
براعظم افریقا پر ۹؍جولائی کو ایک نئے ملک کی ولادت ہوئی اور جنوبی سوڈان وجود میں آگیا۔ اعلانِ آزادی کے ساتھ ہی امریکا اور برطانیہ نے جنوبی سوڈان کو تسلیم کر لیا۔ جبکہ نئی ریاست کے دارالحکومت جوبا میں تقریب آزادی سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اعلان کیا کہ اگلے ہی ہفتے سوڈان کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دے دی جائے گی۔ اقوام متحدہ نے ایسی ہی عجلت مشرقی تیمور کو تسلیم کرنے میں بھی لگائی تھی، جسے انڈونیشیا کو کاٹ کر تشکیل دیا گیا ہے۔ لیکن ۲۰۰۸ء میں اپنی آزادی کا اعلان کرنے والی یورپ کی ریاست کوسووا اقوام متحدہ کی رکنیت سے اب تک محروم ہے۔ حالانکہ گزشتہ برس عالمی عدالت انصاف کوسووا کی رکنیت کا حکم جاری کر چکی ہے۔ دہرے معیار اور بڑی طاقتوں کی منافقت کے باوجود دنیا بھر کے امن پسندوں کے لیے جنوبی سوڈان کی آزادی اس اعتبار سے خوش آئند ہے کہ اس کے نتیجے میں نصف صدی سے جاری خونریزی رُک گئی ہے۔ اس تنازعے نے ۳۰ لاکھ سے زیادہ افراد کی جان لی۔ جبکہ لاکھوں خواتین بے آبرو کی گئیں کہ صنف لطیف کی اجتماعی عصمت دری کو اس جنگ میں ایک فوجی حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا گیا۔
نسلی اعتبار سے سوڈان تین لسانی اکائیوں پر مشتمل ہے۔ یعنی شمالی سوڈان، جہاں عرب مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ جنوبی سوڈان میں عیسائی اور روح پرست (Animist) افریقی قبائل آباد ہیں۔ جبکہ مغربی سوڈان دارفر کہلاتا ہے جو افریقی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ جنوری ۱۹۵۶ء میں مملکت کی آزادی کے ساتھ ہی جنوبی سوڈان کے شہر جوبا میں مظاہرے شروع ہوگئے۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ جنوبی سوڈان مذہبی، معاشرتی اور لسانی اعتبار سے باقی ملک سے الگ ہے اور انہیں مکمل خودمختاری ملنی چاہیے۔ سوڈانی وزیراعظم اسماعیل الازہری نے جنوبی سوڈان کو مکمل علاقائی خود مختاری دینے کا وعدہ کیا۔ ایتھوپیا کی متعصب مسیحی حکومت نے جنوبی سوڈان کے علیحدگی پسندوں کی مکمل حمایت کی اور اس کے ساتھ ہی اصلاحِ عقیدہ کی غرض سے شہنشاہ ہیل سلاسی نے سینکڑوں مسیحی مبلغین جوبا بھیجے۔ ایتھوپیا کے بادشاہ کی ان کوششوں کو مغربی دنیا نے زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ اور روم سے تجربہ کار مبلغین نے جوبا اور اس کے مضافات کا رُخ کرنا شروع کر دیا۔ ان یورپی مبلغین کو افریقی زبان سکھانے کے لیے ایتھوپیا کے دارالحکومت ادیس ابابا میں تربیتی مراکز کھولے گئے۔ جنوبی سوڈان کے جنگجوئوں کی فوجی تربیت اور اسلحے کی ترسیل کینیا کی ذمہ داری تھی۔ سوڈان کے رہنمائوں نے جن میں اس وقت کے طالب علم رہنما ڈاکٹر حسن ترابی شامل تھے، بات چیت کے ذریعے حالات کو قابو کرنے کی کوشش کی لیکن بدقسمتی سے خرطوم سیاسی عدم استحکام کا شکار تھا اور آزادی کے صرف دو سال بعد ملک میں پہلا مارشل لاء لگا دیا گیا۔
ایک طرف جنوبی سوڈان میں باغی منظم ہو رہے تھے تو دوسری جانب سوڈانی رہنما اقتدار کی چھینا جھپٹی میں مصروف تھے۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کرنل جعفر النمیری نے ۱۹۶۹ء میں دوسرا مارشل لاء لگا دیا۔ اسی دوران جنوبی سوڈان کے منتشر باغی جنرل جوزف لاگو کی قیادت میں متحد ہوگئے اور انہوں نے جنوبی سوڈان تحریک آزادی (SSLM) کے نام سے خود کو منظم کرلیا۔ عیسائی تنظیموں نے سارے یورپ میں ان کے لیے فنڈ جمع کرنے شروع کر دیے۔ کرنل قذافی اور دوسرے افریقی رہنمائوں کی کوششوں سے امن مذاکرات شروع ہوئے۔ ۱۹۷۲ء میں معاہدہ ادیس ابابا کے تحت جنگ بند ہوئی اور حالات معمول پر آگئے۔ زمانہ امن میں تیل کی تلاش کا کام شروع ہوا اور ابتدائی نتائج حوصلہ افزا ثابت ہوئے۔ ۱۹۸۰ء میں تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی کی تقسیم پر جنوبی سوڈان کے لوگوں نے اعتراض کیا۔ بیانات، احتجاج اور مظاہروں سے آگے بڑھ کر معاملہ تنصیبات پر حملوں تک جاپہنچا۔ دوسری طرف سوڈان کے قوم پرست ادیس ابابا معاہدے سے خوش نہیں تھے۔ بعض جونیئر فوجی افسروں نے اسے وفاق کی کمزوری قرار دیتے ہوئے جنرل نمیری کو بزدلی کا طعنہ دیا۔ تیل کی دریافت نے بڑی طاقتوں کو بھی اس طرف مائل کر دیا۔ جنوبی سوڈان کو اسلحے کی ترسیل بحال کر دی گئی اور چھاپہ مار حملوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔ دوسری طرف صدر نمیری پر سیاسی دبائو بڑھا اور کرپشن و مہنگائی کے خلاف ملک گیر مظاہرے شروع ہوگئے۔ ان مظاہروں کی قیادت اخوان کر رہے تھے۔ صدر نمیری نے عوامی جذبات کو بھانپتے ہوئے ملک میں اسلامی شریعت نافذ کر دی۔ تاہم روایتی مسلم آمروں کی طرح صرف تعزیری نظام پر اکتفا کیا گیا۔ حالانکہ دعوت، تبلیغ و تربیت کے بعد تعزیر کی باری آتی ہے۔ شفاف منصفانہ نظام کے بغیر اسلامی تعزیرات کا نفاذ ایک بھونڈا قدم تھا۔ جس کا جنوبی سوڈان میں شدید ردعمل ہوا۔ اس کے ساتھ ہی یہ افواہ بھی اڑ گئی کہ جنرل نمیری نے ادیس ابابا معاہدہ منسوخ کر دیا ہے۔ خرطوم کے واضح تردیدی بیان کے باوجود سارے جنوبی سوڈان میں مظاہرے شروع ہوگئے اور سیاسی رہنما جان گرانگ نے سوڈان پیپلز لبریشن آرمی (SPLA) کے تحت جنگِ آزادی کا اعلان کر دیا۔ جلد ہی لیبیا، کینیا، ایتھوپیا اور یوگنڈا نے SPLA کو جنوبی سوڈان کا نمائندہ تسلیم کر لیا۔ دوسری جانب خرطوم میں کرسی کی جنگ جاری رہی اور اپریل ۱۹۸۶ء میں جنرل عبدالرحمن سوارالذہب نے جنرل نمیری کا تختہ الٹ دیا اور تیسرا مارشل لاء لگا کر اسلامی شریعت منسوخ کر دی۔ قومی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے صادق المہدی اور ڈاکٹر حسن ترابی کی مخلوط حکومت قائم کی گئی۔ جس میں جنوبی سوڈان کو بھی نمائندگی دی گئی۔ اگلے پانچ برس وزیراعظم مہدی نے مصالحت کی سرتوڑ کوششیں کیں۔ لیکن اس سے پہلے کہ کوئی نتیجہ برآمد ہوتا جون ۱۹۸۹ء میں جنرل عمر البشیر نے چوتھا مارشل لاء لگا دیا اور اس کے ساتھ ہی سوڈانی فوجوں اور SPLA کے درمیان خوفناک جنگ چھڑ گئی۔ مغربی دنیا کھل کر SPLA کی پشت پر آکھڑی ہوئی اور جنوبی سوڈان میں جدید ترین اسلحے کے انبار لگا دیے گئے۔ مسیحی مبلغین نے محلے محلے جذباتی تقریروں سے جنگ کی فضا پیدا کر دی اور نو برس کے بچے بھی SPLA کی وردی پہن کر میدان میں آگئے، افریقی ممالک کی کوششوں سے جنوری ۲۰۰۵ء میں نیروبی معاہدے کے تحت جنوبی سوڈان کو مکمل خودمختاری دینے کا اعلان کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی طے پایا کہ آزادی کے بارے میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے جنوبی سوڈان کے لوگوں کی رائے معلوم کی جائے گی۔ جنوری ۲۰۱۱ء کے ریفرنڈم میں ۹۸ فیصد افراد نے مکمل آزادی کے حق میں رائے دی اور سوڈانی پارلیمنٹ نے عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے جنوبی سوڈان کو آزاد کرنے کا اعلان کر دیا۔
کیا اس آزادی کے بعد علاقے میں امن قائم ہو جائے گا؟ افریقا کے سفارتی ذرائع اس معاملے پر بہت زیادہ پرامید نہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ تیل کی دولت اور نیل کے پانی کا ہے۔ سوڈان کے تیل کا ۹۸ فی صد حصہ جنوبی سوڈان سے حاصل کیا جاتا ہے۔ معاہدے کے مطابق تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی سوڈان اور جنوبی سوڈان میں برابر برابر تقسیم کی جائے گی۔ سوڈان جنوب سے حاصل ہونے والے تیل کے لیے اپنی پائپ لائن استعمال کرنے کی اجازت دے گا اور خرطوم کی ریفائنریاں خام تیل کو صاف کریں گی۔ اسی طرح جنوبی سوڈان دریائے نیل پر کوئی ڈیم یا رکاوٹ کھڑی نہیں کرے گا۔ سوڈان نے بِلاروک ٹوک آمدورفت اور دہری شہریت کی تجویز دی ہے۔ جس پر جنوبی سوڈان کی پارلیمنٹ غور کرے گی۔
بظاہر یہ تمام امور بصراحت معاہدہ نیروبی میں تحریک کر دیے گئے ہیں۔ لیکن نیتوں کے بدلتے دیر نہیں لگتی۔ جنوبی سوڈان خشکیوں سے گھرا ملک ہے اور وہ تیل کی ترسیل کے لیے سوڈان کی پائپ لائن اور بندرگاہیں استعمال کرنے پر مجبور ہے۔ لیکن وہ اپنے مشرقی پڑوسی ایتھوپیا کے ذریعے بھی بحر احمر تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ اسی طرح خام تیل کی صفائی کے لیے کینیا اور یوگنڈا کی ریفائنریاں بھی استعمال ہو سکتی ہیں۔ اس صورت میں سوڈان تیل کی آمدنی سے محروم ہو جائے گا۔ یہ تو ہے معاملے کا ایک پہلو۔ لیکن بات صرف جنوبی سوڈان تک محدود نہیں۔ سوڈان کو دارفر میں بھی ایسی ہی شورش کا سامنا ہے اور بین الاقوامی عدالت انصاف نے جنگی جرائم کے الزام میں سوڈانی صدر کے وارنٹ بھی جاری کر رکھے ہیں۔ جوبا کی تقریب میں دارفر کی آزادی کے نعرے بھی لگائے گئے اس کے علاوہ جنوبی سوڈان کی سرحدوں کا پوری طرح تعین بھی ابھی تک نہیں ہوا اور کئی سرحدی علاقوں کی ملکیت کا فیصلہ ابھی باقی ہے۔ سوڈان کے صدر کے ساتھ اس تقریب میں جو تحقیر آمیز سلوک کیا گیا اس سے بھی خرطوم کو سخت تشویش ہے۔ ان کی آمد پر قاتل اور مجرم کے نعرے لگائے گئے۔ آزادی کی دستاویز پر دستخط کے بعد جب سوڈانی صدر نے امریکا سے اپنے ملک کے خلاف پابندیاں اٹھانے کی درخواست کی تو سارے مجمع نے NO’NO کے نعرے بلند کیے۔ اپنی تقریر میں امریکی صدر کی نمائندہ سوزن رائس نے اعلان کیا کہ تمام سرحدی تنازعات کے خاتمے تک سوڈان پر پابندیاں قائم رہیں گی اور ڈومور کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’مہذب دنیا‘‘ میں واپسی کے لیے سوڈان کو دارفر کا مسئلہ بھی حل کرنا ہوگا۔
جنوبی سوڈان کی آزادی میں مسیحی پادریوں اور گرجا گھروں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ان مبلغین نے انتہائی صبر اور مستقل مزاجی کے ساتھ پچاس سال سخت محنت کی۔ شدید لڑائی کے باوجود یورپ کے تبلیغی کارکن ایک ایک گائوں تک پہنچے اور قحط زدہ علاقوں میں جان پر کھیل کر اجناس کی تقسیم کا کام کیا۔ اس کے ساتھ ہی صحت و صفائی کی سہولت فراہم کی گئیں۔ تعلیم کو عام کیا گیا اور نصاب میں مسیحی عقائد کو بنیادی جزو بنایا گیا۔ اسی محنت اور حکمت کا نتیجہ ہے کہ جنوبی سوڈان کے نصف سے زیادہ روح پرست (Animist) عیسائی ہو چکے ہیں۔ یہ افریقی قبائل ایک سو سے زیادہ مختلف زبانیں بولا کرتے تھے اور ان کے درمیان کئی بار خونریز لسانی فسادات ہو چکے ہیں۔ قومی یکجہتی کے فروغ کے لیے انگریزی زبان کو عام کیا گیا اور اعلانِ آزادی میں انگریزی کو ریاست کی قومی زبان قرار دیا گیا۔ یہ پوری تحریک آزادی ایک مذہبی تحریک تھی اور اس لحاظ سے جنوبی سوڈان کو افریقا کی پہلی مسیحی نظریاتی ریاست قرار دیا جاسکتا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘ حیدرآباد دکن۔ ۲۶ جولائی ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply