
مصر کے لوگ بہت پہلے سے جانتے تھے کہ نائب وزیراعظم اور سابق وزیر دفاع جنرل عبدالفتاح السیسی صدارتی انتخاب جیت جائیں گے۔ مگر خود السیسی نے کوشش کی ہے کہ مصر کے لوگ ان کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ نہ جان پائیں۔ انتخابی مہم نے ان کے ذاتی کردار اور مزاج کے بارے میں کم ہی کوئی اشارہ دیا۔ ٹی وی پر ان کے جو انٹرویو نشر ہوئے، وہ بھی بہت عمدگی سے ایڈٹ کیے گئے تھے اور جنرل عبدالفتاح السیسی نے ملک کے بارے میں اپنے وژن کی کوئی جھلک لوگوں کے سامنے نہیں آنے دی۔ جنرل السیسی نے دعویٰ کیا تھا کہ عسکریت پسندوں نے انہیں کھل کر انتخابی مہم نہیں چلانے دی اور عوام کو ایسا کوئی بھی دعویٰ قبول کرنے میں کوئی تامّل نہ تھا۔
جنرل عبدالفتاح السیسی نے لاکھ کوشش کی اور خاموش رہ کر اپنے بارے میں لوگوں کو کم کم جاننے دیا، مگر پھر بھی چند ماہ کے دوران ان کے مزاج اور طرزِ عمل سے ایسا بہت کچھ ظاہر ہوا ہے جس کی بدولت لوگوں کو ملک کے بارے میں ان کی سوچ اور منصوبوں کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے کا موقع ملا ہے۔ میری طرح بہت سے دوسرے لوگوں کو بھی یہ رائے قائم کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہو رہی کہ جنرل السیسی اپنی صدارت کو جائز اور درست ثابت کرنے کے لیے اسلام کا بھرپور سہارا لیں گے۔ اور انہوں نے چند ایسے اشارے بھی دیے ہیں جن کی مدد سے کوئی بھی اسلام کی طرف ان کے بڑھتے جھکاؤ کا اندازہ لگا سکتا ہے۔
جنرل السیسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت خاموش طبع اور تنہائی پسند ہیں۔ وہ کم بولتے ہیں اور اپنے خیالات اور وژن کے بارے میں کسی کو رائے قائم کرنے کا موقع نہیں دیتے۔ دوست بھی ان کے بہت کم ہیں۔ انہیں بیشتر معاملات میں خاموش ہی دیکھا گیا ہے۔ ان کے تنہائی پسند مزاج اور سنجیدگی ہی نے انہیں سابق وزیر دفاع جنرل محمد حسین طنطاوی کا فیورٹ بنایا تھا۔ جو افسر جنرل السیسی کے قریب تھے وہ اس بات سے خوش اور مطمئن تھے کہ انہوں نے جنرل طنطاوی کی پرستش نہیں کی اور ان سے قریبی تعلق کی بنیاد پر فوائد بٹورنے کی کوشش بھی نہیں کی۔
جنرل عبدالفتاح السیسی ایک سال سے زائد مدت سے مصر کے لیڈر ہیں اور اس دوران انہوں نے اہم عہدوں پر اپنے قریبی ساتھیوں کو تعینات کرنے میں بھرپور دلچسپی لی ہے۔ ان ساتھیوں میں ان کے ملٹری اکیڈمی کے دور کے دوست بھی اور ہم جماعت بھی شامل ہیں۔ ان میں وزیر دفاع اور ری پبلکن گارڈ کے سربراہ بھی شامل ہیں۔ میکینائزڈ انفنٹری میں، جس نے جنرل السیسی کو بہت کچھ سکھایا، وہ اب جنرل انٹیلی جنس کا سربراہ ہے اور جنرل السیسی کے بیٹے کا سُسر اور ملٹری اکیڈمی میں ہم جماعت اب آرمی چیف ہے۔ اہم ترین عہدوں پر قریب ترین ساتھیوں اور دوستوں کو تعینات کرنے کے رجحان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کو چلانے کے معاملے میں جنرل السیسی کسی بھی ایسے آدمی پر بھروسا نہیں کریں گے جس سے ان کی دوستی نہ ہو اور جسے وہ اچھی طرح جانتے نہ ہوں۔ ان کا مزاج ہمیشہ سے ایسا ہی رہا ہے یعنی جن سے اچھی واقفیت ہو، اُنہیں قبول کیا جائے اور جن سے معمولی شناسائی ہو، اُنہیں دور رکھا جائے۔
