چند ماہ قبل ڈنمارک کے اخبارات میں رسول پاکؐ کی شخصیت کے حوالے سے اہانت آمیز کارٹون کی اشاعت کے سبب اس وقت پورا عالم اسلام غم و غصے کی لپیٹ میں ہے۔ پوری اسلامی دنیا میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان میں بعض مظاہرے پرامن رہے ہیں‘ تو بعض بہت ہی پر تشدد تھے۔ افغانستان میں ایسے ہی ایک انتہائی پرتشدد و احتجاج کے دوران کئی لوگ مارے گئے ہیں۔ ڈنمارک کی حکومت کا ابتداء میں یہ موقف تھا کہ یہ پریس کی آزادی کا مسئلہ ہے اور وہ کسی بھی اخبار کو اس قسم کے کارٹون شائع کرنے سے روک نہیں سکتی۔ اس لیے کہ اس طرح کا کوئی اقدام پریس کی آزادی میں مداخلت تصور کیا جائے گا۔ جب مظاہرے شروع ہوئے توبعض دوسرے یورپی اخبارات نے بھی ان خاکوں کو شائع کیا تاکہ لوگوں کو یہ پیغام دیا جائے سکے کہ پریس کی آزادی ہر چیز سے اہم ہے‘ حتی کہ مذہبی حساسیت سے بھی۔ جب سلمان رشدی نے اپنا ناول Satanic Verses شائع کیا تھا اُس و قت بھی بہت سارے مسلم ممالک میں پُرتشدد احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے اور امام خمینیؒ نے سلمان رشدی کے قتل کا فتویٰ جاری کیا تھا بلکہ قتل کرنے والے کے لیے انعامی رقم کا اعلان بھی کیا تھا۔ اس وقت بھی یورپی اقوام نے نام نہاد حقوق انسانی اور آزادیٔ اظہار رائے کا سہارا لے کر سلمان رشدی کے اسلام‘ رسول پاکؐ اور ازواج مظہراتؓ کے خلاف توہین آمیز تبصروں کا دفاع کیا تھا۔ کیا یہ واقعتا آزادیٔ اظہار رائے کا مسئلہ ہے یا کچھ اور ہے جس کا اظہار نہیں کیاجارہا ہے؟ اگر ان باتوں کا کوئی قریب سے جائزہ لے تو واضح ہوجائے گا کہ یہ معاملہ پریس اور ضمیر کی آزادی سے کہیں مختلف ہے۔ یہ معاملہ مختلف تہوں میں لپٹا ہوا مختلف وجوہات کی بناء پر ہے۔ اسے پریس کی آزادی پر محمول کرنا یقینی طور سے سادہ لوحی ہوگی اگرچہ یہ بظاہر ایسا ہی معلوم ہوتا ہو۔ ہم اس پر کچھ روشنی ڈالنا چاہیں گے۔ کوئی اس حقیقت کا انکار نہیں کرسکتا ہے کہ پوری مغربی دنیا میں اہل مغرب اور مسلمانوں کے مابین کشیدگی پائی جاتی ہے۔ ہر یورپی ملک میں مسلمانوں کو نہ صرف اجنبی کے طور پر دیکھا جاتا ہے بلکہ انہیں مغربی ثقافت و اقدار کے لیے بھی شگون بد اور خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ بہت سارے ممالک میں یہ کشیدگی بالکل واضح اور محسوس ہے اور بعض ممالک میں یہ قدرے غیر نمایاں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغربی دنیا میں تکثیری معاشرہ (Pluralism) ایک بالکل ہی نیا تجربہ ہے جسے ہضم کرنا دشوار ہو رہا ہے۔ ان کی جمہوریت وحدانی زبان و مذہب و ثقافت پر مبنی رہی ہے۔ جہاں تک سیاسی جمہوریت کا تعلق ہے تو یہ بہت ہی مستحکم ہے لیکن اختلافِ نظر کی آزادی اور آزادیٔ رائے محض سیاسی دائرے تک محدود ہے اور یہ ایک ثقافت اور ایک مذہب کے فریم ورک میں موثر اور مثبت ہے دوسری جانب ایشیائی باشندوں کے لیے تکثیری معاشرہ طریقۂ زندگی کے طور پر رہا ہے۔ یہ لوگ مختلف مذاہب کے ساتھ باہم ہم آہنگ ہوکر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ سیاسی جمہوریت کی عدم موجودگی میں بھی دوسرے مذاہب اور ثقافتوں کے تئیں رواداری ان کا شعار رہی ہے۔ پورے قرون وسطیٰ کے دور میں ایشیائی ممالک میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے مابین ہمیں کوئی خون خرابہ نظر نہیں آتا ہے۔دوسری جانب مغرب میں اگرچہ سیاسی جمہوریت رہی ہے اور سیاسی اختلافات میں رواداری کا اظہار ملتا ہے‘ لیکن ثقافتی و مذہبی رواداری کے حوالے سے اس کا ریکارڈ بہت اچھا نہیں ہے۔ بلکہ سیاسی جمہوریت آزادیٔ اظہار رائے اور رواداری کی متقاضی ہے۔ وہ اسے مذہبی اور ثقافتی میدانوں میں بھی لاگو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن مجھے اس کی بہت زیادہ کامیابی کے متعلق اندیشہ ہے۔ ہم جب اس کے اندر جھانکیں گے تو یہ پھر ایک ہی مذہب و ایک ہی ثقافت کا مظہر دیکھائی دیگا۔ اس مسئلے کی ایک جہت اور ہے وہ یہ کہ مغرب نے کبھی بھی اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ عافیت محسوس نہیں کی ہے۔ ان لوگوں نے ہمیشہ اسلام کو اغیار کا مذہب تصور کیا ہے۔ جنہیں وہ اپنا دشمن گردانتے ہیں۔ فرانس اپنی تمام تر جمہوری و سیکولر اقدار کے ساتھ سیکولرازم کی تعبیر محدود فرنچ فریم ورک میں کرتا ہے۔ اسکول کی طالبہ کا حجاب اس پر بہت شاق گزرا اور بالآخر مرکزی حکومت نے اس پر پابندی عائد کردی۔ اسکول کی طالبہ کا حجاب کس طرح فرانس کی سیکولر ازم کے لیے خطرہ ہوسکتا ہے‘ یہ سمجھنے سے میں عاجز ہوں۔ درحقیقت حجاب تو صرف ایک علامت ہے۔ اس کے پسِ پردہ وہ اسلام کو ایک خطرہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ تمام ہی یورپی ممالک میں مسلمانوں کو دو طرح سے خطرہ خیال کیا جاتا ہے‘ ایک تارکینِ وطن ہونے کے ناطے اور دوسرے مسلمان مذہب کے ناطے تمام ہی تارکین وطن سے مقامی آبادی خوفزدہ نظر آتی ہے لیکن ایسی صورت میں وہ اور بھی ناگوار شئے بن جاتے ہیں جبکہ ان کا تعلق ایک دشمن مذہب و ثقافت سے ہو۔ پروفیسر ہنٹنگٹن نے اس مغربی احساس کو اور بھی بڑھاوا دیا جب اس نے Clash of Civilizations نامی کتاب تحریر کی۔ مغربی ممالک کو ایشیائی اور افریقی باشندوں کو اپنے یہاں آنے کی اس لیے اجازت دینی پڑی تھی کہ وہاں دوسرے جنگ عظیم کے بعد سے افرادی قوت کا زبردست کال پڑ گیا تھا لیکن جن تارکین وطن کے ذریعہ ان کی افرادی قوت کافی ہوگئی اور اقتصادی ترقی کا گراف نیچے آنے لگا تو کشیدگی منظر عام پر آئی۔ پھر بہت سے ممالک میں نسلی فسادات پھوٹ پڑے۔ ایک دوسرا عامل بھی ہے۔ یہ ایشیائی اور افریقی باشندے محسوس کرنے لگے کہ مغربی معاشرے میں وہ بے وقعت خیال کیے جاتے ہیں۔ انہیں اور ان کے بچوں کو اچھے مواقع اور اچھی نوکریاں نہیں ملیں تو وہ مایوسی سے دوچار ہوئے اور یہ مایوسی انہیں جرائم‘ منشیات اور تشدد کی طرف لے گئی جس کی وجہ سے تارکینِ وطن کے ایک پر تشدد گروہ کی حیثیت سے ان کی شہرت کو مزید جلا ملی۔ ان کے حقوق کی مزید شدت سے نفی کی گئی جس کے سبب کشیدگی مزید گہری ہوتی گئی۔ فرانس کے حالیہ پرتشدد واقعات جو مقامی پولیس اور نوجوان افریقیوں کے مابین رونما ہوئے وہ اسی نکتے کو ثابت کرتے ہیں۔ اب جبکہ مغربی عیسائیوں اور مسلمان تارکینِ وطن میں اس قدر گہری دشمنی ہے تو اس کا اظہار بھی مختلف شکلوں میں ہوتا رہتا ہے۔ حالیہ کارٹون اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکے کو بھی اسی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے۔ گیارہ ستمبر کے واقعے نے اس پوری صورتحال کو محض بھیانک بتایا ہے۔ چاہے وہ سلمان رشدی کا معاملہ ہو‘ ڈنمارک کے اخبارات میں شائع ہونے والے خاکے کا معاملہ ہو یہ اسی صورتحال کا حصہ ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو گہرا تعصب ہے وہ مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے اور اس کا دفاع پریس کی آزادی کے نام پر کیا جاتا ہے۔ بہت سارے مغربی رہنمائوں نے جس میں بش اور کوفی عنان شامل ہیں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ آزادیٔ رائے کے نام پر کسی کے مذہبی جذبات کو مجروح نہیں کیا جانا چاہیے۔ میں یہ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا ہوں کہ آزادی رائے کا حق مطلق ہونا چاہیے جیساکہ بہت سارے مغربی لوگ خیال کرتے ہیں ‘ کوئی بھی دوسرو ں کی اہانت کے حق کا دفاع نہیں کرسکتا ہے اور نہ پریس کی آزادی یا آزادیٔ رائے کے نام پر مذہب کے بانیوں کے توہین آمیز خاکے کو حق بجانب قرار دے کہ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ مغربی دنیا زیادہ سیکولرہے جبکہ مسلم دنیا نہیں ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مغرب کو سیکولر بننے میں تین صدیوں سے زیادہ کا عرصہ لگا ہے اور ماڈرنائزیشن اور سیکولرائزیشن کا یہ عمل پچھلی چند دہائیوں کی بات ہے ۔ ثقافتی اختلافات موجود ہیں لیکن ان اختلافات کو دشمنی سے تعبیر نہیں کیا جانا چاہیے جو کہ تصادم پر منتج ہوتے ہوں۔ مسلم دنیا اب بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت پیچھے ہے۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ مغرب اپنی تمام تر ترقیوں کے باوجود تعصبات اور اپنی دشمنانہ پالیسیوں کو ترک نہیں کرسکا ہے تو کوئی اسلامی دنیا سے ایسی توقع کیسے کرسکتا ہے؟ مسلم دانشوروں کو چاہیے کہ وہ تحمل و رواداری کے رجحان کو اور فروغ دیں۔ ہاں! ہر کسی کو احتجاج کا حق حاصل ہے لیکن احتجاج پرامن طریقے سے ہونا چاہیے۔ جس طرح پریس کی آزادی کی کچھ حدود و قیود ہیں اُسی طرح جمہوریت میں احتجاج کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہیں مسلم دانشوروں اور رہنمائوں کو اس پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ کیوں مسلمانوں کا احتجاج تشدد کی شکل اختیار کرلیتا ہے؟ کیا وہ اپنے اُن رہنمائوں کے ہاتھوں میں تو نہیں کھیل رہے ہیں جن کا اپنا شیطانی ایجنڈا ہے؟ اگر اسلام امن کا دین ہے اور یقینا یہ ہے‘ تو مسلمان کیوں تشدد کی جانب مائل ہوتے ہیں؟ ہمیں اس کا ادراک کرنا چاہیے کہ اس کثیر المذاہب دنیا میں ہم اپنی شرائط پر نہیں جی سکتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کے حق میں مفید نہیں ہے کہ وہ ڈنمارک کے پرچم کو پھاڑیں اور اس کے سفارت خانوں کو آگ لگائیں یا اپنے احتجاج میں اتنا پرتشدد ہوجائیں کہ پولیس احتجاجیوں پر گولی چلائے اور انہیں ہلاک کرنے پر مجبور ہوجائے۔ یہ عمل غم و غصے اور تشدد کی لہر کو مزید تیز کردے گا۔ایک پرامن اور خاموش احتجاج پر تشدد احتجاج سے کہیں زیادہ پیغام رساں ہے۔ چونکہ ان مظاہروں کی نوعیت مذہبی ہے لہٰذا انہیں مذہبی وقار و اقدار سے آراستہ ہونا چاہیے۔ تشدد سے فائدہ صرف سماج دشمن عناصر کو ہوتا ہے یا پھر اُن سیاستدانوں کو ہوتا جو سستی شہرت کے طالب ہیں۔ بعض سیاست دان مغربی ممالک سے الجھنے کا یہ اچھا موقع خیال کرتے ہیں لیکن عام مسلمانوں کو تحمل اور وقار کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ بقول قرآن کے کہ ’’اہل ایمان تووہ ہیںجو اپنے غصے پر قابو رکھتے ہیں اور معاف کردیتے ہیں‘‘۔ (۱۳۳:۳) ہم کس طرح کے مسلمان ہیں کہ ہم ہمیشہ قتل کرنے اور سزا دینے کی بات کرتے ہیں بجائے صبر کرنے اور معاف کرنے کے‘ اس سے اسلام اور مسلمانوں کے افتخار میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا ہے۔ ہم ان کی نظر میں مزید متشدد اور عدم روادار ٹھہرتے ہیں ۔ قران بھی حکمت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’جسے حکمت عطا کی گئی‘ اسے بہت بڑی نعمت عطا کی گئی ‘‘(۲۴۹:۲) اب یہ فیصلہ کرنا ہمارا کام ہے کہ آیا ہم سیاسی رہنمائوں اور شرپسندوں کی بات مانیں یا قرآن کی‘ جو بار بار حکمت‘ تحمل‘ رواداری اور مفاہمت پر زور دیتا ہے؟ ہمیں عدم رواداری اور تشدد کے داغ کو دھو دینا چاہیے۔ جدید دنیا تعلیم ‘ مفاہمت اور بقائے باہمی کو اہمیت دیتی ہے۔ ہمیں ۱۴ سو سال پہلے ان باتوں کی تعلیم دی گئی۔ لیکن ہم نے کبھی قرآن کا مطالعہ نہیں کیا اور اگر کیا تو اپنے فرقہ وارانہ حریفوں سے لڑنے کے لیے کیا۔ ہمارے نزدیک مسلکی مظاہرات اہمیت رکھتے ہیں نہ کہ قرآنی اخلاقیات‘ یہ فرقہ وارانہ تعصبات ہمیں دوسروں کے تئیں مکمل عدم رواداری پر اُبھارتے ہیں اور ہم ابھی تک اس سے باہر آنے کی کوئی سنجیدہ کوششیں نہیں کررہے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم قرآنی اخلاقیات کو مرکزی اہمیت دیں اور مسلکی اختلافات کو ثانوی اہمیت دیں۔ اس کے لیے جرأت اور حق سے پاسداری کی ضرورت ہے۔ بغیر اس وفاداری اور پاسداری کے ہم سب کچھ ہوسکتے ہیں مگر مذہبی نہیں ہوسکتے ۔ ایک مومن کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بالکل ایک نیا انسان ہے‘ جو نیکیوں اور اخلاقیات کا ایک ماڈل ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم دوبارہ قرآن کی جانب رجوع کریں اور اس کی اخلاقی تعلیمات پر مزید سنجیدگی سے غور و فکر کریں۔ یہ ہمارے عقائد ہی ہیں جو ہمیں دنیا میں قابلِ قبول بنائیں گے یہ قرآنی اخلاقیات ہیں جو ہمیں دنیا کی نظر میں محترم بنائیں گی۔ اب یہ مسلمانوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ انہیں یہ دلعزیزی چاہیے یا تنگ نظری اور ایک عدم روادار مسلکیت مطلوب ہے۔ دنیا ہمیں ہمارے عقائد سے نہیں جانے گی بلکہ ہمارے اخلاق اور اعمالِ صالح سے ہمیں پہچانے گی۔
(بشکریہ: “Secular Perspective”۔ ۱۶ فروری ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply