ اور اخراجات کے بارے میں بینک غیرجانبدار ماہر کی رپورٹ پر اعتماد کرے گا۔ غیر جانبدار کے فیصلہ دینے کی تاریخ سے بیس دن کے اندر اندر فریقین فیصلے کے مطابق بینک کو وہ رقم واپس کردیں گے جو بینک ماہر کو ادا کرے گا، اگر کسی وقت یہ محسوس ہوکہ ماہر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے بینک کے پاس کافی رقم جمع نہیں ہے تو وہ اس بارے میں اطلاع دے گا اور فریقین کو مساوی رقوم بینک میں جمع کرانی ہوں گی۔

راوی کے معاون دریاؤں سے پاکستان کے لیے پانی۔ تتمہ (ب)

(۱) اس تتمہ کی دفعات کا اطلاق دریائے راوی کی نہروں سے پاکستان کے زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے پانی پر ہوگا اور اس تتمہ کی دفعات کے مطابق پانی کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔

(۲) پاکستان راوی کے معاون بسنتار سے صرف ایک سو ایکڑ اراضی کی آبپاشی کے لیے سالانہ پانی لے گا وہ دریائے راوی کے مندرجہ ذیل معاونوں سے اس رقبہ کی آبپاشی کے لیے جس پر سیلاب کے پانی سے کاشت کی جاتی ہے پانی حاصل کرسکے گا لیکن اس کے لیے شرط یہ ہوگی کہ سیلاب سے جو رقبہ کاشت کیا جاتا ہے اسے جو پانی مہیا کیا جائے وہ مندرجہ ذیل رقبہ سے زیادہ نہ ہو۔

نام معاون زیادہ سے زیادہ سالانہ کاشت ایکڑوں میں

بسنتار ۱۴۰۰۰ ہزار

بیئن ۲۶۶۰۰ ہزار

ترناہ ۱۸۰۰ ہزار

اُج ۳۰۰۰ ہزار

(۴) پیراگراف دو اور تین کی دفعات کے مطابق پاکستان کو یہ حق نہیں ہوگا کہ وہ مذکورہ نہروں سے زائد پانی حاصل کرنے کے لیے بھارت سے مزید مطالبہ کرے۔

(۵) ۳۱ مارچ ۱۹۶۱ء تک پاکستان بھارت کو ایک گوشوارہ کے ذریعہ یہ اطلاع دے گا کہ اضلاع اور تحصیلوں میں (۱) کتنے رقبے پر آبپاشی کی گئی اور (۲) پیرا دو اور تین میں جن معاونوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کے پانی سے علاقے کی (جس کو سیلاب کے ذریعے کاشت کیا جاتا ہے) اس حد تک آبپاشی کی گئی ہے۔

(۶) جونہی ضلعی ہیڈ کوارٹر میں ہر فصل (خریف سے شروع ہوکر ربیع کے اختتام تک) کے اعداد و شمار مکمل کرلیے جائیں۔ پاکستان بھارت کو اس بارے میں مطلع کرے گا ان اعداد و شمار میں یہ بتایا جائے گا کہ ہر ضلع اور تحصیل میں سیلاب پر کتنی اراضی کاشت کی گئی ہے۔ لیکن یہ اطلاع اس سال کے تیس نومبر تک پہنچ جانی چاہیے۔

(بحوالہ: روزنامہ ’’کوہستان‘‘ لاہور۔ ۲۰ ستمبر ۱۹۶۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*