پالیسی کے حوالے سے اپنے خیالات لوگوں تک پہنچانے کے معاملے میں جنرل السیسی انتخابی مہم کے دوران بہت پریشان رہے کیونکہ وہ لوگوں کو کسی نہ کسی طور باور کرانا چاہتے تھے کہ وہ زیادہ مذہبی نہیں ہیں۔ جنرل السیسی نے اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے صدر محمد مرسی کا تختہ الٹنے کے بعد جب خود کو عوام کے سامنے پیش کیا تھا، تب ان کے ساتھ کوپٹک پوپ اور جامعہ ازہر کے سربراہ کے ساتھ ساتھ معروف سَلَفی عالمِ دین گلال المُرّا بھی موجود تھے۔ انہوں نے پوری کوشش کی تھی کہ اہل وطن کو یقین دلائیں کہ وہ انتہا پسندی کے قائل نہیں اور اعتدال پسند مسلم علما اور دانش وروں کی بھرپور حمایت سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران اور اس سے قبل بھی جنرل السیسی نے سخت نظریات رکھنے والی جماعتوں سے خود کو دور رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور ساتھ ہی اعتدال پسند رہنماؤں کو ساتھ رکھنے پر توجہ دی ہے۔ ان میں معروف اسکالر اور سابق مفتی اعظم علی جمعہ بھی شامل ہیں۔ اسلام کے بارے میں علی جمعہ کی تعبیر مصر کی وزارت خارجہ اور مغرب کے مطلب کی ہے۔ جنرل السیسی کو معروف صحافی اور سرکردہ سیکولر حسنین ہیکل، معروف پبلشر اور جمہوریت کے علم بردار ہشام قاسم اور سابق وزیر خارجہ امر موسیٰ کی بھی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے۔
ویسے تو جنرل السیسی نے خود کو ہر اعتبار سے اعتدال پسند ثابت کرنے کی کوشش کی ہے مگر ان کے نظریات کی ایک جھلک گزشتہ برس معروف اخبار ’’المصرالیوم‘‘ کے لیے انٹرویو کے دوران نظر آئی تھی۔ جب ان سے ان کے وژن کے بارے میں پوچھا گیا اور یہ بھی کہ کیا انہوں نے کبھی آرمی چیف اور صدر بننے کا خواب بھی دیکھا تھا تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ ہاں ’’انہوں نے آرمی چیف اور صدر بننے کے بارے میں سوچا تھا اور یہ بھی کہ ان کے ہاتھ میں ایسی تلوار ہوگی، جس پر خون سے لکھا ہوگا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘
جنرل السیسی نے مصر کے عوام سے اپنے نظریات چھپانے کی کوشش بہت کی ہے مگر پھر کچھ نہ کچھ سامنے آ ہی جاتا ہے۔ ۲۰۱۱ء میں جب خواتین مظاہرین پر فوج کی طرف سے تھوپے جانے والے ’’ورجنی ٹیسٹ‘‘ پر لوگوں نے اعتراض کیا تو جنرل السیسی نے کہا کہ ملک کے سب سے زیادہ باعزت ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے یہ ان کی ذمہ داری تھی کہ طے کریں کہ خواتین مظاہرین بھی باعزت رہی ہیں۔ انہوں نے مصری عوام پر زور دیا ہے کہ وہ ملک کو پُرامن و مستحکم رکھنے کے لیے اللہ، فوج اور پولیس پر بھروسا رکھیں۔ اُنہوں نے ملک کے بیشتر اداروں اور معاملات میں پائی جانے والی بدعنوانی کو اسلامی تعلیمات سے دوری کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے قول و فعل کا تضاد ختم کریں اور خود کو اللہ کے احکام کے مطابق بدلیں۔ انتخابی مہم کے پہلے ٹی وی انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ خارجہ پالیسی کن بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کریں گے تو انہوں نے سعودی عرب کے شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کو سراہا۔ اس کا ایک مطلب تو یہ تھا کہ وہ محمد مرسی کا تختہ الٹے جانے کے بعد مصر کی غیر معمولی امداد پر سعودی فرماں روا کا شکریہ ادا کرنا چاہتے تھے اور دوسرا مفہوم یہ تھا کہ وہ بھی اسلام کی اُسی سخت تعبیر کو اپنانے پر یقین رکھتے ہیں جو سعودی عرب نے اپنا رکھی ہے۔ جنرل السیسی نے سلفی علما کی طرف سے ملنے والی حمایت پر ان کا شکریہ ادا کرنے اور اس حمایت کا اعتراف کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سلفی تحریک کی سرکردہ شخصیات کو بیورو کریسی یا کابینہ میں اہم منصب دے سکتے ہیں۔
جنرل السیسی کی تربیت قاہرہ کے علاقے گمالیہ میں ہوئی۔ اس علاقے کو مصری شیعوں کا گڑھ بھی مانا جاتا ہے اور اسی علاقے میں جامعہ ازہر بھی واقع ہے جس کا شمار عالمِ اسلام کے نمایاں مذہبی تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔ جنرل السیسی کا تعلق ایک قدامت پسند گھرانے سے ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ جنرل السیسی نے چھوٹی عمر میں قرآن حفظ کیا تھا۔ سرکاری اخبار ’’الاہرام‘‘ سے منسلک رپورٹر دینا عزت کے مطابق جنرل السیسی اب بھی ہفتے میں دو دن روزہ رکھتے ہیں، پانچوں وقت کی نماز پڑھتے ہیں اور اپنی گفتگو میں اسلامی تعلیمات کے حوالے شامل کرنا نہیں بھولتے۔ وہ اب بھی ایسی محافل میں شریک ہونا پسند نہیں کرتے جن میں شراب پی جاتی ہو اور خواتین قابل اعتراض لباس میں شریک ہوں۔ عام مصری فوجی افسران کے برعکس جنرل السیسی اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ان کے گھر اور گھرانے کی تمام خواتین حجاب میں رہیں۔
۲۰۰۶ء میں یو ایس وار کالج میں تربیت حاصل کرنے کے دوران ایک پیپر میں انہوں نے لکھا تھا کہ مصر میں جمہوریت صرف اسلامی تعلیمات کی روشنی میں آسکتی ہے اور ان کا دعویٰ تھا کہ اس حوالے سے اسلام میں واضح تعلیمات موجود ہیں۔ جنرل السیسی کی مذہبیت دیکھتے ہوئے ہی صدر محمد مرسی اور ان کے رفقا نے اُن پر غیر معمولی بھروسا کیا تھا۔ اخوان کے مرکزی قائدین میں سے چند ایک کا خیال تھا کہ جنرل السیسی ان کی تحریک کے حامی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ انہیں جنرل طنطاوی پر فوقیت دے کر وزیر دفاع بنایا گیا۔
یہ نکتہ قابل غور ہے کہ جنرل السیسی اخوان کے مخالف نظریاتی بنیاد پر نہیں ہیں۔ انہوں نے کسی بھی مرحلے پر اخوان المسلمون کے نظریات کے حوالے سے کوئی اختلافی بیان نہیں دیا ہے۔ اخوان سے ان کا اصل جھگڑا وہی ہے جو سعودی قیادت کا ہے۔ یعنی یہ کہ اخوان ریاستی نظام پر قابض ہونا چاہتی ہے۔ اخوان کی طرح جنرل السیسی بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ریاست کو عوام کے اخلاق درست کرنے پر بھرپور توجہ دینی چاہیے تاکہ وہ ہر اعتبار سے متوازن اور پُرسکون زندگی بسر کریں۔ اختلاف صرف اس بات پر ہے کہ عوام کی اخلاقی تربیت کون کرے۔ جنرل السیسی کہتے ہیں کہ یہ کردار فوج کو ادا کرنا ہے۔ وہ اس حوالے سے فوج کو مسیحا کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ خود کو بھی بہت حد تک مسیحا کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
جنرل السیسی اور فوج کا اسلامی تعلیمات سے مطابقت رکھنا اور ہم آہنگ رہنا اقتدار برقرار رکھنے کا ایک ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔ جن اسلامی اداروں اور تنظیموں کو جنرل السیسی اور ان کے رفقا قابلِ قبول سمجھتے ہیں، وہ ان کے اقتدار کو قدرے جائز حیثیت دیں گے اور اس کے عوض ریاستی اداروں میں ان اسلامی اداروں اور تنظیموں کو بھی کچھ نہ کچھ تو ملے گا۔ سعودی حکمرانوں سے مصری سَلَفیوں کے بہتر مراسم ہیں۔ اس صورت میں مصر کی خارجہ پالیسی پر اسلامی تنظیموں کے اثرات بھی گہرے ہوسکتے ہیں۔ اسلامی تنظیموں کی بھرپور معاونت سے فوج کا معیشت پر کنٹرول بڑھ بھی سکتا ہے، کیونکہ وہ یہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے گی کہ جو کچھ وہ کر رہی ہے، وہ اسلامی معیشت کے اصولوں کے بھی مطابق ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسلامی نظریات کی بات کرکے مصر کی فوج اقتدار پر اپنا کنٹرول زیادہ عمدگی سے قائم رکھ سکے گی اور یوں وہ اپنے مخالفین کو زیادہ سختی سے کچلنے میں کامیاب رہے گی۔ انتخابی مہم کے دوران جنرل السیسی نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا تھا۔ مگر خیر اب مصریوں اور اہل مغرب کو ایسی ہر تبدیلی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
“Sisi’s secret Islamism”.(“Foreign Affairs” USA. May 26, 2014)
Leave a Reply