عمل اور ردِّعمل ایک اصول پر استوار ہیں، اسی طرح مالیاتی معاملات میں جب ایک فریق نقصان اٹھاتا ہے تو اس حوالے سے دوسرا فریق کہیں اور اس کا فائدہ بھی اٹھا رہا ہوتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ موجودہ مالیاتی بحران کا اصل فائدہ کس نے اٹھایا؟ امریکا سے تعلق رکھنے والے عالمی صہیونی سرمایہ دار جارج سورس نے جنوب مشرقی ایشیاء کی اسٹاک مارکیٹ میں سے اپنا سرمایہ اچانک نکال کر خطے کی اسٹاک مارکیٹ کو کیوں غیر مستحکم کیا؟ عالمی مالیاتی معاملات پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ جارج سورس عالمی شہرت کے حامل صہیونی روتھ شیلڈ خاندان کا فرنٹ مین ہے۔ اس خاندان کے امریکا سے لے کر جاپان تک بینکوں کا ایک گلوبل جال بچھا ہوا ہے۔ یہ اور دنیا کے دیگر صہیونی خاندان مل کر عالمی مالیات کو کنٹرول کرتے ہیں۔ سترہویں صدی سے اب تک اس خاندان نے کبھی کہیں ’’خسارے‘‘ کا سودا نہیں کیا۔ امریکا پر حکومت کرنے والے فیڈرل ریزرو بینک کے ساٹھ فیصد سے زائد حصص اسی صہیونی خاندان کی ملکیت ہیں۔ امریکا میں ۷۰۰ ملین ڈالر کا ’’بیل آئوٹ‘‘ منصوبہ اسی صہیونی مالیاتی سینڈیکیٹ کو نفع پہنچانے کے لیے منظور کیا گیا تھا، کیونکہ امریکی حکومت عراق اور افغانستان کی جنگ میں پہنچنے والے مالی خسارے کی وجہ سے ان بینکروں کا قرضہ اتارنے سے قاصر تھی۔ یہی وہ خسارہ ہے جس کی قیمت امریکی عوام کے ساتھ ساتھ ڈالر اور امریکی معیشت سے وابستہ باقی ماندہ دنیا کو ادا کرنا پڑی ہے، بلکہ تیل پیدا کرنے والے ممالک اس کی زد میں سب سے زیادہ آئے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ امریکا کی جانب سے امریکی پرائیویٹ صہیونی بینکوں کو سہارا دینے کے لیے ۷۰۰ ملین ڈالر کا بیل آئوٹ پیکج جاری کیا جاتا ہے۔ کانگریس اور سینیٹ میں ری پبلکن اور ڈیمو کریٹک ارکان کو امریکی جنرلوں کی جانب سے مارشل لاء کی دھمکی دی جاتی ہے، کیونکہ یہی وہ جنرل ہیں جو ریٹائر ہونے کے بعد انہی صہیونی بینکوں کے سرمائے سے دنیا بھر میں تباہی پھیلانے کے لیے اسلحے کی سپلائی کے ٹھیکے حاصل کرتے ہیں۔ اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے ایک طرف عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت اتنی نیچے کر دی گئی کہ ایک طرف روس کا تیل کوڑیوں کے دام ہو جائے، لیکن اس سے سب سے زیادہ نقصان اوپیک کو ہوا ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ بیل آئوٹ کی رقم بھی ۷۰۰ ملین ڈالر تھی اور تیل کی قیمت کم ہونے کی وجہ سے اوپیک کی جیب پر بھی ڈاکہ ۷۰۰ ملین ڈالر کا ڈالا گیا۔ کتنا عجیب اتفاق ہے ۔۔۔۔ اگر اس کے ردعمل کے طور پر اوپیک ممبران امریکا اور مغربی ممالک کو تیل کی سپلائی بند کر دیں تو امریکا سمیت یہ مغربی ممالک سر کے بل کھڑے ہو جائیں گے، لیکن ایسا کرے گا کون؟ اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ عالمی مالیاتی بحران کا فائدہ بھی اسی عالمی صہیونی مالیاتی گروپ کو حاصل ہوا ہے۔ اب اس عالمی منصوبے کے دوسرے رُخ کی جانب آتے ہیں۔
