رائے عامہ کے جائزوں کے حوالے سے عالمگیر شہرت کے حامل امریکی ادارے پیو ریسرچ سینٹر کے تحت ہونے والے ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ جرمنی میں ۵۳ فیصد افراد چین کو مثبت نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ جرمنی اب واضح طور پر مشرق کی طرف دیکھ رہا ہے۔
چین اور جرمنی کے باضابطہ سفارتی تعلقات اکتوبر ۱۹۷۲ء میں قائم ہوئے تھے۔ تب سے اب تک دونوں ممالک تعلقات مستحکم تر کرنے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ ۲۰۰۴ء سے دونوں ممالک سالانہ اجلاس طلب کرتے آئے ہیں اور ۲۰۱۰ء سے اب تک گورنمنٹ کنسلٹیشن میکینزم پر عمل کرتے آئے ہیں۔ ۲۰۱۴ء میں دونوں ممالک نے باہمی تعلقات کو جامع اسٹریٹجک پارٹنر شپ کے ذریعے مزید مستحکم کیا۔ ۲۰۰۶ء سے اب تک جرمنی نے چین سے بھرپور دوستی ثابت کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ جرمن چانسلر اینجلامرکل نے چین کا بارہ مرتبہ دورہ کیا ہے۔ آخری سرکاری دورہ ستمبر میں ہوا۔
یہ بات بہت حد تک ممکن دکھائی دیتی ہے کہ مستقبل قریب ہی نہیں، مستقبل بعید میں یورپی یونین میں چین کا سب سے بڑا معاشی اور تزویراتی شراکت دار جرمنی ہی رہے گا۔ اس دوران دونوں ممالک مختلف شعبوں میں اپنے تعلقات کو مختلف طریقوں سے غیر معمولی وسعت دے سکتے ہیں۔
غیر یقینی حالات کا عہد
ایک طرف تو یورپی یونین سے برطانیہ کے الگ ہونے کا معاملہ ہے اور دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سرکشی پر مبنی پالیسیاں ہیں، جنہوں نے جرمنی کو چین میں مزید دلچسپی لینے کی تحریک دی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے بہت سے معاملات میں ایسی پالیسیاں اپنائی ہیں کہ جرمنی کو کہیں اور دیکھنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان فاصلے بڑھتے جارہے ہیں۔ امریکا اور چین کے درمیان چین کی ٹیکنالوجی کمپنی ہواوے کے حوالے سے بھی تنازع پایا جاتا ہے۔ امریکا کا الزام ہے کہ ہواوے نے امریکی ٹیکنالوجیز چرائی ہیں۔ اس سلسلے میں جرمنی بھی دلدل میں پھنسا ہے۔ امریکی حکام کا دعویٰ ہے کہ جرمنی نے ہواوے کو مضبوط بننے میں مدد دی ہے۔ اینجلا مرکل نے ۲۰۱۷ء میں کہا تھا کہ یورپ کو اپنی تقدیر اپنے ہاتھ میں لینا ہوگی۔ اب ایسا لگتا ہے کہ وہ اس راہ پر غیر معمولی حد تک آگے بڑھ چکی ہیں۔
اب ایسا لگتا ہے کہ جرمنی اور یورپی یونین بریگزٹ کے پیش نظر اور ٹرمپ انتظامیہ کی ناموزوں پالیسیوں کے باعث چین سے تعلقات کو مزید وسعت دینے کے لیے کام کریں گے۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا جرمن قیادت چین سے بہتر اسٹریٹجک تعلقات پروان چڑھانے کے لیے اپنی اقدار کو قربان کرنے پر آمادہ ہوجائے گی۔
یورپی یونین میں چینی سرمایہ کاری
