
کچھ لوگوں کو امر ہونے کے لیے اپنی زندگی کی قربانی دینی ہوتی ہے‘‘۔ یہ وہ پوسٹ ہے جسے جمال خاشقجی نے قتل سے قبل اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر تحریر کیا، اس نے مزید لکھا ’’اپنی بات کہیے اور آگے بڑھ جایے‘‘۔جمال خاشقجی کے یہ دو مختصر جملے ہیں، لیکن اس میں کئی معانی پنہاں ہیں۔ ان جملوں سے اس کے کرب، اذیت اور بالآخر اس دور کے ہلاکو خان محمد بن سلمان اور اس کے حواریوں کے ہاتھوں اس کی ہلاکت کے اسباب کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔اس پر تشدد کے انتہائی بہیمانہ طریقوں کو اختیار کیا گیا، اس کے ان ہاتھوں کو جدا کر دیا گیا، جن سے وہ قلم تھام کر اپنی قوم کے لیے لکھا کرتا تھا۔ اس کی زبان کو کاٹ دیا گیا، جس سے وہ آزادی کے لیے آواز بلند کیا کرتا تھا۔ اس کے اعضا کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے دور پھینک دیا گیا تاکہ اس کی شناخت تک کو مٹا دیاجائے۔خاشقجی کے قتل کو اب ۱۸ روز گزر چکے ہیں، لیکن سعودی حکام اس واقعے سے اب تک انکاری ہیں۔ان کا کہنا ہے خاشقجی ۲۰ منٹ میں اپنی درخواست دے کر واپس چلا گیا تھا۔محمد بن سلمان نے بھی امریکا کی بلوم برگ نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے اسی بیان کا اعادہ کیا۔ استنبول میں سعودی قونصل جنرل محمدالعطیبی نے اس بات کی سختی سے تردید کی کہ اسے سفارت خانے میں حراست میں رکھا گیا۔محمد العطیبی کا کہنا تھا ہم اسے بازیاب کرانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے وہ مضحکہ خیز انداز میں رائٹرز کے رپورٹر کو قونصل خانے کے اندر لے گیا تاکہ اسے معائنہ کروائے اور خاشقجی کو ڈھونڈ نکالے۔اس نے دروازہ اس طرح کھولا گویا کہ اس نے خاشقجی کو تلاش کر لیا ہے۔سعودی حکومت نے واقعے کے ۱۸ روز بعد یہ بیان جاری کرکے معاملے کو اور مشتبہ بنا دیا کہ خاشقجی کا قتل ان ۱۵ ؍افراد سے لڑائی کے دوران ہوا جو اسے وطن واپسی پر آمادہ کرنے آئے تھے۔ اس سے پہلے یہ بتایا گیا تھا کہ خاشقجی وطن واپس آنا چاہتے تھے۔ اس سے اس بیان کی تردید ہوتی ہے کہ۱۵ افراد اسے راضی کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنے زیادہ افراد کو بھیجنے کی ضرورت کیوں پیش آئی،جس میں انٹیلی جنس، سکیورٹی ایجنٹ،شاہی گارڈز اور بادشاہ کے اندرونی حلقوں کے افراد شامل تھے۔اور یہ کہ سعودی فارنزک میڈیسن کے سربراہ کو اس میں کیوں شامل کیا گیا۔ اپنے ذہن میں ابھرنے والے ان سوالات اور خدشات کو اگر ہم نظرانداز بھی کر لیں اور اس من گھڑت کہانی کو مان لیں تب بھی کئی سوالات اپنی جگہ موجود ہیں۔ آخر لڑائی کی ضرورت کیوں پیش آئی،اگر مقاصد ٹھیک تھے یعنی اسے وطن واپسی پر آمادہ کرنا۔ان افراد نے ایسا کیاکیا کہ وہ چیخنے پر مجبور ہوا۔ ایک سعودی ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ ان افراد کو مجبورکیا گیا تھا کہ وہ جمال خاشقجی کے منہ کو کپڑے سے ڈھانپ کر بند کردے جس سے اس کی موت واقع ہوئی۔ڈاکٹر کی موجودگی میں یہ واقعہ کیسے پیش آیا اور ڈاکٹر نے اس کی حالت خراب ہونے سے پہلے اسے طبی امداد کیوں نہ دی۔ایک اور معصومانہ سوال کہ اسے فوری طور پر اسپتال کیوں منتقل نہیں کیا گیا اور اس کی موت کی تصدیق کے بعد ترکش حکام کو اطلاع کیوں نہ دی گئی۔ اس کے جسد خاکی کو منتقل کرنے اور شرعی انداز سے تدفین کے انتظامات کیوں نہیں کیے گئے۔ اس مضحکہ خیز کہانی کو کسی انتہائی بیوقوف انسان نے تخلیق کیا ہے۔ اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ خاشقجی ایک جارحانہ طبیعت کا حامل شخص تھا۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے، اس کی شہرت نہایت شفیق اور دوستانہ مزاج کی تھی۔ خاشقجی اپنے ہاتھوں سے نہیں بلکہ پوری زندگی قلم کے ذریعہ لڑتا رہا۔ وہ اپنے ملک کی اصلاح کے لیے بے خوف و خطر اپنی رائے کا اظہار کرتااور حکمرانوں کو ان کے احمقانہ اقدامات سے گریز کی تلقین کرتا۔ اسے اس بات کی ضرورت بھی محسوس ہورہی تھی کہ آئینی اور پارلیمانی کمیٹیوں میں افراد کی شرکت میں اضافہ کیا جائے تاکہ فرد واحد کی حکمرانی کا خاتمہ ہو۔