
گذشتہ دنوں خبریں آرہی تھیں کہ افریقی ملک صومالیہ کی صورتحال نہایت دھماکہ خیز بنتی جارہی ہے مگر اخیر کے دنوں میں عجیب معنی خیز خاموشی چھاگئی تھی اور حالات معمول پر آجانے اور صورتحال پرسکون ہوجانے کی بات کہی جارہی تھی‘ اس کے باوجود سلامتی کونسل کے ذریعہ امریکا کوشش میں لگا ہوا تھا کہ کسی بھی طرح یہاں غیرملکی افریقی فوج ضرور متعین کی جائے۔ حالات پر نظر رکھنے والے بہت سے تجزیہ نگار کو اس یقینی خبر سے حیرانی ہوئی تھی کہ اسلامک کورٹ کونسل اور واشنگٹن کے درمیان بات چیت چل رہی ہے۔
امریکا کی جانب سے تیار کی گئی قرارداد جسے سلامتی کونسل نے اتفاق رائے سے منظور کرلیا نے بین الاقوامی‘ علاقائی اور صومالی حلقوں کو اضطراب اور تشویش میں مبتلا کردیا تھا۔ اس وقت کچھ حلقوں نے وارننگ دی تھی کہ اس سے ایسی بدامنی ولاقانونیت پیدا ہوگی جو پورے صومالیہ کواپنی لپیٹ میں لے لے گی سلامتی کونسل نے یہ فیصلہ کیاتھا کہ متعدد صومالی طاقتوں کی مزاحمت کی وجہ سے خاص طور پر اس ملک کی سب سے بڑی طاقت اور عوام میں زبردست اثر ورسوخ رکھنے والی جماعت اسلامک کورٹ کونسل کو کچلنے کے لیے افریقی فوج وہاں بھیجی جائے گی‘ جو وہاں حالات کو معمول پر لاکر موجودہ حکومت کو مضبوط کرنے میں مدد کرے گی۔
الوطن العربی نے اس حملہ اور یلغار سے ایک ہفتہ قبل یورپی ذرائع کے حو الہ سے انکشاف کیا تھا کہ اسلامک کورٹ کونسل سے بات چیت مبالغہ آمیز مطالبات و اصرار کی بناء پر جب ناکام ہوگئی تو امریکا نے ایتھوپیا کو اعتماد میں لینے اور اسے آلہ کار بنانے کا فیصلہ کرلیا تھا اور اسے فریقی خطہ کا پولیس مین بنا کر کھڑا کرنے کی ٹھان لی تھی‘ اس کے لیے امریکانے زبردست مالی و فوجی امداد ایتھوپیا کو دینا شروع کی اور ایسی فوجی کمک فراہم کی جس کے ذریعہ امریکا اُسے صومالیہ میں داخل کرنا چاہ رہا تھا۔
الوطن العربی کے انکشاف کے مطابق حالیہ حملہ سے چند دنوں قبل ایک سینیٹر روس وینگولد کی صدارت میں ایک امرکی وفد ادیس ابابا پہنچا تھا اور سیاسی تعاون و حکمت عملی کی تنفیذ کے نقشوں کو قطعیت دی تھی اس میں اسرائی لبھی شریک تھا اور اس نے بھی اپنی فراخدلانہ تعاون کی پیشکش کی تھی‘ کیونکہ اس کا بھی خیال ہے کہ اس علاقہ سے اس کے مفادات بھی وابستہ ہیں کیونکہ یہ بحر احمر کا گیٹ اور مشرقی افریقہ کی اہم راہداری ہے۔ اس ملاقات میں ایتھوپیا نے سیاسی و فوجی تعاون کے لیے امریکا کے ساتھ ایک معاہدہ پر دستخط کیا تھا تاکہ وہ اس افریقی خطہ میں امریکی مفادات کا وکیل اور دلال بنارہے اور حالات کے پرسکون ہوجانے کے بعد دونوں مل کر صومالیہ کو عراق و افغانستان جیسا بنائیں گے اور کسی بھی مضبوط اسلامی طاقت کی یہاں موجودگی کو ناممکن بنائیں گے اور اگر موجود ہوں تو اسے مار بھگائیں گے۔ سب سے پہلا قدم صومالیہ میں افریقی فوج کی روانگی ہوگی جو اسلامی کورٹ کو ختم کرنے کے لیے ادیس ابابا کی تائید میں اپنا کام انجام دے گی۔ صومالیہ پر ایتھوپیائی فوج کشی اور امریکی یلغار کا پہلا مرحلہ شروع ہوچکا ہے اور اس اتفاق و معاہدہ کا پہلا منصوبہ روبعمل لایا جاچکا ہے اب انتظار آئندہ منصوبوں کا ہے۔
نئی غلطی:
افریقی امور کے ماہر محمد سیف کا کہنا ہے کہ امریکا نے ایتھوپیا کو اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لیے صومالیہ میں داخل تو کردیا ہے مگر اس کا انجام لازمی طور پر ناکامی ہی کی صورت میں ظاہر ہوگا‘ امریکا نوے کی دہائی میں بھی اس طرح کا ایک تجربہ صومالیہ میں کرچکا ہے جہاں اسے منہ کی کھانی پڑی تھی اور شکست خوردگی کا دامن گھسیٹتے ہوئے بڑی ذلت و رسوائی کے ساتھ وہاں سے نکلا تھا۔ محمد سیف آگے وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امریکی قرارداد جسے سیکورٹی کونسل نے اتفاق رائے سے ۶ دسمبر کو پاس کیا تھا اس کا مقصد ادیس ابابا کی موالی ’’بیدوا‘‘ کی کمزور حکومت کی مدد فراہم کرنا تھا تاکہ وہ اس شرعی کورٹ کا مقابلہ کرسکے جسے صومالی عوام کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
سلامتی کونسل کی قرارداد صومالی بحران کی زنجیر کی مختلف کڑیوں میں سے ایک کڑی ثابت ہوئی جس نے توقع کے مطابق وہاں کے مسائل ومشکلات میں مزید اضافہ کیا اور ’’سلامتی‘‘ کا بینر اٹھائے شرعی کورٹ کی پیش قدمی روکنے اور کار گزار حکومت کی مدد و اعانت کرنے کے نعرہ کے ساتھ دشمن فوج اس بدنصیب ملک کے سرزمین کو پامال کرنے کے لیے داخل ہوگئی۔ کتنی بدنصیبی کی بات اور سلامتی کونسل کی جانب سے بدامنی پھیلانے کی کوشش ہے کہ ۱۹۹۲ء میں صومالیہ پر اسلحہ کی پابندی محض اس لیے اٹھالی گئی یا ان جارح فوجوں کو اس سے اس لیے مستثنیٰ قرار دیا گیا کہ اوہ ادیس ابابا کی تائید و حمایت کرنے والی ملیشیا کو خونریزی کی ٹریننگ دی جاسکے اور نہتے لوگو ں کا قتل عام کیا جاسکے۔
موجودہ بحران کے اثرات:
’’الاھرام‘‘ سینٹر برائے سیاسی و جغرافیائی تحقیقات کے عرب جغرافیائی رپورٹ تیار کرنے والے ادارہ کے مشیر ڈاکٹر سامی منصور کا کہنا ہے کہ صومالیہ پر ایتھوپیا کی یلغار یہیں تک محدود رہنے والی نہیں ہے‘ یہ سالوں سال چلے گی اور اس کی آگ قرب و جوار کے علاقو میں بھی ضرور پھیلے گی‘ یہ احتمال زیادہ قوی ہوگیا ہے کہ بہت جلد ایتھوپیا اور اریٹریا یا سرحد کے مسئلہ میں ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو جائیں۔ سلامتی کونسل سے پاس ہونے والی امریکی قرارداد جس نے ایتھوپیا کے لیے مداخلت کا جواز عطا کیا اس میں امریکا نے دہشت گردی کے خلاف اعلان جنگ کی بھی بات کہی گئی ہے‘ درحقیقت امریکا اور اس کا حلیف ایتھوپیا اس افریقی خطہ میں کسی بھی اسلامی وجود کا مخالف ہی نہیں بڑا دشمن ہے اگر یورپی یونین کی طرف سے واشنگٹن پر دبائو نہیں پڑتا تو کانگو‘ گھانا اور تنزانیا کو بھی اس لپیٹ میں لے آئے گا۔
امریکی دبائو کے تحت ایتھوپیائی فوج یہاں داخل تو ہوگئی ہے اور ابتدائی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ اسے مسلسل کامیابی بھی مل رہی ہے مگر دوسری جانب اسلامک کورٹ کونسل نے حملہ سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی وارننگ دی ہے کہ وہ اس سرزمین میں داخل ہونے والی فوج کا آخری دم تک مقابلہ کریں گے اور بالآخر انہیں ملک چھوڑ کر الٹے پائوں واپس ہونے پر مجبور کردیں گے جیسا کہ امریکا کو اس سے پہلے سبق مل چکا ہے۔
سلامتی کونسل کی اس بدبختانہ قرارداد کو صرف صومالیہ کے اسلامک کورٹ ہی نے مسترد نہیں کیا بلکہ اسے عارضی حکومت کے علاوہ تقریباً ہر جماعت اورتنظیم نے مسترد کیا تھا اور سلامتی کونسل کو جانبدار اور بدامنی پھیلانے کا علمبردار قرار دیا تھا کہ وہ واشنگٹن کے حکم کے سامنے سربسجود رہنے والا ادارہ ہے جو یہاں کار گزار حکومت کے مفادات کے لیے اور امریکی منصوبہ کے دائرہ میں اپنی بدبختانہ کارروائی کررہا ہے۔
ڈاکٹر منصور کا کہنا ہے کہ ایتھوپیائی حملہ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ جنگ کے شعلوں کو بھڑاکنے میں تاخیر و انتظار کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ اس کی اور اس کے آقا کی خواہش تھی کہ جس قدر جلد ممکن ہو یہ آگ بھڑکادی جائے اور اسلام پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کو بعجلت تمام انتہا تک پہنچادیا جائے مگر یہ آگ یہیں تک رہنے والی نہیں ہے کہ اسے تاپتے رہیں اس کی چنگاری پورے خطہ میں اڑ کر گرے گی اور ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لے گی‘ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ امریکا جس طرح عراق و افغانستان میں ناکام رہا ہے اس طرح بلکہ اس سے بدتر صورت میں یہاں بھی ناکام رہے گا‘ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکی ادارہ اسلام دشمنی کے نشہ میں انجام کا مطالعہ گہرائی سے نہیں کرپاتا اور دشمنی کے جذبات کے تحت اقدام کرلیتا ہے پھر اسے ندامت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اس غریب ملک پر یلغار کرکے شاید امریکا عراق و افغانستان کی شکست کی بدنامی کو دھونا چاہتا ہے کہ اس پر شاید آسانی سے فتح پائی جاسکتی ہے اور اس طرح سابقہ شکستوں کی بدنامی نیک نامی میں تبدیل ہوکر شاید عوامی تائید حاصل ہوجائے مگر یہ محض خام خیالی ہے۔
افریقی معاملات سے باخبر تجزیہ کار عبدالرحمن سہل کا کہنا ہے کہ امریکا نے اس حملہ کے ساتھ زبردست ڈپلومیسی اور میڈیا سرگرمی صومالی عوام کے خلاف شروع کردی ہے اور اسلامک کورٹ کو بدنام کرنے کے نئے نئے طریقے وضع کرلیے ہیں ان اسلام پسندوں سے روابط کی بنیاد پر پڑوس کے ممالک کو بھی دھمکی آمیز پیغامات ارسال کیے جارہے ہیں‘ یہ آنکھ میں دھول جھونکنے کی بات ہے کہ امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے جو قرارداد پاس کرائی ہے اور جن باتوں کو اسلحہ کی پابندی اٹھانے کا وجہ جواز بنایا ہے وہ سب کی سب غلط اور بے بنیاد ہیں۔ سلامتی کونسل کے اندر اگرذرّہ برابر بھی حس و حرکت یا صداقت ہوتی تو سچائی کا اعتراف کرتے ہوئے مکمل عوامی تائید کی حامل جماعت اسلامک کورٹ کونسل کا سیاسی وزن تسلیم کرتے ہوئے اسے سیاسی کردارادا کرنے کا موقع دیتی۔ اسے امن و امان کی بحالی‘ علاقائی حکمت عملی اور جغرافیائی نشیب و فراز کی اصلاح میں ہاتھ بٹانے کے لیے کہتی مگر یہ ناممکن بات تھی کہ کسی اسلامک طاقت کو اہمیت دی جائے کیونکہ یہ امریکا کی مرضی کے خلاف ہوتا ‘ اس کے مفاد سے ٹکراتا اور امن و امان بحال ہونے کی توقع جاگ اٹھتی جو وہ نہیں چاہتا ہے۔ عبدالرحمن سہل ایتھوپیائی فوج کشی کے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میری نظر میں اس یلغار کے مقاصد صرف چار ہیں۔
۱۔ صومالیہ میں سب سے بڑی اور نئی قوت کی صورت میں ابھرنے والی جماعت ’’اسلامک کورٹ کونسل‘‘ کا خاتمہ۔
۲۔ صومالیہ میں عراق کی طرح قتل و غارت گری اور خونریزی کا بازار گرم کرکے اس پر مکمل کنٹرول کرنا‘ واضح رہے کہ اس جنگ میں امریکا بلاواسطہ نہیں کودا ہے بلکہ اپنی فوجوں کی جان قربان ہونے سے بچانے کے لیے بالواسطہ کودا ہے۔ اس میں قربانی کا بکرا ایتھوپیا کو بنایا گیاہے البتہ امریکی فضائیہ اس میں منصوبہ کے تحت ایتھوپیا کو دی گئی یقین دہانیوں کے مطابق حصہ لے رہی ہے ۔ صومالیہ کو عراق جیسامیدان کارِ زار بنانے کی مکمل کوشش ہورہی ہے۔
۳۔ بے بنیاد دلائل اور غیر منطقی استدل‘ مثلا نگراں کمزور حکومت کے دفاع و استحکام کے ذریعہ صومالیہ کی سرزمین پر قابض ایتھوپیائی فوجوں کی کارروائیوں اور قبضوں کو قانونی حیثیت دینا۔
۴۔ اس بات کا یقین حاصل کرنا کہ یہ افریقی خطہ کسی بھی امریکا مخالف نظام و تحریک سے پاک ہوگیا ہے۔
اس میں سے کون سا مقصد حاصل ہوگا آئندہ وقت ہی بتائے گا۔
(بحوالہ نقوش ڈاٹ کام)
Leave a Reply