ایک عشرے سے بھی زائد مدت سے چین دنیا بھر میں اسٹریٹجک نوعیت کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اس نے جرمنی اور یورپی یونین کے دیگر ممالک میں بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ لگا رکھا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپی یونین میں چین کی سرمایہ کاری ۳۵۰؍ارب ڈالر سے زیادہ کی ہے۔ چین اور جرمنی کے درمیان معاشی تعلقات کا حجم ۲۰۰؍ارب ڈالر سے زائد کا ہے۔ جرمنی کی ۵ ہزار سے زائد فرمز چین میں کام کر رہی ہیں اور جرمنی میں کام کرنے والی چینی کمپنیوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے۔
چین نے یورپ میں اپنی سرمایہ کاری کلیدی شعبوں تک محدود رکھی ہے۔ بندر گاہوں اور ایئر پورٹس کے علاوہ فٹبال ٹیموں میں بھی چین نے خوب سرمایہ کاری کی ہے۔ چین نے انٹرمیلان، مانچسٹر سٹی، ایسپینیول اور دیگر بڑی یورپی فٹبال ٹیموں میں سرمایہ لگا رکھا ہے۔ یورپی یونین کے لیے چینی برآمدات ۴۰۰؍ارب ڈالر سے زائد کی ہیں جبکہ چین کے لیے یورپی برآمدات ۲۰۰؍ارب ڈالر تک رہی ہیں۔ مرکیٹر انسٹی ٹیوٹ فار چائنیز اسٹڈیز کے مطابق ۲۰۰۸ء میں یورپی یونین کے لیے چین کی سرمایہ کاری ۷۶ کروڑ ۵۰ لاکھ یورو تھی جو ۲۰۱۷ء میں ۳۰؍ارب یورو تک جا پہنچی۔ رھوڈیم گروپ کے مطابق ۲۰۰۸ء میں یورپی یونین میں چینی سرمایہ کاری ۸۴ کروڑ ڈالر تک تھی، جو ۲۰۱۶ء میں ۴۲؍ارب ڈالر تک جاپہنچی۔ ۲۰۱۷ء میں ۳۰؍ارب ڈالر کی اور ۲۰۱۸ء میں کم و بیش ۱۷؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی۔ جرمنی میں ۲۰۱۶ء میں ۱۰؍ارب ڈالر اور ۲۰۱۸ء میں ۲؍ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی گئی۔ ۲۰۱۷ء میں چین کے ایچ این اے گروپ نے جرمنی کے ڈوئچے بینک میں ۹ء۹ فیصد تک اسٹیکز خرید لیے۔ اس وقت چین کے اسٹیکز کی حد ۳ء۶ فیصد تک ہے۔
ایک اور چینی گروپ Geely نے کاریں اور ٹرک بنانے والے ادارے ڈیلمر میں ۱۰؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جس کا مقصد اس ادارے میں کم و بیش ۱۰ فیصد کی حد تک اسٹیکز حاصل کرنا ہے۔ ڈیلمر کے بڑے برانڈز میں مرسیڈیز بینز نمایاں ترین ہے۔ بیجنگ آٹو موٹیو گروپ نے بھی ڈیلمر میں ۵ فیصد تک اسٹیکز خریدنے کے لیے ۳؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔
جرمنی کے لیے چین کے سفیر وو کین کے حوالے سے نیو چائنا ڈیلی نے بتایا ہے کہ چین اور جرمنی کے تعلقات غیر معمولی حد تک وسعت اور گہرائی حاصل کرچکے ہیں۔ دونوں ممالک کا اشتراکِ عمل بڑھتا ہی جارہا ہے۔ وو کین کا مزید کہنا ہے کہ جرمنی اور چین ٹیکنالوجی کے شعبے میں غیر معمولی اشتراکِ عمل کی منزل سے گزر رہے ہیں۔ آٹو موبائل، اسمارٹ مینوفیکچرنگ، ڈجیٹلائزیشن، مصنوعی ذہانت، الیکٹریکل وہیکلز اور مستقبل کے حوالے سے غیر معمولی اہمیت رکھنے والے شعبوں میں چین اور جرمنی کی دوستی اور اشتراکِ عمل کا دائرہ وسعت اختیار کر رہا ہے۔ دونوں ممالک مستقبل کے حوالے سے اہم سمجھے جانے والے شعبوں میں تعاون بڑھا رہے ہیں۔ جرمنی غیر معمولی مہارت کا حامل ہے۔ چین میں تیزی سے کام کرنے کی صلاحیت ہے۔ چینی ماہرین کسی بھی چیز کی تیزی سے نقل کرنے کے حوالے سے غیر معمولی مقام رکھتے ہیں۔ چینیوں میں کام کرنے کا بھرپور جذبہ پایا جاتا ہے۔ چین اور جرمنی اپنی اپنی خصوصیات کے ساتھ میدان میں آئے ہیں تاکہ دنیا کو بتاسکیں کہ یہ اشتراکِ عمل بہت کچھ تبدیل کرسکتا ہے۔ چین اب تک عمل نواز رویے کا حامل رہا ہے۔ وہ کسی بھی شعبے میں ہونے والی پیش رفت کا جواب بہت تیزی سے دیتا ہے۔ عالمی معیشت میں اس کا حصہ غیر معمولی ہے۔ جرمنی سے مل کر وہ اس حوالے سے اپنی پوزیشن مزید مستحکم کرسکتا ہے۔
اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ چین اور جرمنی کے درمیان بڑھتے ہوئے اشتراکِ عمل کا امریکا کس طور مقابلہ کرے گا۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ دوسری اقوام سے تعلقات میں اگر امریکا صرف اپنے مفادات کو اولیت نہ دے تو عالمی سطح پر اپنی پوزیشن کو برقرار رکھ سکتا ہے۔ یہ بات اب راز نہیں رہی کہ چین اسٹریٹجک شعبوں میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے اور کر رہا ہے۔ بہت سے ترقی یافتہ ملکوں میں چین نئی توانائی والی گاڑیوں، روبوٹیکس، بغیر ڈرائیور کے چلائی جانے والی کاروں، میڈیکل ٹیکنالوجی اور ایئرو اسپیس اکوپمنٹس میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ چین اور جرمنی کے درمیان تجارت کا بڑھتا ہوا حجم اس بات کی واضح نشاندہی کر رہا ہے، چینی قیادت ترقی یافتہ ممالک سے بڑے پیمانے پر اقتصادی تعلقات استوار کرکے اُن کی ٹیکنالوجی سے زیادہ سے زیادہ سیکھنا چاہتی ہے۔ چین نے تین عشروں سے بھی زائد مدت کے دوران عالمی سطح پر تجارت کا دائرہ وسیع تر کرکے جو مقام بنایا ہے اُس کی بدولت اب وہ عالمی تجارت میں شیر کا حصہ پانے میں کامیاب ہے۔
ساتھ ہی ساتھ اس حوالے سے بھی تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے کہ چین نے جرمنی کے اسٹریٹجک شعبوں میں غیر معمولی سرمایہ کاری کی ہے۔ مثلاً بینڈیزوربینڈ ڈیر ڈوئسچن انڈسٹریز (بی ڈی آئی) نے جرمنی میں غیر ملکی سرمایہ کے غیر معمولی حجم اور حقِ ملکیت سے متعلق خبردار کیا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ وزیر اقتصادیات پیٹر الٹامائر کی قیادت میں جرمنی اپنے اسٹریٹجک سیکٹرز کو ہر طرح سے محفوظ رکھتے ہوئے عالمی سطح پر مسابقت کے موڈ میں ہے۔
جرمنی نے چین سے کہا ہے کہ وہ نئے عالمی نظام کی تیاری میں اپنا کردار ادا کرے، ماحول کے تحفظ سے متعلق اپنی ذمہ داری محسوس کرے اور انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی تمام ذمہ داریوں سے بہ طریق احسن عہدہ برآ ہو۔ انسانی حقوق کے حوالے سے چین کے ریکارڈ پر جرمنی کو تحفظات ہیں۔ جرمنی چاہتا ہے کہ چین اس حوالے سے اپنا ریکارڈ بہتر بنائے۔
جن معاملات میں جرمنی اور امریکا ایک پلیٹ فارم پر ہیں، اُن میں بیرونی کمپنیوں کو چین میں آزادانہ کام کرنے کی اجازت دینے کا معاملہ بھی شامل ہے۔ جرمنی بھی چاہتا ہے کہ چین اپنی معیشت کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر بیرونی اداروں کو کام کرنے کی کھلی اجازت نہ دینے کی پالیسی تبدیل کرے۔ انٹیلیکچیوئل پراپرٹی اور معیشتی اصلاحات کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ چین اور یورپی یونین کے درمیان سینتیسواں ہیومن رائٹس ڈائیلاگ اجلاس یکم اور ۲؍اپریل ۲۰۱۹ء کو برسلز میں ہوا۔ فریقین نے انسانی حقوق سے متعلق مختلف معاملات پر سیر حاصل گفت و شنید کی۔ جرمنی کا موقف اس حوالے سے واضح رہا ہے … یہ کہ چین انسانی حقوق کا ریکارڈ بہتر بنائے۔ یورپی یونین چاہتی ہے کہ چینی قیادت سنکیانگ کے مسلم قائدین عبدوحیلل ذنون، الہام توہتی اور عبدوکریم عبدوویلی کو رہا کرے۔ ۷ ستمبر کو چین کے دورے میں اینجلا مرکل نے ایک بار پھر ہانگ کانگ کے حوالے سے چین کی انسانی حقوق سے متعلق پالیسی پر تحفظات کا اظہار کیا۔ جرمنی چاہتا ہے کہ چینی قیادت ہانگ کانگ کے حقوق کا احترام کرے۔ خیر، چینی قیادت کو زیادہ بُرا تو اس بات کا لگا کہ جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس سے ہانگ کانگ کے سیاسی کارکن جوشوآ وانگ نے ملاقات کی۔ چین نے جرمنی سمیت ساری دنیا کو اس معاملے سے دور رہنے کا ’’مشورہ‘‘ دیا ہے۔ چین نے بارہا یہ کہا ہے کہ وہ اپنے معاملات میں کسی بھی ملک کی مداخلت قبول یا برداشت نہیں کرے گا۔
امریکا اور یورپی یونین کے درمیان تجارت کے حوالے سے اختلافات نے خطرناک شکل اختیار کرنا شروع کردی ہے۔ امریکا نے یورپی یونین کے ارکان پر سخت ٹیرف نافذ کردیا ہے۔ بریگزٹ نے اس معاملے کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے۔ ایسے میں جرمنی کا چین کی طرف جھکنا فطری امر ہے تاکہ کسی بھی بڑی خرابی کی صورت میں وہ بڑے نقصان سے بچنے میں چین سے بھرپور مدد پاسکے۔ چین کے پاس زر مبادلہ کے ذخائر انتہائی غیر معمولی ہیں۔ وہ زرمبادلہ کی مدد سے کہیں بھی اپنی مرضی کی صورتِ حال پیدا کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ چین کو اس حوالے سے ایڈوانٹیج امریکا نے خود دیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی معیشت کو محفوظ رکھنے کے چکر میں ایسے اقدامات کیے ہیں، جن سے کئی ممالک بدظن و بد دل ہوکر چین کی طرف دیکھنے پر مجبور ہیں۔ امریکا کو دوبارہ عظیم بنانے سے متعلق ٹرمپ انتظامیہ نے جو پالیسیاں اختیار کی ہیں، اُن سے اس کے عالمی اتحادی بدظن اور نالاں ہیں۔ اس کے نتیجے میں امریکا عالمی اسٹیج پر تنہا ہوتا جارہا ہے۔ اس وقت چین ابھر رہا ہے۔ اگر کل کو کوئی اور ملک بھی امریکی بالا دستی کے لیے چیلنج بن کر ابھرا تو امریکا کا رویہ اپنے اتحادیوں کے لیے خاصا جارحانہ ہو جائے گا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Sino-German Relations: Is Germany an agent of change in global affairs?” (“Daily Sabah”. Oct. 3, 2019)
Leave a Reply