
آپ دارالحکومت میں کس امر کو ترجیح دیں گے قلبِ شہر میں دہشت گردی کو یا مضافات میں ہفتوں پر محیط فسادات کو؟ گذشتہ جولائی کے تجربے کے بعد زیادہ تر باشندے شاید موخر الذکر کو قابلِ گوارہ جانیں۔ ٹیوب اور بسوں میں دھماکوں کے نتیجے میں جو نقصانات ہوئے‘ وہ پیرس کے مشرقی مضافات میں فسادات کے مقابلے میں بہت ہی زیادہ ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ۷/۷ کی دہشت گردی کے ذمہ داروں کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ اس کے برعکس پیرس کے فساد کے حوالے سے یہ کوئی نہیں جانتا کہ کتنے لوگ پیرس کی سڑکوں پر گذشتہ ہفتے نکل آئے تھے۔ لیکن یہ سیکڑوں میں تو ضرور تھے۔ اس لمحے برطانیہ اور فرانس بھی یکساں مسائل سے دوچار ہیں۔ لیکن یہ خیال کرنا درست ہے کہ فرانس کو اس وقت سنگین تر بحران کا سامنا ہے۔ آخر مسئلہ کیا ہے؟ فرانس کے ڈھیٹ اور آرزوئیں رکھنے والے وزیرِ خارجہ Nicolas Sarcozy نے بلوائیوں کو غنڈہ اور بدمعاش قرار دیتے ہوئے ان کی سخت مذمت کی اور ساتھ ہی اپنے اس عزم کو دہرایا کہ وہ متاثرہ علاقے کو اس طرح کے عناصر سے پاک کر کے رہیں گے۔ اس طرح انہوں نے اپنے بائیں بازو کے دشمنوں کو موقع دیا کہ وہ اس فساد کی ذمہ داری Sarkozy کی سخت گیر اور آئینی پالیسی کے سر تھوپیں۔ دوسری طرف جو اس کے دائین بازو والے دشمن ہیں‘ وہ امیگریشن پر الزام رکھتے ہیں۔ بہرحال کاروں کے نذرِ آتش کیے جانے کے واقعات زیادہ تر ان علاقوں میں ہو رہے ہیں‘ جہاں تارکینِ وطن کی اکثریت ہے۔ سرکوزی درحقیقت سہ مکھی سیاسی لڑائی میں مصروف ہیں۔ ایجابی اقدامات کے پروگرام کے ساتھ سرکوزی مہاجرین کی مدد کے خواہاں رہے ہیں اور انہوں نے غیرشہریوں کو جو طویل عرصے سے فرانس میں رہائش پذیر ہیں‘ کو ووٹ کا حق دیے جانے کی حمایت کی ہے۔ لیکن اب سرکوزی دائیں بازو کے لوگوں کو یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ مہاجرین کے تئیں وہ سخت رویہ بھی اختیار کرنا جانتے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ترغیب و تنبیہ پر مشتمل یہ پالیسی منقسم شہر کے مسئلے کا قابلِ اعتماد حل ہے؟ تارکینِ وطن فی نفسہٖ کوئی مسئلہ نہیں ہیں بلکہ مسئلہ یگانگت و یکجہتی کی ناکامی ہے۔ کسی بھی یورپی ملک کے مقابلے میں فرانس میں سب سے زیادہ غیرملکی نژادوں کی آبادی ہے یعنی دس فیصد سے بھی زیادہ۔ اگرچہ یہ آبادی ماضی میں ہوئی مہاجرت کے سبب ہے نہ کہ حال میں۔ فرانس میں تارکینِ وطن کی آمد کی شرح کم ہے اور یہاں کی حکومت خاص طور سے سیاسی پناہ چاہنے والوں کے تئیں بہت ہی غیرہمدردانہ رویے کا اظہار کرتی ہے۔