جس طرح خلیج کی پہلی جنگ کے بطن سے ’’نیوورلڈ آرڈر‘‘ نے جنم لیا تھا، اسی طرح موجودہ عراق اور افغانستان کی جنگ اور عالمی مالیاتی بحران کے بطن سے ’’نیا عالمی معاشی نظام‘‘ جنم لینے کے لیے تیار ہے۔ یہ کھیل اوباما کے صدارتی حلف کے بعد شروع کیا جائے گا۔ امریکا کے نومنتخب صدر باراک اوباما کا صدارتی کھیل ۲۰ جنوری ۲۰۰۹ء کو حلف اٹھانے کے بعد شروع ہو گا، لیکن اس سے پہلے ہی وہ اس قسم کے اقدامات اٹھا رہے ہیں اور جن افراد کو اپنی آنے والی کابینہ میں شامل کر رہے ہیں اس سے ان کے اور ان کی پشت پر کھڑی صہیونی مالیاتی ایمپائر کے عزائم بڑی حد تک کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔ دنیا باقاعدہ طور پر ۲۰ جنوری ۲۰۰۹ء کے بعد کس طرح رُخ کرے گی ہم اس کی جھلک دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امریکا سے شروع ہونے والے معاشی بحران نے جس طرح دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکا کے مالیاتی صہیونی ادارے ’’سنگل گلوبل کرنسی‘‘ رائج کرنے کا منصوبہ تشکیل دے رہے ہیں، تاکہ تمام دنیا کی اقتصادیات کو اپنی مٹھی میں بند کر سکیں۔ اوباما کی اقتصادی کمیٹی کے رکن اور فیڈرل ریزرو بینک کے سابق چیئرمین پال وولکر کا کہنا ہے کہ:
“A Global Economy Requires a Global Currency” (عالمی اقتصادیات عالمی کرنسی کی متقاضی ہے)۔
اوباما کی اس اقتصادی ٹیم میں صہیونی بینکر رابرٹ رابن بھی شامل ہے۔ سنگل گلوبل کرنسی ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ SGCA میں رقم ہے کہ ’’سنگل گلوبل کرنسی‘‘ ’’گلوبل سینٹرل بینک‘‘ کے ساتھ گلوبل مانیٹری یونین کے تحت رائج کی جائے گی، لیکن ان تمام معاملات سے قبل ’’گلوبل سینٹرل بینک‘‘ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ یہ بینک علاقائی بینکوں کے ذریعے عمل میں لایا جائے گا جو اس وقت رابرٹ رابن جیسے صہیونی بینکروں کے ہاتھ میں ہے۔ اوباما کی اقتصادی ٹیم میں شامل یہ شخص سٹی گروپ بینکنگ کا ڈائریکٹر بھی ہے یہی یہودی بینکر ’’نارتھ امریکن سینٹرل بینک‘‘ کا آغاز کر رہا ہے جو گلوبل بینک کی جانب پہلا قدم ثابت ہو گا۔
کینیڈا سے تعلق رکھنے والے فریزر انسٹی ٹیوٹ کے صہیونی ممبر ہربرٹ گروبل نے تجویز دی ہے کہ ’’نارتھ امریکن سینٹرل بینک‘‘ مانیٹری یونین کے ذریعے امریکا، کینیڈا اور میکسیکو کے لیے ایک یونٹ کی طرح کام کر سکے گا، وہ اسے “A Case for the amero” بھی کہتا ہے۔اس کے الفاظ ہیں کہ:
“The National banks of America, Canada and Mexico. will be replaced by a North American Central bank. like the European central bank it will have its own constitution. Thus the policies of the North American central bank will be free from partisan national politics.”
’’امریکا، کینیڈا اور میکسیکو کے سینٹرل بینکوں کو ’’نارتھ امریکن سینٹرل بینک‘‘ کے ذریعے بدل دیا جائے گا۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح یورپی یونین میں کیا گیا۔ اس بینک کا اپنا مالیاتی قانون ہو گا، اس طرح وہ نارتھ امریکن بینک کی قومی سیاسی پالیسیوں سے آزاد ہو گا‘‘۔
(The case for the amero: the institutions of a north American monetary union)
ایک اور صہیونی تھنک ٹینک سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز (CSIS) نے اس منصوبے کو شمالی امریکا کا مستقبل اور پراجیکٹ ۲۰۲۵ء کا نام دیا ہے۔ اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ باراک اوباما کامشیر برائے فارن پالیسی برزنسکی اس تھنک ٹینک کا ڈائریکٹر اور ٹرسٹی ہے!! “Slow road to hell” کے عنوان سے ایک مضمون میں برزنسکی نے اس خیال کا اظہار بھی کیا ہے کہ ’’ہم یک دم عالمی حکومت کے قیام کے لیے اچانک قدم نہیں اٹھا سکتے بلکہ اس کے لیے پہلے علاقائی طور پرمنظم ہونا پڑے گا‘‘۔
اس حوالے سے یہی خیال کیا جا رہا ہے کہ جس طرح یورپی یونین نے ’’یورو‘‘ EURO کے نام سے اپنی متحدہ کرنسی متعارف کرائی ہے اسی طرح ’’امیرو‘‘ “Amero” کے نام سے نئی گلوبل کرنسی معتارف کرانے کا منصوبہ زیر غور ہے، جو پہلے ’’نارتھ امریکن یونین‘‘ جو کینیڈا، امریکا اور میکسیکو پر مبنی ہے رائج کی جائے گی۔ اس کے بعد اسے باقی دنیا پر ڈالر کی جگہ مسلط کر دیا جائے گا ۔۔۔ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے؟ برطانیہ یورپ میں ہونے کے باوجود اپنے یورو کی بجائے برطانوی پائونڈ کی انفرادیت کیوں قائم رکھے ہوئے ہے! اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بینک آف انگلینڈ جسے دنیا برطانوی حکومت کا بینک سمجھتی ہے، درحقیقت ایک امریکی فیڈرل ریزرو کی طرح ایک پرائیویٹ بینک ہے جس کے سب سے زیادہ حصص روتھ شیلڈ خاندان کے پاس ہیں۔ اس صہیونی خاندان کا سب سے زیادہ یورپی سرمایہ اسی بینک کے ذریعے گردش کرتا ہے۔ اس لیے اگر برطانیہ فوراً یورو میں اپنی کرنسی لے آتا تو برطانوی عوام کو تو اس کا فائدہ ہوتا لیکن بینک آف انگلینڈ کے صہیونی مالکان کو خاصا خسارہ برداشت کرنا پڑتا، جس کی وجہ سے عالمی مالیاتی ساہو کاروں کا غلام تاج برطانیہ یا اس کی نام نہاد جمہوری حکومت پائونڈ کو یورو میں تبدیل نہ کرا سکی، جبکہ باقی یورپ نے اس صہیونی مالیاتی سازش سے بغاوت کرتے ہوئے یورو میں اپنی کرنسی کو تبدیل کر دیا۔ متحدہ یورپ کی واحد کرنسی کے سامنے پائونڈ کی افادیت جلد کھو جانے کے خوف سے شمالی امریکا میں نئی طرح کی مالیاتی سلطنت کے قیام کا منصوبہ وضع کیا گیا ہے جس میں جنوبی امریکا کے غریب ملک نہیں بلکہ شمالی امریکا کے امیر ملکوں امریکا، کینیڈا اور میکسیکو کو شامل کیا گیا ہے تاکہ تدریجاً اس کرنسی کو پہلے براعظم امریکا اس کے بعد باقی دنیا پر مسلط کیا جا سکے۔ اس کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ چین گزشتہ آٹھ دس برسوں کے دوران ڈالر کی شکل میں بڑا زرِمبادلہ جمع کرتا رہا ہے۔ اُس کے بعد اس نے ڈالر کو بین الاقوامی کھلی مارکیٹ میں پھینک کر اس کی جگہ سونا ذخیرہ کر لیا۔ یوں ڈالر بین الاقوامی مارکیٹ میں محض کاغذ کے ٹکڑے کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس تاثر کو بھی ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی مافیا کے لیے ’’امیرو‘‘ Amero نامی کرنسی کا اجراء ضروری ہو گیا تھا۔ ستّر کی دہائی میں امریکی حکومت میں شامل اپنے مالیاتی کارندوں کے ذریعے مالیاتی مافیا نے ڈالر کو سونے سے ڈی لنک قرار دلوا دیا تھا، جس کے بعد فیڈرل بینک کو اجازت تھی کہ سونے کی مقدار سے زائد ڈالر چھاپ کر مارکیٹ میں لا سکتا تھا۔ اس قانون نے امریکی قوم اور معیشت کو آہستہ آہستہ دیوالیہ کی جانب رواں دواں کر دیا تھا لیکن اتنا بڑا مالیاتی ٹائی ٹینک ڈوبنے کے لیے بھی کئی دہائیاں درکار تھیں۔ اس صورتحال کو اس وقت زیادہ دھچکا لگا جب امریکی بینکروں نے یہاں کا سونا امریکا سے یورپ منتقل کرنا شروع کر دیا۔ یہ ایک طرح سے امریکی حکومت پر دبائو تھا کہ اب ’’نیا سسٹم‘‘ ہی امریکا کو مالیاتی ’’دھڑن تختے‘‘ سے بچا سکتا ہے۔ اس کی مثال امریکا کے ۱۹۰۷ء کے مالیاتی بحران سے لی جا سکتی ہے۔ امریکا کی اسٹاک مارکیٹ میں سے ’’پراسرار ہاتھوں‘‘ نے جب اچانک سرمایہ نکالا تو امریکا میں ایک خوف کی لہر دوڑ گئی۔ اسی بحران کے بطن سے ایک نئی صہیونی مالیاتی سازش نے جنم لیا تھا، جس نے ہمیشہ کے لیے امریکا کو پنجۂ یہود میں دے دیا۔ اچانک امریکا میں جے پی مورگن (۱۸۳۷۔۱۹۱۳) نامی بینکر نے امریکی معیشت کو ’’سہارا‘‘ دینے کے لیے ایک مہم کا آغاز کیا اور حیرت انگیز طور پر اس نے گرتی ہوئی وال اسٹریٹ کو بچانے میں کامیابی حاصل کر لی۔ اس کی تفصیلات خاصی طویل ہیں، مختصراً مورگن نے اپنے تمام صہیونی بینکر ساتھیوں کے ساتھ مل کر امریکی معیشت کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کیا لیکن اس کی قیمت امریکی قوم کو ’’فیڈرل ریزرو بینک‘‘ کی شکل میں ادا کرنا پڑی جو جے پی مورگن اور دیگر گیارہ مالیاتی خاندانوں کی ملکیت تصور کیا جاتا ہے۔ یوں دنیا خصوصاً امریکا اور یورپ ایک نئے مالیاتی نظام سے دوچار کر دیئے گئے۔ خاصے عرصے بعد جا کر اس حقیقت کا علم کچھ لوگوں کو ہوا کہ جے پی مورگن درحقیقت برطانیہ کے روتھ شیلڈ خاندان کا ’’فرنٹ مین‘‘ تھا اور انہی کا سرمایہ اپنے اور دیگر بینکروں کے سرمائے میں شامل کر کے امریکا کو معاشی بدحالی سے مشروط طور پر نکال رہا تھا۔ آج پھر وہی صورت حال پیدا کر دی گئی ہے۔ امریکا اور یورپ کے علاوہ دنیا کے بڑے بڑے ممالک بھی اس مالیاتی بحران کا سرا تلاش کرنے میں ناکام ہیں۔ سب ایک ہی بات جانتے ہیں کہ ’’دنیا اس وقت ایک بڑے مالیاتی بحران سے دوچار ہے‘‘۔ اس بحران سے نکالنے کے لیے جو سرمایہ صرف کیا جائے گا پھر دنیا اس کی قیمت ’’نئی گلوبل کرنسی‘‘ کی شکل میں ادا کرے گی۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’ندائے خلافت‘‘ لاہور۔ ۴تا ۱۰دسمبر ۲۰۰۸)
Leave a Reply