
ورلڈ کشمیر اویئرنیس کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر غلام نبی فائی نے کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے چھ نکاتی ایجنڈا پیش کیا ہے۔ یہ ایجنڈا انہوں نے فریمونٹ، کیلی فورنیا میں ’’کشمیر: اے ریمائنڈر ٹو امریکن پالیسی میکرز‘‘ کے زیرِ اہتمام سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پیش کیا۔ سیمینار کا اہتمام ’’امریکن مسلم الائنس‘‘ اور ’’پاکستانی امریکن ڈیموکریٹک فورم‘‘ نے کیا جس کے سربراہ معروف سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر آغا سعید ہیں۔ سیمینار سے سابق امریکی سینیٹر مائک گریول، اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا کے صدر نعیم بیگ اور معروف عرب نژاد امریکی رہنما ڈاکٹر حاتم بازیان نے بھی خطاب کیا۔
ڈاکٹر غلام نبی فائی نے چھ نکات کے ذریعے کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کی تجویز پیش کی۔ ان کے چھ نکات ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں:
پہلا نکتہ: کشمیر کا مسئلہ فوجی کارروائیوں اور طاقت کے استعمال کے ذریعے حل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ خالص سیاسی مسئلہ ہے اور اِسے سیاسی ذرائع ہی سے حل کیا جانا چاہیے۔
دوسرا نکتہ: مذاکرات کے دوران تمام فریقین سیز فائر برقرار رکھیں۔ اگر فریقین ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہوں تو بات چیت جاری نہیں رکھی جاسکتی۔
تیسرا نکتہ: مذاکرات میں پاکستان، بھارت اور کشمیریوں کی حقیقی قیادت شریک ہوں۔
چوتھا نکتہ: عدم تشدد کی راہ پر گامزن رہنے اور بات چیت جاری رکھنے کے سوا کسی بھی فریق کی طرف سے کوئی بھی شرط عائد نہیں کی جانی چاہیے۔ مذاکرات کو ہر اعتبار سے غیر مشروط بنانا لازم ہے۔
پانچواں نکتہ: مذاکرات بیک وقت چار سطحوں پر شروع کیے جانے چاہئیں۔ یعنی
٭ مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور کشمیر کی سرزمین پر سکونت پذیر اقلیتوں کے درمیان
٭ پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کے درمیان
٭ پاکستان اور بھارت کی حکومتوں اور کشمیری قیادت کے درمیان
٭ پاکستان، بھارت، کشمیری قیادت، چین اور امریکا کے درمیان
چھٹا نکتہ: تیسرے فریق کے ذریعے اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ پاکستان اور بھارت کی حکومتوں اور کشمیری قیادت کے درمیان بات چیت بنیادی مسائل پر مرکوز رہے۔ یہ تیسرا فریق کوئی غیرمعمولی عالمی شخصیت ہونا چاہیے، مثلاً اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان، جنوبی افریقا کے بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو، آئر لینڈ کی سابق صدر اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی سابق سربراہ میری رابنسن یا پھر ناروے کے سابق وزیر اعظم جیل میگنے بونڈیوک۔
ڈاکٹر غلام نبی فائی نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی بار بات چیت ہوچکی ہے۔ گزشتہ ستمبر پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور بھارت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ نے نیویارک میں ملاقات کی تھی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر بات چیت اس لیے ہوتی رہی ہے کہ امریکا نے اس معاملے میں دلچسپی لی ہے۔ اب یہ تاثر بھی عام ہے کہ دونوں ممالک کے لیے کشمیر سمیت تمام مسائل حل کرنے کا وقت آچکا ہے۔
ڈاکٹر غلام نبی فائی نے بتایا کہ کشمیر کے عوام بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت جاری رہنے کے حق میں ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ بات چیت ہی سے دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر آئے ہیں اور کشیدگی کو خاطر خواہ حد تک کم کرنے میں مدد ملی ہے۔ بات چیت ہی سے دونوں ممالک نے ایک دوسرے کا احترام سیکھا ہے اور مختلف شعبوں میں تعاون کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ ڈاکٹر فائی نے خبردار بھی کیا کہ جب تک مقاصد کا تعین نہ کرلیا جائے اور کوئی ٹائم فریم بھی طے نہ کرلیا جائے، تب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر مختلف امور میں چھوٹی بڑی کامیابیوں کی راہ ہموار نہ ہو اور ذہنی ساخت ہی تبدیل نہ ہو پارہی ہو تو پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان، اگر سربراہ سطح کی بات چیت بھی ہوتی رہے، تو کسی بڑی کامیابی کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔
ڈاکٹر غلام نبی فائی نے اپنے خطاب میں اس نکتے پر بھی زور دیا کہ کشمیری عوام آزادی کے حق میں ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ۵ نومبر ۲۰۰۴ء میں ہفت روزہ ’’آؤٹ لک‘‘ میں شائع ہونے والے رائے عامہ کے ایک جائزے کا حوالہ دیا جس کے مطابق ۷۸ فیصد کشمیری آزادی چاہتے ہیں۔ ۱۲؍اگست ۲۰۰۸ء کو ہندوستان ٹائمز، سی این این، آئی بی این اور این ڈی ٹی وی نے رائے عامہ کے جائزے کے جو نتائج شائع کیے، اُن کے مطابق ۸۷ فیصد کشمیری آزادی کے لیے بے تاب ہیں۔ برطانوی ادارے چیٹم ہاؤس نے بھی ایک سروے کا اہتمام کیا جو ’’بی بی سی‘‘ نے ۲۷ مئی، ۲۰۱۰ء کو شائع کیا تھا۔ اس سروے کے مطابق ۹۰ سے ۹۵ فیصد کشمیری آزادی کی دولت چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر فائی نے خبردار کیا کہ جو قوم آزادی کے لیے اس قدر تڑپ رہی ہو، اسے زیادہ دن دبا کر نہیں رکھا جاسکتا۔ امریکی صدر براک اوباما کو یاد رکھنا چاہیے کہ انہوں نے ۳۰؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کو انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ ہمیں کشمیر کا مسئلہ حل کرنے میں پاکستان اور بھارت کی مدد کرنی چاہیے۔
سابق سینیٹر مائک گریول نے کہا کہ میں امریکی ہوں اور اپنے وطن سے بے حد پیار کرتا ہوں۔ امریکا میں ایسا بہت کچھ ہے جس سے محبت کی جانی چاہیے مگر ڈاکٹر عافیہ صدیقی، ڈاکٹر غلام نبی فائی اور ڈاکٹر سیمی الاریان کے کیس میں جس طور انصاف کا خون ہوا ہے، اس پر میں شرمندہ ہوں۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ کشمیر کے حوالے سے امریکی قیادت کو اس کا وعدہ یاد دلایا جائے۔
ڈاکٹر حاتم بازیان نے اپنے خطاب میں امریکا میں مسلم قیادت کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر غلام نبی فائی کے خلاف مقدمہ اور پھر انہیں سزا سنایا جانا، امریکا میں مسلم قیادت کی ناکامی کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس معاملے میں ڈاکٹر فائی نے غیر معمولی جرأت اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔
اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا کے صدر نعیم بیگ نے کہا کہ مصائب کا شکار ہونے والے خود کو کسی بھی حال میں کمزور نہ سمجھیں۔ انہیں استقامت کا مظاہرہ کرنا ہے مگر ہمارا فرض ہے کہ جس قدر بھی ہوسکے، ان کی مدد کریں تاکہ وہ اپنے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرسکیں۔ نعیم بیگ نے کہا میں بیس سال سے ڈاکٹر فائی کی جدوجہد دیکھتا آیا ہوں۔ انہوں نے کشمیر کاز کو عالمی سطح پر نمایاں کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ امن یقینی بنانے اور خطے میں استحکام پیدا کرنے کے حوالے سے ہمیں ان کا ساتھ دینا ہے۔ اسی صورت کشمیریوں کو انصاف مل سکتا ہے۔
(“Six-point agenda to resolve Kashmir crisis”… “gnfai.com”. March 30, 2014)
Leave a Reply