
جنوب مشرقی ایشیا ایک بار پھر اپنے مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہے اور کچھ کرنا چاہتا ہے۔ ۲ ؍اور ۳ جون کو سنگاپور میں منعقد ہونے والے ’’شنگری لا ڈائیلاگ‘‘ کے بعد جنوب مشرقی ایشیا کی نمایاں ریاستیں چاہتی ہیں کہ اپنے لیے کوئی ایسا راستہ منتخب کریں جس پر چلتے ہوئے انہیں کسی خاص الجھن کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ایشیا و بحرالکاہل کی سیکیورٹی کمیونٹی کے بیشتر ارکان شنگری لا ڈائیلاگ میں امریکا سے یہ باضابطہ یقین دہانی چاہتے تھے کہ ان کے لیے مستقبل قریب میں سیکیورٹی اور استحکام کے حوالے سے کوئی بڑا خطرہ پیدا نہیں ہوگا۔ مگر معاملہ کچھ جما نہیں اور جو کچھ ہونا چاہیے تھا وہ ہوا نہیں۔ امریکا اس وقت ایسی کوئی بھی یقین دہانی کرانے کی پوزیشن میں نہیں۔
امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے شنگری لا ڈائیلاگ میں جو کچھ کہا وہ جنوب مشرقی ایشیا کی دس بڑی اقوام کی توقعات سے کم تھا اور انہوں نے شاید یہ سوچا بھی نہ تھا کہ امریکا کسی واضح یقین دہانی سے گریز کرے گا۔ جیمز میٹس نے اس بڑی کانفرنس کے حوالے سے جو تیاری کی وہ کمزور یا کھوکھلی نہ تھی۔ انہوں نے کئی بڑے علاقائی رہنماؤں سے ملاقات کی اور معاملات کو درست کرنے سے متعلق امریکی اقدامات کی یقین دہانی بھی کرائی۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا کی بیشتر ریاستیں اس وقت امریکی یقین دہانی سے مطمئن نہیں اور چاہتی ہیں کہ سیکیورٹی کے معاملے میں اپنے طور پر کچھ کیا جائے۔ امریکی وزیر خارجہ سے جنوب مشرقی ایشیا کے دس وزرائے دفاع کے علاوہ ۳۵ نوجوان رہنماؤں نے بھی ملاقات کی۔
امریکی وزیر دفاع نے جو کچھ شنگری لا ڈائیلاگ کے دوران کہا اور اس کے بعد پیرس میں ماحول کے تحفظ سے متعلق مذاکرات کے دوران جو کچھ ہوا وہ اس امر کی کھل کر غمازی کرتا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور کا وھائٹ ہاؤس ہاؤس ہر حال میں صرف امریکا کا تحفظ اور ترقی چاہتا ہے۔ امریکا سب سے پہلے۔ یہی ٹرمپ انتظامیہ کا نعرہ ہے جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ دنیا بھر کی اقوام امریکا سے کسی بھی معاملے میں بہتری کی توقع رکھنے کو تیار ہیں نہ اس کی کسی یقین دہانی پر اعتبار کرنے کے لیے۔ انہیں اندازہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہی امریکا کی پالیسی ہے۔ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ امریکا ہر حال میں صرف اپنے مفاد کا معاملہ دیکھے اور باقی باتیں بھول جائے۔ امریکا کے لیے اپنے خطے کے علاوہ یورپ سے بڑھ کر کوئی نہیں مگر اب یورپ بھی پریشان ہے کہ امریکی قیادت نے نیٹو کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے بھی عملاً معذوری ظاہر کردی ہے۔ یورپ اپنی سیکیورٹی کے لیے امریکا کی طرف دیکھتا رہا ہے۔ روس اور باقی دنیا سے محفوظ رہنے کے لیے یورپی اقوام نے امریکا کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلنے کو ہمیشہ ترجیح دی ہے۔