ان دنوں ان خاندانوں میں جو برسوں سے نہ کہ دہائیوں سے فرانس میں رہ رہے ہیں‘ افراد باہر سے آکر شامل ہو گئے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ وہ لوگ کم تر معیار والے علاقوں کی جانب منتقل ہو رہے ہیں‘ جہاں معیشت و اقتصاد کے امکانات بہت خراب ہیں۔ قومی سطح پر بے روزگاری کی جو اوسط شرح ہے‘ غیرملکی نژاد میں یہ اس کی دوگنی ہے جبکہ خود اوسط شرح بھی ۹ فیصد سے زیادہ ہے۔ فرانس کی جیلوں میں بھی غیرملکی تارکینِ وطن کی تعداد زیادہ ہے۔ اس وقت جو لوگ بلوے میں گرفتار ہوئے ہیں‘ وہ سب کے سب یا تو مہاجرین کے بیٹے‘ یا پوتے ہیں۔ پسماندہ علاقوں مثلاً Chichy-Sous Bois اور Neuilly-Sur-Marine میں ان کی زندگیاں جرائم‘ تعلیم میں ناکامی اور بے روزگاری کی افسوسناک داستان بیان کرتی ہیں۔ مہاجرت کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ سماجی لحاظ سے آدمی اچھوت ہو جائے۔ زیادہ تر لوگ غریب ممالک سے امیر ممالک کا سفر اچھے مقاصد کے ساتھ کرتے ہیں یعنی یہ سخت محنت کی نیت سے نقل مکانی کرتے ہیں تاکہ اپنے اور اپنے بچوں کی زندگیوں کو بہتر بنا سکیں۔
یورپ کے مقابلے میں امریکا کو نئے آنے والوں کو اچھی طرح جذب کرنے کا دیرینہ تجربہ ہے۔ زیادہ دنوں کی بات نہیں ہے کہ میں جنوبی ٹیکساس کے ایک اسکول میں تھا جو کہ میکسیکو کی سرحد سے بہت زیادہ دور نہیں ہے۔ پوری کلاس اپنے دن کا آغاز ایک نظم گا کر کیا کرتی تھی‘ جس کے بول کا کچھ یوں مفہوم تھا: ’’میں امریکی ہوں‘ امریکی رہوں گا/رہوں گی‘ مجھے امریکی ہونے پر فخر ہے‘ امریکا میں زندگی گزارنے پر فخر ہے‘ وغیرہ وغیرہ‘‘۔ اس میں شک نہیں کہ یہ بہت ہی جذباتی نظم ہے جو روزانہ پڑھی جاتی ہے لیکن بچے اسے اپنے مخصوص لاطینی لہجے میں جس انداز سے گاتے تھے‘ وہ ان کے حقیقی جوش و خروش کا آئینہ دار تھا۔ بہت پہلے امریکی اس بات کو ضروری سمجھتے تھے کہ زبان اور آداب کے امتحانات سے امریکی بننے کے خواہاں افراد کو گزرنا ضروری ہے۔ لیکن یہ امتحانات آسان نہیں ہیں۔ نیچرلائزیشن کے گائڈ میں ایک سوال تھا کہ بتائیے یہ کس کا قول ہے کہ ’’یا تو مجھے آزادی دو یا موت سے ہم کنار کرو‘‘۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ Patrick Henry ہے۔ میرا پسندیدہ سوال تھا ’’کس نے زائرین کی امریکا میں مدد کی؟‘‘ اس کا جواب تھا Red Indians۔ یورپ میں مسئلہ جزوی طور سے معاشی ہے۔ فری مارکیٹ کے حامل امریکا میں مہاجرین کو ملازمت مل جاتی ہے۔ وہ امریکا میں جنم لینے والے مزدوروں سے زیادہ بیروزگاری کے خطرے سے آزاد رہتے ہیں۔ لیکن دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ یورپی مہاجرین کو ثقافتی طور سے جذب کرنے کے لیے زیادہ کوشش نہیں کرتے ہیں۔ برطانیہ میں برطانوی شہریت کے مشتاق لوگوں کے لیے گذشتہ سال انگلش زبان کو سیکھنا ضروری قرار دیا گیا ہے اور گذشتہ ہفتے ’’برطانیہ میں زندگی‘‘ کے عنوان سے انہوں نے امتحان لینا شروع کیا ہے۔
اگر امتحانات کی نوعیت اچھی ہوتی تو کافی ترقی ہوتی۔ لیکن افسوس ہے کہ برطانیہ کی تاریخ میں اس حوالے سے صرف دو سوالات کا ذکر ملتا ہے اور وہ یہ ہیں:
(۱) ماضی میں تارکینِ وطن کہاں سے آئے اور کیوں آئے؟ (۲) کس طرح کے کام انہوں نے کیے ہیں؟ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ امریکی ہیں نہ کہ یورپی جو مہاجرین کے معاشرتی نتائج کی فکر میں گھل گئے۔
(بشکریہ: ’’لاس اینجلز ٹائمز‘‘۔ ۱۰ نومبر ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply