براعظم افریقا کو عیسائیت میں تبدیل کرنے کے منصوبہ کو تیزی سے عملی جامہ پہنانا شروع کیا جا چکا ہے۔ اس مشن کی سر پرستی و نگرانی کی ذمہ داری ’’سوڈانی چرچ کونسل‘‘ کے کاندھوں پر ہے۔ اس کونسل نے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانا اس وقت سے شروع کیا ہے جب اس نے لومی کے اندر ۱۹۸۷ء میں ’’آل افریقا چرچ کونسل‘‘ کے سامنے سوڈان بچائو تجویز پیش کرتے ہوئے اس مشن پر توجہ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس نئے منصوبہ میں ایسے نئے سوڈان کی تشکیل کی تجویز ہے جو عربوں کے تسلط و اقتدار سے پاک ہو۔ اس مہم کو سر کرنے کے لیے مذکورہ کونسل بین الاقوامی و افریقی چرچ کونسل کے مکمل تعاون اور تال میل سے اپنی خدمات انجام دے رہاہے۔
لومی کانفرنس کی سفارشات کے تحت جنوبی سوڈان میں عیسائیت کی ترویج و اشاعت کے لیے بھر پور انداز میں سر گرمی شروع کر دی گئی، اس خطہ کا انتخاب اس وجہ سے کیا گیا کہ جنوبی علاقہ کا جغرافیائی ماحول اور سخت ترین موسم اس دعوتی کام کے لیے موزوں نہیں تھا، اور اس مہم میں دسیوں پادری اور عیسائی مبلغین اپنی جان گنواں چکے تھے، ان کی ہلاکت نے عیسائی مشن کے لیے کام کرنے والوں کی غیرت کو للکارا، اور اس کے بجائے کہ اس کی وجہ سے عیسائی مبلغین کی ہمت پست ہوتی صلیبی کوششوں میں اور بھی اضافہ ہوگیا، ۱۹۸۷ء میں آل چرچ کونسل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مشہور اطالوی عیسائی مبلغ ’’دانیال کمبونی‘‘ نے دوسرے پادری کی موت کے وقت یہ عہد کیا تھا کہ وہ اپنی زندگی افریقا کو عیسائیت میں تبدیل کرنے کے لیے وقف کر رہے ہیں اور وہ خود بھی نذر مان رہے ہیں کہ وہ افریقا کو یا تو عیسائی بنا دیں گے یا اس راہ میں پیش رو مبلغین کی طرح اپنی جان قربان کر دیں گے اور اس کا وہ دوسروں سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی پوری توانائی اس خدمت کے لیے صرف کر دیں۔
اس کے بعد پوپ’’لیوللن کوبی‘‘ نے انجیلی چرچ اس شعار و علامت کے ساتھ قائم کرنا شروع کیا کہ اب گرے ہوئے مسیح کے جھنڈے کو از سر نو گاڑ نے کا وقت آگیا ہے اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ چرچ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے جب تک کہ وہ دوبارہ وہ حاصل نہ کر لے جو اس کا کھویا ہو اہے۔
ڈیڑھ صدی کی غفلت
عیسائی مشنری کی رپورٹ جس میں سوڈان کے جنوبی صوبہ کا تذکرہ کیا گیا ہے اس کی زبان کا تجزیہ کرنے والوں کو اس بات پر حیرانی ہے کہ انھوں نے تاریخ کو کس طرح توڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے واقعہ یہ ہے کہ جنوبی صوبہ کے باشندوں کے لیے ڈیڑھ صدی تک چرچوں نے کچھ نہیں کیا اور کوئی ایسی خدمت انجام نہیں دی جو تہذیبی ترقی کی بنیاد بن سکتی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ علاقہ سوڈان کے مختلف علاقوں کے بہ نسبت زیادہ بچھڑا ہوا ہے جہاں ناخواندگی اپنی انتہاء کو پہنچی ہوئی ہے یہاں کے چرچ سرکاری اور غیر ملکی امداد سے طویل عرصہ سے مستفید ہو رہے تھے اور اقتدار سے بھی قربت انھیں حاصل تھی، اگر وہ کچھ کرنا چاہتے تو بڑی تبدیلی لا سکتے تھے۔
مذکورہ رپورٹ میں اسلام اور مسلمانوں سے نفرت وعداوت اور بغض و حسد بھی ہے اور اس میں اسلام کو مٹانے اور خطہ سے اس کا صفایا کرنے کی خواہش کا اظہار بھی ہے۔ کیونکہ عیسائی مشنریوں کو یقین ہے کہ اسلام اگر جنوب میں مضبوط ہو گیا تو وہ اپنی فطری کشش کی وجہ سے پورے قرن افریقی، چشمہ نیل اور یہاں کے چھوٹے دریائی علاقوں میں پھیل جائے گا پھر کسی اور مذہب کی بالا دستی باقی نہیں رہ سکے گی۔ جب کہ یہ علاقے جغرافیائی لحاظ سے اہمیت کے حامل ہیں جس کے بارے میں نہ خطرہ مول لیا جا سکتا اور نہ کوئی سودے بازی کی جا سکتی ہے اسی لیے وہ یہاں ہر ایسے آثار کو مٹانے میں لگی ہے جس کا تعلق اسلام سے ہے۔
’صفوہ‘ کا قیام ہی اسلام دشمنی کے لیے ہے
مذکورہ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ جنوبی سوڈان میں سر گرم چرچوں نے بڑی کامیابی حاصل کی ہے اس میں سب سے نمایاں جنوبی علاقہ کے چنیدہ لوگوں کی جماعت ’’صفوہ‘‘ کا قیام ہے، یہ جماعت مغربی تہذیب و ثقافت کی حامل اور خود چرچوں سے بھی زیادہ اسلام اور مسلمانوں سے عداوت و نفرت اور بغض و حسد رکھتی ہے۔ انھیں اسلام کے خلاف کام کرنے اور مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیاں کرنے کے لیے بھر پور انداز میں مادی، ثقافتی، معاشرتی اور ہر طرح کی ممکنہ امداد دل کھول کر مغرب کی طرف سے دی جاتی ہے۔ اس مادی و سیاسی طاقت کی وجہ سے وہ اسلامی دستور کے قیام اور اسلامی شریعت کے نفاذ کی کوششوں میں رکاوٹ پیدا کرنے میں کامیاب رہے۔ نفاذِ شریعت اور اسلام کے پھیلائو میں نہ صرف ان عیسائی مشنریوں نے رکاوٹ پید اکی ہے بلکہ یہاں کی بڑی سیاسی پارٹیوں نے بھی اس میں بالواسطہ مدد کی ہے۔ کیونکہ یہ سیاسی پارٹیاں بھی شمال یا جنوب کہیں بھی صحیح اسلامی شریعت کے نفاذ کا جذبہ نہیں رکھتیں۔
ایک انگریز کالم نویس ’’سانڈسون‘‘ کا کہنا ہے کہ سوڈانی چرچ اسلام کا مقابلہ اور اسلامی شریعت کی مزاحمت مثبت انداز میں کر رہا ہے البتہ جنوبی صفوہ جماعت اس کا مقابلہ منفی انداز میں کرتی ہے صفوہ کے ارکان مخالفت میں شدت پسندی سے کام لیتے ہیں کیونکہ اس سے جڑے ہوئے افراد وہ ہیں جو عیسائی مشنری اسکولوں میں پڑھے ہوئے اور عیسائی مشن تربیت گاہوں کے تربیت یافتہ ہیں، انھیں صلیبی طاقتیں جہاں چاہتیں استعمال کرتیں اور جس طرح کی سیاسی و معاشرتی تحریکیں چلانا چاہتیں ان کے ذریعہ چلاتی ہیں۔
عیسائی مشنری کی علامت پوپ ’’دانیال کمبونی‘‘ اس حکمت عملی کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان میں سے زیادہ صلاحیتوں اور قابلیتوں کے حامل عناصر کو ہم اونچی تعلیم دلاتے اور ان کے لیے ہر طرح کی سہولیات مہیا کرتے ہیں، کیونکہ ان سے ہمیں توقع ہے کہ و ہ اپنے ملک کی قیادت سنبھالیں گے اور حکومت و اقتدار تک ان کی رسائی ہوگی اور واقعہ بھی یہی ہے کہ عام طور پر اقتدار تک وہی لوگ پہنچ رہے ہیں۔ جو عیسائی مشنریوں کے پر وردہ اور ان کی روٹی کے سہارے اعلیٰ تعلیم حاصل کیے ہوئے ہیں۔ اسی لیے وہ ان کے گن گاتے اور کوئی بھی ایسا کام نہیں ہونے دیتے جو ان کی مرضی کے خلاف یا اسلام کے مفاد میں ہو۔
بغاوت پیدا کرنے میں جنوبی چرچوں کا کردار
رپورٹ کے مطابق اسلام اور عربیت کے تئیں جنوبی لوگوں کے وجدان و شعور میں گہری کھائی پیدا کرنے میں ان چرچوں کو بڑی کامیابی ملی ہے اور اسی شگاف کے راستے سے یہاں نئی نئی باغیانہ تحریکیں اور لوگوں میں اضطراب و بے چینی اور کشیدگی کی صورت پیدا کی جاتی ہے یہ چرچ اس بات کی بھر پور کوشش کرتے ہیں کہ جنوبیوں کی ہمدردیاں ان کے ساتھ وابستہ رہیں اور وہ اسے اپنے مفاد میں استعمال کرتے رہیں، وہ خود کو یوں ظاہر کرتے جیسے وہ جنوب کے باشندوں کے مفادات کے محافظ، نگراں اور ان کے حقوق کا دفاع کرنے والے مخلص اور اسلامی زیادتیوں اور شمالی سامراجوں سے انھیں بچانے والے ہوں، ان کی خفیہ رپورٹوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنوبی سوڈان اور جنگلاتی علاقوں میں سرگرم عیسائی تحریکوں اور مشنریوں کا بنیادی مقصد قانون ساز اداروں اور ملک کے انتظامی ڈھانچوں سے اسلام کے تمام نشانات کو مٹانا، معاشرتی اداروں سے اس کی علامتوں کو دھونا اور ہر عوامی سیکٹر سے اسلام سے وابستگی کو کلی طور پر ختم کر کے ایک نیا سوڈان وجود میں لانا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے تمام افریقی و عالمی چرچ کونسل دنیا کی بڑی عیسائی طاقتوں کے تعاون سے اس کوشش میں سرگرمی سے لگی ہوئی ہیں۔
ان کی خفیہ رپورٹوں میں زور دے کر کہا گیا ہے کہ ’’نیا سوڈان‘‘ عوامی تحریک برائے آزادیٔ سوڈان کا واحد مقصد ہے اور اس کی گونج یہاں ان کی ہر محفلوں میں سنائی دیتی ہے اور یہی مقصد یہاں کی کمیونسٹ پارٹی کا بھی ہے جس نے اس مقصد کو پانے کے لیے باغیوں کے ساتھ اتحاد کر رکھا ہے، اس کی دیرینہ خواہش ’’جون کرنک‘‘ کی اس خواہش کو پورا کرنا ہے جس میں اس نے سوڈان سے عربوں اور مسلمانوں کو مار بھگانے کی تمنا ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح انھیں اندلس سے مار بھگا کر اسے عیسائیوں کے لیے پاک کر دیا گیا اسی طرح سوڈان سے بھی انھیں ختم کر کے اسے عیسائیوں کے لیے خاص کر دیا جانا چاہیے۔
سوڈان کی بغاوت میں اسرائیل کا رول
سوڈان کے تاریخی واقعات و حادثات پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ سوڈان کے خلاف کیوں اس بڑے پیمانہ اور بین الاقوامی سطح پر سازشیں کی جا رہی ہیں؟ تاریخ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ سوڈان ان ملکوں میں سے ایک ہے جہاں فلسطین سے پہلے یہودیوں کو بسانے کی بات چل رہی تھی مگر بعد میں فلسطین کو اس پر ترجیح دیتے ہوئے انھیں وہاں بسایا گیا کیونکہ ولا چار امور کے ماہر یہودی قلمکار وار بوسٹر نے ۱۹۰۰ء میں قاہرہ کے اندر لارڈ کرومر کو تجویز پیش کی تھی اسی طرح ٹھیک یہی تجویز ایک دوسرے یہودی ماہر ابراہام کلانٹ نے بھی ۱۹۰۷ء میں یہودی علاقائی تنظیم کے چیئر مین کو پیش کی تھی کہ ہمیں فلسطین کا علاقہ دے دیا جائے۔ اس طرح فلسطینی سرزمین کو یہودیوں کی جانب سے غضب کیے جانے اور فلسطینیوں کی نعشوں پر اسرائیل کا وجود قائم کرنے کے باوجود براعظم افریقا کی لالچ وخواہش ان کے دلوں سے دور نہیں ہوئی ہے اور اب بھی ان کی یہی خواہش و دلچسپی ہے کہ سوڈان کی راہ سے گزر کر نیل کے چشموں پر اپنا پنجہ گاڑ دیا جائے تاکہ عظیم تر اسرائیل کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔
اسرائیل اور یہودیوں کی اس خواہش کا احساس سوڈان کی ’’عوامی تحریک برائے آزادیٔ سوڈان‘‘ جماعت کو بخوبی ہے اسی لیے وہ اسرائیل کا تقرب و تعاون حاصل کرنے میں دیوانہ بنی ہوئی ہے اس کے قائدین اکثر و بیشتر صیہونی ملک اسرائیل کا دورہ کرتے رہتے ہیں اور اسرائیل بھی انھیں اپنا ہمنوا بنانے کی خوب خوب کوشش کرتا ہے اسی لیے اسرائیل نے یوگانڈا کی سرحد پر ۲۰ ہزار باغی جنگجوئوں کو تربیت دے کرجنوبی سوڈان میں داخل کیا ہے اور اسی مقصد کے تحت مارچ ۱۹۹۴ء میں باغیوں کے علاقہ تک ہتھیار اور رسد پہنچانے کے لیے فضائی راہداری تیار کی گئی اور باغیوں کی فوجی ماہرین کے ذریعے بھر پور مدد کی جاتی رہی اور جنوب میں بغاوت کا منصوبہ اور نقشہ تیار کر کے ان کے حوالے کیا جاتا ہے اور اس کی مکمل نگرانی کی جاتی ہے۔
جنوبی سوڈان کے باغیوں اور اسرائیل کے درمیان مکمل تعاون و ہم آہنگی کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ باغیوں کے لیڈروں میں ایک نمایاں شخص ’’ڈیویڈ بسیونی‘‘ ہے جو یہودی ہے اور اسے جنوب کی حکومت کے صدر کا امیدوار تجویز کیا گیا ہے۔
اسی ضمن میں ہولوکاسٹ نے نیویارک میں جاری کردہ اپنے بیان میں جنوب کے عیسائیوں کے ساتھ اپنے اتحاد و یگانگت اور اخوت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنوب کے ان عیسائی بھائیوں کا اجتماعی قتل عام اور ان کی نسلی تطہیر ہو رہی ہے، اسی لیے انھیں بچانا تمام عیسائی و یہودی ملکوں کی ذمہ داری ہے۔
شاید اسی وجہ سے یہودی لابی اور دائیں بازو کی مذہبی جماعتیں منظم طریقہ پر امریکی انتظامیہ اور ایوان بالا پر دبائو ڈال رہی ہیں کہ باغی تحریک کے منصوبہ کو فعال بنایا جائے۔ جس کا کھیل اس وقت وہاں جاری ہے۔
(بحوالہ ’’نقوش ڈاٹ کام‘‘)
Leave a Reply