
ہمیں یہ خطرہ یا خوف لاحق تھا کہ کہیں روبوٹ انسانوں کی جگہ نہ لے لیں، اُنہیں در بدر نہ کردیں۔ اب اِس سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ کہیں انسان روبوٹ نہ بن جائیں۔ نہ جذبات، نہ محبت۔ نہ مشترک قہقہے، نہ مشترک آنسو۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کورونا وائرس ہماری زندگی میں رونما ہونے والی سب سے خطرناک وبا ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ بالخصوص مغرب میں، صحت کے حوالے سے فکر مند ہیں مگر اِس سے کہیں بڑھ کر ہمیں سماجی فاصلوں کے حوالے سے فکر مند ہونا چاہیے۔ ہمیں سوچنا ہی پڑے گا کہ رضاکارانہ طور پر قرنطینہ میں چلے جانے کا حتمی اور شدید منفی اثر کیا ہوسکتا ہے۔
٭ ٹیکنالوجیکل بمقابلہ حقیقی قرنطینہ
ایسا نہ ہو کہ ہم بھول جائیں۔ کورونا وائرس کی وبا کے پھیلنے سے بہت پہلے ہم نے ’’ٹیکنالوجیکل قرنطینہ‘‘ کو تو ایک حقیقت کی شکل دے ہی دی تھی۔ کیا ہم ویڈیو گیم کے ذریعے دنیا بھر میں لوگوں سے رابطہ کرکے جو کچھ کھیل رہے ہوتے ہیں کیا وہ قرنطینہ ہی کی ایک شکل نہیں؟ کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور اسمارٹ فون کے ذریعے سوشل میڈیا پر جاکر لوگوں سے رابطے کرنا، خیالات کا تبادلہ کرنا بھی دراصل سوشل ڈسٹنسنگ یعنی سماجی فاصلے ہی کی ایک شکل ہے۔
ہم میں سے بیشتر کا اب بھی تو یہی حال ہے کہ ہم اپنے گھر یا اپارٹمنٹ میں بند رہتے ہیں اور لوگوں سے زیادہ ملنے کو ترجیح نہیں دیتے۔ ہم کسی سے ملنے جانے کا تکلف بھی اب کم ہی کرتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کو زیادہ کال بھی نہیں کرتے۔ اب ہمیں ای میل کرنا بھی زیادہ پسند نہیں۔ ٹیکسٹ پیغامات سے کام چلایا جارہا ہے۔
٭ نیا وائرس : محبت کی گمشدگی
جاپانیز نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپیولیشن اینڈ سوشل سیکورٹی ریسرچ کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق جاپان میں ۱۸ سے ۴۰ سال کے کم و بیش ایک چوتھائی باشندوں کا صنفِ مخالف سے جنسی اختلاط ہوا ہی نہیں۔ یونیورسٹی آف شکاگو کے محققین نے بتایا ہے کہ ۱۸ سے ۳۴ سال تک کے نصف امریکیوں نے کبھی کوئی رومانوی تعلق قائم ہی نہیں کیا۔ خالص عمرانیاتی نقطۂ نظر سے یہ اعداد و شمار انتہائی خطرناک ہیں۔
٭ تنہائی بالآخر مار ہی ڈالتی ہے
یو ایس ہیلتھ ریسورسز اینڈ سروسز ایڈمنسٹریشن (ایچ آر ایس اے) نے بتایا ہے کہ امریکا میں ۴۳ فیصد معمر شہری باقاعدگی سے تنہائی محسوس کرتے ہیں اور تنہائی کا احساس معمر ترین افراد میں موت کا ایک اہم سبب بن سکتا ہے۔ ایچ آر ایس اے نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ تنہائی سے انسانی صحت پر وہی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو یومیہ ۱۵ سگریٹ پینے سے واقع ہوتے ہیں۔ چھوٹی عمر کے لوگوں میں الگ تھلگ رہنے کی عادت وڈیو گیم پر انحصار سے بڑھتی ہے اور وہ تفریحی نوعیت کی منشیات کے عادی ہوتے چلے جاتے ہیں۔
٭ وائرس سے پہلے
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارے سیارے کے ماحول کو ہمارے ہی ہاتھوں غیر معمولی نقصان پہنچ چکا ہے۔ کورونا وائرس اور دیگر وبائی امراض کے پھیلنے سے بہت پہلے ماحول کے تحفظ کے حوالے سے تحریک چلانے والے اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ ماحول کو زیادہ سے زیادہ محفوظ رکھنے کے لیے لازم ہے کہ نقل و حرکت کا گراف نیچے لایا جائے۔ عمومی سطح پر بڑھتی ہوئی نقل و حرکت سے دنیا بھر میں ماحول کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ ماحول کے تحفظ کے بہت سے علم بردار انتہا پسندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ وہ ماحول کو تحفظ فراہم کرنے کی جنگ مذہبی جوش و خروش کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ اُن کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ ایئر ٹریفک پر مکمل پابندی عائد کردی جائے۔
٭ وائرس سے پاک میٹنگز
ماحول کو پہنچنے والے نقصان کی راہ مسدود کرنے کے لیے عمل کے میدان میں موجود سپاہی اس نکتے پر بھی زور دیتے ہیں کہ لوگ میٹنگز میں براہِ راست یعنی جسمانی طور پر شریک ہونے کے بجائے وڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے شریک ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے کی جانے والی میٹنگ کسی بھی حال میں حقیقی ملاقات کا متبادل نہیں ہوسکتی۔
کسی بھی انسان کے لیے زندگی کے یادگار ترین تجربات میں سے ایک کسی مختلف ثقافت کے لوگوں سے ملنا اور اُن کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا ہے۔ فضائی سفر کی سہولت عام ہونے سے دنیا بھر کے لوگوں کا ایک دوسرے سے رابطہ اور اشتراکِ عمل بڑھا ہے۔
٭ نائن الیون جیسے نفسیاتی صدمے
اس وقت دنیا بھر میں کورونا وائرس سے پھیلی ہوئی وبا سے بچاؤ کے لیے غیر معمولی احتیاط کا دامن تھاما جارہا ہے۔ ایسے میں یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ نائن الیون کے واقعات کی طرح کورونا وائرس کے شدید منفی اثرات بھی تادیر محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ بنی نوع انسان کے لیے خوش و خرم زندگی مل جل کر رہنے سے ممکن ہے۔ لوگ مل بیٹھتے ہیں، گپ شپ لگاتے ہیں، کچھ اپنی سناتے ہیں اور کچھ دوسروں کی سنتے ہیں۔ ہر دور میں یہی ہوتا آیا ہے۔ انسانوں کے لیے ایک دوسرے سے ہٹ کر، کٹ کر ڈھنگ سے جینا ممکن نہیں۔
سماجی فاصلے عالمگیر وبا کے پیدا کردہ ہوں، ٹیکنالوجی کے ذریعے متعارف کرائے گئے ہوں یا ماحول کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر ہوں … انسانوں کو ایک دوسرے سے دور ہی کریں گے۔ سماجی فاصلے رکھنے کی روایت نے زور پکڑا تو انسانوں کے درمیان محبت اور خلوص کا رشتہ کمزور پڑتا جائے گا۔ ٹیکنالوجی کی ’’برکت‘‘ سے ہم ایک ایسی دنیا کی طرف بڑھ رہے ہیں، جس میں دفتری امور گھروں میں رہتے ہوئے انجام دیے جائیں گے۔ کھانے کا آن لائن آرڈر دیا جائے گا اور مطلوبہ کھانا ہمارے گھر کے دروازے تک پہنچادیا جائے گا۔ پھر یہ ہوگا کہ ڈلیوری مین سے بھی ربط ختم ہو جائے گا۔ ڈلیوری کا کام ڈرون سے لیا جائے گا۔ ہم کام کریں گے۔ کام کرکے تھکیں گے تو وڈیو گیم کھیلیں گے اور پھر سو جائیں گے۔ ایسی دنیا میں انسانوں کے درمیان تعلق برائے نام رہ جائے گا۔ ملنے جلنے کا ماحول کمزور پڑتا چلا جائے گا اور اِس کے نقصانات کا سبھی کو اندازہ ہوگا۔
دنیا کو ایک ایسے ماحول کی طرف دھکیلا جارہا ہے جس میں ہر طرف یا تو مشینیں ہوں گی یا پھر ایسے انسان جو مشینوں جیسے ہوں گے۔ اِن مشینی انسانوں میں جذبات برائے نام بھی نہ ہوں گے۔ اِنہیں کسی بات سے دکھ پہنچے گا نہ خوشی ہوگی۔ جذبات سے عاری زندگی ہوگی اور جب ایک انسان ’’ایکسپائر‘‘ ہوگا تو اُس کی جگہ دوسرا آجائے گا جو شاید زیادہ مشینی ہوگا۔
ماحول کو جو نقصان پہنچ رہا ہے وہ بھی روئے ارض سے انسانوں کا صفایا کرسکتا ہے اور ہم روبوٹس کے ہاتھوں بھی ناپید ہوسکتے ہیں مگر تیسرا ممکنہ منظر نامہ یہ ہے کہ ہم سماجی فاصلوں کے پیدا کردہ شدید منفی اثرات کے ہاتھوں بہت تیزی سے خاتمے کی طرف بڑھیں۔
(ترجمہ محمد ابراہیم خان)
“Social distancing and the end of the human race”. (“theglobalist.com”. March 23, 2020)
بہت ہی عمدہ تحریر ترجمہ پڑھکر ایسا نہیں لگا کہ یہ ترجمہ شدہ ہے۔۔بہت مبارک