اب یہ بات واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے کہ امریکا ایشیا و بحرالکاہل کے خطے پر سے اپنی توجہ ہٹا رہا ہے۔ دوسری طرف چین اس پورے خطے میں اپنے اثرات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ امریکا اور یورپ کی اقوام کو اگر عالمگیر سطح پر اپنی برتری برقرار رکھنا ہے تو ایشیا و بحرالکاہل کو نظر انداز کرنا یا اِس کے معاملات کو سرد خانے میں ڈالنا کسی طور مناسب نہیں۔ ایسے میں امریکا اور یورپ کا ایشیا و بحرالکاہل میں زیادہ دلچسپی نہ لینا اس امر کا غماز ہے کہ وہ اب اس خطے کو زیادہ کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اور اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ امریکا اور یورپ دونوں ہی کو احساس ہوچلا ہے کہ ان پر عالمگیر ذمہ داریوں کے حوالے سے بوجھ بہت زیادہ ہے۔ اس بوجھ کو کم کرنے سے زیادہ کوئی بات اہم نہیں۔ اس وقت امریکا یہی کر رہا ہے۔ یورپ تو خیر ایک ڈیڑھ عشرہ قبل ہی عالمگیر ذمہ داریوں سے دور ہٹنے کی تیاری کرچکا ہے۔
چین نے ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ شروع کرکے دنیا کو بتا اور جتا دیا ہے کہ اب وہ اپنی ترقی کے سفر میں پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور کسی نہ کسی طور آگے بڑھ کر ہی دم لے گا۔ روس، پاکستان اور ترکی بھی اس کے ہم نوا ہیں۔ امریکا اس بات کو سمجھتا ہے کہ چین کے بڑھتے ہوئے اثرات سے بھارت میں شدید بے چینی پیدا ہو رہی ہے۔ وہ بھارتی قیادت کو دلاسا دینے کی اپنی سی کوشش کر رہا ہے۔ بھارتی قیادت اب تک یہ بات تسلیم یا ہضم نہیں کر پائی ہے کہ چین اب عالمی سطح پر اپنی بات منوانے کی بھرپور تیاری کرچکا ہے اور اُسے آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
چین جو کچھ کر رہا ہے اس کی مخالفت کرنے والوں کی کمی نہیں۔ ایشیا انفرا اسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کو چین کے بہت سے منصوبوں پر شدید اعتراض ہے مگر ایک اہم نکتہ یکسر نظر انداز کر رہا ہے یا پھر اس طرف متوجہ نہیں ہو پارہا۔ ایک طرف چین چاہتا ہے کہ عالمی سطح پر اپنی موجودگی ثابت کرنے کے لیے زیادہ اقدامات کرے۔ اس معاملے میں اس نے روس کو نظر انداز کرنا مناسب نہیں سمجھا اور اسے بھی ون بیلٹ ون روڈ کا حصہ بنانا چاہتا ہے۔ اور دوسری طرف امریکا اب عالمی سطح پر اپنی ذمہ داریوں سے دور ہٹنے، بلکہ جان چھڑانے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین اب عالمی برادری والی سوچ اپنانے کی طرف بڑھ رہا ہے اور چین اس سوچ سے گلو خلاصی کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ وہ اپنی توجہ شمالی امریکا تک محدود رکھنا چاہتا ہے۔ یورپ میں بھی امریکی مفادات داؤ پر لگے ہوئے ہیں کیونکہ یورپ کے قائدین اس بات کو سمجھ رہے ہیں کہ امریکا ان کی سیکیورٹی اور استحکام میں زیادہ یا خاطر خواہ حد تک دلچسپی نہیں لے رہا۔
جنوب مشرقی ایشیا کی ریاستوں کے لیے یہ وقت شدید مخمصے سے نکلنے کا ہے۔ امریکا اس خطے میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہا۔ دوسری طرف چین وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پورے خطے کو ایک تجارتی و صنعتی لڑی میں پرونے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایسے میں امریکی مفادات کے پنپنے کی زیادہ گنجائش نہیں۔ امریکی معیشت اسلحے کی صنعت کے پنپنے پر منحصر ہے۔ چین تصادم سے یکسر گریز چاہتا ہے اور خطے کے ممالک کو بھی یہی بات سکھا رہا ہے کہ وہ تصادم اور محاذ آرائی سے گریز کریں۔ یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب امریکا کی اسلحے کی صنعت کو تقویب پہنچانے والی پالیسیاں اپنانے سے گریز کیا جائے۔ سنگاپور کے لی کوان یو اسکول آف پبلک پالیسی کے ڈائریکٹر کشور محبوبانی نے سوال اٹھایا ہے کہ اب خطے میں چین کے اسٹیکز کس حد تک ہیں اور اُن کی روشنی میں اس خطے کے دیگر ممالک کو کیا کرنا چاہیے۔ انہوں نے خطے میں طاقت کے توازن کی تبدیلی اور نئی سیاسی حقیقتوں کو ذہن نشین رکھنے کے حوالے سے سنگاپور کے اضطراب کی درست اور بروقت نشاندہی کی ہے۔
بحیرۂ جنوبی چین کے حوالے سے بھی شنگری لا ڈائیلاگ میں کوئی ایسی بات سامنے نہیں آئی جو صورت حال کو تبدیل کرتی ہو۔ آسٹریلیا کے وزیر اعظم میلکم ٹرنبُل کے کلیدی خطاب کے بعد امریکی وزیر دفاع نے ایک بار پھر یہ بات کہی کہ کسی جزیرے پر کسی ملک کا ایسا دعوٰی قبول نہیں کیا جائے گا جسے بین الاقوامی قانون کی حمایت حاصل نہ ہو۔ اور یہ کہ کسی بھی مقام کو غیر ضروری طور پر عسکریت پسندی کے حصار میں لینا قبول نہیں کیا جائے گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ چین نے کئی مقامات پر زمین کے ٹکڑے کو اپنا کہتے ہوئے اس پر تصرف یقینی بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے اور بحیرۂ جنوبی چین میں اس کے اثرات کا دائرہ اب اس قدر وسیع ہوچکا ہے کہ امریکا بھی ہاتھ ڈالنے سے گریز کر رہا ہے۔
شنگری لا ڈائیلاگ میں یونائٹیڈ سروس انسٹی ٹیوشن آف انڈیا کے ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) پرمندر کمار سنگھ نے یہ سوال اٹھایا کہ بحیرۂ جنوبی چین میں چینی قیادت کی بڑھتی ہوئی عسکری مہم جوئی سے نمٹنے کے سلسلے میں محض باتیں بنانے کی روش ترک کرکے کوئی ٹھوس اقدام کب کیا جائے گا۔ اس سوال کا جواب آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی میں اسٹریٹجک اسٹڈیز کے پروفیسر ہیو وھائٹ کی طرف سے آیا جنہوں نے شنگری لا ڈائیلاگ کے انعقاد سے قبل ایک مضمون میں لکھا کہ چین جو کچھ کر رہا ہے اس کا سامنا کرنے میں امریکا اسی وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب وہ اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرنے کے لیے بھی تیار ہو کیونکہ چین اپنے علاقائی اور عالمی مفادات کو داؤ پر لگتا ہوا دیکھ کر خاموش تماشائی نہیں بنا رہے گا بلکہ کچھ نہ کچھ کر گزرے گا۔ ایشیا میں کلیدی قوت کون ہے اس کا فیصلہ امریکا کو ابھی کرنا ہے۔ اگر وہ ایشیا میں اپنی موجودگی کو محسوس کرانا چاہتا ہے تو اسے ایسا بہت کچھ کرنا ہوگا جو شدید خسارے کا باعث بھی بنے گا۔ چین کو پیچھے ہٹانا بچوں کا کھیل نہیں۔ محض دھمکیوں سے یہ کام ممکن نہیں۔ امریکا کو سیاسی، عسکری اور معاشی تینوں محاذوں پر بہت کچھ کرنا ہوگا۔
ایشیا و بحرالکاہل کے حوالے سے وھائٹ ہاؤس نے اب تک باضابطہ اور قابل عمل پالیسی تیار نہیں کی۔ محض دیکھو اور انتظار کرو کی منزل میں ہے۔ چین پورے ایشیا کو اپنے زیر اثر رکھ کر اس کی قیادت سنبھالنا چاہتا ہے اور امریکا بظاہر اس کے لیے ذہنی تیاری کرچکا ہے یعنی وہ ایشیا کی سطح پر چین کی برتری تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے۔
چین اور سنگاپور کے تعلقات میں بھی شیرینی کم ہوتی جارہی ہے اور تلخی کا تناسب بڑھ رہا ہے۔ چین نے بیلٹ اینڈ روڈ انشئیٹیو میں سنگاپور کو مدعو نہ کرکے یہ بتادیا ہے کہ وہ امریکا کی طرف بڑھتے ہوئے جھکاؤ کے باعث اب سنگاپور سے ناراض ہے۔ سنگاپور کی قیادت بھی اس بات کو سمجھتی ہے کہ چین کو یکسر نظر انداز کرکے خطے میں اپنے مفادات کو حقیقی تحفظ فراہم نہیں کیا جاسکتا۔ سنگاپور کے وزیر اعظم لی سین لانگ نے یہ کہتے ہوئے چین کی ناراضی دور کرنے کی تھوڑی بہت کوشش کی ہے کہ سنگاپور کا مفاد پورے خطے کے مفاد سے وابستہ ہے اور خطے کا مفاد اس میں ہے کہ چین کا شروع کیا ہوا بیلٹ اینڈ روڈ انشئیٹیو آگے بڑھے یعنی جنوب مشرقی، جنوبی اور وسطی ایشیا کو ایک لڑی میں پرونے کا عمل مکمل کیا جائے۔ سنگاپور کی قیادت مخمصے کی حالت میں ہے کیونکہ اس کا مرکزی سیکیورٹی پارٹنر امریکا اب پیچھے ہٹ رہا ہے۔ سنگاپور اور دیگر علاقائی ممالک سمجھ نہیں پارہے کہ امریکا پر کس حد تک بھروسہ کریں اور کریں بھی یا نہیں۔
جرمنی اور کینیڈا میں جو سوچ ابھری ہے وہی سوچ اب جنوب مشرقی ایشیا میں بھی پھیل رہی ہے۔ جرمن اور کینیڈین قیادت نے ایک طویل مدت سے چلے آرہے سیکیورٹی پارٹنرز (امریکا اور یورپ) کے حوالے سے اپنی سوچ تبدیل کی ہے اور واضح عندیہ دیا ہے کہ وہ ان پر مزید بھروسہ نہیں کرسکتے اس لیے نئے پارٹنرز کی تلاش ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا کی ریاستیں بھی سکیورٹی کے حوالے سے بہت پریشان ہیں اور ان کی یہ پریشانی اب ظاہر بھی ہونے لگی ہے۔ علاقائی قائدین یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ اگر امریکا خطے کی سلامتی کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تو کیا اسے آپس میں تعاون بڑھانے کا ایک موقع تصور کیا جائے؟ علاقائی قائدین کی اکثریت یہ سوچ رہی ہے کہ خطے کی سلامتی یقینی بنانے کے لیے امریکا کے پاس کسی اور کا سہارا لینے سے بہتر یہ ہے کہ آپس میں تعاون بڑھایا جائے اور ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے۔
صدر ٹرمپ کی موجودگی میں جنوب مشرقی ایشیا کی بیشتر ریاستیں اس اعتبار سے یقینی طور پر سکون کا سانس لیں گی کہ انہیں انسانی حقوق کے حوالے سے لیکچر نہیں سننا پڑے گا، فلپائن میں منشیات کے خاتمے سے متعلق اقدامات پر اعتراضات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور تھائی لینڈ میں فوجی بغاوت پر امریکا کی ناراضی کا سامنا نہیں ہوگا۔ اوباما انتظامیہ نے اس حوالے سے اپنا رویہ سخت تر رکھا تھا مگر جب تک ڈونلڈ ٹرمپ وھائٹ ہاؤس میں ہیں، جنوب مشرقی ایشیا کی ریاستوں کو اس حوالے سے زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔
امریکا نے جنوری سے اب تک جنوب مشرقی ایشیا کے حوالے سے جو سوچا اور کہا ہے وہ اس خطے میں اس کے حوالے سے ابہام اور غیر یقینیت کو فروغ دینے کے لیے کافی ہے۔ اگر امریکی قیادت کچھ کرنا چاہتی ہے تو کھل کر بتانا ہوگا۔ ہچکچاہٹ سے ’’آراستہ‘‘ لہجے میں کچھ کہنا خطے میں اس کی پوزیشن کو مزید کمزور کرے گا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Southeast Asia from Scott Circle: Southeast Asia Plans for Its Own Future after Shangri-La”. (“csis.org”. June 16, 2017)
Leave a Reply