
امریکی کمپنی ایپل نے اپنا پہلا آئی فون دس سال پہلے متعارف کرایا تھا۔ ۲۰۰۷ء میں اس وقت سے لے کر اب تک دنیا بھر میں ۷؍ارب اسمارٹ فون فروخت ہو چکے ہیں، جن کے کرۂ ارض پر منفی اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
صبح کے آٹھ بجے، مسافروں سے بھری ہوئی ٹرین، ہر کوئی کام پر جا رہا ہے اور ایسا کوئی مسافر ڈھونڈنا مشکل ہے، جو اپنے اسمارٹ فون کے ساتھ مصروف نہ ہو۔ ایسا خاص طور پر مغربی دنیا کے بیسیوں ملکوں میں دیکھنے میں آتا ہے۔ پھر تحفظ ماحول کی عالمی تنظیم گرین پیس کی طرف سے یاد دہانی کے لیے ٹوئٹر پر ایک پیغام آتا ہے: ’’یہ بھی سوچیے کہ آپ کا پسندیدہ اسمارٹ فون کرۂ ارض کے لیے کس قسم کے منفی اثرات کا باعث بن رہا ہے۔‘‘
۲۰۰۷ء میں جب امریکی کمپنی ’’ایپل‘‘ نے عالمی منڈیوں میں اپنا پہلا آئی فون متعارف کرایا تھا، تب سے اب تک دنیا بھر میں قریب ۷؍بلین اسمارٹ فون فروخت کیے جا چکے ہیں۔ یہ تعداد قریب قریب زمین پر انسانی آبادی کے برابر بنتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا کہ کوئی بھی صارف اپنا پسندیدہ کوئی ایک اسمارٹ فون عمر بھر استعمال کرتا، تو بھی کوئی بات تھی، لیکن ایسا تو ہوتا نہیں۔
گرین پیس کے مطابق امریکا جیسے ملکوں میں ایک عام صارف کوئی بھی جدید سے جدید تر اسمارٹ فون بھی زیادہ سے زیادہ دو سال تک استعمال کرتا ہے۔ اکثر صارفین اپنے اسمارٹ فون اس لیے نہیں بدلتے کہ ان میں کوئی ایسی تکنیکی خرابی پیدا ہو جاتی ہے، جس کی مرمت نہ کی جا سکتی ہو۔ اس کے برعکس ایسا اکثر صرف فون کے تازہ ترین ماڈل کا مالک ہونے کی خواہش کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔
دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسے صارف بہت ہی کم ہوں گے، جو رات کو سونے سے پہلے اپنا فون نہ دیکھتے ہوں یا جن کا صبح اٹھ کر پہلا کام اپنے فون پر رات کو آنے والے پیغامات چیک کرنا نہیں ہوتا۔ معاشرہ کوئی بھی ہو، اسمارٹ فون صارفین کی زندگی کا ہر لمحہ ابلاغ کے اس جدید ترین ذریعے کا محتاج ہو چکا ہے، عملی اور ذہنی دونوں سطحوں پر۔
گزشتہ برس پوری دنیا میں ۴ء۱؍بلین نئے اسمارٹ فون فروخت ہوئے۔ ۲۰۲۰ء تک یہ سالانہ تعداد دگنی ہو جائے گی۔ ۲۰۱۵ء کی ایرکسن موبیلیٹی رپورٹ کے مطابق تو دو سال پہلے بھی دنیا کے ۷۰ فیصد انسانوں کے پاس کوئی نہ کوئی اسمارٹ فون موجود تھا۔ عالمی سطح پر ۱۸ سے لے کر ۳۵ برس تک کی عمر کے ۶۰ فیصد سے زائد انسانوں کے پاس اسمارٹ فون موجود ہیں۔ جرمنی اور امریکا جیسے ملکوں میں تو یہ شرح ۹۰ فیصد سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔
گرین پیس کے مطابق یہ رجحان دیرپا ثابت نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ اس طرح عالمی آبادی اپنے مجموعی وسائل کو دیرپا اور قابل تجدید بنیادوں پر استعمال نہیں کر رہی۔ اپنے اسمارٹ فون بدلنے والے ۸۰ فیصد سے زائد صارفین جب ایسا کرتے ہیں تو ان کے پرانے اسمارٹ فون ابھی اچھی طرح کام کر رہے ہوتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی اسمارٹ فون کے کئی اندرونی پرزے ایسی کمیاب یا قیمتی زمینی دھاتوں سے تیار کیے جاتے ہیں، جن میں ایلومینیم، سونا اور کوبالٹ بھی شامل ہیں۔ یہ دھاتیں زیادہ تر افریقا میں ڈیموکریٹک ریپبلک کانگو جیسے ملکوں سے نکالی جاتی ہیں، جو مسلح تنازعات یا خانہ جنگیوں کا شکار ہیں اور جہاں ایسے تنازعات کے متاثرین میں خواتین اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔
ان دھاتی پرزوں کے علاوہ کسی بھی اسمارٹ فون کے کئی حصے خام تیل سے حاصل کیے جانے والے ایسے پلاسٹک سے بنائے جاتے ہیں، جس کی تیاری میں بے تحاشا قدرتی وسائل استعمال ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت بہت سے صارفین نہیں جانتے کہ اگر بات صرف کسی ایک دو اسمارٹ فونز کی ہوتی تو شاید کوئی مسئلہ نہ ہوتا، لیکن ۷؍بلین اسمارٹ فونز، اور پھر ہر ایک دو سال بعد ایسے نئے موبائل فونز کی خریداری کا مطلب ہے کہ کرۂ ارض کے ان قیمتی وسائل کو بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے، جو بہرحال لامحدود نہیں ہیں۔
زمیں پر آباد اربوں انسان ہر سال جتنا الیکٹرانک کوڑا پیدا کرتے ہیں، اس کا سالانہ حجم مسلسل زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ ۲۰۱۴ء میں ایسے الیکٹرانک کوڑے یا e-waste کا مجموعی حجم ۴۲ ملین ٹن رہا تھا۔ اقوام متحدہ کی یونیورسٹی کے ایک جائزے کے مطابق صرف ایشیا میں ایسے الیکٹرانک کوڑے کے سالانہ حجم میں گزشتہ محض پانچ برسوں میں ۶۳ فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ تین سال پہلے پوری دنیا میں جتنا بھی الیکٹرانک کوڑا کرکٹ پیدا ہوا تھا، اس کا ۸۰ فیصد سے زائد حصہ ری سائیکل نہیں ہو سکا تھا اور اسے مختلف ملکوں میں ایسے کوڑے کے زمین کے اوپر یا زیر زمین ڈھیروں کی صورت میں پھینک دیا گیا تھا۔ یورپی کمیشن کے مطابق ایسے نقصان دہ کوڑے کو زمین میں دفن کر دینا اس کوڑے کو ٹھکانے لگانے کا سب سے برا طریقہ ہے کیونکہ اس طرح زمین، زیر زمین پانی اور ہوا تک میں زہریلے اثرات پیدا ہو جاتے ہیں۔
اسمارٹ فون تیار کرنے والی کمپنیوں کی آمدنی اور صارفین کی خواہشات کو دیکھا جائے تو ایسا کوئی نیا فون خریدنا اچھا ہوتا ہے، کارکردگی مزید بہتر اور قیمت کم۔ لیکن اگر طویل المدتی بنیادوں پر زندگی گزارنے کے ماحول دوست طریقوں اور کرۂ ارض کے کم پڑتے جا رہے قدرتی وسائل کو دیکھا جائے تو ہم سب کو اپنے آج کے بجائے آنے والے کل کا بھی سوچنا چاہیے۔ کرۂ ارض پر آباد انسانوں کی تعدادجتنی بھی ہو، ہمیں اس سیارے کو قابل رہائش رکھنا ہو گا۔ اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔
(بحوالہ: “dw.com”۔ ۱۴؍مارچ ۲۰۱۷ء)
Leave a Reply