اس کا خیال تھاکہ جمہوریت ہی سے عرب ممالک کو انتشار اور مذہبی اور مسلکی منافرت سے بچایا جا سکتاہے۔عوام کے بنیادی حقو ق کی پامالی،غربت اور ناانصافی کا خاتمہ بھی اسی طور ممکن ہے۔جمال خاشقجی کو عرب بہار سے بڑی امیدیں وابستہ تھی۔اسے اپنے ملک کے نوجوانوں سے بھی خاصی مثبت توقعات تھی۔اس کا خیال تھا کہ انقلاب کی لہریں ابھر رہی ہیں اور تبدیلی کی سمت بڑھ رہی ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے اس کہانی کے مصنف کو جب اس کہانی کی کمزوریوں اور اس کے خلاف اٹھنے والے سوالات کا اندازہ ہواتو اس نے اس میں تبدیلی کی۔منصوبہ یہ تھا کہ اگر خاشقجی سعودیہ جانے سے انکار کرے گا تو اسے قونصل خانے سے استنبول کے ایک فلیٹ میں لے جایا جائے گا۔ اپنی حماقت سے انھوں نے اس مسئلے کو مزید خراب کیا۔ ایک سفارتی مقام سے اغوا کا منصوبہ بنایا جانا بذاتِ خود ایک شرم ناک عمل ہے اس کا فوری طور پر احتساب ہونا چاہیے۔یہ واقعہ اپنی نوعیت کا ایک انتہائی منفرد واقعہ ہے، اس سے پوری دنیا میں سعودی شہزادوں کا بد نما کردار سامنے آیا۔اپنی تمام وسائل کو خرچ کرکے بھی وہ اس قبیح جرم کے عواقب سے بچ نہیں سکتے۔ موجودہ دور کے ہلاکو محمد بن سلمان نے گذشتہ دو سالوں میں کئی ارب ڈالر اس مقصد کے لیے خرچ کیے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ایک روشن خیال اور اصلاح پسند حکمران ثابت کرسکے۔ تاہم، جمال خاشقجی کے خون نے ان کے سارے منصوبے اور مقاصد پر پانی پھیر دیا۔ دنیا کے سامنے محمد بن سلمان کا منتقم المزاج، پست ذہن کا قبائلی پس منظر رکھنے والا اصل چہرہ سامنے آیا۔ دنیا بھر کے اخبارات نے نمایاں طور پر اس کے مکروہ عزائم اور کردار کو پیش کیا۔ محمد بن سلمان نے ایک آواز کو خاموش کرنا چاہا لیکن اب لاتعداد آوازیں اس کے خلاف بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ دنیا میں اس وقت بھی باشعور اور باضمیر افراد کی خاصی تعداد موجود ہے جو بنیادی انسانی حقوق پر یقین رکھتی ہے اور جن کو خلیجی پیسوں سے خریدا نہیں جاسکتا۔ اب بھی ایسے اخبارات موجود ہیں جو صحافت کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دوست کی حمایت میں پہلے بیان دیا کہ وہ سعودی مؤقف کی تائید اور محمد بن سلمان پر اعتماد کرتے ہیں، لیکن پھر کہا ’’اس مؤقف سے مطمئن ہونا مشکل ہے‘‘۔ ٹرمپ نے اپنے مؤقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ سعودی شہزادے سے کوئی ذاتی مراسم نہیں۔ لیکن وہ ۱۰۰؍ارب ڈالر کی ہتھیاروں کی ڈیل سے امریکی عوام کو محروم نہیں کرنا چاہتے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے خاشقجی کے قتل کے بعد عالمی دباؤ پر ریاض میں منعقد ہونے والی ’’ــڈیزرٹ کانفرنس‘‘ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ بلاشبہ ترکش حکام اپنی کوششوں سے اس حوالے سے کامیاب ہوئے کہ انھوں نے اپنی سرزمین میں ہونے والے اس واقعے کو بڑے احسن طریقے سے سنبھالا۔ اس کامیابی کا سہرا بجا طور پر ترک قیادت کو جاتا ہے، جس کی قیادت رجب طیب ایردوان کر رہے ہیں۔ انھوں نے انتہائی حکمت، پیشہ ورانہ انداز اور سیاسی بصیرت کے ساتھ اس مسئلے کو ڈیل کیا۔ طیب ایردوان کا کہنا تھا ترکی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مظلوم کی حمایت کرے، ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کی اور ثابت کیا کہ ہمارے لیے اصول اور اقدار سیاسی تعلقات سے زیادہ اہم ہیں۔ خاشقجی کے خون نے ناانصافی پر مبنی سلطنت میں دراڑیں ڈال دی ہیں اور بہت جلد امت مسلمہ کو دھوکا دینے والے حکمران اپنے انجام سے دوچار ہوں گے۔
(ترجمہ: محمود الحق صدیقی)
“Some leave to stay”. (“middleeastmonitor.com”. October 23, 2018)
When we describe Muhamad bin suleman,s dark face: my opinion is this we should use abbne suleman word instead of Muhammad. In upper article there wrote Halaqu Muhamad bin suleman. It created pain in my heart because of word Muhammad. Being a muslim we should becareful about name Muhammad. According to Hadith we can n,t abuse that child whose name is Muhammad. Such people,s name should be changed.