
فلسطینی عوام گزشتہ ۶۰ سال سے بد ترین حالات میں جبر و استبداد کی سختیوں اور جلا وطنی کی اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں۔۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے قیام کے وقت اپنی زمینوں اور گھروں سے جبراً نکالے جانے والے مہاجرین دنیا کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہیں۔ جن کی آبادی تقریباً ایک کروڑ سے تجاوز کر رہی ہے۔ ایک معتدبہ آبادی بے گھر افراد کے طور پر شام،اردن، لبنان، میں عارضی قیام گاہوں میں پڑی ہوئی ہے ۔اسرائیل کی پالیسی یہ ہے کہ تاریخی خطہ فلسطین میں آباد فلسطینیوں کی نئی نسلیں زندگی کی ناگفتہ بہ حالت سے تنگ آ کر آہستہ آہستہ خود فلسطین کی سرزمین سے ہجرت کرتی جائیں گی جب کہ تصویر کا دوسرا رخ اس کے برعکس ہے ۔
صیہونیوں کی تمام تر کاوشوں کے باوجود ۱۶ لاکھ بے گھر فلسطینی اسرائیل کے اطراف میں ڈٹے ہوئے ہیں اگرچہ تاریخی خطۂ فلسطین کی حدوں میں یہ لوگ جبر و استبداد کی تلخ زندگی سے دوچار ہیں۔
فلسطینی اعداد و شمار کے مرکزی ادارے (PCBS) کی رپورٹ ۲۰۰۵ کے مطابق ان کی دنیا بھر میں کل آبادی ایک کروڑ ایک لاکھ افراد پر مشتمل ہے ۔جن میں ۴۹ لاکھ تاریخی خطۂ فلسطین کے قطری بذر میں آباد ہیں، ۲۴ لاکھ مغربی کنارے ، ۱۴ لاکھ غزہ کی پٹی اور ۱۱ لاکھ اسرائیل کے اندر آباد ہیں جب کہ ۳۰ لاکھ اردن میں ہیں۔
فلسطینیوں کی شرح پیدائش کی زرخیز ی سے صیہونیوں کو بڑا خطرہ لاحق ہے ۔ یہ ۶ء۴ فیصد عورت ہے جب کہ اسرائیلیوں کی شرح پیدائش بہت کم ہے ۔ مردم شماری ۲۰۰۳ کے مطابق یہ صورت حال واضح ہوتی ہے ۔
عمومی اعداد و شمار آبادی کا شماریہ ۲۰۰۵ کے مطابق فلسطینی آبادی ملین میں ۱ء۱۰ جب کہ شرح پیدائش فی ہزار ۳ء۳۷ ہے ۔ مردوں کا متوقع زندگی کا دورانیہ ۷ء۷۱ ہے جب کہ عورتوں ۴ء۷۳ہے۔
فلسطینی معاشرے کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں ۱۸ سال کی عمر کے نوجوان ۸ء۵۲ فیصد ہیں جب کہ ۶۵ یا اس سے زائد عمر کے افراد کل آبادی کا صرف ۳ فیصد ہیں۔فلسطینی مہاجرین یورپ میں بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں۔یورپی کونسل کے اندازوں کے مطابق ۲ لاکھ افراد یورپ کے ممالک میں قیام پذیر ہیں جن میں سے ۰ ۸ ہزار جرمنی میں، ۲۰ہزار ڈنمارک، ۱۵ ہزار برطانیہ، ۹ ہزار سویڈن اور ۳ ہزار فرانس میں رہ رہے ہیں۔ لیکن بعض دوسری رپورٹوں کے مطابق جرمنی میں دو لاکھ سے زائد اور برطانیہ میں ۵۰ ہزار فلسطینی قیام پذیر ہیں۔ جب کہ اس شمار میں ہالینڈ ، اٹلی ، آسٹریا اور اسپین میں آباد فلسطنی شامل نہیں ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے محقق ڈاکٹر عباس شبلاق کے مطابق یورپی یونین میں ۲ لاکھ پچاس ہزار فلسطینی مقیم ہیں ۔ ۱۹۴۸ میں صیہونیوں نے فلسطینیوں کا بڑے پیمانے پر نسلی صفایا کیا اور ۶۷۵ قصبات اور شہروں سے ۱۰ لاکھ افرادکو نکال باہر کیا جو ۲۰۰۰ء میں ۵۰۰۰۰،۵۲ کی موجودہ حد کو پہنچ گئے ہیں یہ دور حاضر میں نسل کشی کے ذریعے صفایا کرنے کا سب سے بڑا جرم ہے ۔
دیگر جنگی جرائم کے برعکس یہ نسل کشی باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کی گئی اور مغربی طاقتیں صیہونیوں کو رقم، اسلحہ اور سیاسی اور اخلاقی حمایت فراہم کر رہے ہیں جس کے باعث یہ جرم مسلسل جاری ہے۔ اسرائیلی مسلسل جھوٹا پروپیگنڈا کرتے چلے آرہے ہیں کہ فلسطینیوں نے رضاکارنہ طورپر یہ علاقے خالی کیے ہیں۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے صیہونی دہشت گردوں نے قتل و غارت گری اور خوف و ہراس کے حربے اختیار کر کے نسلی خاتمے کا جرم کیا ہے ۔ پورے فلسطین اور مصر اور شام کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا۔
عثمانی ترکوں کے زمانے میں فلسطین میں یہودی ۲ فیصد زمین کے مالک تھے برطانوی انتداب کے زمانے میں بدنام زمانہ اعلان بالفور کے نتیجے میں انتدابی حکومت نے ایسے صیہونیوں کو فلسطین میں آباد کرنے کے لیے قانونی سہولیات فراہم کیں ۔ چنانچہ برطانوی انتداب کے خاتمے تک فلسطین میں ۳۰ فیصد یہودی آباد ہو چکے تھے۔ ان میں زیادہ تر وہ فوجی تھے جو دوسری جنگ عظیم میں حصہ لے چکے تھے انہوں نے مقامی باشندوں کو نکال دیا۔ ۱۹۶۷ میں تاریخی خطہ فلسطین کا مکمل حصہ اسرائیلی قبضہ میں تھا اس کے علاوہ مصر ، شام اور لبنان کے کچھ حصوں پر بھی اسرائیل قابض تھا ۔ اب وہ نہ صرف بتدریج مغربی کنارے پر اپنا قبضہ بڑھا رہا ہے بلکہ دیوار کی تعمیر کر کے فلسطینیوں کا گھیرائو کر رہا ہے ۔ صیہونی زمین پر قبضہ کرنے اور مقامی آبادی کو کچلنے اور ملک بدر کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ بین الاقوامی قانون میں یہ جنگی جرم ’’نسلی صفایا‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔لیکن اسرائیل تمام بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کے برعکس آبادی کے انخلا کی نسلی امتیاز کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ اس کے باوجود فلسطینی مسلمان آبادی بڑھتی ہی جارہی ہے ۔ جو اسرائیل کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ مستقبل میں اگر فلسطینیوں کی آبادی ۱۰ فیصد ، ۲۰ فیصد یا ۳۰ فیصد بڑھ جائے تو کیا پھر بھی وہ مظلوم اور مجبور وں کے طورپر اسرائیل میں رہیں گے ؟
درج ذیل جدول کے ذریعے فلسطین اور اس کے گردونواح میں ۲۰۰۰ء سے ۲۰۲۰ ء تک آبادی میں متوقع اضافہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اس جدول میں ۲۰۰۰ء کے اعداد و شمار حقائق پر مبنی ہیں جب کہ ۲۰۲۰ ء میں آبادی کے اعداد و شمار اسرائیلی اسکیم برائے ۲۰۲۰ ء سے لیے گئے ہیں۔
اس جدول سے اندازہ ہوتا ہے کہ فلسطینیوں کی آبادی ۲۰۲۰ء تک سو فی صد بڑھ جائے گی جب کہ یہودیوں اور غیر عربوں کی آبادی ۱۲ فی صد بڑھے گی بشرطیکہ بڑے پیمانے پر ہجرت نہ ہو ، کثیر مہاجرت کے نتیجے میں یہ شرح ۴۲ فیصد تک ہو گی ۔ تمام فلسطین اور اسرائیل سے فلسطینیوں کے انخلا ، نسلی صفایا کے طور پر ۱۹۴۸ سے جاری ہے ۔ ۱۹۶۷ سے ۲۰۰۳ تک مغربی کنارے اور غزہ سے ۴ لاکھ سے زائد لوگ ہجرت کرنے پر مجبور کر دیئے گئے ۔ تاہم ان علاقوں میں موجود فلسطینیوں کی ذرخیزی سے اسرائیل سخت خوف زدہ ہے ۔ تعلیم یافتہ فلسطینی عورت ۱۸ء۷ بچے پیدا کرتی ہے۔ جب کہ کم تعلیم یافتہ مائیں ۶۶ء۶ (یوسف کو ربیج۔ جرنل آف فلسطینی اسٹڈیز نمبر ۶۳) اس سے اندازہ لگائے کہ آبادی کی شرح کے بارے میں یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ زیادہ حساس ہیں۔
فلسطینی وزارت صحت کی رپورٹ میں فلسطینی آبادی میں ایسے کیسز اور اسقاط حمل کے پھیلائو کے شواہد پیش کیے گئے ہیں جس کی نظیر نہیں ملتی۔
کچھ اخباری اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فوج کی جانب سے مظاہرین پر نا معلوم زہریلی گیس کے استعمال کے شواہد بھی ملے ہیں۔
(جیمس بروکس How Israel “Dispress” Demonstrations: Chemical Warfare on the West Bank?”)
اسرائیلی کی جانب سے حیاتیاتی ہتھیار وں کا استعمال معروف بات ہے اور اس کے تحریری شواہد موجود ہیں ۔
تو کیا اسرائیل فلسطینی بچوں کو پیدا ہونے سے پہلے ہی قتل کر رہا ہے جیسا کہ وہ انہیں پیدا ہونے کے بعد کرتا ہے؟
یہودی اسرائیل میں گونا گوں مسائل سے دو چار ہیں ان کی شرح آبادی بھی کم ہے۔ وہ ۱۱۰ ممالک سے ۸۲ زبانیں بولنے والے لوگ ہیں۔ اس طرح یکسانیت نہیں ہے۔ تاہم تمام غیر یہودیوں کے لیے ان کے نسلی تفاخر اور حریف کے خلاف جبرو استبداد پر مبنی کاروائیوں اور اس میں کھلم کھلا فاشزم کے خلاف دنیا کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے فلسطینیو ں کو ان کا حق دلوانا چاہیئے۔
مسئلے کا حل
صیہونیوں کی جانب سے بار بار فلسطینیوں کے گھر اجاڑنے کے باوجود بھی ان کی نسل کو ختم نہیں کیا جا سکا۔
یہ دعویٰ کہ فلسطینیوں کو بھلا دیا جائے گا غلط ثابت ہوا۔ ہنوز ان کے پاس فلسطین کا ایک خطہ ہے اور جس شرح سے وہ آبادی بڑھا رہے ہیں ایک وقت آئے گا کہ اسرائیلی اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے ۔ بہر حال ۵۰ فیصد آبادی اپنے حقوق کے حصول میں اس وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب کہ وہ فعال، طاقتور اور منظم آباد ی ہو۔فلسطینی آبادی میں اضافہ کی شرح سے صیہونیوں کا خوف ایک ایسی نسل کش پالیسی ہے کہ جس کی مثال پوری دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی ہے ۔ مسلسل قتل و غارت گری، دہشت گردی، فاقہ کی کیفیت پیدا کرنا۔ عمارات اور خاندانوں کو تقسیم کرنا اور دیوار کی تعمیر سے ہزاروں افراد متاثر تو ضرور ہوں گے لیکن آخر کار فوقیت فلسطینیوں کو حاصل ہو گی ۔
مغرب کے تعصب کے باوجود اور مغربی دنیا کے متعصبانہ نسلی امتیاز پر مبنی جرم جو کہ سیکنر، پیکاٹ ، بالفور ، بن گوریان اور شیرون سے سرزد ہو ا ہے۔ دنیا اسرائیلی نسل پرست مجرم ذہن کی حامل ریاست کو زیادہ دیر برداشت نہیں کرے گی۔ اس کی مثال موجود ہ دنیا میں کہیں نہیں ہے۔
عوامی آگاہی ، احتجاج ، بائیکاٹ، انسانی حقوق کی تنظیموں کے ذریعے اسرائیل پر دبائو ڈالنا چاہیے۔ جو بلاشک وشبہ دنیا میں بدترین نسل کشی کا علمبردار ہے۔ یہ جنگ طویل ہو سکتی ہے ۔ مگر فلسطینیوں کی یقینی فتح اس صورت میں ممکن ہے جب کہ وہ اپنے جائز حقوق کا دفاع مسلسل مستقل اور پر بھر پور طریقے سے کرتے ہیں جب کہ انہیں اس کامیابی کے لیے مزید قربانیوں کے لیے بھی تیار رہنا ہوگا۔
فلسطین میں متوقع اضافۂ آبادی (یہودی اور فلسطینی)ہزار میں |
برائے ۲۰۰۰ء | متوقع آبادی برائے ۲۰۲۰ |
مقام | حقیقی تعداد | اسرائیلی اسکیم برائے ۲۰۲۰ | کم از کم | زیادہ سے زیادہ |
اسرائیل یہودی | ۵۱۸۰ | ۵۸۳۲ | ۶۰۵۸ | ۷۴۳۱ |
فلسطینی | ۱۱۸۸ | ۲۲۶۸ | ۲۲۳۳ | ۲۲۳۳ |
کل آبادی | ۶۳۶۸ | ۸۱۰۰ | ۸۲۹۱ | ۹۶۶۴ |
یہودیوں کے مقابلے میں فلسطینیوں کا فیصد | ۲۳ | ۳۹ | ۳۷ | ۳۰ |
غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینی | ۳۱۱۵ | ۶۰۰۰ | ۶۵۰۰ | ۶۵۰۰ |
کل فلسطین میں آباد فلسطینی | ۴۳۰۳ | ۸۲۶۸ | ۸۷۳۳ | ۸۷۳۳ |
وہ سال جس میں دونوں کی آبادی برابر ہو جائے گی | ۹۴۸۳ | ۱۴۱۰۰ | ۱۴۷۹۱ | ۱۶۱۶۴ |
پوری دنیا میں آباد کل فلسطینی | ۸۳۳۳ | ۱۶۷۴۸ | ۱۶۷۴۸ |
(ترجمہ : پروفیسر سید ارشد جمیل )
Ref: The Palastinian Strategic Report 2005
Leave a Reply