
ہم سے تو کہا گیا تھا کہ غلامی کا خاتمہ ہوگیا، غلاموں کے بازار بند کر دیے گئے، انسانوں کے گلے سے غلامی کا طوق اتار لیا گیا، اب ایک انسان کسی دوسرے انسان کی ملکیت نہیں، کوئی کسی کو خرید سکتا ہے نہ بیچ سکتا ہے۔ بالفاظِ دیگر اب کوئی کسی کا آقا ہے، نہ کوئی کسی کا غلام۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ہمارے ملک میں (۱۸۴۳ء میں) Indian Slavery Act نافذ کر کے غلامی کو یکسر ختم کر دیا گیا۔ ابراہم لنکن نے بھی سیاہ فام آبادی کو (۱۸۶۳ء میں) غلامی سے نجات دلا دی۔ چین نے (۱۹۰۶ء میں) سرکاری حکم نامے کی رو سے غلامی غیر قانونی قرار دے دی۔ اقوام متحدہ نے بھی (۱۹۴۸ء میں) انسانی حقوق کی پاسداری کی خاطر غلامی کو ممنوع قرار دے دیا۔ اگر یہ سب سچ ہے اور یقینا سچ ہے، تو ہمیں روز غلامی کی بازگشت کیوں سنائی دیتی ہے؟ اخبار میں ۳۰ ملین غلاموں کی موجودگی کی خبریں کیوں شائع ہوتی ہیں؟ ہم یہ پڑھنے کے لیے کیوں مجبور ہیں کہ آج بھی ہمارے ملک میں بچوں سے جبراً مزدوری کروائی جاتی ہے، کم عمر بچوں کو ان کے گھروں سے اٹھوا کر ذلیل کاموں میں پھنسایا جاتا ہے، غریب قرض داروں کو زمینداروں کے ہاں ۲۴ گھنٹے کی مزدوری کرنی پڑتی ہے، غریب لڑکیاں جبراً شادی کے بندھن میں باندھ دی جاتی ہیں۔ کہیں ہم روم کی اُس ظالم آباد ی کی طرح تو نہیں ہو گئے جو اپنے غلاموں کو خونخوار درندوں کے درمیان چھوڑ کر ان کی بے بسی سے محظوظ ہوتی تھی؟ کہیں ہم بھی اُن شقی القلب انسانوں کی طرح تو نہیں ہوگئے جو غلاموں کو رسیوں سے باندھ دیتے تھے، گرم پتھروں پر لٹا دیتے تھے، انہیں بھوکا پیاسا رکھ کر خوش ہوتے تھے اور ہر طرح کے انسانیت سوز مظالم ڈھا کر اپنی برتری کے احساس سے سرشار رہتے تھے؟ اگر یہ بھی سچ ہے تو ہمیں کھلے دل سے اعتراف کرلینا چاہیے کہ ہمارے ملک سے غلامی دور نہیں ہوئی، بلکہ ہم نے اپنی مرضی سے اسے کسی نہ کسی صورت باقی رکھا ہے؟ شاید اس لیے کہ ہم آج بھی اسی فرسودہ زمیندارانہ ذہنیت کے ساتھ زندہ ہیں جو کبھی ہمارے پرکھوں کے لیے باعث فخر ہوا کرتی تھی اور آزادی اور جمہوریت کے بلند بانگ دعوئوں کے باوجود ہم آج بھی اسی طرز پر زندگی گزارتے ہیں جو کبھی ہمارے معاشرے کا طرۂ امتیاز ہوا کرتی تھی۔ ورنہ کیا بات ہے کہ یوپی کے ایک سیاستداں کی پڑھی لکھی بیوی اپنی خادمائوں کو بات بے بات جھڑکیاں دیتی ہے، ان پر ڈنڈے برساتی ہے، گرم سلاخوں سے داغتی ہے، انہیں کھانا زمین پر پھینک کر دیتی ہے، یہاں تک کہ مبینہ طور پر ایک نوکرانی کے قتل کا سبب بھی بنتی ہے۔
چونکہ یہ خاتون ایک سیاستداں کی بیگم ہیں اور سیاستدانوں کے ہاتھ آج قانون کے ہاتھوں سے بھی لمبے ہو گئے ہیں۔ اس لیے عجب نہیں جو میڈیا اس واقعہ پر خاموشی اختیار کرلے، پولیس والے اپنی تفتیش پر روک لگا دیں، یوپی سرکار بھی اپنے سیاسی معاملات کی خاطر اس جرم پر چپ سادھ لے اور اچانک ایک دن ہمیں یہ خبر پڑھنے کو ملے کہ شواہد کی عدم موجودگی میں مذکورہ معاملہ عدالت نے خارج کر دیا ہے اور ملزمہ باعزت بری کر دی گئی ہیں۔
لیکن ان لاکھوں دلتوں کو ایک باعزت زندگی کب ملے گی جن کی قسمت میں برسہا برس سے اونچی ذات کے ہاتھوں ظلم سہنا لکھا ہے، اس قبائلی آبادی کو باوقار زندگی کب نصیب ہوگی جن کی زمینوں اور زمینوں سے جڑے سارے وسائلِ زندگی سیاسی قیادت اونے پونے بیچ کر انہیں اپنی ہی زمینوں سے بے دخل کر دیتی ہے۔ اس کم عمر کرشنا کو کب راحت ملے گی جو فیکٹری میں کام کرنے کی خاطر ہردوئی کا گائوں چھوڑ کر شہر آتا ہے اور آنکھ کھلنے پر اپنے آپ کو دہلی کے کسی گھر میں ایک معمولی نوکر کی حیثیت سے پاتا ہے۔ آسام کی اس پریتی کو کب سکون ملے گا جو کسی ایجنسی کے جھانسے میں پھنس کر آج ایک کوٹھی میں ملازمہ کی حیثیت سے صبح ۶ بجے سے رات ۱۰ بجے تک ہر طرح کے کام کرتی ہے اور رات ہونے پر دیگر نوکرانیوں کے ساتھ کھلے صحن میں پڑی رہتی ہے۔ ادیشہ کے اس ’نیل چلا‘ کو کب آرام ملے گا جو اینٹ کے بھٹے میں کام کرنے کے لیے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آندھرا پردیش کے نیلور ضلع میں آتا ہے اور قیدیوں کی طرح ۱۹؍ گھنٹے کام کرکے اپنی کمر تڑوا لیتا ہے۔ بھنڈ ضلع کے اس مٹھوسنگھ کو کب سکون ملے گا جو مسلسل تین برسوں تک اپنی ہی زمین پر مزدوروں کی طرح کام کرتا رہا اور بعد میں زمیندار نے اس کی زمین چھین کر اس کے مکان کو جلا ڈالا۔ اس ۷۵ سالہ گوپال کو کس طرح اطمینان نصیب ہوگا جس کی ۳ نسلیں گزشتہ ۵۰ برسوں سے زمینداروں کے پاس غلاموں سے بدتر زندگی بسر کر رہی ہیں جنہیں آج تک مزدوری کے نام پر ایک پیسہ تک نہیں دیا گیا اور خاندان کے تمام افراد کو زندہ رکھنے کے لیے ہر ہفتہ ڈیڑھ کلو چاول دیے جاتے رہے۔ کسی احتجاج کے بغیر گوپال کی تین نسلوں نے سارا ظلم صرف اس لیے برداشت کیا کہ کبھی ان کے دادا نے اسی زمیندار سے ایک ہزار روپے قرض لیے تھے۔ کسی سوشل ورکر کی مداخلت سے معاملہ اگر عدالت تک پہنچ جائے اور عدالت کا فیصلہ ان غریب غلاموں کی حمایت میں آجائے تو انہیں قدرے راحت نصیب ہو، ورنہ دیہاتوں کے یہ اَن پڑھ اور بے نام غلام ظلم و استبداد کی چکی میں یوں ہی پستے رہتے ہیں۔ اگر گزشتہ ماہ دہلی، یوپی اور بہار کی ریاستوں میں گھریلو نوکروں پر غیر انسانی مظالم کی داستانیں شائع نہ ہوتیں تو شاید ہمیں مادرِ وطن میں بسنے والے ان غلاموں کی خبر تک نہیں لگتی۔
ماضی کے برخلاف آج غلاموں کو زنجیروں میں نہیں باندھا جاتا، لیکن ان کی آزادی ضرور چھین لی جاتی ہے۔ ان پر تشدد بھی اس لیے روا رکھا جاتا ہے کہ ان سے مالی اور جنسی فوائد حاصل ہوتے رہیں۔ اب غلام ایک تنہا شخص نہیں ہوتا، بلکہ پورا خاندان اور کبھی کبھار پوری نسل غلامی کا شکار ہوتی ہے۔ شمال مشرقی ریاستوں سے غریب اور بھولی بھالی لڑکیوں کو اغوا کرکے بڑے شہروں میں جسم فروشی کے لیے مجبور کرنا یا دیہاتوں سے نوجوان لڑکوں کو دھوکا دے کر شہروں میں دکانوں اور کارخانوں میں قید کر دینا، اکیسویں صدی کی نئی غلامی ہے۔ مہذب افراد لاکھ سوال کریں کہ اس دور میں اچھے خاصے انسانوں کو غلام کیوں بنایا جارہا ہے تو انہیں ایسے بے تکے سوال کا جواب کوئی نہیں دے گا، کیونکہ آج بھی ذات پات کا نظام ہمارے معاشرے میں کسی خونی پنجے کی طرح پیوست ہے اور افلاس ہے کہ آزادی کے ۶۶ سال بعد بھی ایک کثیر آبادی کو جکڑے ہوئے ہے۔ انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی آسٹریلیا کی ایک تنظیم Walk Free نے جب Global Slavery Index 2013 شائع کی تو ہمیں یہ پڑھ کر بڑی شرم آئی کہ موریطانیہ، ہیٹی اور پاکستان کے بعد چوتھے نمبر پر بھارت کا نام چمک رہا ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا کے ۳۰ ملین غلاموں کی نصف تعداد ہمارے ہاں بستی ہے۔ آپ شاید روایتی قسم کے غلاموں کو آس پاس نہ دیکھ کر ہمارے دعوے پر ناک بھوں چڑھائیں، مگر کیا ’بچہ مزدوری‘ غلامی کی بدترین شکل نہیں ہے، جبکہ سپریم کورٹ نے اسے ممنوع قرار دے دیا ہے؟ کیا کمسنی کی شادیاں یا جبراً عورتوں کی شادیاں کرنا غلامی نہیں کہی جائے گی۔ جبکہ ہریانہ، پنجاب اور اترپردیش میں یہ وبا عام ہے؟ معصوم بچیوں کو جسم فروشی کے لیے مجبور کرنا، کسانوں سے ان کی زمین چھین لینا، دلتوں کی بستیاں خاک کر دینا، گھریلو خادمائوں سے جانوروں سا برتائو کرنا، کیا غلامی کی کریہہ شکل نہیں کہی جائے گی۔ کیا اپنے ماتحتوں کو ذلیل کرنا انہیں غلام سمجھنا نہیں ہے؟ کیا ہر ماں اپنے بچے کو آزاد نہیں پیدا کرتی، پھر انہیں غلام بنانے والے ہم کون ہوتے ہیں؟
افسوس تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تخلیق کردہ یہ آزاد بندے ایک بار غلام بنا دیے جائیں تو ان کی رہائی ممکن نہیں ہوتی۔ اب انہیں سارے مظالم خاموشی سے سہنا ہے اور اپنے درندہ صفت آقائوں کے رحم و کرم پر ہی جینا ہے۔ انہیں رسولؐ اللہ جیسا آقا تو مل نہیں سکتا، جو اپنے غلام سے بیٹوں کا سا سلوک کرتا ہو اور اس قدر محبت و اپنائیت نچھاور کرتا ہو کہ جب زید بن حارثہؓ کے حقیقی والدین انہیں لینے آئے تو انہوں نے اپنے والدین کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ آج کے آقائوں کو خدا کا ڈر ہوتا ہے نہ قانون کا خوف۔ ان کے ذہن میں نہ جوابدہی کا تصور ہے نہ یہ اپنے اعمال کو بُرا خیال کرتے ہیں۔ اس لیے احساسِ برتری اور طاقت کے زعم میں مبتلا یہ نئے آقا اپنے جیسے انسانوں کا بے دردی سے استحصال کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں تو ان آقائوں سے بھی کوئی شکایت نہیں کہ انہوں نے اپنے آبا و اجداد کو یہی سب کرتے دیکھا ہے۔ ہاں! شکایت ہے تو قانون کے ان رکھوالوں سے اور بے حس پولیس اور بے نیاز عدالتوں سے، جو سب کچھ جانتے ہوئے بھی کچھ پیسوں اور چھوٹے موٹے مفادات کے لیے ان بے بس انسانوں کو ظالموں کے پنجوں سے چھڑانا نہیں چاہتیں۔ ایک بار ملکی قوانین سختی سے نافذ کر دیے جائیں اور ظالموں کو سزائیں ملتی رہیں، تب کسی کی ہمت نہیں ہوگی کہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو غلام بنائے۔ مگر گھوم پھر کر وہی سوال منہ چڑاتا ہے کہ قوانین کون نافذ کرے گا اور ظالموں کو سزائیں کون سنائے گا؟ جب سارے نظام کو گھن لگ چکا ہو تو کیا کوئی شنکر، کوئی پریتی، کوئی نیل چلا، کوئی مٹھو اور کوئی گوپال غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہو سکتا ہے؟ ظاہر ہے ہم اور آپ اس نظام کو سدھارنے سے رہے۔ البتہ انفرادی سطح پر اتنا تو ضرور کر سکتے ہیں کہ اپنے ماتحتوں سے انسانوں کا سا سلوک کریں، ان کی ضروریات کا خیال رکھیں، ان کی عزت نفس پر حملہ نہ کریں اور ہر دم یہ یاد رکھیں کہ کل کوئی ہم سے بھی ان کے متعلق پوچھے گا۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’انقلاب‘‘ ممبئی۔ ۳۰ نومبر ۲۰۱۳ء)
Leave a Reply